donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Personality
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Farooq Argali
Title :
   Urdu Ke Raushan Raushan Mustaqbil Ki Jawan Jawan Alamat Dr Mansoor Khushtar


اُردو کے روشن روشن مستقبل کی جواں جواں علامت

 

ڈاکـٹر منـصور خـوشتــرؔ

 

 

فـاروق ارگلی

                                                  

(ڈاکٹر منصور خوشتر)

 

 ’’منصور خوشترؔاُردو شاعری کی نئی نسل کے ایک مقبول شاعر ہیں، نئی نسل کے شعراء کی گزشتہ نسل سے اس لیے مختلف ہیں کہ انھوں نے کسی تحریک یا رجحان کی پیروی کرنے کے بجائے خود اپنا راستہ بنانے کی کوشش کی ہے۔ ان کا محاورۂ زبان بھی مختلف ہے اور ان کے موضوع بھی، انھوں نے آسان زبان میں اور عام مسائل کو شاعری کا موضوع بنایا ہے۔ منصور خوشترؔکی ذہنی پرورش چونکہ کلاسیکی اثرات کے تحت ہوتی ہے اس لیے ان کے یہاں فن اور احترام اور جذبات و محسوسات کا اپنی طرح اظہار بہت خوبصورتی کے ساتھ ملتا ہے اور اس خصوصیت کی وجہ سے وہ اپنے ہم عصروں میں ممتاز ہیں۔‘‘ پروفیسر شارب ردولوی
 

بہار کے مردم خیز شہر دربھنگہ کے نوجوان شاعر، ادیب اور صحافی ڈاکٹر منصور خوشترؔبلاشبہ اُردو کی عصری تاریخ کی واحد شخصیت ہیں جنھوں نے اتنی چھوٹی سی عمر میں اپنے کارناموں سے اُردو دُنیا کو حیرت زدہ کردیا ہے۔ شاعری، صحافت اور اُردو زبان و تہذیب کے فروغ کے لیے ان کی غیرمعمولی خدمات کا شہرہ بہار کی سرحدوں سے نکل کر دور دور تک پھیل چکا ہے، منصور خوشترؔاُردو کی نوجوان نسل کے لیے ایک قابل تقلید مثال اور رول ماڈل بن چکے ہیں۔ نہایت معیاری ادبی جریدہ ’دربھنگہ ٹائمز‘ کے مدیر منصور خوشترؔ3؍مارچ 1986ء کو دربھنگہ کے ایک معزز خاندان میں پیدا ہوئے۔ اس حساب سے ابھی وہ صرف 30 سال کے ہیں۔ اُردو ادبیات میں ایم اے اور ایل ایل بی کی ڈگریوں سے آراستہ ہونے کے ساتھ فزیوتھراپی کے باقاعدہ ڈاکٹر بھی ہیں۔ اُردو ادب و صحافت سے ان کا تعلق بچپن سے ہی قائم ہوگیا تھا۔ انھوں نے اُردو پندرہ روزہ ’دربھنگہ ٹائمز‘ 2005ء سے شائع کرنا شروع کیا تھا، جب ان کی عمر صرف اُنیس سال کی تھی اور وہ طالب علم تھے۔ اسے خداداد ذہانت کا کرشمہ ہی کہا جائے گا کہ یہ اخبار ہر لحاظ سے معیاری تسلیم کیا گیا تھا۔ اخبار کا مقصد علاقہ کے مسائل، ریاست کی سیاسی صورتِ حال کے ساتھ ساتھ زبان ادب اور تہذیب کا فروغ بھی تھا۔ اس مقصد کو مزید آگے بڑھاتے ہوئے انھوں نے 2010ء میں المنصور ایجوکیشنل اینڈ ویلفیئر ٹرسٹ قائم کیا۔ اس ادارے کے تحت اُردو ادب اور تعمیری قدروں کے فروغ کے لیے تاریخ ساز ادبی اجتماعات، مشاعرے اور سیمینار منعقد کرکے ریاست بہار ہی نہیں پورے برصغیر میں شہرت و ناموری حاصل کی۔ سماج کے تئیں خلوص اور تعمیری و فکری بصیرت نے منصور خوشترؔکو ریاست کے سینئر سیاسی، سماجی رہنماؤں کی توجہ کا مرکز بنادیا۔ 2010ء میں انھوں نے مسلم مہا پنچایت برائے سماجی انصاف کا دربھنگہ میں شاندار انعقاد کیا، اس سے پہلے 2009ء میں اُردو بیداری کانفرنس منعقد کی جس میں بہار کے سرکردہ دانشوروں نے حصہ لیا۔ اس موقع پر انھوں نے آل بہار مشاعرہ کا اہتمام بھی کیا تھا۔ دربھنگہ کی تاریخ کا یہ ایک یادگار مشاعرہ تھا جس میں ریاست کے مقتدر شعراء نے شرکت فرمائی تھی۔

    ایک سعادتمند شاگرد کا فریضہ ادا کرتے ہوئے انھوں نے اپنے استاد پروفیسر عبدالمنان طرزی کے فن و شخصیت پر ایک قومی اور عالمی سطح کا سیمینار منعقد کرچکے ہیں ۔ انھوں نے ’اُردو صحافت: سمت اور رفتار‘ کے موضوع پر نہایت اہم اور بامقصد سیمینار 2014ء میں منعقد کیا تھا اور رواں سال  2016ء کے اوائل میں ’بہار میں اُردو صحافت‘ کے موضوع پر تاریخ ساز سیمینار کااہتمام کیا۔ یہ اُردو صحافت کی دو صدی تقریبات کے سلسلے میں ایک اہم پیش رفت تھی۔ نامور افسانہ نگار، دانشور اور فی الوقت بہار اُردو اکیڈمی کے سیکریٹری جناب مشتاق احمد نوری نے انہیں خراجِ تحسین پیش کرتے ہوئے کہا:

    ’’ڈاکٹر منصور خوشترؔکا شمار ایک معتبر صحابی کے طور پر ہوتا ہے، اس کے ساتھ ہی وہ ایک بہترین شاعر ہیں اور کہانیوں پر بھی ان کی گرفت ہے۔ منصور خوشترؔکی شناخت ایک سماجی کارکن اور بزنس مین کے طور پر بھی ہوتی ہے۔ ان کے اخلاص اور ان کی محبت کا ایک زمانہ قائل ہے۔ وہ قومی تنظیم کے دربھنگہ بیورو چیف ہیں اور ہر ہفتے ادب پر صفحہ ترتیب دیتے ہیں، جس سے ان کی صلاحیت اور ذہانت کا پرتو جھلکتا ہے۔ ابھی حال ہی میں انھوں نے اُردو صحافت کے سمت و رفتار پر ایک سیمینار بھی دربھنگہ میں منعقد کیا تھا جس میں دہلی اور ممبئی کے صحافی شامل ہوئے اور بہار کی سطح پر بھی جانے مانے صحافیوں نے بھی اپنے مقالات و تقاریر سے نوازا۔ اس سے اس بات کا اندازہ ہوا کہ منصور خوشترؔصرف اُردو صحافی ہی نہیں بلکہ صحافت کے سمت و رفتار پر بھی ان کی نگاہ ہے۔‘‘ 

(خطبہ استقبالیہ صحافت سیمینار ، اُردو اکیڈمی پٹنہ)

    اُردو صحافت سے ڈاکٹر منصور خوشترؔکی بے پناہ دلچسپی کا مظہر ان کی تازہ ترین مرتبہ کتاب ’بہار میں اُردو صحافت‘ ہے، جس میں موجودہ دَور کے نامور صحافیوں اور دانشوروں نے اپنے وقیع مقالات و مضامین میں بہار کی اُردو صحافت کی تاریخ سے لے کر اب تک کے تقریباً تمام ہی گوشوں کو اُجاگر کردیا ہے۔ منصور خوشترؔکی یہ کتاب بہار کی صحافتی تاریخ کے موضوع پر ایک اہم کاوش ہے۔ کتاب کے بارے میں پروفیسر خواجہ محمداکرام الدین لکھتے ہیں:

    ’’بہار میں اُردو صحافت‘ مرتبہ ڈاکٹر منصور خوشترؔایک مستحسن کاوش ہے۔ صحافت کے موضوع پر اس کتاب میں شامل مضامین نہایت ہی وقیع اور مفید مطلب ہیں جو صحافت کے اہم پہلوؤں کا احاطہ کرتے ہیں۔ دبستانِ عظیم آباد کو کئی اعتبار سے ادب کی تاریخ میں معتبر مقام حاصل ہے لیکن کم ہی لوگ جانتے ہیں کہ اُردو صحافت کے حوالے سے بھی اس دبستان نے نمایاں خدمات انجام دی ہیں اور آج بھی عظیم آباد اور صوبہ بہار علم و ادب کے ساتھ ساتھ صحافت اور میڈیا کے میدان میں سرگرم عمل ہے۔ اس کتاب کی ترتیب میں خوشترؔصاحب نے بہت ہی جانفشانی کی ہے۔ مضامین کی ترتیب اس انداز سے کی گئی ہے کہ یہ ایک مستقل کتاب کی صورت میں تبدیل ہوگئی ہے۔ صحافت چونکہ آج کا سب سے اہم موضوع ہے اسی لیے اس جانب خصوصی توجہ دی جارہی ہے اور مختلف زاویوں سے غور و فکر بھی ہورہا ہے۔ پہلے اُردو میں اس موضوع پر کم کتابیں دستیاب تھیں لیکن مقام شکر ہے کہ اُردو ادیبوں نے اس جانب توجہ دی۔ اسی لیے کئی اہم کتابیں منظرعام پر آچکی ہیں۔ یہ کتاب بھی یقینا اس سمت میں ایک اہم اضافے کی حیثیت رکھتی ہے۔ مجھے امید ہے کہ جس طرح کے مشمولات اس کتاب میں موجود ہیں اس سے اس کتاب کو خاص مقبولیت حاصل ہوگی۔ میں منصور خوشترؔصاحب کو اس سعی جمیلہ کے لیے مبارکباد پیش کرتا ہوں۔‘‘

(جواہر لال نہرو یونیورسٹی، نئی دہلی)

    دہلی کے سینئر صحافی اور عرب نیوز جدہ کے ہندستانی نمائندے جناب سہیل انجم نے منصور خوشترؔکی اس کوشس کی داد دی ہے: ’’ڈاکٹر منصور خوشترؔایک سینئر صحافی ہیں۔ ہمعصر اُردو صحافت پر ان کی گہری نظر ہے۔ وہ اس کے رموز و نکات اور اسی کے ساتھ اس کے تقاضوں سے بھی پوری طرح واقف ہیں۔ یہ کتاب ان کی کاوشوں کا ایک نمونہ ہے۔ اس میں صحافت سے متعلق متعدد مضامین شامل کیے گئے ہیں۔ اگرچہ اس کا موضوع بہار میں اُردو صحافت ہے لیکن اس کتاب کے حوالے سے صحافت کی عمومی صورتِ حال کا بھی اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ بہار میں اُردو صحافت کے مختلف پہلو ہیں اور ہر پہلو اپنے آپ میں نمایاں اور قابل توجہ ہے۔ یہ بات بڑی خوش کن ہے اور اہل بہار کے لیے قابل فخر بھی ہے کہ اس ریاست میں صحافت کی ابتدا اُردو زبان کی صحافت سے ہوئی۔ اس کے بعد انگریزی کی صحافت نے جنم لیا اور تیسرے نمبر پر ہندی کی صحافت آتی ہے۔ منصور خوشترؔنے کتاب کی ابتدا میں جو مضمون قلمبند کیا ہے وہ بہار میں صحافت کے متعدد گوشوں پر روشنی ڈالتا ہے۔ کتاب میں بڑا تنوع ہے۔ الگ الگ انداز سے بہار میں صحافت کا جائزہ لیا گیا ہے۔ کوئی بھی گوشہ ایسا نہیں ہے جس پر مضمون شامل نہ ہو۔ مضمون نگاروں میں انتہائی سینئر صحافی اور ادیب بھی ہیں اور نوآموز قلمکار بھی۔ بہار میں اُردو صحافت کا جائزہ لینے یا اس موضوع پر کام کرنے کے لیے یہ کتاب ایک حوالے کی حیثیت سے سامنے آئے گی۔ یہ بڑی خوش آئند بات ہے کہ حالیہ برسوں میں صحافت پر متعدد کتابیں لکھی گئی ہیں۔ یہ کتاب ان میں ایک گرانقدر اضافہ کرتی ہے۔ امید ہے کہ ڈاکٹر منصور خوشترؔآگے بھی اس قسم کے کام کرتے رہیں گے۔‘‘

    2015ء میں ڈاکٹر منصور خوشترؔاُردو کے عظیم صحافی سیّد اجمل فرید مرحوم کے انتقال پر بطور خراجِ عقیدت صحافیوں، ادیبوں اور دانشوروں کے لکھے ہوئے مضامین کا جو مجموعہ ’سیّد اجمل فرید: یادیں  اور باتیں‘ کے عنوان سے شائع کیا وہ اس لحاظ سے نہایت اہمیت کی حامل ہے کہ سیّد اجمل فرید مرحوم کی شخصیت اور غیرمعمولی صحافتی خدمات پر سیرحاصل معلومات کا آئینہ ہے جو اُردو کی آئندہ آنے والی صحافتی نسل کو متاثر کرتا رہے گا۔ یہ شاندار کتاب دہلی کے مؤقر اشاعتی ادارہ ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس سے شائع ہوئی ہے۔ کتاب کی پشت پر ناشر نے جو نوٹ درج کیا ہے وہ پوری طرح مبنی برحقیقت ہے:

    ’’منصور خوشترؔدربھنگہ کی صحافت میں ایسا نام ہے جس کے نقش پا پر چلنے والوں کے آثار بھی دور دور تک نظر نہیں آتے ہیں۔ یوں تو وہ شاعر بھی ہیں لیکن ان کا صحافتی شعور انھیں ممتاز کرتا ہے۔ ان کے اس شعور کا نتیجہ ہے کہ وہ دربھنگہ میں لوگوں کے دلوں کی دھڑکن بنے ہوئے ہیں اور شہر سے دیہی علاقوں تک ان کی صحافت کو دور سے ہی پہچان لیا جاتا ہے۔ صحافت ہو یا ادب اپنی جگہ مستحکم کرنے میں بڑا عرصہ لگ جاتا ہے لیکن جواں حوصلگی اور ذہانت رسا کی کارفرمائی سے منصور خوشترؔنے دربھنگہ ہی نہیں بہار میں منفرد پہچان بنائی ہے، جس کا ثبوت روزنامہ ’قومی تنظیم‘ کے کالموں میں روزانہ کثیر موجودگی ہے وہیں ان کی تازہ کتابیں بھی ہیں جن کا ایک حصہ یہ کتاب بھی ہے۔‘‘

    ناشر کتاب نے ’تازہ‘ لفظ کا استعمال یونہی نہیں کیا ہے، لیکن ان کتابوں نے ان کی علمی بصیرت اور ادبی دسترس کو اچھی طرح واضح کردیا ہے۔ ان کتابوں کو دیکھ کر یہ قیاس بھی ذہن میں  اُبھرتا ہے کہ آنے والے وقت میں دربھنگہ کا یہ نوجوان علم، مطالعہ اور تجربات کے سفر میں آگے بڑھتے ہوئے گزرتے وقت کے ساتھ کیسے کیسے کارنامے انجام دے گا، اندازہ لگانا دشوار نہیں۔ ایک بڑے کاروبار کی ذمہ داریوں ، ساتھ اخبار کی مصروفیات اور سماجی و ثقافتی سرگرمیوں کے ساتھ ہی ان کا ذوقِ مطالعہ اور تصنیف و تالیف سے گہرا شغف عملی طور پر ان کی کتابوں سے ظاہر ہے۔ اُردو فکشن کی تنقید پر ان کی گہری نظر ہے، انھوں نے ’نقد افسانہ‘ کے عنوان سے ایک ایسی کتاب مرتب کردی ہے جس میں دورِ حاضر کے معروف نقادوں کے مقالات شامل ہیں۔ یہ کتاب صرف چند مضامین و مقالات کا کوئی عام مجموعہ نہیں، یہ اُردو افسانہ پر کام کرنے والوں خاص طور پر ادبیاتِ عالیہ کے طلباء کے لیے بہترین رہنما کتاب کی حیثیت رکھتی ہے۔ کتاب کے مشمولات سے مرتب کی ذہنی، شعوری اور علمی استعداد اور بالغ نظری کا اندازہ آسانی سے لگایا جاسکتا ہے۔

    کرشن چندر کی افسانوی کائنات (دیپک بدکی)، ترقی پسند افسانے کی پہلی نقیب: رشیدجہاں (ڈاکٹر ابوبکر عباد)، راجندر سنگھ بیدی کے افسانوں کے فکری سروکار (ڈاکٹر پرویز شہریار)، تانیثیت اور اُردو کی نئی افسانہ نگار خواتین (ڈاکٹر شہاب ظفر اعظمی)، نعیمہ ضیاء الدین اور موہن و مارک کا کرداری تصادم (حقانی القاسمی)، مناظر عاشق ہرگانوی کی کہانی (ڈاکٹر فہیم اعظمی)، انسانیت کا نوحہ گر: اقبال متین (احمد علی جوہر)، منٹو کا تصورِ جنس (حیدر علی)، ہم عصر نسائی بیانیہ اور اس کے متعلقات (یاسمین رشیدی)، متھلا میں اُردو افسانہ نگاری: ایک مختصر جائزہ (ڈاکٹر قیام نیر)، احمد ندیم قاسمی کا فکری و فنی کینوس (ڈاکٹر زرنگار یاسمین)، غزال ضیغم کا تخلیقی وظیفہ

(شاہد الرحمن)

    اسی سال ڈاکٹر منصور خوشترؔکی مرتب کردہ ایک اور کتاب ’اُجالوں کا گھر‘ منظرعام پر آئی ہے۔ یہ بظاہر عہد حاضر کے 21 منتخب افسانوں کا مجموعہ ہے جن کے تخلیق کار آج کے جانے مانے فکشن نگار ہیں۔ افسانوں کا انتخاب منصور خوشترؔکی پسند اور معیار کی پرکھ کا غماز ہے۔ اس کتاب پر جواہر لعل نہرو یونیورسٹی کے اسکالر سلمان عبدالصمد کی رائے اس اہم ترین افسانوی مجموعے کے بارے میں خاصی حقیقت پسندانہ ہے:

    ’’اُردو افسانوی ادب کی سمت و رفتار پر نظر رکھنے والی تاریخ کو معلوم ہے کہ کوئی سوا صدی کے عرصے میں کئی نشیب و فراز آئے۔ کبھی مقصدیت کا غلبہ تو کبھی مثالیت کا بول بالا، کبھی رومانوی فضا تو کبھی پند و نصائح کی گرمی، کبھی کہانی پن سے بے گانگی تو کبھی ذات کے علاوہ دُنیا و مافیہا سے بے خبری۔ تاہم اُردو کہانیاں آج ایسے ساحل/ سنگم پر پہنچ چکی ہیں جہاں زبان و بیان کی عمدگی، مقصدیت و مثالیت کا اشاریہ، سماجی ناہمواریوں کی نشتریت، قصوں کی چمک، پاکیزہ اور دلکش تشبیہات و استعارات کی رمق، داخلیت و خارجیت کے علاوہ دیہی، شہری اور ملکی و قومی مسائل کا ملاپ ہے۔ ’اُجالوں کے گھر‘ میں شامل افسانے بھی اس سمت و رفتار کے صحیح اندازہ کے لیے کافی ہیں۔ مجموعہ کے نام کے لیے یہ استعارہ، رجائیت اور اُردو ادب کی موجودہ صورتِ حال کے تناظر میں انتہائی موزوں ہے۔ اُردو ممالک یا پھر خطہ ارض پر دریافت شدہ اُردو کی نئی بستیوں کے ادبی منظرنامہ سے پتہ چلتا ہے کہ موضوعاتی و لسانی آہنگی ہر جگہ موجود ہے۔ جیسا کہ مرتب ڈاکٹر منصور خوشترؔنے اس کے لسانی آہنگ کو فروغِ مشرقیت کے تناظر میں دیکھا ہے۔ اس آہنگی کو ذرا اور وسعت دینے سے صاف ہوجاتا ہے کہ مشرقی ادب، انفرادی رویوں کے ساتھ، اس قدر قوی اور جامع ہوتی چلی جارہی ہے کہ مغربی ادب کے قریب پہنچ گئی۔ کیونکہ نئی بستیوں میں قیام  پذیر افراد کے اپنے مسائل، اپنی فضا اور اپنے علائق و سروکار ہیں۔ اس کے باوجود بھی مشرقیت سے ہم آہنگی یہ دلیل بن جاتی ہے کہ مشرقی روشنی تمام روشنیوں میں گھلنے لگی ہے۔ ڈاکٹر منصور خوشترؔبیک وقت کئی میدانوں کے شہسوار ہیں۔ سخن فہمی اور صحافت کی نکتہ رسی و تجزیاتی امتزاج سے شعور میں جو بالیدگی پیدا ہوتی ہے ہر سطح پر ہونے والی تبدیلیوں سے اس کا تعلق ہوتا ہے۔ مرتب کی نظر کی یہی گہرائی و گیرائی اس مجموعے میں نظر آتی ہے اس لیے کہا جاسکتا ہے کہ یہ مجموعہ عصری اُردو فکشن کی سمت و رفتار اور اس کے تابناک مستقبل کا اشاریہ ہے۔‘‘

( جواہر لعل نہرو یونیورسٹی، دہلی)

    خوشترؔکی ایک اہم کتاب ہے ’نثرنگارانِ دربھنگہ‘ یہ شہر علم و دانش دربھنگہ کے مشہور و معروف نثرنگاروں کا تذکرہ ہے۔ یہ ایک تحقیقی کام ہے۔ انھوں نے پروفیسر عبدالمنان طرزی کے فن و شخصیت کے بارے میں مشاہیر ادب کی آراء و مکتوبات ’لمعاتِ طرزی‘ کے عنوان سے جمع کردیئے ہیں۔ ان کی ایک تالیف ’ماجرادی اسٹوری‘ بھی ادبی حلقوں میں تذکروں کا موضوع بنی ہوئی ہے۔ دلچسپ بلکہ حیرت ناک بات یہ ہے کہ ان کی تمام مطبوعات گزشتہ دو تین برسوں کے دوران ہی یکے بعد دیگرے منظرعام پر آئی ہیں۔ معلوم ہوا ہے سال رواں کے آخر تک ان کی تازہ ترین نگارشات ’مسلمان اور حکومتیں‘، ’بہار کی اہم شخصیات‘، ناول ’آج اور کل‘ اور ’مکالمہ‘ شائع ہوجائیں گی۔

    ڈاکٹر منصور خوشترؔنے جب سے ’دربھنگہ ٹائمز‘ کو ایک مکمل ادبی میگزین کی صورت میں پیش کرنا شروع کیا ہے وہ اُردو کی ادبی مجلاتی صحافت کے بہت سے برگزیدہ صحافیوں سے بہت آگے نظر آرہے ہیں۔ ’دربھنگہ ٹائمز‘ کو اس عہد کا بہترین ادبی جریدہ بنانے میں منصور خوشترؔنے کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ لائق و فائق اصحاب کی مجلس مشاورت میں پروفیسر مناظر عاشق ہرگانوی، پروفیسر عبدالمنان طرزی، پروفیسر جمال اویسی، حقانی القاسمی، ابوبکر عباد، فیاض احمد وجیہ جیسی شخصیات اس سفر میں ان کی راہ نما ہیں۔ فی الوقت ’دربھنگہ ٹائمز‘ کا تازہ شمارہ ’افسانہ نمبر‘ راقم کے سامنے ہے۔ ساڑھے تین سو صفحات کا یہ ضخیم ’افسانہ نمبر‘ حسن انتخاب اور ترتیب و تدوین کی خوش سلیقگی کا بہترین نمونہ ہے۔ ’افسانہ نمبر‘ کے لیے منصور خوشترؔنے جو اداریہ لکھا ہے اس سے نہ صرف اُردو فکشن پر ان کی عمق نگاہی کا پتہ چلتا ہے بلکہ ان کی رواں دواں، سادہ و شگفتہ نثر سے بھی لطف اندوز ہوا جاسکتا ہے:

    ’’ایک زمانہ تھا جب افسانہ کو بہت ہیٹا سمجھا جاتا تھا۔ جدید دَور کے نقاد نے فن افسانہ کے تعلق سے کتابیں لکھ کر اور اس کے تعلق سے مایوسی جتا کر اُردو معاشرہ میں سنسنی پھیلا دی تھی۔ افسانہ کے تعلق سے نقاد کا منفی رویہ زیادہ دن نہیں چل پایا اور آنے والے تخلیقی زمانوں میں نئے افسانہ نگاروں نے یہ ثابت کردیا کہ افسانہ شاعری ہی کی طرح ایک پرقوت وسیلہ اظہار ہے اور اس صنف کا تخلیقی اثر دیرپا ہوتا ہے۔ جدید دَور کے افسانہ نگاروں میں اقبال مجید، نیر مسعود، سیّد محمد اشرف، حسین الحق، عبدالصمد، شوکت حیات، شموئل احمد، مشرف عالم ذوقی، احمد صفیر وغیرہ دو نسلوں کی نمائندگی کرتے ہیں۔ ان کے افسانے ایک بڑا تخلیقی ہب بن چکے ہیں۔ اُردو کے وہ افسانہ نگار جو ترقی پسندی کے زمانے میں شہرت کی بلندیوں پر پہنچے کرشن چندر، راجندر سنگھ بیدی، عصمت چغتائی، اختر اورینوی، سہیل عظیم آبادی وغیرہ کے ناموں سے جانے جاتے ہیں۔ منٹو، کرشن چندر، راجندر سنگھ بیدی، اختر اورینوی وغیرہ پر اس نمبر میں مضامین شامل ہیں۔ یہ مضامین اکابر افسانہ نگاروں کے فن کا بھرپور احاطہ کرتے ہیں۔ مجھے اُمید ہے کہ ان تنقیدی مضامین کی شمولیت سے افسانہ نمبر کو خاص طور سے پسند کیا جائے گا۔ اُردو افسانہ کو عموماً تین ادوار میں تقسیم کیا جاتا ہے۔ ترقی پسندی کا دَور، جدیدیت کا دور اور مابعد جدید افسانوں کا دَور، ان تینوں ادوار میں ترقی پسند افسانوں کے دور کو سنہری دور سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ ترقی پسند افسانے کی زمین پریم چند ہموار کرچکے تھے۔ اس زمین پر عظیم الشان عمارت سعادت حسن منٹو، کرشن چندر، راجندر سنگھ بیدی، احمد ندیم قاسمی، عصمت چغتائی، اختر اورینوی اور قرۃ العین حیدر نے تعمیر کی۔ جدید دور میں بلرام مین را، انور سجاد، رشید امجد، منشایاد، الیاس احمد گدی، سلام بن رزاق، غیاث احمد گدی، کلام حیدری، ظفر اوگانوی، حمید سہروردی، نیر مسعود، اقبال مجید، اقبال متین کے افسانے اہم ہیں لیکن یہ افسانہ نگار منٹو، کرشن چندر، بیدی وغیرہ کے مقابلہ میں اپنی طاقتور پہچان نہیں بنا سکے۔ ایک دو افسانہ نگار جیسے ضمیرالدین احمد نے افسانہ کے قالب میں بڑی تبدیلی پیدا کرکے اسے دوبارہ اس رفعت تک پہنچانے کی کوشش کی جہاں یہ پہلے تھا۔ افسانہ کے تعلق سے یہ سمجھا جاتا ہے کہ یہ ناول کا مخفف ہے جو ایک غلط فہمی ہے۔ ناول قصہ کی ایک شکل ہے لیکن افسانہ ناول سے نہیں نکلا۔ ناول ایک مہابیانیہ ہوتا ہے، ٹھیک اسی طرح جیسے شاعری میں ایپک مہابیانیہ ہوتا ہے۔ ناول کا کینوس وسیع ہوتا ہے۔ جدید زمانہ میں اُردو میں کئی ایسے ناول لکھے گئے ہیں جو بے حد متنوع ہیں۔ مشرف عالم ذوقی کے ناولوں نے ایک نئے معیار اور بلندی کو چھوا ہے۔ بات اگر مختصر افسانہ کی کی جائے تو شموئل احمد، حسین الحق، احمد صغیر، خورشید اکرم وغیرہ مابعد جدید عہد کے نمائندہ افسانہ نگار ہیں جنھوں نے جدیدیت کی اینٹی کہانی (Anti Story) کے تصور کو توڑا ہے اور پریم چند اور منٹو کے بیانیہ اور اسلوب کا دوبارہ احیاء کیا ہے۔ اب جس خط پر افسانہ رواں دواں دِکھائی دیتا ہے وہ نہ نرا ترقی پسند ہے اور نہ اندھی جدیدیت کا غماز ہے بلکہ ان دونوں سے ایک تیسری مختلف شکل اختیار کیے ہوئے ہے۔ اس حقیقت کا احساس نمبر میں شامل افسانوں کا مطالعہ کرنے کے بعد ہوگا۔ نئے افسانہ نگاروں نے افسانہ کے فن کو انشائیہ بننے سے بچایا ہے۔ جدیدیت کے زمانہ میں افسانہ اور انشائیہ کا فرق مٹ گیا تھا۔ جدید دَور میں خواتین افسانہ نگاروں کی ایک بڑی تعداد اُبھر کر آئی ہے جو فن افسانہ کی خدمت میں لگی ہوئی ہے۔ شہاب ظفر اعظمی اور یاسمین رشیدی کا مضمون اس تعلق سے پڑھنے لائق ہے۔ افسانہ کی تنقید کے تعلق سے بھی نئی نسل میں کئی نام ایسے اُبھر کر سامنے آئے ہیں جو مسلسل مضامین لکھ رہے ہیں اور انھوں نے ہمعصر اُردو ادب میں بحیثیت فکشن نقاد اپنی پہچان بنالی ہے۔ میری مراد ڈاکٹر شہاب ظفر اعظمی، ڈاکٹر ابوبکر عباد، ڈاکٹر ہمایوں اشرف، حقانی القاسمی وغیرہ سے ہے۔ کسی زمانہ میں فکشن کی تنقید لکھنے والے کم تھے، آج کے دَور میں یہ کمی دُور ہوگئی ہے۔ جس سرزمین سے ’دربھنگہ ٹائمز‘ نکلتا ہے اس سرزمین سے اُبھرنے والے افسانہ نگاروں میں قیام نیر، سہیل جامعی، اظہر نیر، مجیر احمد آزاد، فیاض احمد وجیہ جیسے مشہور لکھنے والے افسانہ کے علاوہ تنقید بھی لکھ رہے ہیں۔ ان کے افسانے اس لائق ہیں کہ ان کا تنقیدی محاکمہ کیا جائے۔ دربھنگہ کی حیثیت ایک دبستان کی ہے۔ شاعری اور تنقید کے حوالہ سے یہ سرزمین بہت پہلے سے مین اسٹریم ادب کا حصہ بنی ہوئی ہے۔ آج افسانہ نگاری کے حوالے سے بھی اسے شہرت حاصل ہے۔ دربھنگہ تعلیمی مرکز کی حیثیت سے جانا جاتا ہے۔ ہمعصر اُردو ادب کے بڑے لکھنے والوں کا یہ مرکز بن چکا ہے۔ مابعد جدید دَور کی یہ بھی ایک یافت کہی جاسکتی ہے۔‘‘

(ڈاکٹر منصور خوشتر)

    بنیادی طور پر خوشترؔایک خوش فکر اور خوشنوا شاعر ہیں۔ نئی نسل کے غزل گو شعراء کے ہجوم میں یہ بالکل نئی آواز کئی معنوں میں اپنی مخصوص پہچان رکھتی ہے۔ ان کی غزلوں کا اوّلین مجموعہ ’کچھ محفل خوباں کی‘ گزشتہ سال شائع ہوا تھا۔ یہ خوبصورت مجموعہ انھیں نئی نسل کا نمائندہ شاعر ثابت کرنے کے لیے کافی ہے۔ بقول پروفیسر شارب ردولوی: ’’منصور خوشترؔاُردو شاعری کی نئی نسل کے ایک مقبول شاعر ہیں، نئی نسل کے شعراء کی گزشتہ نسل سے اس لیے مختلف ہیں کہ انھوں نے کسی تحریک یا رجحان کی پیروی کرنے کے بجائے خود اپنا راستہ بنانے کی کوشش کی ہے۔ ان کا محاورۂ زبان بھی مختلف ہے اور ان کے موضوع بھی، انھوں نے آسان زبان میں اور عام مسائل کو شاعری کا موضوع بنایا ہے۔ منصور خوشترؔکی ذہنی پرورش چونکہ کلاسیکی اثرات کے تحت ہوتی ہے اس لیے ان کے یہاں فن اور احترام اور جذبات و محسوسات کا اپنی طرح اظہار بہت خوبصورتی کے ساتھ ملتا ہے اور اس خصوصیت کی وجہ سے وہ اپنے ہم عصروں میں ممتاز ہیں۔‘‘

    منصور خوشترؔکی شاعری کے بارے میں پروفیسر عبدالمنان طرزی کی رائے ہے کہ ان کی شاعری بنیادی طور پر رومانی شاعری ہے۔ یہ اور بات ہے کہ ہر غزل میں ایک دو شعر مسائلِ حاضرہ کے ترجمان ہیں۔ ان کی غزلوں میں کفایت لفظی برتنے کے سبب بندش میں بڑی جہتیں پیدا ہوگئی ہیں اور اس کے نتیجے میں تاثیر اور دھارداری، ان کی چھوٹی بحروں کی غزلیں جس کی بہت نمایاں مثال ہیں۔ عشقیہ شاعری بھی ہمارے شعر و ادب کا ایک قیمتی حصہ ہے۔ آج عام طور سے عصری آگہی اور مسائل حاضرہ پر شعری دفاتر دیکھنے کو مل رہے ہیں۔ ایسے میں ان کی شاعری اُردو غزلیہ ادب کی ایک اہم کمی کو پورا کرتی ہے۔‘‘

    ڈاکٹر مناظر عاشق ہرگانوی کی رائے میں ’’منصور خوشترؔکی غزلوں میں زمان و مکان کی حدوں کو توڑ کر بے کراں ہونے کی صلاحیت یقینا ہے۔ منصور خوشترؔنے حیات و کائنات کی بڑھتی ہوئی پیچیدگیوں اور انکشافاتِ کائنات و ذات اور معاشرہ کے انگنت امکانات کو اپنی غزلوں سے محسوس کرایا ہے۔ ان کے لہجے اور فکری میلان میں قدیم و جدید اور روایت و بغاوت کی جو کشمکش نظر آتی ہے وہی ان کے یہاں صحت مند اور تعمیری تشکیک بن گئی ہے۔‘‘

    پورے ملک کی طرح بہار میں بھی نئی نسل کے شاعروں کی کمی نہیں۔ موجودہ دور میں طباعت و اشاعت کی آسانیوں نے ہمہ شمہ کو بھی صاحب کتاب بنادیا ہے، لیکن اس انبوہ میں کچھ خاص بہت کم ہی نکلتے ہیں۔ یہ تو نہیں کہا جاسکتا کہ منصور خوشترؔکی شاعری فنی اعتبار سے پوری طرح پختہ اور سقائم سے پاک ہے لیکن اس میں بہت کچھ ایسا ہے جو انھیں خاص بناتا ہے۔ منصور خوشترؔنے بہرحال غزل شناسوں کی بڑی تعداد کو اپنی جانب متوجہ کیا ہے۔ بزرگ شاعر اور برگزیدہ ادبی شخصیت جناب عطا عابدی کا تبصرہ فی الوقت منصور خوشترؔکا بہترین شعری تعارف ہے:

    ’’منصور خوشترؔپرعزم، خوشدل اور منکسر المزاج نوجوان شاعر ہے۔ اس کی شاعری ایک ایسے نوخیز پودے کی طرح ہے جو بزرگوں کی دعاؤں، زندگی کی اداؤں اور ذوق و جستجو کی شائستہ فضاؤں میں اپنی آبیاری پر یقین رکھتا ہے۔ اسے معلوم ہے کہ مشقِ سخن کے ساتھ ساتھ ذاتی تجربات و مشاہدات کی اپنی اہمیت ہوتی ہے۔ لہٰذا وہ ذہن و دل کے ساتھ ساتھ چشم ظاہر و باطن کو متحرک رکھتا ہوا منزل کی طرف گامزن دِکھائی دیتا ہے۔ جادۂ سخن کے اس نئے مسافر کی حوصلہ افزائی یوں بھی ضروری ہے کہ فی زمانہ نوخیز نسلوں میں اُردو زبان پڑھنے لکھنے کا شوق تکلیف دہ حد تک کم سے کم ہوتا جارہا ہے، ایسے میں منصور خوشترؔجیسے نوجوانوں کا شعر و ادب سے دلچسپی لینا بلکہ اُردو صحافت اور ادب کی گوناگوں سرگرمیوں کا سبب بننا ایک ایسا عمل ہے جس کی پذیرائی نہ کرنا ہماری سنگین بخالت ہوگی۔ جہاں تک منصور خوشترؔکی شاعری کا تعلق ہے ، خوشی ہے کہ اس کا مزاج و مذاق تعمیری جہت سے ہم آہنگ ہے، منصور خوشترؔکی شاعری کو ہم اس کی شاعری کی عمر و فکر کی روشنی میں دیکھیں تو ایک گونہ مسرت کا احساس ہوتا ہے کہ فکری و فنی پختگی ایک عمر کی ریاضت کا نتیجہ ہوتی ہے اور بہت جگہ تو ایک عمر کے بعد بھی یہ پختگی نہیں آتی لیکن منصور خوشترؔکے شعری اطوار سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ جس انداز میں وہ اپنی کاوشیں و فکر پیش کررہے ہیں وہ ایک عمر کی ریاضت کے بعد ہی سہی پختگی سے نوازے گی۔‘‘

(تقریظ ، کچھ محفل خوباں کی) 

    اپنی شاعری کے بارے میں منصور خوشترؔکا یہ بیان بھی ان کے اندر چھپے ہوئے ہونہار شاعر سے بخوبی متعارف کراتا ہے۔ اپنے اس اوّلین مجموعۂ غزل میں ’اپنی باتیں‘ کے تحت لکھتے ہیں: ’’زندگی میں مسلسل مایوسی، محرومی، ناکامی، اپنوں کی بے اعتنائی اور غیروں کی دل آزاری کسی حساس انسان کے لیے شکست دل اور زخم جگر کا سبب بنتی ہے۔ بے کس و بے یاری کا جذبہ پیدا ہوتا ہے۔ دل روتا ہے، آنکھیں نم ہوتی ہیں، ایسے حالات میں غیرشعوری طور پر غموں کا اظہار موزوں الفاظ کا وسیلہ تلاش کرلیتا ہے اور بقول فضا ابن فیضی:

سسکیاں کرتی ہیں اعجازِ غزل خواں پیدا

    میری غزل گوئی یا غزل سرائی بھی کچھ ایسے ہی حالات کی عطائے بے بہا ہے۔ پہلا مرحلہ تو صرف گنگنانے تک رہا لیکن رفتہ رفتہ عروسِ سخن سے قربت حاصل ہوتی گئی اور ریت پر مشقِ نامِ لیلیٰ کے عمل نے ایوانِ غزل کی دائمی رکنیت حاصل کرلی۔ دینی علمی بساط، زورِ نگارش، توانیِ  اظہار اور فنی استعداد کی بنیاد پر مصارع اور اشعار وجود پذیر ہوتے رہے اور تبدریج نقشِ اوّل سے نقشِ ثانی بہتر کے مراحل طے کرتا ہوا منزل تک پہنچا ہوں اور وہی سرمایۂ منزل پیشِ قارئین ہے۔

ان سے قربت کا وسیلہ بن گئی
کام بھی خوشترؔ کو خوب آئی غزل

    اور اب پیش ہیں منصور خوشترؔ کے چند اشعار جن کے آہنگ میں اس جوان العمر شاعر کی فکری بالیدگی اور بلندیوں کی جانب تیز پروازی صاف جھلکتی ہوئی محسوس ہوتی ہے:

بے وفا لوگوں سے خوشترؔ مت ملو
پتھروں سے شیشے ٹکراتے ہو کیوں؟

………

اس میں بھی اِک سازش ہوگی دشمن کی
آپ ہمارے گھر آخر کیوں آئیں گے

………

بس اسی کو محبت سمجھتے ہیں وہ
گاہے گاہے مرے گھر جو آتے رہے

………

میں نے ماضی کی ہر اِک بات بھلا دی خوشترؔ
ہو خوشی اپنی، کسی اور کا غم، یاد نہیں

………

میزبانی پہ تری آنچ نہ آنے دوں گا
تم بناکے کبھی دیکھو مجھے مہماں اپنا

………

محبت کرنے والوں کا الگ اِک اپنا مذہب ہے
وہ راہِ عشق میں سود و زیاں دیکھا نہیں کرتے

………

مسکرا کر اُس نے دیکھا ہی تو تھا
دل میں کیوں ہے شورشِ طوفان کچھ

………

تو کسی کی بیاض ہے جیسے
ہر غزل انتخاب کیا کہنا

………

ایک لعنت ہے یہ نئی تہذیب
کاش صحرا ہی میں مکاں ہوتا

………

نئی تہذیب ہی نے کی ہے نیوروسرجری جو
ہمارا خود ہمارا چہرہ اب لگتا نہیں ہے

………

عزم سے اپنے کیا طاقِ یقیں کو روشن
بدگمانی کے بتوں کو ہے گرایا میں نے

………

    ڈاکٹر منصور خوشترؔ اپنی تصنیفی، تخلیقی، صحافتی اور کاروباری مصروفیات کے ساتھ ساتھ سماجی، اصلاحی، ادبی اور تعلیمی تنظیموں کی سرگرمیوں میں بھی جوش و خروش کے ساتھ حصہ لیتے ہیں۔ مسلم بیداری کارواں بہار کے سرپرست ہیں۔ انجمن فروغِ اُردو بہار کے ریاستی سیکریٹری، دربھنگہ میڈیا اسپورٹس کلب کے نائب صدر، انجمن ادبی چوپال دربھنگہ کے سیکریٹری، انجمن فروغِ اُردو دربھنگہ کے جنرل سیکریٹری اور ضلع اوقاف کمیٹی دربھنگہ کے نائب سیکریٹری ہیں۔ اپنے ادارے المنصور ٹرسٹ کے تنہا روحِ رواں ہیں۔ بہار کے اکثر دوستوں کا خیال ہے کہ اب سے پہلے اس قدر محنتی، فعال اور متحرک نوجوان دیکھنے میں نہیں آیا۔ ان کی خدمات کے اعتراف میں متعدد اعزازات و انعامات انھیں حاصل ہوچکے ہیں جن میں 2009ء میں صحافت ایوارڈ، سال رواں میں منعقد عالمی کانفرنس میں عمر فرید ایوارڈ برائے صحافت، سابق وزیر اعلیٰ بہار جناب لالو پرساد یادو کے ہاتھوں سے 25ہزار روپیہ انعام ، 2012ء میں ڈان باسکو اسکول کا ایوارڈ برائے صحافت،2013ء میں حکومت ہند کے شعبۂ نشر و اشاعت کا ایوارڈ برائے صحافت، اسی سال (2016) میں ’نثرنگاران دربھنگہ‘ پر اور ’کچھ محفل خواہاں ‘ پر اترپردیش اُردو اکادمی کے انعامات کے علاوہ الفلاح یونیورسٹی کی جانب سے نمایاں صحافتی خدمات کے ایوارڈ سے سرفراز ہوچکے ہیں۔ لیکن  ابھی تو یہ شروعات ہے ۔ ادب و صحافت کو ان سے بہت سی توقعات وابستہ ہیں۔ خوشترؔ ایک کامیاب بزنس مین ہیں، مگر ان کا نصب العین ہے:

خدمت خلق خدا کافی ہے خوشترؔ کے لیے
پیدا ہو محنت سے جو اس کو وہ دولت چاہیے



پتہ: ڈاکٹر منصور خوشتر
شوکت علی ہاؤس، پرانی منصفی، لال باغ، دربھنگہ، بہار
موبائل: 09234772764

********************************

 

 

 

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 671