donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Personality
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Reyaz Azimabadi
Title :
   Qaumi Yakjahti Ke Azeem Maqasid Ke Liye Shaheed Hone Hindi Ka Maroof Sahafi Ganesh Shankar Vidyarthi


 یوم شہادت کے موقع پر خصوصی مضمون


    قومی یکجہتی کے عظیم مقاصد کے لیے

 شہید ہونے والاہندی کامعروف صحافی گنیش شنکر ودیارتھی


 …  ریاض عظیم آبادی

 

کانپور مزدوروں کا شہر،محنت کشوں کا مسکن اور ہندو مسلم ایکتا کا گہوارہ …وہ25؍مارچ 1931کا دن تھا۔ پورا شہر فسادیوں کے قبضے میں تھا۔ہندو مسلمان ایک دوسرے کے خون کے پیاسے ہو رہے تھے۔ انگریزوں نے جو نفرت کا بیج بویا تھا اس کا بدترین انجام سامنے تھا۔وہ ایک ہندومحلہ تھا جہاں مسلم عورتیں پھنسی  ہوئی تھیں۔ایک شخص ان مسلم خواتین کو اور مسلم محلوں میں پھنسے ہندوئوں کو محفوظ نکالنا چایتا تھا۔ہر ہر مہادیواور نعرئہ تکبیر کا نعرہ گونج رہا تھا۔اچانک41سال کا ایک شخص فسادیوں کے سامنے دیوار بن کر کھڑا ہو گیا اور بلند آواز میں مجمع سے مخاطب ہوا…

                    
’بھائیو! یہ تم کیا کرنے جا رہے ہو؟ ہندو مسلمان بھارت ماتا کی دوآنکھیں ہیں۔دونوںملکر ہی انگریزوں کا مقابکہ کر سکتے ہیں، آپس میںلڑکر انگریزوں کو مضبوط نہ بنائو۔۔‘
’ارے یہ کوئی مسلمانوںکا دلال ہے ، اسے مارو…‘

اور بھیڑ کی دیوانگی بڑھتی گئی مگر وہ شخص فسادیوں کو سمجھانے کی کوشش کررہا تھا کہ کسی نے ایک پتھر اس کے سر پر پھیکا،سر سے گرم لہو بہہ نکلا…اس شخص کی زبان سے نکلا ’ارے بد بختو!انگریزوں کو مضبوط بنانے کا کام نہ کرو۔‘ اور تبھی کسی نے اسکے سر پر وار کیا اور دوسرے نے اپنی گُپتی اس شخص کے پیٹ میں گھونپ دی۔ وہ سڑک پر گر کر تڑپنے لگا۔ اسے مرتے دیکھ کسی نے گنیش جی کو پہچان لیا اور چلایا…’ارے یہ تو گنیش شنکر ودیارتھی جی ہیں،پترکار ہیں اور مہاتما گاندھی کے دلارے ہیں،ہم نے تو ہندو کو ہی مار دیا…‘  اوربھیڑ بھاگ کھڑی ہوئی۔زخمی شخص نے دم توڑ دیامسلم خواتین اور مسلم محلے میں قید ہندو بچ گئے مگر امن کا پیامبر ہمیشہ کے لیے سو گیا۔

وہ شخص کوئی اور نہیں بلکہ ہندی صحافت کا درخشاں ستارہ گنیش شنکر ودیارتھی تھا۔ ہندوستان کا دوسرا صحافی جو ایک بلند پایا مقاصد کے لیے شہید کر دیا گیا تھا۔    

1857میںـ’ دہلی اردو اخبار‘کے مدیر، مایہ ناز ادیب محمد حسین آزاد کے والد بزرگوار مولوی محمد باقر کو ان کی انقلابی تحریر کے جرم میںانگریزوںنے شہید کردیا تھا۔صحافت کی شروعات کے صرف  87سال کے بعد اردو کا ایک صحافی آزادی کی جنگ لڑتے لڑتے شہید کر دیا گیا۔اس عظیم شہادت کے 74 سال کے بعد قومی یکجہتی کی حفاظت ،ملک میں گنگا جمنی تہذیب کی حرمت اور انسانیت کی بقاء کے لئے گنیش شنکر ودیارتھی نے شہادت کا جام پی لیا مگر اپنے اصول اور آدرشوں کو تیاگنا گوارہ نہیں کیا۔

جب ہندی صحافت کے لیے فضا سازگار نہیں تھی،انگریزوں کا تسلط ملک پر قائم ہو چکا تھا،بنارس کے راجہ ہری سنگھ کی غداری سے بہار کے بابو کنور سنگھ شہید ہو چکے تھے۔انگریزوں نے ہندو اور مسلمانوںکو اپنے اپنے مذہب کے تئیں جنونی بنانے کے لیے 1924میں ناگپور میں آرایس ایس اور حیدرا آباد میں جماعت کی بنیا د ڈالی جا چکی تھی،ویر دامودر ساورکر کی کالے پانی کی سزا اس شرط پر معاف کی گئی تھی کہ وہ باقی زندگی ہندو قوم میں دوسرے مذاہب کے تئیںنفرت پھیلانے کا کام کرتے رہیںگے اور اسی مقصد کے تحت انہوںنے ہندو مہا سبھا کی بنیا ڈالی تھی۔ان حالات میں گنیش شنکرر ودیارتھی نے ہندی صحافت کو بام عروج پر پہنچایا۔9؍نومبر1913 کو انہوں نے ہفتہ وار ’پرتاپ‘شروع کیا جو بعد میں ملک کا مقبول ترین رسالہ بن گیا۔

گنیش شنکر ودیارتھی20؍اکتوبر 1890کوالہٰ آباد اپنے نانہال میں پیدا ہوئے۔انکے والدجئے نرائن سریواستو منگاولی(مدھیہ پردیش)کے رہنے والے تھے اور وہ اسکول میں بچوں کو پڑھاتے تھے۔گنیش جی کی ابتدائی تعلیم اپنے والد کی نگرانی میں منگا ولی میں ہوئی ۔1905میں کانپور سے انٹر کا امتحان پاس کیا۔1908-10میں کرنسی دفتر میں کلرکی اور پی پی این ہائی اسکول میں اساتذہ کی نوکری کی۔1911میں2؍نومبر کو ’سرسوتی‘ کے نائب مدیر بنے اور دوسرے سال وہ ’ابھیودئے‘کے نائب اڈیٹر بنے۔اور پھر اگلے سال یعنی 2؍نومبر1913ہفتہ وار’پرتاپ‘ کی اشاعت شروع کی اور پھرپرتاپ کا پرتاپ بڑھتاہی گیا۔پرتاپ وطن پرستی پر مبنی نظمیں شائع کرتا اور حکومت کی پھٹکاربرداشت کرتا۔

صحافت ایک جذبے کا نام ہے،ایک مشن ہے،ملک وقوم کی خدمت کے عزائم کی تکمیل کا ذریہ ہے۔ صحافت خواہ ہندی کی ہو یا اردو کی اپنی پیدائش سے ہی آزادی کی جنگ میں مجاہدین آزادی کے ساتھ ہر پل ساتھ ساتھ جدوجہد کرتی رہی ہے۔گنیش جی نے اپنے والدسے وطن پرستی کا جذبہ حاصل کیا اور صحافت کو اپنا ہتھیار بنایا۔وہ ہندو اور مسلمانوںکو’بھارت ماتا‘ کی دو آنکھیں سمجھتے تھے۔ وہ انگریزوںکی حکمت عملی کو سمجھ چکے تھے کہ انگریزی حکومت ہندو مسلمانوں کو الجھا کر،آپس میں لڑاکر،دونوں کے درمیان قتل و غارتگری کرا کر ہندوستان کو غلام بنائے رکھنے کا جواز تلاش کر رہی ہے اور جنگ آزادی کو کمزور کر رہی ہے۔

انگریزوں کے مظالم،لوٹ کھسوٹ اور غلامی کی زنجیروں کو توڑنے کی غرض سے جہاں اردو میںمولوی محمدباقر، محمد حسین آزاد،محمد علی جوہر،مولانا ابولکلام آزادجیسے صحافی پیدا کیے وہیں ہندی میں بھی ماکھن لال چترویدی،رام برکچھ بینی پوری اور گنیش شنکر ودیارتھی جیسے جہادی صحافیو ں کو جنم دیا۔حقیقت تو یہ ہے کہ انگریزی،اردو،ہندی اور دیگر زبانوں کی صحافت نے شانہ بہ شانہ ملک کی آزادی کے لیے قربانیاں دی ہیں۔1857سے 1910تک کی صحافت میں پنر جاگرن اور نوَ جاگرن،مخالفت اورخلافت،سوراجیہ اور سوراج، سوتنتراور سوادھینتا،اسہیوگ اور سوینے اوگیا،مقاصد اور ہدف جیسے فکری خیالات کا امتزاج دیکھنے کو ملتا ہے۔ہندی صحافت میں بھی1913 میں ’پرتاپ‘1920 میں جبل پور سے ـ’کرم ویر‘ اور1921میں ’ترون بھارت‘ کی اشاعت شروع ہوئی۔آج بھی ماکھن لال چترویدی(اڈیٹر کرم ویر) کو’قلم کا مزدور‘گنیش شنکر ودیارتھی(اڈیٹر پرتاپ)کو’ قلم کا پہریدار‘ اور رام برکچھ بینی پوری (اڈیٹرترون بھارت) کو’ قلم کا جادوگر‘کہا جاتا ہے۔ مقصدی صحافت،سیاست اور ادب کا ایسا امتزاج کبھی دیکھنے کو نہیں ملا۔

کانپورکے پیل خانے محلے کے بوسیدہ مکان میں پرتاپ کی اشاعت شروع ہوئی جس کا کرایہ4روپیہ ماہانہ تھا۔شیو نرائن مشرا،نرائن پرساد اروڑہ اورکارونیشن پریس کے مالک یشودا نند کامالی تعاون حاصل تھا جو بعد میں ایک ایک کر ساتھ چھوڑتے گیے۔پرتاپ نے سالانہ خصوصی نمبر شائع کرنا شروع کیا۔19؍جون1916کے شمارہ میں ’داستا‘(غلامی) کے عنوان سے ایک نظم شائع کی،اس نظم کو ملک سے بغاوت قرار دیا،لیکن گنیش جی نے اسکا مقابلہ کیا،حکومت نے تمام دلائل کو رد کر پرتاپ پر 1000ہزار روپیے جرمانہ کی رقم جمع کرنے کا حکم صادر کر دیا۔ پرتاپ کی مقبولیت بڑھتی گئی یہاں تک کہ1916میں مہاتما گاندھی نے مہمان بننا قبول کرلیا۔مہاتما گاندھی کی آمد سے پرتاپ کی ساکھ عام لوگوں کے دلوں میں گھر کر گئی۔ پرتاپ کے ضمانت کی رقم جمع کرا دی تاکہ پرتاپ کی اشاعت بند نہ ہو۔22؍اپریل1918کے شمارے میںنانک سنگھ ہم دم کی نظم’ فدائے وطن‘ شائع کر تہلکہ مچا دیا اور حکومت نے ضمانت کی ایک ہزار روپے کی رقم ضبط کر لی۔اور پھر سے ضمانت کی رقم جمع کرانے کا حکم صادر کر دیا۔پر تاپ نے اگلے شمارہ میںایک شعر کے ذریعہ ظاہر کیا…  ؎

 لگا گھائو ہے جب کٹھن رہ رہ کہ ہوتی چمک
  رہا کام اب آپ کامرحم  رکھیے  یا  نمک

ودیارتھی جی نے پرتاپ کو عوامی پراپرٹی بنا دیا اور15؍مارچ1919کو ایک ٹرسٹ بنا دیاجس کے ابتدائی ممبر میتھلی شرن گپت (چراگائوں)، ڈاکٹر جواہر لال روہتگی (کانپور) ،سیٹھ پھول چند(کانپور)،ویدیہ راج شیو نرائن مشر(کانپور) اور گنیش شنکر ودیارتھی( کانپور) بنے۔ حکومت نے تنگ و تباہ کرنے کی غرض سے 2ہزار کی رقم جمع کرانے کا حکم دیا جسکی بھی تعمیل کر دی گئی۔نومبر1918میں پرتاپ نے ’سوراج‘ کے عنوان سے خصوصی نمبر شائع کیا۔22؍نومبر1920کے شمارہ میں اعلان کیا کہ ہفتہ وار پرتاپ اب روزنامہ کر دیا گیا ہے جسکی کاپی پرتاپ کے دفتر سے مفت حاصل کی جا سکتی ہے۔یہ وہ دور تھا جب عدم تعاون کی تحریک زور پکڑنے لگی تھی۔صرف سات برسوں کی قلیل مدت میں مقبولیت کا اعتراف 1900-1918کے ادبی رسالہ ’سرسوتی‘ کے اڈیٹر ہندی کے عظیم صحافی مہاویر پرساد دویدی نے کرتے ہوئے لکھا ہے کہ’روزنامہ پرتاپ کا مقام وہی ہے جو لندن میںٹائمس اخبار کا ہے۔‘

22؍اپریل 1918کے شمارہ میں ’فدائے وطن‘نظم شائع کرنے کے جرم میں 1000 روپے کے جرمانے کی رقم ضبط کی جا چکی تھی۔23؍نومبر 1920سے جب پرتاپ روزنامہ کی شکل میں شائع ہونا شروع ہوا تو کسانوں پر رائے بریلی میں کی گئی فائرنگ اور ظلم کا آنکھوں دیکھا حال شائع کیا تو عزت ہتکی کے مقدمہ میں اڈیٹر پبلشر کو چھ ماہ کی سزا سنائی گئی۔ گنیش شنکر ودیارتھی اپنے روزنامہ کے ذریعہ ہندو مسلم یکجہتی کو فروغ دینا اپنی صحافت کا اولین مشن بنایا۔پرتاپ کے اڈیٹرگنیش شنکر ودیارتھی نے سبھی مستند ہندی کے ادیبوں اور صحافیوں کو متحد کرنے کی کامیاب کوشش کی جسکی وجہہ سے انگریزی حکومت کی ناراضگی بڑھتی جا رہی تھی۔انگریز کسی بھی حالت میں ہندو مسلم اتحاد کی کوششوں کو کامیاب ہوتے نہیں دیکھنا چاہتی تھی۔1921میں لکھنؤجیل میں ودیارتھی جی نے وکٹر ہوز کی کتابNinety Three کا ترجمہ ’بلیدان ‘کے نام سے کیا۔آخر کار1923میں ودیارتھی جی کو حکومت سے بغاوت کرنے کے الزام میں قید کی سزا سنا دی اورانہیں 20؍مارچ1923سے29؍جنوری 1924جیل میں بند رکھا گیا۔1927میں ودیارتھی جی نے رام پرشاد بسمل کی سوانح حیات شائع کی اورشاہجہاںپور میں شہید اشفاق اللہ خاںکی سمادھی بنوائی۔1929میں وہ کل ہند ساہتیہ سمیلن کے صدر منتخب کیے گئے۔24؍مئی1930کو دفع117کے تحت گرفتارکر ایک سال کی سزا سنائی گئی۔

ودیارتھی جی کے زمانے کی صحافت کواحتجاجی یا انقلابی صحافت کا نام دیا جا سکتا ہے۔ ودیارتھی جی کی صحافت اور انکے خیالات نے ایک ’اسکول ‘ کی شکل اختیار کر لی تھی۔ امبیدکر اور گاندھی کے درمیان مختلف موضوعات پر بحثیں ہوئی ہیں ان پر انہوں نے کھل کر اپنے خیالات کا اظہار کیا ہے۔ چھوا چھوت،ہندو سماج میں ذات پات کا نظام،عدم تشدد کا فلسفہ یا پھر فرقہ وارانہ تنگ نظری و سیاست پر ودیارتھی جی نے سماج کی ذہنی تربیت دینے کی کامیاب کوشش کی ہے۔ عدم تشدد کے سلسلے میں ان کا کہنا تھا…’میںنان وائلنس کو شروع سے اپنی پالیسی مانتا رہا ہوں،دھرم نہیںمانتا رہا…‘1929 کے لاہور سازش مقدمہ کے ملزمان بھگت سنگھ اور بٹوکیشور دت کی حمایت کرتے ہوئے انہوں نے لکھا…’تشدد اور عدم تشدد کی بحث چھوڑیے سائنس نے موجودہ جنگی طریقے کو بے حد خطرناک بنا دیا ہے،اس میں بہادری نہیں رہی بلکہ اس میں حیوانیت اور قتل کا بول بالا ہے اور اسکے مقابلے میں ہمارے جیسے صدیوں سے غیر مصلح لوگوں کا کھڑے رہنا نا ممکن ہے…‘یہاں تک کہ ہتھیار اٹھانے والے انقلابیوں کو پیغام دینے کی ہمت کرتے ہیں کہ…’ہمارے لیے تو عدم تشدد ہی پرم ہتھیار ہے۔اسی سے ہم دنیا میں کسی کا مقابلہ کر سکتے ہیں۔آگے بڑھنے والے نوجوان سب سے بغاوت کریں لیکن ایک جذبہ سے بغاوت کرنے کا خیال دل میں نہ آنے دیں،انکے دل میں اعلیٰ کردار کے تئیںلاپرواہی کا خیال اپنے اندر نہ پنپنے دیں۔وہ خود با کردار ہوں،انکا سر بھی جھکے تو اعلیٰ کردار کے لیے۔اگر اعلیٰ کردار کے تئیں انکے اندر احترام کا جذبہ رہا تو انکی بغاوت خواہ کتنی بھی تلخ کیوں نہ ہو جائے ملک وقوم کے لیے بہترین ثابت ہوگا…‘

ودیارتھی جی نے دو مسئلے پر جم کر قلم چلایا۔ہندوئوں کا عیسائی اور اسلام قبولنے پر اور ملک میں ابھر رہی فرقہ وارانہ منافرت پر۔20؍اپریل 1925کے پرتاپ کے شمارہ میں ودیارتھ جی رقم طراز ہیں…’ورناشرم مذہب کی حفاظت کی دہائیاں دی جاتی ہیں،لیکن ورناشرم دھرم ہے کہاں؟کتنے لوگ اپنے ورن دھرم کے مطابق کام کرتے ہیں؟اگر اس وقت کوئی ایسا نظام ہو سکے،جو طاقت کے ساتھ جسکا جو مقام ہے دھرم کے زمرے میں رکھ سکے…صرف جنم کی وجہہ سے ہی نہیں بلکہ صفت کی وجہہ سے بھی…تو اس وقت جو برہمن۔چھتری اور ویشیہ ہو تے ہیں ان میں سے زیادہ تر ہمارے دلت بھائیوں سے بھی نیچے بٹھائے جانے کے لائق ثابت ہوںگے۔دربھنگہ نریش ویوپاری ہونے کی وجہہ سے ویشیوں کی صف میں بیٹھے دکھائی دیںگے اور کئی دھرم اپدیشک پیسے والوں کے اشاروں ناچنے کی وجہہ سے شودر کی صف میں!جو لوگ اس وقت ـ’دلت‘ کہے جاتے ہیں،وہ ایسی حالت میں نہیں رہ سکتے۔ایک زمانے کے بعد ہی انکی حالت بدل سکے گی۔شری چنتامنی کیلکر کے مطابق2000ہندو فی ہفتہ کے حساب سے عیسائی ہوتے ہیں،مسلمان بھی دھڑادھڑہو رہے ہیں۔ یہ سب ہوتا ہے نیچ ذاتوں سے۔ ہم عیسائیت اور اسلام کو برانہیں سمجھتے۔اگر کوئی ہندو مذہب کے لیے عیسائی یا مسلمان ہوتا ہے تو ہم اسے قطعی برا نہیں کہیں گے لیکن دلتوں کا عیسائی ہونا دھرم کے لیے نہیں ہوگا بلکہ وہ عیسائی یا مسلمان ہوںگے ہندو مذہب میں دلت ہونے کی وجہہ سے۔سناتن دھرمی(جو دلتوں کو پر وقار بنانا دھرم کا نقصان سمجھتے ہیں)چاہتے ہیں جو جہاں ہیں وہی رہیں،ویشنو بڑھیں،کبیر پنتھی بڑھیں،سبھی آگے بڑھیں( آریہ سماج آگے بڑھیں…یہ کہتے ہوئے ہچکتے ہیں،کیونکہ وہ ذات پات کے جھنجھٹوں اور لوگوں کی پاکیزگی اور ورن دھرم کے دلدل میں پھنسے ہوئے ہیں) سناتن دھرمی اتنا ہی کریں کہ اپنے اعلیٰ ذات والوں کو گلے لگائے رکھیں اور دیگر فرقوں کے راستے کا روڑہ نہ بنیں۔‘

فرقہ پرستی کے زہر کا احساس ودیارتھی جی کو شروع سے ہی تھا۔ودیارتھی اسکول نے صحافیوں کوہمیشہ سچ کا اظہار کرنے کی ترغیب دی اورعوام کو بیدار رکھنے کی غرض سے لالا لاج پت رائے،مدن موہن مالویہ،اینی بیسنٹ سے لیکر محمد علی جناح تک کے فرقہ وارانہ خیالات افکار کی جم کر خبر لی۔گاندھی جی کی سیاست کاایماندارانہ جائزہ لیا۔ہندو اور مسلمان مذہب کے نام گول بند ہونے لگے تھے۔ہندو اور مسلم لیڈران اپنے اپنے موقف پر اڑے ہوئے تھے۔ مولانا ابولکلام آزاد گاندھی جی کے ساتھ تھے۔گاندھی ہندوتو اور مولانا آازاد اسلام کو ساتھ لیکر چلنے کی سیاست کر رہے تھے۔ ہندو سماج میں دو باتیں نمایاں تھیں۔اول تو یہ کہ چھوا چھوت کا زہر سماج کو تقسیم کر رہا تھا تو دوسری طرف ہندو ازم اور مسلمان کے نام  پر ملک کو تقسیم کرانے کی سازش تیز ہوتی جارہی تھی۔ گاندھی جی ذات پات کے سسٹم کو قائم رکھنا چاہتے تھے۔گاندھی جی نے ینگ انڈیا میں 5؍جنوری1921کے شمارہ میں لکھا…’ تاریخی طور پر کہا جا سکتا ہے کہ’ ذات‘ بھارتیہ سماج کی تجربہ گاہ میںسماجی ہم آہنگی کے لیے چلایاگیا انسانی تجربہ ہے ۔‘

9؍مارچ 1931جیل سے رہا کیے گئے

۔ودیارتھی جی ایک جنون کا نام تھا۔1931مارچ کی 25 ویںتاریخ تھی۔ 24مارچ کو انہوں نے شہر کوتوال سے گزارش کی تھی کہ کانپور کے حالات پر کنٹرول کریں،لیکن کوتوال نے جواب دیا …’اسکے لیے آپ اپنے گاندھی کو بلائیں،وہی آکر قابو پائیں۔‘ انہوں نے جواب دیا…’ہمارے رہتے گاندھی جی کو تکلیف دینے کی کیا ضرورت ہے؟‘ اہل خانہ ،اہلیہ اور بچوں حالات کی سنگینی کو دیکھتے ہوئے گھر سے نکلنے سے روکنے کی بھرپور کوشش کی مگر ان پر جنون طا تھا اور وہ فساد زدہ علاقوںعلاقوں میں گھوم گھوم پر امن کی کوشش کرنے لگے۔شہادت کے بعدانکی جیب سے ایک خط ملا جسے انہوںنے اندو متی گوینکاکو لکھا…

عزت مآب بہن جی!

میں آپ سے اچھی طرح واقف ہوں۔ مجھے یاد ہے کہ میں نے کلکتہ میں آج سے دس برس قبل دیکھا تھا۔اس وقت آپ چھوٹی تھیں۔یہاں کے حالات بلا شبہ خراب ہیں۔ہم لوگ امن کے لیے کوشش کر رہے ہیں۔آپکی یہ خواہش کی  آپ اپنی جان پر کھیل کر امن کی کوشش کریںگی اچھا لگا۔لیکن میں  ابھی آپکو آگے جانے کے لیے کہہ نہیں سکتا۔مسلم لیڈروں میں کوئی آگے آنا نہیں چاہتا،پولس کا رویہ قابل مذمت ہے۔افسران چاہتے ہیں لوگ آپس میں نپٹ لیں۔پولس کھڑی دیکھتی رہتی ہے،مندر مسجدوں میں آگ لگائی جاتی ہے۔۔لوگ پیٹے جاتے ہیں اور دوکانیں لوٹی جاتی ہیں۔یہ فسادتو کل ہی ضتم ہو جاتا اگرافسران تھوڑا بھی ساتھ دیتے۔ان حاسلات میںآپ سے کیسے کہوں کہ آگے آئیں ۔افسران کو کوئی پرواہ نہیں ہے ۔امن قائم ہوایسا لوگ چاہیں گے۔

  مخلص
 گنیش شنکر ودیارتھی

امن و امان کے لیے،فرقہ وارانہ ہم آہنگی کے لیے،گنگا جمنی تہذیب کی بقا کے لیے اور انسانیت کی حفاظت کے لیے گنیش شنکر ودیارتھی نے اپنی جان کی قربانی دی۔ کیا ہم انکے اس پیغام سے اور انکی قربانی سے سبق لیںگے؟ کیا ہم فرقہ پرستی کے خلاف جنگ کو اپنی زندگی کا مقصد بنائیں گے؟

نوٹ: مضمون کے شروع میں گنیش شنکر ودیارتھی کی تصویر ہے۔

کتابیات۔
۱۔ یودھا پترکار
۲۔پرتاپ۔۲۱ مارچ ۱۹۲۶
۳۔صحافت میں سیاست۔پربھاش جوشی
۴۔ینگ انڈیا۔۱۹۲۱

رابطہ۔943142182
Email Id : r.azimabadi.gmail.com
Email-r.azimabadi@gmail.com 


***********************************

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 1565