donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Personality
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Khwaja Ahmad Hussain
Title :
   Hami Gorakhpuri - Aik Hamajehat Qalamqaar

 

حامی گورکھپوری ۔۔۔۔۔ ایک ہمہ جہت قلمکار 


 خواجہ احمد حسین


 Mob:09831851566

کانکی نارہ ،۲۴ پرگنہ ،مغربی بنگال 


    ویسے تو برسوں سے الہ آباد آنے جانے کا سلسلہ جاری ہے مگر اس بار ۵ نومبر ۲۰۱۶؁ء کو جب الہ آباد آیا تو چھوٹے بھائی خواجہ جاوید اختر (علیگ) کے شیشے کی الماری کے اندر سے جھانکتی ہوئی بے شمار ادبی کتابوں کو یکے بعد دیگرے بغور دیکھے جا رہا تھا۔انگنت بیش بہا کتابیں بڑی ترتیب کے ساتھ اب بھی ویسے ہی سجی ہوئی تھیں۔جیسے کہ جاوید کی زندگی میں،مگر ان کتابوں کو پڑھنے والا اب اس گھر میں کوئی نہیں۔جاوید کی سب سے چھوٹی بیٹی انیقا غزل جو درجہ پنجم کی طالبہ ہے ،اسے خصوصی طور پر اردو زبان کی تعلیم دلوائی جارہی ہیتاکہ وہ اپنے والد کی وراثت کو بچا کر رکھ سکے۔
    ہو سکتا ہے کہ جاوید کی طرح سینکڑوں اردو کے ادیبوں اور شاعروں کے وصال کے بعد ان کی کتابیں جنہیں اپنی حیات میں وہ بے حد عزیز رکھتے ہوں گے یا تو کسی لائبریری کو عطیہ کر دیا جاتا ہوگایا پھر دیمک ان کتابوں کو اپنی خوراک بنا لیتی ہوگی ۔اس جدید دور کے ادباء کے لئے لمحہ فکریہ ہے جن کے بچے اردو زبان سے نابلد ہونے کی وجہ سے ان کے قیمتی سرمایوں کی حفاظت نہیں کر پارہے ہیں۔جو اس وقت ہمارے اپنے معاشرے کی غفلتوں کا نتیجہ ہے۔

    بہر حال میرے اس مضمون کا موضوع یہ نہیں ہے ،میں تو اپنی وقت گزاری کے لئے کتابیں تلاش کر رہا تھا۔الماری سے چند کتابوں میں شمس الرحمٰن فاروقی کا شب خون اول تا آخر شمارہ اور جدیدیت کل اور آج ’’سیرۃ الرسول‘‘منظوم ڈاکٹر عبدالمنان طرزی ،’’اداس جنگل میں ‘‘رونق نعیم اور نصر اللہ نصر کی کتاب ’’افہام ادب‘‘شامل تھی۔افہام ادب کی ورق گردانی کرتے کرتے ایک مضمون ’’حامی گورکھپوری ۔۔۔سحر سخن کا اجالا ‘‘پر نگاہ پڑی اور میں حامی صاقحب کی یادوں کے نقوش میں کھو گیااور پھر قلم نے اپنا سفر شروع کر دیا۔حامی گورکھپوری میری چند پسندیدہ شخصیتوں اور شاعروں میں سے ایک تھے۔میرے اسکول کے سکریٹری ہونے کی وجہ سے انہیں بہت قریب سے دیکھا۔ایک روز اسکول آئے ،تمام اساتذہ کے علاوہ سابق ہیڈ ماسٹر الحاج شمس الحق انصاری کی موجودگی میں کہا کہ ’’سر مجھے بھی شاعری کا شوق ہے ،انہوں نے کہا کہ پہلے شاگرد بنو ،میں نے کہا میں تیار ہوں ۔پھر انہوں نے برجستہ کہا کہ تمہارا گھرانہ تو علمی و ادبی ہے ،تم کوشش کرو ،گویا ان کا اشارہ میرے دونوں مامو پروفیسر خواجہ مجیب الحق مرحوم اور پروفیسر وحید عرشی کی طرف تھا۔ان کی برجستگی اور دلچسپ گفتگو سے خاص و عام سبھی متاثر تھے۔

    اپنے عہد کے ادباء و شعراء میں ان کا شمار صف اوّل کے شاعروں میں ہوتا تھا۔ان کی سدا بہار شخصیت اور رکھ رکھائو کسی نواب سے کم نہ تھالیکن مزاجاً وہ ترقی پسند ہونے کے باعث بے حد غریب پرور انسان تھے۔ان کی سب سے بڑی خصوصیت یہ تھی کہ وہ نہ تو کسی سے مرعوب ہوتے نہ کسی کو مرعوب کرنے کی کوشش کرتے ۔ان کا اپنا انداز تھا جو بالکل نرالا تھا۔فکر و خیال میں آفاقیت ،بلا کا اعتماد اور حوصلہ تھا۔یہی ان کی اپنی شناخت تھی ،جبھی تو پورے وثوق کے ساتھ کہا تھا:        تم کہتے ہو

رمندہ غزل ہم سے ہوئی ہے        ہم کہتے ہیں پھر زندہ غزل ہم سے ہوئی ہے

    یہاں حامی صاحب کی شاعری پر بحث کرنا میرا مقصد نہیں۔صرف خراج عقیدت پیش کرنے کے لئے میں نے یہ قدم اٹھا یا ہے۔کبھی کبھی یہ سوچ کر پریشان ہو جاتا ہوں کہ جن کا اس دنیا میں کوئی وارث نہیں ،ایسے دانشوروں کو سماج میں نظر انداز کرنے کا چلن رائج ہو رہا ہے۔یہ امر لائق صد افسوس ہے،مجھے یہ کہنے کی اجازت دیجئے کہ جس سرزمین کو حامی صاحب نے اپنی تخلیقات کے حوالے سے متعارف کرانے میں کوئی کسر نہ چھوڑی ۔اس سرزمین نے  

(۲)
اس دلنواز شخصیت کی پزیرائی حیات میں تو کی مگر بعد از مرگ اتنی نہ کی جس کے وہ مستحق تھے۔کچھ ایسے ہی متعصب حالات کے پیش نظر وحشت کلکتوی نے دلبرداشتہ ہو کر کہا تھا:        خیال تک نہ کیا اہل انجمن نے کبھی         تمام رات جلی شمع انجمن کے لئے 
    بہر حال یہی دنیا ہے آنکھیں بند ہونے کے بعد آدمی افسانہ بن کر رہ جاتا ہے۔اگر ان کا بھی کوئی اپنا ہوتا تو ممکن ہے کہ اکثر و بیشتر یاد کئے جاتے 
،برسی منائی جاتیوغیرہ وغیرہ۔خیر اس کے باوجود بھی مجھے یقین ہے کہ انہوں نے جو ادبی سرمایہ چھوڑا ہے ،ادب میں زندہ رہنے کے لئے کافی ہے۔ایک دفعہ آل انڈیا ریڈیو کے پروگرام میں معروف شاعر حبیب ہاشمی سے راقم الحروف (خواجہ احمد حسین )نے انٹر ویو لیا تھا ۔دوران گفتگو اپنی آپ بیتی کا تذکرہ کرتے کرتے حبیب صاحب نے حامی گورکھپوری کو زبردست خراج عقیدت پیش پیش کرتے ہوئے ان کا یہ شعر سنایا تھا۔

 پائوں پھیلاتے ہوئے بھی ڈر لگے         زندگی مسکین کی چادر لگے 

    اس کے بعد انہوں نے برجستہ یہ بات بھی کہہ دی کہہ اب صدیوں دوسرا حامی گورکھپوری پیدا نہیں ہوگا۔حامی صاحب کے شاگردوں کی فہرست ہو سکتا ہے کہ بہت طویل ہو اس کا مجھے بخوبی علم نہیں ،نہ میں ان باتوں سے اچھی طرح واقف ہوں ہاں اردو ادب کے دو انمول رتن ضمیر یوسف اور فہیم انور کو اکثر یہ کہتے ہوئے سنا ہے کہ:ہمیں یہ فخر ہے کہ ہم حامی گورکھپوری کے شاگرد ہیں ۔ان کے علاوہ ان کے جو بھی چند اہم شاگرد ہیں ان میں عنبر شمیم (صحافی و شاعر)کلیم حاذق ،عرفان بنارسی،مراد علی انجم ،نصر اللہ نصر ،فیروز اختر ،حلیم حاذق اور سحر مجیدی وغیرہ کے نام قابل ذکر ہیں۔حضرت غواص قریشی کے شاگرد خاص جناب عزیز غواصی جناب حامی گورکھپوری کے استاد تھے ۔جن سے انہوں نے انہوں نے علم عروض اور فن شاعری وغیرہ سیکھا تھا۔اپنی غزلوں پر ان سے اصلاحیں بھی لی تھیں۔عزیز صاحب کے کچھ ایسے شاگردان بھی تھے جو ان کی رحلت کے بعد اپنے استاد بھائی حامی صاحب سے ہی مشورہ سخن کیا کرتے تھے ۔ایسے شعراء میں پروفیسر حیدر صفت ،شوکت غزالی ،کاوش کمال اور ابراہیم آتش کے نام بطور خاص لئے جاسکتے ہیں۔

    حامی صاحب کے نجی ادبی سرمایے کے بعد یہ تمام شاگردان ان کے نام کو زندہ رکھنے کے لئے کافی ہیں۔حامی صاحب سے اپنے ذاتی مراسم کا مزید تذکرہ کرکے میں مضمون کو طول دینا نہیں چاہتا ،ناصر کاظمی کا یہ شعر میری ترجمانی کے لئے مناسب ہے:

جنہیں ہم دیکھ کر جیتے تھے ناصر         وہ لوگ آنکھوں سے اوجھل ہو گئے 

حامی صاحب کے چند پسندیدہ اشعار پیش خدمت ہیں:    

 ارباب ستم اس طرح مائل بہ ستم ہیں    محسوس یہ ہوتا ہے کہ زندہ ابھی ہم ہیں

مجروح شدہ ہاتھ کی انگلی ہے سلامت     پتھر پہ بنا سکتا ہوں تصویر تمہاری

 قتل کا الزام ان کے سر لگے         اپنے سائے سے بھی جن کو ڈر لگے

 ٹہنیاں توڑنے والو ذرا یہ بھی سوچو     کوئی پودا بڑی مشکل سے شجر ہوتا ہے

        ہماری انگلیاں تو ٹہنیوں کو چھو نہیں سکتیں     وہ کیسے لوگ ہوں گے جو گلوں کو توڑ لیتے ہیں

    آئینے کرنے لگے ہیں پتھروں سے ساز باز         آئینوں کو آئینوں کا ہم زباں کیسے کہوں 

 بے ضرورت آئینے بازار سے کیوں لائیں گے         ہم دلوں کو صاف کر لیں آئینے بن جائیں گے

    ان اشعار سے آپ کو ان کی عظمت ِفن کا اندازہ ہو گیا ہوگااگر آپ ان کے مجموعہ کلام ’’شاخ زیتون‘‘کا مطالعہ کریں تو محسوس ہوگا کہ وہ کون سا رنگ ہے جو ان کے یہاں موجود نہیں ۔مجھے یقین ہے ایک نہ ایک روز ان پر بھی Researchہوگاکیوں کہ ابھی بھی ایماندار قلمکار اس جہاں میں موجود ہیں۔ 
(۳)
داغ دہلوی کا یہ شعر حامی صاحب کے ساتھ ہونے والی نا انصافیوں کی دلالت کرتا ہے:
    اے داغ روشنی ہے خدا داد طبع میں     بجھتے نہیں ہیں میرے چراغِ سخن کے پھول 

٭٭٭

Comments


Login

You are Visitor Number : 792