donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Personality
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Ibne Azim Fatmi
Title :
   Hamare Qaisar Saleem

 ہمارے قیصر سلیم۔۔۔ایک مستقل مزاج اور مصروف ادیب جو اب ہم میں نہیں


قیصر سلیم ایک انتہائی معروف اور مصروف ادیب کا نام ہے جنہوں نے عمر بھر ادب کی ترویج و اشاعت کا کام کیا۔انکی ان گنت کتابیں جو مختلف اصناف ادب پرلکھی گئیںتواتر سے شرمندہء اشاعت ہوتی رہیں۔اس کے علاوہ انہوں "فکشن فورم"کے نام سے اپنے دولت کدہ "دارلقلم"میں ہر ماہ شام افسانہ کا انعقاد کیا جس میں معروف افسانہ نگاروں نے اپنی تخلیقات پیش کیں بعد اذاں ان افسانوں پر موجود افسانہ نگار اور ناقدین اپنی بھر پور رائے پیش کرتے رہے۔ان کی ان نشستوں کی شہرت ادبی حلقوں میں دیر تک رہی۔

آئیے ان کا بھرپور تعارف حاصل کریں گوکہ ان کا کام اور ان کا نام ادبی حلقوں میں احترام سے لیا جاتا ہے مگر پھر بھی اعادہ کے طور پر درج کر رہا ہوں۔

اصل نام:    بدر الدین جو ان کے والد معین الدین نے رکھا مگر اسکول میں داخلے کے وقت ماسٹر صاحب نے بدرالحسن لکھ دیا جو ان کی شناخت بن گیا۔


قلمی نام:    قیصر سلیم

تاریخ پیدائش:    5مئی1927ء

جائے پیدائش:    موضع آڑھا،ضلع مونگیر،بہار

تعلیم:        بی۔اے، ڈپلوما ایم بی اے،ڈپلوما الیکٹریکل ٹیکنالوجی
ملازمت:    پاک فضائیہ

سیاحت:        ایران،ترکی،سعودی عرب،چین،لیبیا اور امریکہ

تصانیف۔ناول:    کشور1967ئ،اکیسویں صدی کا چنگیز خان1995ء اور 2009ء دو ایڈیشن،تحریر کے سناٹے میں1997ئ،گھر پیارا گھر1997ئ،انقلابی آگئے2000ئ،سرخ مٹی ڈھلتا سورج2001ئ،کالی مٹی اڑتے رنگ2004ئ،وادی ء زرداراں 2006ئ،نیا نگر بسا لیا ہم نے2008ئ۔

افسانے:    رات گزر گئی جاناں2002ئ،ہرن کنڈ اور دوسرے افسانے2007ئ،نجات2012ء
سفر نامے:    امریکہ جیسا میں نے دیکھا جیسا میں نے جانا1998ئ،امریکہ مسرت کی جستجو میں2000ئ،بندہ ء صحرائی2000ء

طنزیہ:        قصہ اندھیر نگری چوپٹ راج کا1998ء

متفرق:        وحدت فکر

ادبی آمیزہ:    کائی ۔ستمبر2004ء

مضامین:    زریں انقلاب2003ئ،چراغ فکر جلاؤکہ گھپ اندھیرا ہے2005ئ،

مطالعاتی اقتباسات:    حاصل مطالعہ چار جلدیں۔پہلی جلد2008ء میں بقیہ تین جلدیں 2009ء

تراجم:        امریکی بیٹیاں اسلام کی راہ پر۔نومبر2001ئ،منتخب امریکی افسانے۔اکتوبر2001ئ،منتخب عالمی افسانے2005ئ،منتخب بنگلہ دیشی افسانے2010ئ،دوپہریا دھوپ کے سنگ2004ئ،بغداد جل رہا ہے2007ئ،بغداد بے رحم نہیںہے2008ئ،ہیں ضو فشاں ہزار دروں خانہ آفتاب2009ئ،اندھیر نگری2010ئ،قصہ گینگ لینڈ ڈیموکریسی کا2011ئ،ایسے بھی افسانے2010ئ،لہو لہو بنگلہ دیش2013ئ۔

بچوں کا ادب:    چاچا آسمانی2007ئ،دولت کا جزیرہ2007ء

ترتیب و تدوین:    بہار دانش2011ئ(جس کا سبب انہوں نے اس طرح بیان کیا۔۔جن کے اعمال اور تحریروں سے حکمت و دانش نمایاں نظر آتی ہے)۔

جبکہ" تیسرا آدم"کے نام سے ان کے افسانوں کی کلیات شاعر علی شاعر نے رنگ ادب پبلی کیشنز کے زیر اہتمام دسمبر 2012ء میں شائع کیا۔

ان پر زریں بانو زیدی نے ایک تحقیقی مقالہ بہ عنوان"قیصر سلیم بہ حیثیت ناول نگار"ڈاکٹر ہلال نقوی کی زیر ہدایت تحریر کیا جو دراصل ایم۔اے کی طالبہ نے پاکستان اسٹڈی سینٹر کے ڈائریکٹر سید جعفر احمد کے تعاون سے مکمل کیا جسے رائٹرز بک فاؤنڈیشن نے 2004 ء میں شائع کیا ۔
قیصر سلیم نے سفر نامے،تراجم،افسانے،ناول،اخباری کالم اور بچوں کے لئے ناول لکھے۔اس کے علاوہ پندرہ روزہ ادبی اخبار "بساط ادب" 1997ء میںجاری کیا۔1974ء میں عمرہ اور 1975ء میں حج کیا۔

1948ء میں عشرت سلطانہ سے شادی ہوئی جنہوں نے 1987ء میں داغ مفارقت دے کر قیصر سلیم کو تنہا کردیا۔1948ء ۔1972ء ائیر فورس میں ملازمت کی۔ڈیپوٹیشن پر 3سال لیبیا میں گزارے۔اولاد میں 5بیٹے اور 3بیٹیاں ہیں جو سب کے سب ماشاء اللہ خوش و خرم زندگی بسر کر رہے ہیں۔بچے امریکہ اور سعودی عرب میں رہتے ہیں۔ایک بیٹی پاکستان میں مقیم ہیں جو والد کی خدمت میں انکی زندگی میں مصروف رہیں۔

مجلس احباب ملت کی ہر بدھ کو ڈاکٹر جمیل عظیم آبادی کے دولت کدے پر منعقد ہونے والی نشستوں میں وہ لازمی شریک ہوتے ۔

یہ تو وہ باتیں تھیں جو انکے تعارف کے حوالے سے تھیں ۔

وہ ایک سچے اور محب وطن پاکستانی تھے۔انہوں نے بچوں کی خواہش اور کوششوں کے سبب گرین کارڈ قبول کیا۔پھر بچوں نے شہریت کے لئے کوشش کی اور انہیں حلف لینے کے لئے کہا گیا تو انہوں نے یہ کہ کر انکار کردیا کہ میں ایک پاکستانی ہوں اور ان کے قوانین کی پاسداری کا حلف کیونکر لے سکتا ہوں چنانچہ انکار کر کے پاکستان واپس آگئے اور یہی نہیں بلکہ پہلی فرصت میں قینچی اٹھائی اور گرین کارڈ کے ٹکرے ٹکرے کر دیئے۔

 انتقال سے پہلے پروگرام بناکر سعودی عرب گئے جہاں کم از کم تین ماہ قیام کا پروگرام تھااور اس کا سبب یہ تھا کہ سابق مشرقی پاکستان سے  بنگلہ دیش میں ڈھلنے کے حوالے سے عقیلہ اسماعیل کی کتاب Of Martys and Marygoldکا سکون سے ترجمہ کرنے کا ارادہ تھا مگر وہاں جاکر طبیعت خراب ہوئی تو بچوں سے کہ کر پاکستان آگئے کہ میں پاکستان میں ،اپنی مٹی میں رہنا ،مرنا اور دفن ہونا چاہتا ہوں۔ پاکستان  آگئے اورعلالت کے باوجودانتہائی توجہ سے اس کا ترجمہ لہو لہو بنگلہ دیش کے نام سے چھپنے کے لئے دے دیا۔انتقال سے چند یوم پیشتر ملاقات ہوئی تو کہنے لگے کہ اللہ نے شاید مجھے اس لئے زندگی دی ہے کہ میں یہ آخری کام کرلوں جو الحمد للہ مکمل ہوگیا ہے اور جلد ہی چھپ جائے گا ۔چنانچہ اپنی زندگی کا یہ آخری کام کر کے 7مارچ2013ء کو ایک محب وطن،انتہائی مصروف ادیب اپنے دوستوں،عزیزوں اور بچوں کو چھوڑ کر خالق حقیقی سے جا ملا۔

اللہ انکی مغفرت فرمائے،انکے سیات کو حسنات سے بدل دے اور جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے۔

******************************* 

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 534