donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Personality
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Tahseen Monawwar
Title :
   Sohail Anjum Ki Qabil Mutalya Kitab

سہیل انجم کی قابل مطالع کتاب


تحسین منور


یہ جو سہیل انجم نام کے صحافی ہیں اردو کے، ان کو ہم حرکت میں برکت کرتے دیکھتے ہیں تو جلن اور حسد سے جل بھُن جاتے ہیں۔ نہ جانے کہاں سے ان کے پاس اتناوقت آتا ہے کہ کچھ نہ کچھ لکھتے پڑھتے رہتے ہیں۔ دعوی تو ہم بھی کم نہیں کرتے اپنی صحافت کا مگر ہم کہاں کے صحافی۔نہ کبھی اردو کے صحافیوں کی طرح اِدھر سے اُدھر دھکے کھائے، نہ ایک ایک کتاب تلاش کرنے کے لئے یہاں سے وہاں سر گرداں رہے۔ ہاں باپ تھے زبردست قسم کے صحافی، سو ان سے بھی بچپن میں ایسا ہندی کے چھتیس کا آنکڑہ فٹ کر لیا تھا کہ کیا خاک وہ صحافت سکھاتے۔ الٹا دنیا بھر سے ہماری شکایت ہی کرتے رہتے تھے ۔ مگر ان کی جدوجہد ضرور دیکھی تھی۔ اس لیے جب پہلی بار سہیل انجم صاحب نے (اُف صاحب لگانا پڑ رہا ہے)” مولانا محمد عثمان فارقلیط : حیات و خدمات “ ہمیں پیش کی اورہم نے اس کتاب کی ورق گردانی کی تب ہمارے دل میں اردو کے بزرگ صحافیوں کے لئے احترام کا بحر بیکراں سا بہنے لگا ۔ لیکن اس کا یہ مطلب تو نہیں ہے کہ سہیل انجم صاحب کہیں رکیں نہیں۔ ارے آپ کیوں اپنی راتیں خراب کرتے ہیں۔ کیوں رات کو دن اور دن کو رات بنانے پر تلے رہتے ہیں۔ کوئی اتنی جلدی جلدی کتابیں تھوڑی شائع کرتا ہے۔ ہمارا دوسرا مجموعہ لاکھ جتن کے بعد بھی آتے آتے اب آ پایا ہے۔وہ بھی یہ تو ہم اور ہمارے دوست نفیس جانتے ہیں کہ اپنے ہی شعری مجموعے کو لانے میں ہماری حالت پتلی ہوگئی ۔پھر یہ سہیل انجم (اب صاحب نہیں لگاؤں گا )آخر کیسے کتاب پر کتاب لکھ لیتے ہیں۔ پھر مولانا محمد عثمان فارقلیط صاحب کے اداریے بھی نکال کر لانا کوئی آسان کام تو ہے نہیں۔ ایک دو تو لکھے نہیں ہیں انھوں نے، دس ہزار کے قریب اداریے اور شذرات رقم کئے ہیں۔پھر آپ مختلف رسائل اور اخبارات کے ساتھ بھی سلسلہ جوڑے ہوئے ہیں ۔ ایک غیر ملکی ریڈیو کی آواز بھی بنے ہوئے ہیں۔


کچھ نہ کچھ تو فارمولا ہے ان کے پاس کہ ایک کتاب کے بعد دوسری اور دوسری کے بعد تیسری کتاب آجاتی ہے۔پھر ایک اور، ایک اور، ایک اور۔ لگتا ہے ان کے ہاتھ کوئی جادو کی زنبیل لگ گئی ہے۔ دیکھئے ہم انسان ہیں، اس لئے جلن اور حسد رکھنے کا ہمیں” جنم سدھ ادھیکار“ ہے۔ ہم ان کی اس کتاب کو ”عرض“ نہیں کرتے کیوں کہ اس سے قبل ہم ان کی ایک اور کتاب کے بارے میں کہیں پہلے لکھ چکے ہیں۔” میڈیا روپ اور بہروپ“؟ ارے نہیں، مولانا فارقلیط پر یادگار مجلہّ؟ وہ بھی نہیں۔”مغربی میڈیا اور اسلام“؟ نہیں۔”فرقہ وارانہ جنون“۔ ارے نہیں اب آپ ان کی چودہ کتابیں گنوانے لگیں گے اس لیے بتا دیں کہ فارقلیط صاحب پر اس سے پہلی جس کتاب کا ذکر اوپر آیا ہے وہ کتاب۔ ارے ہم تو اس نئی کتاب پر کچھ نہیں لکھتے لیکن ہم نے نہایت احترام کے لائق قلم کے سپاہی فاروق ارگلی صاحب کا اس حالیہ نئی کتاب پر ایک مضمون کہیں پڑھ لیا انٹرنیٹ پر تو ہم بے چین ہو گئے۔ ہم نے نہ چاہتے ہوئے بھی سہیل انجم سے کتاب کی فرمائش کردی۔ شرط بھی ایسی لگادی کہ ہم تک کتاب نہ پہنچے۔ کہا نا انسان ہیںہم! ہم نے کہا کہ کل ہم سفر پر جارہے ہیں اگر آپ کی کتاب مل جاتی تو پڑھ لیتے۔ اگلے دن کتاب لے کر ایک نوجوان ہمارے گھر پر تھے۔ اب تربیت دیکھیے جب وہ نوجوان دروازے سے رُخصت ہونے لگے تب بتایا کہ میں ان کا صاحبزادہ ہوں۔ہم ان کے ساتھ وہ سلوک نہیں کر پائے جو سکندر نے پورس کے ساتھ کیا تھا۔ یعنی ایک صحافی کا بیٹا دوسرے صحافی کے بیٹے کے ساتھ کرتا ہے۔


ہم نے کتاب ملتے ہی فوراً پڑھنا شروع کیا اور سیدھے ’مرتب کے قلم سے ‘پر آگئے۔ اس کے اگلے صفحے پر جب پہنچے تو ہماری آنکھوں میں آنسو کے قطرے نمودار ہوآئے۔ آج کے تمام نئے اور پرانے اردو صحافی حضرات بھی پڑھیں اور جان جائیں کہ اس اردو صحافت کے لئے ہمارے بزرگوں نے کس طرح اپنا خونِ جگر بہایا ہے۔صفحہ اٹھارہ پر ہے۔” جناب محمد فاروق (فارقلیط صاحب کے بیٹے )نے ایک دلدوز واقع سپردِ قلم کیا ہے جس سے ملت کے مسائل کے تئیں مولانا کی فکر مندی واضح ہوجاتی ہے۔ آخری دنوں میں جب ان پر امراض کی یلغار ہوگئی تھی تو ایک روز لکھتے لکھتے ان کی ناک سے خون کا ایک قطرہ کاغذ پر ٹپک گیا۔ وہ برین ہیمریج کی شروعات تھی۔مولانا نے رومال سے ناک صاف کی اور لکھنے لگے ۔پھر ایک قطرہ ٹپکا۔مولانا نے پھر وہی عمل دہرایا اور جب یہ سلسلہ تیز ہوگیا تو انھوں نے ناک پر رومال رکھ لیا اور یہ کہتے ہوئے لکھنے کا سلسلہ جاری رکھا کہ ٹپک کتنا ٹپگے گا۔“ ان کے بیٹے اپنے مضمون میں لکھتے ہیں ” حیرت کی بات یہ تھی کہ اس وقت جو کچھ انھوں نے لکھا وہ ویسا ہی تھا جیسا انھوں نے زندگی بھر لکھا ۔“


اگر اس کتاب میں سے تمام مضامین ہٹا بھی دیے جائیںتب بھی ہم بار بار صرف اس ایک منظر کے لیے اس کتاب کو پڑھنا چاہیں گے۔ یااللہ کیسے کیسے لوگوں نے ہماری اردو صحافت کو وقار بخشا ہے ۔ہم اس وراثت کو سنبھالنے لائق ہیں یا نہیں۔ اس سے الگ کیا ہم ایسے صحافیوں کے جذبے کے پاس بھی پھٹکتے ہیں۔ آج کی زوال پذیر صحافت کے دور میں کیا ہمیں پھر فارقلیط صاحب جیسوں کی ضرورت محسوس نہیں ہوتی۔ یہ خیال ذہن کے کسی گوشے میں ضرور کُلبلاتا ہے۔ناشتہ میں دو کپ چائے اور دو پہر کو ڈیڑھ چپاتی کھانے والے اس انسان کا ”دل و دماغ بڑے بڑے عظیم المرتبت مفکروں اور دانشمندوں کو مات کرتا تھا۔ وہ انسانیت کو ذلیل و خوار کرنے والے متقی و متعصب طبقوں کی شرارت اور ناپاک ہتھکنڈوں کی نقاب کشائی میں دریغ نہیں کرتے تھے۔“
جس انسان کے پاس کوئی باقاعدہ بڑی ڈگری نہ ہو اسے اردو ،عربی ،فارسی ،انگلش،ہندی ،سنسکرت اور سندھی زبان پر عبور حاصل تھا۔ انھوں نے زمانے سے کیا کیا نہیں سیکھا ہوگا جو ان اداریوں کو پڑھنے کے بعد محسوس ہوتا ہے۔ یہ اس دور کے اداریے ہیں جب تقسیم کے بعد مسلمانوں کو تختہءمشک بنادیا گیا تھا۔مولانا امداد صابری کے اس کتاب میں موجود مضمون کے مطابق ” آزادیءملک کے بعد ۷۴۹۱ ءسے اردو صحافت کا مطالعہ کیا جائے تو پورے ہندوستان میں ایک مردِ مجاہد صحافی اور ایک ہی حق گو صحافی مولانا فارقلیط نظر آئیں گے ۔ان کے سامنے ان کے ہم پلّہ ہونے کی کسی میں جرائت و ہمت نہیں ہو سکتی.... بحیثیت ایڈیٹر اخبار الجمعیة ان کے خلاف کافی مقدمات قائم ہوئے سیکڑوں پیشیاں انھوں نے بھگتیں ۔دلی کی تہاڑ جیل کی چہار دیواری میں بھی بند ہوئے۔لیکن انھوں نے اپنی آزادانہ روش کو نہیں بدلا۔“


ان اداریوں کو پڑھتے وقت آپ کو یہ خیال رکھنا ہے کہ یہ اس شخص نے تحریر کیے ہیں کہ جو نہایت دور رس تھا۔ جب تقسیم کے وقت یہاں سے قافلوں کے قافلے پاکستان کی جانب گامزن تھے وہ ان لوگوں سے جدا گانہ طور پر عمل کر رہے تھے اور ان کا سفر لاہور سے دہلی کی طرف تھا۔بقول فاروق ارگلی صاحب انھوں نے پاکستان کا حصّہ بن چکے لاہور میں ایک پل بھی رہنا گوارہ نہیں کیا۔ یہی نہیں ان کے بیٹے تحریر کرتے ہیں ” مولانا نے یہاں آکر ان کے بستر کھلوا دیے جو پاکستان جانے کو تیار بیٹھے تھے۔انھوں نے کہا اپنی زمین ،جائداد، کاروبار، کس کے سہارے چھوڑے جا رہے ہو؟ یہ کھیت کھلیان، اسکول، گلی محلہ، رشتہ دار، دوست احباب سب چھوڑ دوگے تو جیوگے کیسے؟ ان سب پر تمہارا پورا پورا حق ہے۔یہ سب چھوڑ کر تم کون سی قربانی دینے جارہے ہو اور کس کے لئے؟ تمہارے آباؤ اجداد جو پودے لگا گئے ہیں ان کی آبیاری کون کرے گا۔اس گلستاں میں جو ٹوٹ پھوٹ ہوئی ہے اس کی مرمت کون کرے گا۔“ آج پاکستان میں مہاجروں کی حالت دیکھ کر ان کی باتیں کتنی سچ معلوم ہوتی ہیں۔ کتنی دور تک نظر تھی ان کی ۔ایسے میں جب آپ ان کے اداریے پڑھیں تو یہ تمام ماحول ذہن میں رکھیے گا۔ساتھ ہی ان کی قربانی بھی۔ وہ چاہتے تو پاکستان میں رُک کر کسی بڑے اخبار کے ایڈیٹر ہوجاتے۔انھیں کیا ضرورت تھی الجمعیة سے جُڑے رہنے کی۔ مولانا غفران احمد لکھتے ہیں ” ۷۴۹۱ ءکے بعد الجمعیة کے ایڈیٹر مولانا محمد عثمان فارقلیط کی تحریروں نے مسلمانوں کے اندر سے احساس کمتری کا جذبہ، ناامیدی اور فکری کج روی کو نکال کر اس کی جگہ جو مثبت انداز فکر دیا وہ اتنا بڑا کارنامہ ہے جس کی جتنی ستائش کی جائے کم ہے۔“


 ہمیں لگتا ہے کہ سہیل انجم صاحب کا فارقلیط صاحب کے ساتھ کوئی ایسا رشتہ ضرور ہے جس نے ان کی قدم قدم پر رہنمائی کی۔ جس کی وجہ سے ہی اداریوں کا یہ انتخاب لائق ِ تعریف ہو پایا ہے۔ان اداریوں کو سہیل انجم نے آٹھ ابواب میں تقسیم کردیا ہے۔ جس سے انھیں پڑھنے کا لاشعوری سلسلہ سا بن جاتا ہے ۔ پہلا باب مسلمانوں سے خطاب ہے۔اس میں پہلا اداریہ ’ہمارا مستقبل ‘ ۶۱ فروری ۸۴۹۱ ءکا ہے۔اس اداریہ کا پیغام آج ۷۶ برس بیت جانے کے باوجود تازہ ہے۔ اس میں مسلمانوں کی جو رہنمائی کی جارہی ہے وہ جوں کی توں آج بھی اہمیت رکھتی ہے۔ وہ لکھتے ہیں ”اب مسلمان کے تحفظ کی گارنٹی صرف اس کا اخلاق ہے۔“ اسی باب میں ایک جگہ سوچنے اور سمجھنے کا وقت کے تحت لکھتے ہیں ”ہمارے مسائل اس طریقے سے حل ہوں گے کہ ہم یہاں اکثریت سے بدگمان نہ ہوں اور حکومت کی جمہوری اسپرٹ اور سیکولرزم کو ترقی کرنے اور نمو پانے کا موقع دیںاور اپنے خالق آپ بنیں۔“اسی باب میں ایک جگہ وہ مسجدوں کا احترام پہلے خود کرنے پر زور دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اگر کوئی غیر مسلم اس کے آگے باجہ وغیرہ بجاتا ہے تو اس پر چراغ پا ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔ لکھتے ہیں ”مسجد کا احترام مسجد والوں کے لئے ہے، جو لوگ مسلمان ہی نہیں ان سے احترام کی توقع رکھنا عبث ہے اور یہ بات بھی غلط ہے کہ مسلمان، نا مسلمانوں کو مسجدوں کے احترام کے لئے مجبور کریںاور انھیں باجہ بجانے سے روکیں۔خود مسلمانوں کا یہ حال ہے کہ وہ مسلمان ہوتے ہوئے مسجدوں کا احترام نہیں کرتے، محرم کے جلوس باجوں کے ساتھ مسجدوں سے گزرتے ہیںاور خود مسلمان باجہ بجا کر مسجدوں کی توہین کرتے ہیں۔شادی بیاہ کے موقع پر بھی مسجدوں کے سامنے یہ شیطانی حرکت ہوتی ہے۔ مگر مسلمانوں کی رگ حمیت نہیں پھڑکتی، مگر جہاں گنپتی کے جلوس میں مسجدوں کے سامنے باجہ بجا، مسلمان آپے سے باہر ہوئے۔“ اس پورے باب میں مسلمانوں کو ہندوستان میں ایک بہتر مستقبل کے لئے خود کو الجھنوں سے اور شر پسند عناصر کی سازشوں سے بچانے کے لئے حقیقی رہ گزر دکھائی گئی ہے۔ جو جذبات کے تحت نہیں بلکہ وقت کی ضرورت کے مطابق راستے بناتی ہے۔ اس میںمذہب کو لے کر ہماری سوچ کو بھی بیدار کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ حیرت کی بات تو یہ ہے کہ یہ سبھی اداریے آج بھی اتنے ہی اہم ہیں جتنے اس وقت تھے۔عید کی خوشی کو فکر مندی بنانے کو لے کر ان کا اداریہ پڑھنے سے تعلق رکھتا ہے۔ اس میں کیسے ہم خوامخواہ کے رسم و رواج میں جکڑ کر اپنے تہوار کی خوشی کو فکر میں بدل دیتے ہیں اس پر گہرا طنز ہے اور خاص طور سے اس میں خطاب گھر کی خواتین سے ہے۔


دوسرا باب عالم اسلام کے عنوان سے ہے اور اس میں عالمِ اسلام کی بے حسی کو نشانہ بنایا گیا ہے۔ اس میں مسجد اقصیٰ کو لے کر مغربی دنیا کے رویے کے حوالے سے بھی بات ہوئی ہے۔ خلا میں جانے پر پہلا مضمون ہے جو ہمیں قرآن حکیم کے مطابق غورو فکر کی دعوت دیتا ہے۔ ان کا ۳۲ ستمبر ۰۷۹۱ ءکا مضمون دیکھئے جس کا عنوان ”اردن میں خوں ریزی دیکھ کر “ ہے ۔لکھتے ہیں ”عرب خانہ جنگی اور برادرکشی سے باز نہیں آتے، نہ کبھی پہلے بازآئے اور نہ اب بازآتے ہیںاور نہ آئندہ باز آنے کی امید ہے۔“ آج عالم عرب میں جو کچھ ہو رہا ہے وہ ان کی بات کو سچ ہی ثابت کرتا ہے۔


تیسرا باب نہایت اہم ہے۔ اس کا عنوان ”فرقہ وارانہ فسادات “ رکھا گیا ہے۔ اس میں آزادی کے بعد کے حالات میں بھارتی مسلمانوں کے ساتھ رونما ہونے والے فرقہ وارانہ فسادات پر لکھے گئے ان کے اداریوں کوشامل کیا گیا ہے۔ اس میں فسادات کو لے کر مسلمانوں کی بے بسی اور انھیں روک نہ پانے میں حکومت کی نااہلی کی طرف اشارے موجود ہیں۔اس باب کو پڑھنے کے بعد یہ بھی اندازہ ہوتا ہے کہ ہمارے میڈیا کا رُخ جیسا پہلے تھا تقریباً ویسا ہی اب بھی ہے۔ اس باب کو پڑھ کر کہیں نہ کہیں ایسا محسوس ہوتا ہے کہ فسادات کے سلسلے میں فارقلیط صاحب بھی کچھ نہ کچھ مایوس سے ہو جاتے ہیں کہ آخر کریں کیا؟ کس سے کہیں کہاں جائیں جہاں سنوائی ہو۔یہ حالت اب بھی جوں کی توں موجود ہے۔ اتر پردیش کے حالیہ دنگوں کے بعد کے حالات تو یہی کہتے ہیں۔


چوتھے باب میں اخبارات کے رول اور رویہ پر اداریوں کو شامل کیا گیا ہے ۔پانچواں باب ہندو مسلم اتحاد اور قومی یکجہتی کے حوالے سے اداریوں کے لئے وقف ہے۔ اس میں زور دے کر کہا گیا ہے کہ ہمارے اتحاد کو تارپیڈو کرنے والی جماعت چاہے کوئی بھی ہو وہ سب سے زیادہ وطن دشمن ہے۔ ہمارے ملک کے لئے سب سے ضروری اتحاد ہے اور اس کے لئے اکثریتی فرقے کی بھی اہم زمہ داری ہے۔ اردو کے مسئلہ کو لے کر چھٹا باب ترتیب دیا گیا ہے۔ اس میں ہر اداریہ پڑھنے سے تعلق رکھتا ہے۔ خاص طور سے جب اتر پردیش میں اردو اکیڈمی کی تشکیل کی گئی اس کے بعد کے اداریے ضرور پڑھنے چاہئیں۔ ساتویں باب کا عنوان سنگھ پریوار رکھا گیا ہے۔ جبکہ آٹھویں باب میں ہند پاک تعلقات پر ان کے اداریے ہیں۔


آخری بات سے پہلے کی بات یہ ہے کہ محترم سہیل انجم صاحب نے مولانا محمد عثمان فارقلیط کے منتخب اداریوں کی یہ کتاب ترتیب دے کر ایک بڑا کام کیا ہے۔ تین سو آٹھ صفحات کی یہ کتاب ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس نے شائع کی ہے۔ اس کی قیمت ساڑھے تین سو روپئے رکھی گئی ہے جو ہمارے حساب سے بہت زیادہ ہے۔ اس طرح کی کتابیں کم قیمت کی ہونی چاہئیں۔ہمیں تو مفت ہاتھ لگی ہے۔ مگر باقی لوگ اتنی مہنگی کتاب پڑھتے وقت گھبرا نہ جائیں۔ سہیل انجم صاحب تو کتاب لکھنے میں ماسٹر ہوتے جارہے ہیں۔ انھیں اس کتاب کو ہندی میں بھی لانے کے بارے میں سوچنا چاہئے۔


آخری بات یہ کہ کیا آپ جانتے ہیں انھیں فارقلیط کا لقب کیسے ملا؟ جانتے ہوں تو ہمیں میل پر جواب دیجئے گا۔ہم بتا سکتے ہیں مگر اچھا ہے تھوڑی تحقیق آپ بھی کریں کہ آخر یہ اس دور رس صحافی سے جُڑا لفظ ہے جو خون جگر سے آخری دم تک لکھتا رہا۔ ٹپک جتنا ٹپکنا ہے۔


munawermedia@gmail.com

۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸

Comments


Login

You are Visitor Number : 595