donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Personality
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Hasnain Sahir
Title :
   Hassanul Asar Hafiz Mazharuddin Mazhar


مل کے مظہرؔ سے نئے نعت کے مضمون سُنے


حسّان العصرحافظ مظہرالدّین مظہر



حسنین ساحر


 
    اُردو  زبان میں نعت گوئی کا آغاز اُردو شاعری کے ساتھ ہی ہوگیا تھا۔ اردو کے شعرا نے عربی اور فارسی کی تقلید میں نعت گوئی کا آغاز تو کیا لیکن اس دور میں رسمی قسم کی نعت گوئی ہوا کرتی تھی۔ دور قدیم میں غلام امام شہیدی اور کرامت علی شہیدی ہی دو ایسے شعرا تھے جن کی بدولت اردو نعت گوئی کا معیار کسی قدر  بلند ہوا۔ اُردو نعتیہ شاعری کا زرّیں دور تین ہم عصر شعرا محسن کاکوروی، امیر مینائی اور احمد رضا خان بریلوی سے عبارت ہے۔ ان تینوں میں محسن کاکوروی اور احمد رضا خان بریلوی تو صرف نعت گوئی تک ہی محدود رہے۔ البتہ امیر مینائی نے دیگر اصناف سخن میں بھی طبع آزمائی کی۔ انہی تینوں شعرا نے نعت کو تخلیقی شان سے ہمکنار کیا۔ فنی اعتبار سے محسن کاکوروی کا مرتبہ اپنے دیگر معاصرین سے بہت بلند ہے۔ علاوہ ازیں مولانا الطاف حسین حالی، مولانا ظفر علی خان، حمید صدیقی، بہزاد لکھنوی، حفیظ جالندھری کے اسمائے گرامی آ سمان نعت کے تابندہ ستارے ہیں۔ قیام پاکستان کے بعد نعت نے حیرت انگیز طور پر ترقی کی منازل طے کیں۔ اس دور کے اہم شعرا میں مولانا ضیا ء القادری بدایونی، مولانا ماہرالقادری، محشر رسول نگری، عبدالعزیز خالد،حافظ لدھیانوی، عبدالکریم ثمر، نعیم صدیقی، پیر نصیرالدّین نصیر، حفیظ تائب، مظفروارثی اور حافظ مظہرالدین مظہر کے نام نمایاں ہیں۔
 
    لیکن ان تمام شعراء دربارِ رسالت میں حافظ مظہرالدّین مظہر نمایاں قدوقامت کے ساتھ کھڑے دکھائی دیتے ہیں۔ حافظ صاحب کی نعتوں سے مترشح ہے کہ ان کا دل جذبہئِ عشقِ رسولﷺ سے لبریز ہے۔ رسولؐ کی محبت ان کے رگ وپے میں جاری و ساری ہے۔ نعت گوئی ان کے لیے باعث تسکینِ دل بھی ہے اور  وجہِ انبساطِ روح بھی۔ ان کی ممدوح و محبوب ہستی تو فخرِ موجودات اور باعثِ تخلیقِ کائنات ہے۔ ایسے محبوب کی تعریف و توصیف بلاشبہ عبادت کا درجہ رکھتی ہے:

نعت گوئی میرا محبوب عمل ہے مظہرؔ
یہ عبادت میرے گھر شام و سحر ہوتی ہے
نہیں ہوں میں نیا کوئی ثنا گستر محمدؐ کا
کہ ذکرِ شاہِؐ دیں معمول تھا میرے اب و جد کا
چلو کہ ہم بھی کبھی اکتسابِ نور کریں
کہ ذکر ہوتا ہے مظہرؔ کے گھر مدینے کا


    حافظ صاحب کی شاعری کا بے ساختہ پن ان کا بنیادی وصف ہے۔اُردو نعت گوئی کی تاریخ میں حافظ مظہرالدّین مظہر کا نام اس لیے بھی ممتاز حیثیت کا حامل ہے کہ انہوں نے نعت گوئی کو غزل گوئی کا ہم پلہ بنانے میں اہم کردار ادا کیا۔ ان کا نعتیہ اسلوب اعلیٰ درجے کے حسنِ تغزل سے ہم آہنگ ہے۔  ان کی نعت ادبیت اور عقیدت کے حسین رنگوں سے مزیّن ہے۔ غزل کی ایمائیت اور غزل کا رچائو ان کی نعتوں میں تمام تر تخلیقی توانائیوں کے ساتھ جلوہ گر ہے۔جس کا دعوہ وہ خود بھی کرتے ہیں :

رنگِ غزل بھی ہے میرے اس رنگِ نعت میں
محدود ہے جمالِ شہِؐ بحروبر کہاں
مل کے مظہرؔ سے نئے نعت کے مضمون سنے
دور رہ کر ہمیں اندازہئِ طوفان نہ تھا


    ہر بڑا شاعر اپنے سے پہلے کے زمانے کے بڑے شعرا سے اثر لیتا ہے جو اس کے وسعت مطالعہ کی دلیل ہے۔حافظ صاحب نے نہ صرف فارسی میں طبع آزمائی کی بل کہ فارسی کے قدیم ادب کے اثرات بھی واضح طور سے ان کے کلام میں مشاہدہ کیے جاسکتے ہیں۔ وہ فارسی ادب کے جن قدیم اساتذہ سے متاثر تھے انہیں جا بجا خراجِ تحسین پیش کرتے نظر آتے ہیں:


ترے عشق کا کرشمہ، ترے حسن کی کرامت
تپش و گدازِ رومیؒ، اثرِ کلامِ رازیؒ
تری عظمتوں کے قرباں ترے در سے مانگتا ہوں
دلِ سعدیؒ و نظامیؒ، دلِ رومیؒ و سنائیؒ


    حافظ مظہرالدین مظہرکے فضل وکمال، علم و ہنر اور حلقہئِ اثر سے انکار ناممکن ہے۔ان کا شمار ان چند شعرا میں ہوتا ہے جنہوں نے نعت گوئی کو شاعری کی دوسری اصناف سے زیادہ معزز اور ایک مؤثر تحریک بنایا۔ ان کی نعتوں کی گونج مذہبی محفلوں، میلاد کی تقریبات، مساجد، سماجی اجتماعات، یہاں تک کہ ہر گلی ہر کوچے میں سنی جاسکتی ہے۔ اُردو نعت گوئی میں یہ قبولِ عام اور فضیلت چند ہی شعرا کے حصے میں آئی جن میں حافظ مظہرالدّین مظہر کا نام ایک درخشاں ستارے کی مانند جگمگا رہا ہے۔ ان کی شاعری میں جمالِ فن بھی ہے اور جذبہ و احساس کی لطافت بھی ہے جو قاری کو وجدانی لمحوں سے آشنا کرتے ہیں۔ ان کی چند مشہور نعتوں کے اشعار ملاحظہ ہوں:


بنے ہیں دونوں جہاں شاہِؐ دو سرا کے لیے
سجی ہے محفلِ کونین مصطفیٰؐ کے لیے
ہمیشہ مدحتِ خیرؐالانام میں گزرے
دعا ہے عمر درود و سلام میں گزرے
ہے زمیں خاموش، چپ ہے آسماں آہستہ چل
روبرو ہے روضہئِ شاہِؐ جہاں آہستہ چل
وصف کیا مجھ سے بیاں ہو شہِؐ ذیشاں تیرا
خود خدا وندِ دوعالم ہے ثنا خواں تیرا


    ان کی نعتوں کا ایک ایک لفظ ، ایک ایک مصرع اور ایک ایک شعر عشقِ رسولؐ میں رقصاں دکھائی دیتا ہے۔ الفاظ گنجبینہئِ معنی کا طلسم، مصرعے کیف و مستی میں ڈوبے ہوئے، اور اشعار سرشاری و  وجد آفرینی کا منبع ہیں۔یہ ہے حافظ مظہر کی نعت جس میں کیفیاتِ روحانی اور مقاماتِ وجدانی کے طرفہ امکانات دکھائی دیتے ہیںاور انہیں ایک منفرد  نعت گو بناتے ہیں۔ ان کے کلام کی سادگی اور اثر آفرینی میں تفہیمِ عشقِ مصطفی ﷺ کا ایک جہاں آباد دکھائی دیتا ہے:


بے وضو عشق کے مذہب میں عبادت ہے حرام
ایک دن آئیں گے سرکارؐ قضا سے پہلے
نہ ہو گی تا قیامت ختم میری روح کی مستی
کیا ہے طوف میں نے سیدِؐ ذیشاں کے مرقد کا
چوموں گا ہر اک راہِ مدینہ کو نظر سے
شاید کہ وہ گزرے ہوں اسی راہ گزر سے
یہ تو طیبہ کی محبت کا اثر ہے ورنہ
کون روتا ہے لپٹ کر در و دیوار کے ساتھ


    حافظ مظہرالدّین مظہر کی نعت گوئی کی ایک بڑی پہچان یہ ہے کہ آقائے نامدار کے وسیلے سے رب ذوالجلال کی بارگاہ میں سوال کرنے اور مانگنے کا قرینہ سکھاتی ہے۔ اور درس دیتی ہے کہ بتانِ وہم و گماں کو چھوڑ کر ہمہ وقت حسنِ محبوبِ حق میں لاپتہ ہونے اور بحرِعشق کی تہہ میں اترے سے ہی گوہرآب دار اور معنیئِ نایاب ہاتھ آتے ہیں:

جب لیا نامِ نبیؐ میں نے دُعا سے پہلے
مری آواز وہاں پہنچی صبا سے پہلے
کر نہ منزل کی طلب، راہنما سے پہلے
ذکرِ محبوب سنا ذکرِ خدا سے پہلے
حق سے کرتا ہوں دُعا پڑھ کے محمدؐ پہ درود
یہ وسیلہ بھی ضروری ہے دُعا سے پہلے


     عشقِ رسولؐ نہ صرف ایک جذباتی کیفیت ہے بلکہ تخیل کی بے ساختگی، مئے محبت کی مستی، عشق کی سلطانی، اوس کے قطروں کی ٹھنڈک، فکر نظر کی واردات، کیف و مستی میں ڈوبا ہوا نعرہئِ مستانہ، دیوانگی و فرزانگی اور بے خودی کا امتراج ہے۔ جس کا صلہ یا انعام سوز و گداز، شدت احساس اور پاکیزگیئِ جذبات، لفظوں کی روانی اور ہنر کی فراوانی ہے۔ بلاشبہ حافظ صاحب کی نعت ان تمام اوصافِ معنوی سے مزین ہے جو اپنے پڑھنے یا سننے والوں کو عشقِ رسولؐ سے سرشار کرتی ہے:


جبریلؑ بھی خادم ہے اسی بابِ کرم کا
جبریلؑ کو توقیر ملی ہے اسی در سے
جدائی میں بھی کب دل کا تعلق ٹوٹ سکتا ہے
سگانِ کوئے شہؐ سے ہے مرا یارانہ برسوں سے
آج مظہرؔ سے سرِ راہ ملاقات ہوئی
آج ہم نے بھی سگِ کوئے مدینہ دیکھا
حضوری میں تو لب تک بھی نہ ہلنے پائیں گے مظہرؔ
کرم خواجہؐ کا ہوگا اور طلب سے بیش تر ہوگا


    حافظ مظہر الدّین مظہرؔ کے نعتیہ مجموعے ’’جلوہ گاہ‘‘ کو سفرنامہئِ حجاز سے بھی موسوم کیا جاتا ہے۔ جس میں انہوں نے اپنے سفرِ حجازکا احوال بہت احسن انداز میں بیاں کیا ہے۔ انہوں نے اس سفرِ مقدس کے دوران میں اپنی جذباتی کیفیات اور احساسات کو اشعار کے پیرائے میںاس طرح ڈھالا ہے کہ سفر کا تمام منظر قاری کی نظروں کے سامنے آ جاتا ہے اور وہ خود کو حافظ صاحب کا ہمراہی تصور کرنے لگتا ہے :


کیسا مستی و کیف کا سماں تھا
جب میں رہِ طیبہ میں رواں تھا
وہ حاصلِ عمرِ بے خودی ہیں
اس رہ میں جو لذّتیں ملی ہیں
یہ دیوار و در شہرِ خیرالوریٰ کے
نشانات ربّ غفور اللہ اللہ
اللہ اللہ یہ ہم سوختہ جانوں کا نصیب
کہ ترے سایہئِ دیوار تک آ پہنچے ہیں

 
    صوفی ئِ صافی دل ہونے کے باعث والحانہ پن ان کی نعتوں سے جھلکتا ہے۔ان کی شاعری میں ہجرِ مدینہ سے پیدا ہونے والی تڑپ ہے۔ انہوں نے ایک مہجور مدینہ کی دلی کیفیات کو بڑے مؤثر انداز میں شعری جامہ پہنایا ہے۔ ان کی زبان سادہ اور تصنع سے پاک ہے۔ اس لیے ان کی سرشاری جذبوں کی زبان بن گئی۔ دراصل حافظ صاحب کے الفاظ میں جذبے کی صداقت، شدت، گہرائی اور رچائو ہے وہ عشق رسولؐ اور مدحت رسولؐ کے سبب سے ہے اور یہ رشتہ اتنا مضبوط ہے کہ ان کی نعتوں نے تشنگان محبت کو اپنا گرویدہ بنا رکھا ہے۔


٭٭٭٭٭

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 1166