donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Personality
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Mehtab Qadar
Title :
   Kha Kha Nadir Khan Sargaroh

 

کھا کھا نادرخان سَر گِروہ 
 
مہتاب قدر
 
مجھے یا د نہیں کہ نادر خان سرگروہ نے مجھے پہلے فون کیا تھا یا میں نے انہیں، بہر حال میرا اور ان کا تعارف پہلے پہل ٹیلیفون کے ذریعے ہی ہوا۔ نادر خان سرگروہ کا نام سنتے ہی (یعنی انہیں دیکھے بغیر ) ایک تصور جو ذہن کے پردے پر ابھرتا ہے وہ کچھ اس طرح ہوتا ہے۔
 
رنگ سانولا، ہلکی ہلکی داڑھی ، جیسے شیو کئی کئی دنوں سے نہ بنائی گئی ہو، گھنی کالی مونچھیں، سر پر پگڑی ، ڈھیلی ڈھالی شلوار قمیص۔۔وغیرہ وغیرہ ۔فون پر آواز سن کر بھی گفتگو کی پوری شائستگی کے باوجود تقریبا یہی نقش تخیل میں ابھرتا ہے۔
نادر تو وہ ہیں ہی کہ ان جیسے لوگ اب دنیا میں کم ہی پاے جاتے ہیں(یہ مال اب نہیں آتا ہے کارخانے سے) بابا والی کیفیات بھی کبھی کبھی ان کی شخصیت پر غالب ہوتی ہیں تو وہ اپنی سوچ کے گھوڑے ا س قدر تیز دوڑانے لگتے ہیں کہ ان کو پکڑنا یا روکنا دشوار ہو جاتا ہے ،لیکن خانوں والی کوئی خاص بات میں نے ان کے اندر محسوس نہیں کی ۔ شاید یہ کیفیت خطابی پٹھانوں میں مشترک ہوتی ہے۔ اپنے آبا و اجداد کے کسی کارنامے سے خوش ہوکر نوابوں ،راجاوں اور مہاراجاوں سے ملا خان کا خطاب تو ظاہر ہے کہ وہ خاص خوبیاں جو پٹھانوں میں ہوتی ہیں وہ ان لوگوں میں کہاں سے پیدا ہو سکتی ہے ۔ سرگروہ ؛ موصوف کا خاندانی نام ہے اور یہی لفظ موصوف کے متعلق بھاری بھرکم شخصیت ہونے کا دھوکہ دیتاہے۔ سرگروہ کے دو حصے ہیں ایک سر اور دوسر ا گروہ ۔ یہ خطاب تُرکی سے آئی ان کی پچھلی نسلوں کو برطانوی حکومت کے تسلط سے قبل ملا تھا۔ جو بھی ہو نام بڑا معرکۃالآرا ہے کہیں اگران کے آنے کی اطلاع دی جائے تو شایدنام کی وجہ سے لوگ احتراماََ کھڑے ہو جائیں۔
 
نادر خان سے پہلی ملاقات بھی یاد گار ہی ہے ۔ ایک مرتبہ موصوف نے اطلاع دی کہ وہ جدہ آئے ہوے ہیں تو میں نے موقع غنیمت جانا اور ان سے ملنے پہنج گیا ۔ میری کار ابھی اس عمارت کے قریب ہی پہنچی تھی کے مجھے اس عمارت کے بغل والے کیفے سے ایک خوبرو نوجوان باہر نکلتا دکھائی دیا اس کے ہاتھوں میں ٹھندے مشروب کی بوتلیں تھیں ۔جانے کیوں میری نگاہ اس پر رک گئی میں نے اسے غور سے دیکھا ۔ میر ا دل کہہ رہا تھا یہ کوئی مانوس شخصیت ہے ۔ اور میری زبان خود ہی گویا ہوئی السلام علیکم نوجوان نے جوان نے مسکرا تے ہوئے سلام کا جواب +دیا۔ تب مجھے پتہ چلا کہ وہ میری ہی ضیافت کے لئے مشروب کا انتظام فرمارہے تھے۔ وہ ایک خوشگوار لمحہ تھا جو فکر کی وادی میں محفوظ ہو گیا۔ نادر خان کا اپنا اندازِ فکر ہے جو انہیں ایک کامیاب بلکہ نادرِ روزگار طنز نگار بنا دیتا ہے۔ ۔ میں خاص طور پران کے موبائل پر آنے والے ایس یم ایس کا ذکر کروں گا ۔ جب مجھے پہلی بار ایک چینی رستوران میں اپنے ایک مخلص دوست کے ساتھ کھانے کا اتفاق ہوا تو کوئی بھی ڈش پنسد نہ آئی یہ دیکھ کر میرے دوست نے کہا کہ چینی ڈشزکھانے کے لیے ذوق کوپروان چڑھانا ضروری ہے ۔ یہی بات میں نادر خان کے ایس یما یس کے لیے کہوں گا کہ ان کے پیغامات سمجھنے کے لیے بھی ذوق کو اس کے معیار تک لے جانا پڑتا ہے۔ بعض اوقات اُن پیغامات تک رسائی بھی مشکل ہو جاتی ہے ۔خاص طور پر جو لوگ نادر خان کو نہیں جانتے ، ہو سکتا ہے وہ ان کے ایس ایم ایس پڑھ کر اُن کی ذہنی حالت پر شک کرنے لگیں۔ لیکن رفتہ رفتہ جب لوگوں کا ذوق ان کے ا یس ایم ایس کے معیار پر پہنچتا ہے وہ اُن سے لطف اندوز ہونے لگتے ہیں۔
میں پہلے پہل اُن کو ادیبِ ایس ا یم ایس ہی سمجھتا رہا ۔بعد میں ان کی تحریروں کے چھوٹے چھوٹے شذرات نے انکی شخصیت کے خول اُتارنے شروع کیے ۔ ایک خاص بات یہ بھی ہے کہ نادر خان میں قوم کا درد اور فکر کوٹ کوٹ کر بھرے ہوے ہیں۔ آج کے دور میں جب کہ قوم کی فکر کرنے والے بھی اس فکر اور درد کو اپنے مقصد کے لیے استعمال کرتے ہیں ۔ موصوف کا دم بہت غنیمت ہے ایسے لوگ کم ہی دیکھنے کو ملے جو ہر بات کو بڑے ہی ناقدانہ انداز سے پوری ہمدردی کے ساتھ دیکھتے ہیں ، نہ کہ اپنی قابلیت کا رعب جماتے ہیں ۔ 
 
ایک دفعہ میں نے ان کی پٹھانی کے بارے خطابی ہونے کا شبہ ظاہر کیا ۔ اس پر وہ پہلے چُپ رہے، پھر بتایا کہ وہ خطابی پٹھان نہیں بلکہ اصلی تُرکی النسل پٹھان ہیں۔ ان کا یہ تُرکی بہ تُرکی جواب سُن کر ہم چپ رہے کہ اسی میں سلامتی تھی، ورنہ تُرکی النسل پٹھان کو غصہ نہ آجائے کہ ہم نے کیوں اُن کی پٹھانیت کو للکارا ہے۔ بمبئی سے انھیں بے حد محبت ہے ۔جس طرح ہرشخص اپنے شہر اور وطن سے محبت کرتا ہے اور اس کا اظہار کرنا ، اپنی حب الوطنی کے لیے باعث ِ فخر سمجھتا ہے ۔ نادر خان بھی اپنے پتے کی جگہ بمبئی کے بجائے۔۔۔
بمبئی میری جان لکھتے ہیں۔ حالانکہ مہاراشٹر ا کی حکومت نے بمبئی کے نا م کو ممبئی میں تبدیل کردیاہے ۔ مگر نادر خان جیسے کچھ لوگ اب بھی اسے غیر سرکار ی مقامات پر بمبئی ہی کہتے ہیں۔ 
عموما کہا جاتا ہے کہ گاہک اور موت کا کوئی بھروسہ نہیں کب آجائے ۔ لیکن بمبئی والوں کے یہاں یہ خیال عام ہے کہ بمبئی کی بارش اور چھوکری کا کوئی بھروسہ نہیں ۔ ظاہر ہے کہ اس خیال کے پیچھے ان کے تجربات اور مشاہدات ہوں۔ مگر بمبئی کے اِس چھوکرے پر پورا بھروسہ کیا جا سکتا ہے۔ یہ ہم اپنے ذاتی تجربے کی بنا پر کہہ رہے ہیں۔ 
 
نادر خان کی زبان بہت اچھی ہے۔ جب کہ بمبئی کے پڑھے لکھے لوگ بھی عموما کھڑی بولی بولتے ہیں شاید یہ اُن کی ادبی حییثیت اور اردو سے بے پناہ محبت کا اثر ہو۔ہم نے کبھی ان سے اکّھا بمبئی بیٹھے لا ہے ، کیا مانگتا ، والی بولی نہیں سنی۔ طنز ومزاح کے علاوہ، افسانے ، افسانچے ، لفظانے بھی نادر خان کے اصناف ِ سخن میں داخل ہیں۔ اُن کے لفظانوں میں اگر موبائل پر بھیجے جانے والے تمام sms بھی شامل کرلیے جائیں، جنہیں بھیج بھیج کر وہ دوستوں کو حیرت زدہ اور کبھی کبھی پریشان بھی کرتے رہتے ہیں ، تو لفظانوں کا ایک مجموعہ مرتب ہو سکتا ہے۔ نادر 
 
خان کسی بھی تحریر پر تنقید کرتے وقت ، صاحبِ تحریر سے کبھی مرعوب نہیں ہوتے، بلکہ بلا جھجھک اور بے ساختہ اپنی بات کہہ جاتے ہیں، اور یہی صفت شاید نقاد کے لیے مطلوب و ملزوم ہے۔یہ الگ بات ہے کے بعض اوقات صاحبِ تحریراُن سے نالاں ہو جاتے ہیں اور اُن کے اُس مافی الضمیر تک نہیں پہنچ پاتے جو نادر خان کی تحریروں میں چھپا ہو تا ہے۔ وہ حیدرآبادی تو نہیں ہیں لیکن اُن کی تحریروں میں بعض اوقات کھٹاس اس قدر ر ہوتی ہے کہ ہمارے ہاں کھچڑی کے ساتھ کھائے جانے والے کھٹّے میں بھی نہ ہوتی ہو ۔بلکہ اُن تنقیدی نگاہ یا قلم نے بعض لوگوں کے دانت بھی کھٹے کردیے ہیں ۔ نادر خان کو ادبی دنیا نے وہ حوصلے نہیں دیے ، جس کے و ہ مستحق ہیں ، مجھے امید ہے کہ آج نہیں تو کل ضرور نادر خان کی تحریروں کی اہمیت کو سمجھنے والے اور انھیں سراہنے والے کھل کر سامنے آئیں گے ۔ہو سکتا ہے نادر خان کوئی ایسا کارنامہ انجام دیں ، جو انہیں اردو نثر کی تاریخ میں ایک اہم حیثیت اور مقام دلائے۔
  مہتاب قدر
+++
 
Comments


Login

You are Visitor Number : 799