donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Personality
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Ghulam Ibne Sultan
Title :
   Devender Asr : Aa Pahuncha Anjaam Kahani Khatam Huyi

دیوندر اسر :آ پہنچا انجام کہانی ختم ہوئی


 غلام ابن سلطان  


اس نتیجے پہ پہنچتے ہیں سبھی آخر        حاصل سیر جہاں کچھ نہیں حیرانی ہے


          6۔نومبر 2012کو نئی دہلی میں مقیم ارد وکے ممتاز افسانہ نگار دیوندر اسر راہی ء ملک عدم ہو گئے ۔وہ تخلیق کار جس نے گزشتہ سات عشروں میں ارد وافسانے کو متعدد نئی جہات سے آشنا کیا اپنی زندگی کی کہانی کی آخری سطور لکھتے لکھتے ہمیشہ کے لیے چپ ہو گیا ۔ اجل کے ہاتھوںنے ایک منفرد ،ممتاز اور مخلص ادیب اور دانش ور کے ہاتھوں سے قلم چھین لیا ۔جدید افسانہ نگاری کی ایک دبنگ آواز ہمیشہ کے لیے خاموش ہو گئی ۔ 14۔اگست1928کو پنجہ صاحب حسن ابدال ضلع اٹک (پنجاب۔پاکستان)میں جنم لینے والے اس ادیب نے اپنی تخلیقی فعالیت سے پوری دنیا میں دھوم مچا دی ۔بچپن ہی میں ان کی والدہ کا انتقال ہو گیا  ۔ان کے والد شری ناتھ اسر ملک کے نامور قانون  دان تھے اور ان کی وکالت کے ہر طرف چرچے تھے ۔ان کے والد نے اپنے اس ہو نہار بچے کی تربیت پر بھر پور توجہ دی اور قابل اساتذہ  کے پاس اپنے بیٹے کو بھیجا   اور کسی قسم کی کمی کا مطلق احساس نہ ہونے دیا  ۔ان کے گھر کا ماحول علمی و ادبی تھا ۔اردو ،انگریزی ،ہندی ،پنجابی ،پشتو اورفارسی زبان پر دیوندر اسرکو کامل دسترس حاصل تھی ۔اٹک میں وہ ڈاکٹر غلام جیلانی برق کے شاگرد تھے اور ان کی علمی فضیلت کے مداح تھے۔یہاں یہ امر قابل غور ہے کہ ڈاکٹر غلام جیلانی برق 1916میں سرکاری ملازمت سے ریٹائر ہو چکے  تھے ۔ریٹائرمنٹ کے وقت ان کی تنخواہ  چودہ روپے (Rs.Fourteen per month) ماہانہ تھی۔(1)ممکن ہے دیوندر اسر اس زمانے میں ڈاکٹر غلام جیلانی برق کے گھر جا کر اس بزرگ استاد  سے اکتسا ب فیض کرتے ہوں  ۔


غلام جیلانی برق کا قیام بسال میں تھا جو کہ اٹک سے بیس میل جنوب میں ایک چھوٹا سا قصبہ ہے  ۔دیوندراسر کی رہائش اس زمانے میںحسن ابدال میں تھی اگر ڈاکٹر غلام جیلانی برق کا قیام ان دنوں اٹک میں تھا  تو حسن ابدال سے اٹک کا فاصلہ چالیس کلو میٹر ہے ۔یہ استفادہ صرف اقامتی طالب علم کی صور ت  میں ہو سکتا ہے ۔  نامور مزاح نگار کرنل محمد خان نے بھی ڈاکٹر غلام جیلانی بر ق کی شاگردی اختیار کی   ۔ کرنل محمد خان اور دیوندر اسر کی ادبی صلاحیتوںکو صیقل کرنے میں ڈاکٹر غلام جیلانی برق کی تربیت نے ید بیضا کا معجزہ دکھایا ۔ دیوندر اسر نے 1947 میں گورنمنٹ کالج اٹک سے بی ۔اے کیا دیوندر اسر کو بچپن ہی سے تخلیق  ادب سے لگائو تھا  ۔گورنمنٹ کالج اٹک کی بزم ادب کے فعال رکن کی حیثیت سے انھوں نے بڑے زوروں سے اپنی فعال اور مستعد حیثیت کو تسلیم کرایا  ۔گورنمنٹ کالج  اٹک کے علمی و ادبی مجلے ’’مشعل ‘‘کو اس زمانے میں طلبا کی تحریروں سے مزین بلند پایہ ادبی مجلے کی حیثیت سے پورے ملک میں بہت مقبولیت حاصل تھی ۔یہ ادبی مجلہ اسلامیہ کالج ،لاہور کے مجلے ’’فاران‘‘،گورنمنٹ کالج جھنگ کے مجلے ’’چناب ‘‘ اور گورنمنٹ کالج ،لاہور کے مجلے ’’راوی ‘‘ کے معیار کا تھا  ۔  مضمون نویسی کے مقابلے میں اول آنے پر دیوندر اسر گورنمنٹ کالج اٹک کے ادبی مجلے ’’مشعل ‘‘کے مدیر متعلم منتخب ہوئے ۔  انھوں نے نو جوان طلبا  میں ذوق ادب کی نمو کے لیے مقدور بھر کوشش کی ۔ان کے کئی مضامین ’’ مشعل ‘‘میں شائع ہوئے ۔ان کے اساتذہ اور ان کے ساتھی طلبا نے ان مضامین کو بہت پسند کیا۔ان کے مضامیں ان کی غیر معمولی قابلیت ،ادبی ذوق، تحقیقی لگن ،وسیع مطالعہ اور دلکش اسلوب کے مظہر تھے ۔  دیوندر اسر کے’’مشعل‘‘ میں شائع ہونے والے  مضامین کی تفصیل حسب  ذیل ہے :


     منٹو ایک ادبی جراح ِ،(2)کچھ ٹیگو ر کے بارے میں ،(3)انسانی زندگی کا معمار اعظم

 ٹیپو سلطان

      اس کے بعد وہ لاہور پہنچے اور ڈاکٹر محمد اجمل اور پروفیسر صدیق کلیم (پیدائش 16۔دسمبر 1921،وفات 10نومبر 2012) سے اکتساب فیض کیا۔یہاں بھی یہ امر لائق توجہ ہے کہ صدیق کلیم 1954میں محکمہ تعلیم سے وابستہ ہوئے ۔یہ بات واضح نہیں کہ دیوندر اسر نے پروفیسر صدیق کلیم سے کب ،کہاں اور کس تعلیمی ادارے میںاستفاد ہ کیا ۔ ڈاکٹر  محمد اجمل نے 1953میں گورنمنٹ کالج لاہور سے بہ حیثیت لیکچرر ملازمت کا آغاز کیا ۔دیوندراسر نے ان سے بھی ان کے گھر میں تعلیم حاصل کی ہو گی   ۔تا ہم یہ بات قابل فہم ہے کہ دیوندر اسر نے اپنے عہد کے  ان عظیم المرتبت ماہرین تعلیم  سے فیضان حاصل کیا جن کی ذات روشنی کا مینار تھی ۔انھیں ان یگانہء روزگار اساتذہ  سے معتبر ربط رکھنے پر بہت نازتھا ۔ایسے اساتذہ اپنی موثر تدریس سے ذرے کو آفتاب بنا دیتے ہیں ۔

اگر کوئی شعیب آئے میسر              شبانی سے کلیمی دو قدم ہے

        دیوندر اسر 1947میں  بھارت چلے گئے اور کان پور میں قیام کیا۔  الہ آباد یونیورسٹی سے 1949میں ایم۔اے معاشیات کی ڈگری حاصل کی۔اس سے  یہ معلوم ہوتا ہے کہ انھوں نے پوسٹ گریجویشن بھارت میں جا کر کی اور اس کے بعد وہ ایک   اخبار  روزنامہ ’’ امرت ‘‘کان پور سے وابستہ ہو گئے ۔ایک جری ، زیرک ،فعال اور مستعد صحافی  کی حیثیت سے انھوں نے جلد ہی  اپنے رفقائے کار میںممتاز مقام حاصل کر لیا۔اس کے ساتھ ساتھ ماہ نامہ ارتقا کان پور ،ماہ نامہ شعلہ کان پور ،ماہ نامہ راہی دہلی سے بھی وابستہ رہے ۔اردو اور انگریزی پر ان کو خلاقانہ دسترس حاصل تھی ۔انھوں نے انگریزی زبان میں شائع ہونے والے مجلات میں بھی اپنے اشہب قلم کی جو لانیاں دکھائیں  ۔زمانہ طالب علمی ہی سے وہ ترقی پسند تحریک سے متاثر تھے ۔وہ فرد کے ہاتھوں فرد کے استحصال  کے سخت خلاف تھے ۔جبرکا ہر انداز مسترد کرتے ہوئے انھوں نے استحصالی عناصر کے مکر کا پردہ فاش کرنے میںکوئی کسر اٹھا نہ رکھی اور حریت فکر و عمل کو اپنا نصب العین بنایا۔ڈاکٹر  غلام جیلانی برق کی تربیت نے انھیں یہ سکھا دیا تھا کہ ہزار خوف ہو لیکن زبان کو ہمیشہ دل اور ضمیر کی آواز پر لبیک کہنا چاہیے ۔دیوندر اسر نے ترقی پسند تحریک میں شامل ہو کر معاشرے کے مظلوم ،مجبور اور بے بس انسانوں کے حقوق کے لیے آوا ز بلند کی ۔انھیں اتر پردیش انجمن ترقی پسند مصنفین  کی مجلس عاملہ کا رکن منتخب کیا گیا ۔وہ انجمن ترقی پسند مصنفین  الہ آباد و کان پور کے سیکر ٹری بھی رہے۔کمیونسٹ پارٹی کی سرگرمیوں میں انھوں نے بھر پور حصہ لیا اس بنا پر انھیں 1950   پا بند سلاسل کر دیا گیا۔ اسی سال وہ کان پور چھوڑ کر دہلی چلے آئے  1953میں وہ ذاتی وجوہات اور اختلافات کی وجہ سے کمیونسٹ پارٹی سے الگ ہوگئے۔ دیوندر اسر نے 1953میںدہلی یونیورسٹی سے بی ۔ایڈ کی ڈگری حاصل کی اور کچھ عرصہ مختلف پرائیویٹ تعلیمی اداروں میں تدریسی خدمات انجام دیتے رہے ۔  اس کے بعد  26۔اکتوبر 1959کو وہ سرکاری ملازمت میں آگئے ۔ ا نھوں نے انگریزی زبان میں شائع ہونے والے مجلات کی ادارت کی اور ان کے  قارئین کو مثبت  شعوروآگہی سے متمتع کرنے میںاہم کردار ادا کیا ۔علم حاصل کرنے کی لگن ان میں کوٹ کوٹ کر بھر ی تھی عالمی کلاسیک کا انھوں نے عمیق مطالعہ کیا تھا۔ان کے علمی اور ادبی ذوق نے انھیں ہمیشہ حصول علم کی طرف مائل رکھا ۔1974میں دیوندر اسر نے کارنیل یونیورسٹی امریکہ سے کمیونیکیشن آرٹس کی ڈگری حاصل کی۔ 31۔اگست 1986کو دیوندر اسر سرکاری ملازمت سے ریٹائر ہو گئے ۔دیوندراسر نے پچاس سے زائد کتب لکھ کر اردو زبان و ادب کی ثروت میں اضافہ کیا ۔زندگی بھر وہ ستائش و صلے کی تمنا سے بے نیاز رہتے ہہوئے پرورش لوح و قلم میں مصروف رہے ۔ان کی زندگی میں کئی نشیب و فراز آئے مگر انھوں نے ہمیشہ خندہ پیشانی سے حالا ت کا سامنا  کیا اور کبھی حرف شکایت لب پرنہ لائے ۔بہ قول شہر یار :

 شکوہ کوئی دریا کی روانی سے نہیں ہے        رشتہ ہی مری پیاس کا پانی سے نہیں ہے

         پاکستانی ادیبوں سے وہ والہانہ محبت اور قلبی وابستگی رکھتے تھے ۔پاکستان میں اردو زبان و ادب کے فروغ پر وہ بہت مسرور رہتے تھے۔پاکستان میں اردو ادب کے ارتقا کو اردو زبان کے روشن مستقبل کے لیے ایک نیک شگون سے تعبیر کرتے تھے ۔حسن ابدال میں ان کے خاندان کو جاننے والے بہت سے بزرگ اپنے سفر آخرت پر روانہ ہو گئے ہیں ، جو باقی ہیں وہ چراغ سحری ہیں ۔اس علاقے میں ان تحریریں بڑی توجہ اور دلچسپی سے پڑھی جاتی ہیں  ۔تاریخ کا ایک مسلسل عمل ہوتا ہے  جس کے زندگی کے تمام معمولات پر دوررس اثرات مرتب ہوتے ہیں ۔زندگی کی برق رفتاریوںنے حالات کی کایا پلٹ دی ہے ۔وقت کی مثال ایک ایسے جوئے رواں کی ہے  جس کی تند و تیز موجیں  لیل و نہار کی گردش اور  زینہء ایام  کے کناروں سے ٹکراتی ،گرادب میں بل کھاتی تیزی سے آگے بڑھ رہی ہیں ۔کوئی شخص اپنی شدید تمنا کے باوجود  وقت کی ان گزر جانے و الی موجوں کے لمس سے دوسری مرتبہ کبھی فیض یاب نہیں ہو سکتا ۔بہ قول مصطفیٰ زیدی:

کوئی لمحہ بھی کبھی لوٹ کر نہیں آیا         وہ شخص ایسا گیا پھر نظر نہیں آیا

       وہ انسانیت کے وقار اور سر بلندی کے علم بردار تھے ۔انھوں نے ادب کی آفاقیت  کے تصور پر ہمیشہ زور دیا ۔پاکستانی اہل قلم کے ساتھ ان کے تعلقات زندگی بھر استوار رہے ۔لاہور اور اٹک کے ساتھ ان کے بچپن اور جوانی کی کئی حسین یادیں وابستہ تھیں ۔وہ ان یادوں کو اپنی زندگی کا بیش بہااثاثہ سمجھتے تھے  ۔وہ پاکستان کے تمام نامور ادیبوں کی علمی و ادبی کامرانیوں کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے تھے ۔بچھڑے دوستوں اور احباب کویادکرتے تو ان کی آنکھیں پر نم ہو جاتیں۔بہ قو ل شہریار :

 زندگی جیسی توقع تھی نہیں کچھ کم ہے          ہر گھڑی ہوتا ہے احساس کہیں کچھ کم ہے
 بچھڑے لوگوں سے ملاقات کبھی پھر ہو گی              دل میں امید تو کافی ہے یقیں کچھ کم ہے


         پاکستان کے ممتاز ادبی مجلات میں دیوندر اسر کے افسانے تواتر سے شائع ہوتے تھے ۔قارئین ادب انھیں بڑی دلچسپی اور وجہ سے پڑھتے تھے ۔دنیا بھر میں ان کے  اسلوب کے مداح بڑی تعداد میں موجود ہیں ۔ان کے افسانے معاشرتی زندگی کے حقیقی مسائل کی تصو یر پیش کرتے ہیں ۔ انھوں نے اپنے مو ثر اسلوب سے انسانیت کے مسائل کے بارے میں جو منظر سامنے لانے کی کوشش کی وہ قاری کو ایک ایسی فضا میں لے  جاتا ہے جو اس کے گرد و نواح میں مو جود ہے ۔آشوب زیست کے اس ماحول میں ان کی دردمندی اور خلوص پر مبنی تحریریں تہذیبی ،ثقافتی اور معاشرتی اقدار کو حقیقی تناظر میں سامنے لاتی ہیں ۔وہ ذات کے بجائے آفاق کو پیش نظر رکھتے تھے ۔ہر قسم کی عصبیت سے دامن بچاتے ہوئے وہ انسانیت کے وقار کواولیت دیتے تھے ۔ان کی تخلیقی تحریریں فرد کو تشکیک سے نجات حاصل کرنے پر آمادہ کرتی ہیں ۔وہ اپنے فنی تجربوں کے وسیلے  سے نئے امکانات تک رسائی حاصل کرنے کے آرزو مند تھے ۔ان کی اہم تصانیف درج  ذیل ہیں :

افسانوی مجموعے :

      گیت اور انگارے (1952)،شیشوں کا مسیحا(1955)،کینوس کا صحر ا(1983)،پرندے اب کیوں نہیں اڑتے ؟(1992)

        ناولٹ :خوشبو بن کے لوٹیں گے (1988)  

     تنقید :فکر اور ادب ،ادب اور نفسیات ،ادب اور جدید ذہن ،ترقی پسند نقاد اور افسانہ نگار ،
         دیوندر اسر نے جدید لسانی مباحث میں ہمیشہ دلچسپی لی۔فرانس کے نئے تنقیدی نظریات کا انھوں نے گہرا مطالعہ کیا تھا ۔اردو ادب میں جدیدیت اور ما بعد جدیدیت کے مباحث پر ان کی وقیع اور عالمانہ رائے کو اہل علم نے ہمیشہ سرا ہا  ۔انھیں اردو ادب میں جدیدیت اور ما بعد جدیدیت کے علمی مباحث  کا پیش رو سمجھا جاتا تھا ۔سوسئیر ،رولاں بارتھ اور دریدا  کے اسالیب کا انھوں نے بہ نظر غائرجائزہ لیا تھا ۔ساختیات ،پس ساختیات اور رد تشکیل  جیسے اہم موضوعات پر ان کے خیالات جہان تازہ کی نوید لاتے تھے ۔ان کی متانت اور ثقاہت  ان احباب کو بہت پسند تھی ۔ارد وتنقید کو جدید دور کے تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے  کے  سلسلے میں ان کی خدمات کو ہمیشہ یاد رکھا جائے گا ۔سیل زماں کے تھپیڑوں نے زندگی کے معمولات کو جس طرح منتشر کر دیا ہے وہ آج کے دور کا بہت بڑا المیہ ہے ۔دیوندر اسر نے اپنی تحریروں میں انسانیت کو درپیش مسائل اور گرد و پیش کے حالات کی اس انداز میںشیرازہ بندی کی ہے کہ قاری ان کی حقیقت نگاری کا قائل ہو جاتا ہے  ۔ایک وسیع المطالعہ نقاد کی حیثیت سے ان کے تجزیے  کو درجہ ء استناد حاصل تھا ۔انھوں نے جدیدیت اور ما بعد جدیدیت کے موضوعات پر اپنے منفر د انداز فکر کو بروئے کار لاتے ہوئے ایسا دل نشیں انداز اپنایا کہ قارئین ادب پر فکر  ونظر کے نئے دریچے وا ہوتے چلے جاتے۔ان کے افکار کے مطالعہ سے یہ حقیقت روز روشن کی طرح واضح ہو جاتی کہ جدید یت کے سوتے تعمیر اور تخریب کے نقطہ ء اتصال سے پھوٹتے ہیں ۔ایام گزشتہ کی کتاب کے اوراق پر نظر ڈالیں تویہ چشم کشا صداقت ہمارے سامنے آتی ہے کہ شکست و ریخت کے پیہم سلسلے کے بعد بالاا خر ایک تعمیری سلسلے کا آغاز  ہو جاتا ہے  ۔انھوں نے واضح کر دیا کہ جدیدیت اپنی نو عیت کے لحاظ سے ایک ایسی سوچ ،رویے اور عمل کی ایک صورت ہے جو اس وقت وقو ع پذیر ہوتی ہے جب زندگی کی اقدار عالیہ کو شدید  خطرات کا سامنا ہو ۔معاشرتی اضمحلال اور فکری ژولیدگی کے باعث ایسی لرزہ خیز ،اعصاب شکن صور ت حال پیدا ہو جائے کہ ر وح زخم زخم اور دل کرچی کرچی ہو جائے۔ افراد کی زندگی ایک ایسے جان لیوا تنائو کی زد میں آ جائے جو فکر و نظر کے تمام نظام کو مکمل  انہدام کے قریب پہنچا دے توجدیدیت اپنی پوری قوت کے ساتھ  اپنے وجود کا اثبات کرتی ہے۔زندگی کا سفر تو جیسے تیسے کٹ ہی جاتا ہے مگر فرد کا پور ا جسم کر چیوں میں بٹ  جاتا ہے  ۔اس طرح ایک نئی احساساتی کیفیت منصہء شہود پر آتی ہے اسی کو اہل نظر جدیدیت سے تعبیر کرتے ہیں   ۔ان کی تصانیف ’’ر وبہ رو ‘‘(1986)،  ’’ادب کی آبرو ‘‘(1992)،’’نئی صدی اور ادب‘‘(2000)کے مطالعہ سے اس رجحان ساز ادیب کے نظریات کے بارے میں مکمل آگہی ملتی ہے ۔ان کی وسعت نظر اور تبحر علمی کی وجہ سے ان کو عزت واحترام نصیب ہوا ۔وہ ایک کم آمیز انسان تھے ۔ادبی گروہ بندی سے وہ  ہمیشہ دور رہے ۔یہی وجہ ہے کہ وہ زندگی کے آخری ایام میں گوشہ نشینی کی زندگی بسر کر رہے تھے۔یہ ایک قابل فہم بات ہے کہ مسلسل شکست دل کے باعث حساس تخلیق کار یہ محسوس کرتا ہے کہ اسے جہان میں کوئی محرم نہیں ملتا ۔قحط الرجال کے موجودہ زمانے میں ہر کوئی اپنی فضا میں د یوانہ وار مست پھرتا ہے ۔اب شہر نا پرساں میںایک حساس تخلیق کار کی چشم ترکودیکھنے والا کوئی دکھائی نہیں دیتا ۔  ۔جنک پوری نئی دہلی کے ایک مکان میںیہ بلند پایہ تخلیق کار نہایت خا موشی  سے پیمانہ ء عمر بھر گیا اور زینہء ہستی سے اتر کر عدم کی بے کراں وادیوں کی جانب سدھار گیا ۔

 نکلا تھا میں صدائے جرس کی تلاش میں        دھوکے سے اس سکوت کے صحرا میں آ گیا

        دیوندر اسر کی شخصیت کا اہم پہلو یہ تھا کہ وہ  ہمیشہ انسانی بنیادوں پر سوچتے تھے   ۔وہ اس امر کی تلقین کرتے تھے کہ افراد کو معاشرتی زندگی میں اچھے شہری کی حیثیت سے اپنی ذمہ داریاں پوری کرنی چاہیں۔ایک فرد کی شخصیت صرف اسی صورت میں  مثبت انداز میں پروان چڑھ سکتی ہے جب وہ معاشرتی زندگی میں معاشرے کے دوسرے افراد سے مر بوط رہے ۔جو ڈالی فصل خزاں میں شجر  سے ٹوٹ جاتی ہے وہ سحاب بہار میں بھی کبھی نمو نہیں پاسکتی ۔  ان کے افسانے معاشرتی زندگی کی عکاسی کرتے ہیں۔ان افسانوں میں تہذیب ،اخلاقیات ،اور آداب معاشرت کے بارے میں متعدد چشم کشا صداقتیں موجود ہیں جو قاری کو خیر اور شر کے بارے میں مثبت شعور و آگہی سے متمتع کرنے کا وسیلہ ثابت ہوتی ہیں ۔ان کے افسانوں کی مقبولیت کا راز ان کے ذوق جمالیات کامرہون منت ہے  ۔اسی کے اعجا ز سے انھیں مقبولیت اور پذیرائی نصیب ہوئی ۔خلوص ،درد مندی اورانسانی ہمدردی ان کے اسلوب کاامتیازی وصف ہے ۔ان کے افسانوںمیں معاشرتی زندگی کے تضادات ،ارتعاشات اور بے اعتدالیوں پر گرفت کی گئی ہے ۔ان افسانوں کے مطالعہ سے قاری پر فکر و خیال کے نئے دریچے وا ہوتے چلے جاتے ہیںاور اس طرح ذہن و ذکاوت کی وسعتوں میں ایک ایسی مشعل فروزاں ہوتی ہے جو وہم گماں کی سفاک ظلمتوں کو کافور کرنے میں معاون ثابت ہوتی ہے ۔یہی فکر پرور روشنی قاری کے لیے خضر راہ ثابت ہوتی ہے ۔ایک زیرک تخلیق کار کی حیثیت سے دیوندر اسر نے تخلیق ادب کے سلسلے میں  اپنے لا شعوری محرکات ، قلبی جذبات و احساسات اور مشاہدات کی اس انداز میں تنظیم  کی ہے کہ ان کی علمی سطح فائقہ کو دیکھ کر قاری ان کے اسلوب کاگرویدہ ہو جاتا ہے ۔انسانیت کے ساتھ قلبی تعلق اوروالہانہ پیار ان کے افسانوں کا نمایاں پہلو ہے ۔ہر معاشرے میں افراد کے ما بین لاگ اور لگائوکی کئی صورتیں موجود  رہی ہیں ۔اردو افسانہ نگاروں نے بالعموم تہذیب و تمدن ،اخلاق اور فنون لطیفہ کے سلسلے میںزندگی کی اقدار عا لیہ کو ملحوظ رکھا ہے ۔یہی اقدار اس عہد کے مجموعی کلچر کی عکاسی کرتی ہیں ۔کاش اہل قلم میں وسعت نظر اور انسانی ہمدردی کے ارفع معائر پر توجہ دینے کی  ایسی روش پروان چڑھانے کی مساعی کامیابی سے ہم کنار  ہوں ۔


           ارد وافسانے میں سعادت حسن منٹو ،غلام عباس ،پریم چند  ،عصمت چغتائی ،احمد ندیم قاسمی ،میرزا ادیب ،سجاد حیدر یلدرم ،حجاب امتیاز علی ،خدیجہ مستور ،ہاجرہ مسرور ،اشفاق احمد ،قرۃ العین حیدر ،علی عباس حسینی اور عظیم بیگ چغتائی نے حق گوئی ،بے باکی ،صداقت اور حقیقت نگاری کی جس درخشاں روایت کی بنیا د رکھی ،آنے والے افسانہ  نگاروں نے اسے لائق تقلید سمجھتے ہوئے اسے پروان چڑھانے کی  مقدور بھرسعی کی ۔اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ معاشرتی زندگی میں اقدار کی زبوں حالی نے اب گمبھیر صورت اختیار کر لی ہے ۔بے حسی کا عفریت ہر سو مسلط ہے ۔اس نوعیت کی بے حسی کسی بھی سماج ،معاشرے اور قوم کے لیے انتہائی برا شگون سمجھا جاتا ہے ۔دیوندر اسر نے اس بڑھتی ہوئی بے حسی سے تنگ آکر گوشہ نشینی اختیار کر لی ۔ان کو اس بات کا یقین تھا کہ اب ہوائیں ہی روشنی کے مستقبل کا فیصلہ کریں گی ۔اسی دئیے کی لو باقی رہ جائے گی جو آلام روزگار کی مسموم فضا میں اپنی تاب و تواں کو بر قراررکھے گا ۔  نامور ادیب مشفق خواجہ نے کہا تھا :


           ’’بڑی حد تک ادیبوں میں یہ احساس پیدا ہو گیا ہے کہ ہم اگر خود کو نہیں منوائیں گے تو دوسرے ہمیں تسلیم نہیں کریں گے ۔حالا نکہ اصل بات یہ ہے کہ کام خود آدمی کو منوا لیتا ہے ۔کام کرنے والے کو      اس بات کی قطعی پروا نہیں ہوتی کہ اس کی قدر کی جا رہی ہے یا نہیں وہ جانتا ہے کہ کام میںجان ہو گی تو اسے اہمیت دی جائے گی ۔‘‘(2

         پاکستان میں دیوندر اسر کے اسلوب کو بہ نظر تحسین دیکھنے والے ممتاز ادیبوں میں ڈاکٹر اعجاز راہی ،ڈاکٹر نثار احمد قریشی ،ڈاکٹر بشیر سیفی ،شہزاد منظر ،محمد منشا یاد ،رام ریاض ،امیر اختر بھٹی ،صاحب زادہ رفعت سلطان ،سجاد بخاری ،شبنم رومانی ،صہبالکھنوی ،نظیر صدیقی ،صابر کلوروی ،غفار بار ،محمد فیروز شاہ ،شبیر احمداختر ،غلام علی چین اور مظفر علی ظفر کا نام قابل ذکر ہیں ۔پاکستان کے اہم ادبی مجلات اب اس جری تخلیق کار کی کسی نئی  ادبی تخلیق کو نہ دیکھ سکیں گے ۔  پنجہ  صاحب ،حسن ابدال ،لاہور اور پاکستان سے ٹوٹ کر محبت کرنے والے اس افسانہ نگار کی یاد میں  یہاں کی بزم ادب برسوں تک سوگوار رہے گی ۔موت کے بے رحم ہاتھو ں نے اس کی کتاب زیست کے تمام اوراق ناخواندہ کو سمیٹ لیا اور  اس نا گفتہ کہانی کو مکمل کر دیا ہے جس کا تعلق ہر جان  دار سے ہے ۔زندگی کی کہانی کا یہی  انجام ہے ۔اسی انداز میں یہ کہانی اپنے اختتام کو پہنچتی ہے لیکن کسی کواس کا احساس و ادراک نہیں ۔

        دیوندر اسر کی وفات سے اردو زبان و ادب کے ارتقا کی کوششو ں کو شدید ضعف پہنچے گا ۔ان کی تصانیف ان کی یاد دلاتی رہیں گی ۔ان کے لفظ ان کی محنت لگن اور خلوص کو سامنے لاتے رہیں گے ۔جس انداز میں انھوں نے اپنی صلاحیتوں کواپنی تخلیقات میں سمو دیاہے وہ ان کی انفرادیت کی دلیل ہے ۔  ایسے صاحب اسلوب تخلیق کار کا نام تاریخ ادب میں محفوظ رہے گا ۔ان کی وفات پر ہر مکتبہ ء فکر کے لوگوں نے دلی رنج کا اظہار کیاہے ۔


 زمیں لوگوں سے خالی ہو رہی ہے        یہ رنگ آسماں دیکھا نہ جائے
 

مآخذ

(1)غلام جیلانی برق ڈاکٹر  :آپ بیتی ، مشمولہ مجلہ نقوش ،لاہور ،آپ بیتی نمبر ،جون ،1964،صفحہ 1269۔

(2)مشفق خواجہ :انٹر ویو،منظر امکانی ،روزنامہ جنگ ،کراچی ،جمعہ ایڈیشن ،18فروری 1994،صفحہ 8۔

Ghulam Ibn-e-Sultan     

Naqad Pura Jhang  City Muhammad Naveed Ahsan House Mustafa Abad Jhang City ,Opposite Pakistan Oil Mills Sargodha Road Jhang City Post code 35204                                               


***************************

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 603