donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Personality
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Dr. Mushtaq Ahmad
Title :
   Prof Shakilur Rahman : Danishwari Ke Aik Raushan Chiragh


 پروفیسر شکیل الرحمان: دانشوری کے ایک روشن چراغ


ڈاکٹر مشتاق احمد

پرنسپل مارواڑی کالج، دربھنگہ

ای میل :rm.meezan@gmail.com

موبائل:9431414586

 

بیسویں صدی کے ایوان اردو ادب میں جن چند شخصیات کی دانشوری کے چراغ روشن تھے ان میں پروفیسر شکیل الرحمان کو اولیت حاصل تھی۔ انہوںنے نہ صرف اردو تنقید کے شجر کو تناوری بخشی بلکہ ایک خاص تنقیدی اسکول ’جمالیات‘ کو اعتبار کا درجہ بخشا۔ سچائی تو یہ ہے کہ حالیہ صدی میں جمالیاتی تنقید اور پروفیسر شکیل الرحمان کا نام لازم وملزوم بن گیا تھا اور کیوں کر نہ ہوتا کہ ان کے افکار ونظریات کا محور ومرکز ’مطالعہ جمالیات‘ ہی تھا اور اس شعبہ میں انہوںنے جو اپنے واضح نقوش ثبت کئے ہیں وہ ابدیت کے حامل ہیں۔ ان کی مطبوعہ تصانیف پر ایک سرسری نگاہ ڈالنے سے بھی یہ حقیقت عیاں ہوجاتی ہے کہ ان کی مکمل زندگی کتابوں کے درمیان گزری تھی۔ وہ اردو کے ایک ادیب ونقاد ہی نہیں تھے بلکہ ایک تخلیقی فنکار بھی تھے۔ انہوںنے اپنی ادبی زندگی کا آغاز افسانہ نگاری سے کیا تھا اور ناول نویشی میں بھی کامیاب طبع آزمائی کی تھی مگر تنقید کی دنیا انہیں فکشن سے دور کرتی چلی گئی۔ بالخصوص مطالعہ جمالیات نے انہیں اپنے سحر میں کچھ اس طرح باندھے رکھا کہ دوسری دنیا کی طرف توجہ قدرے کم رہی۔ لیکن یہ اردو ادب کی خوش قسمتی تھی کہ پروفیسر شکیل الرحمان نے جمالیات کی دنیا کی سیر کو ہی اپنا مامن ومسکن بنایا۔ ذرا ان کی کتابوں کی فہرست کو دیکھئے، یقین نہیں آتا کہ ایک گوشت پوشت کا لتھرا علم وآگہی کا اتنا بڑا زخیرہ چھوڑ جائے گا۔ اساطیر کی جمالیات، مولانا رومی کی جمالیات، جمالیات حافظ شیرازی، کبیر کی جمالیات، نظیر اکبر آبادی کی جمالیات، تصوف کی جمالیات، محمد قلی قطب شاہ کی جمالیات، کلاسکی مثنویوں کی جمالیات، غالب کی جمالیات، مرزا غالب اور ہند مغل جمالیات، فراق کی جمالیات، فیض احمد فیض کی جمالیات، ہندوستانی جمالیات، مجتبیٰ حسین کا فن - جمالیاتی تناظر، امیر خسرو کی جمالیات اور ہندوستان کا نظام جمال- بدھ جمالیات سے جمالیات غالب تک (تین جلدیں) ہندوستانی جمالیات (تین جلدیں) ’قرآن حکیم- جمالیات کا سرچشمہ‘ وغیرہ۔ اس کے علاوہ غالب اور مغل مصوری، غالب کا داستانی مزاج، رقص بتان آذری، منٹو شناسی، فکشن کے فنکار پریم چند، داستان امیر حمزہ اور طلسم ہوشربا، اخترالایمان جمالیاتی لیجنڈ، محمد اقبال، ابوالکلام آزاد اور راگ راگنیوں کی تصویریں، ان کی ایسی تصانیف ہیں کہ جن کے ذکر کے بغیر تاریخ ادب کا مکمل ہونا ناممکن ہے۔ ان کی خود نوشت ’آشرم‘ اور ناول ’سمندر کا سفر‘ کے ساتھ ساتھ سفر نامہ’قصہ میرے سفر کا‘ دیوار چین سے بت خانہ چین تک‘ لندن کی آخری رات اور ’دربھنگے کا جو ذکر کیا‘۔ اردو نثر پارے کے گنج ہائے گراں مایہ کی حیثیت رکھتے ہیں۔


افسوس صد افسوس کہ آسمان اردو ادب کا یہ درخشندہ ستارہ 9مئی 2016 کی رات دس بجے ہمیشہ ہمیشہ کے لئے گم ہوگیا۔ انا لللہ وانا الیہ راجعون۔ پروفیسر شکیل الرحمان کی پیدائش18 فروری 1931 ء میں موتیہاری صوبہ بہار میں ہوئی تھی۔ ان کی ابتدائی تعلیم موتیہاری میں ہوئی، پھر وہ اعلی تعلیم کے لئے پٹنہ روانہ ہوئے اور پٹنہ یونیورسٹی سے ہی ایم اے اردو، پی ایچ ڈی اور ڈی لٹ کی ڈگریاں حاصل کیں۔ انہوں نے اپنی عملی زندگی کا آغاز بحیثیت اردو لکچرر 1974 میں کشمیر یونیورسٹی سری نگر سے کیا جہاں وہ 1978 تک رہے۔ کشمیر یونیورسٹی میں ہی ریڈر، پروفیسر اور صدر شعبہ بھی ہوئے۔ 1978سے 1980 تک بہار یونیورسٹی مظفر پور کے وائس چانسلر رہے لیکن یہاں کی فضا انہیں راس نہیں آئی اور وہ پھر وادی کشمیر لوٹ گئے جہاں انہیں وائس چانسلر بنایا گیا۔ 1988 میں پروفیسر شکیل الرحمان ایک بار پھر بہار لوٹے اور للت نارائن متھلا یونیورسٹی کے وائس چانسلر بنائے گئے لیکن یہاں بھی ان کی اصول پسندی ان کی راہوں میں حائل ہوگئی اور یہاں کے سیاست دانوں سے ان کی ٹھن گئی۔ نتیجہ یہ ہوا کہ اس وقت کے گورنر گوبند نارائن سنگھ نے انہیں وائس چانسلر کے عہدے سے برطرف کردیا۔ان کی یہ برطرفی ان کی زندگی میں ایک موڑ ثابت ہواکہ وہ دربھنگہ پارلیمانی حلقہ سے 1989 میں ممبر پارلیامنٹ منتخب ہوئے اور چندر شیکھر سنگھ کی کابینہ میں وزیر صحت بھی بنائے گئے۔ مگر چونکہ وہ سیاسی میدان کے آدمی نہیں تھے اس لئے جلد ہی پھر دنیائے ادب میں لوٹ آئے اور اس کے بعد پھر کبھی سیاسی کوچے کی طرف مڑ کر نہیں دیکھا۔ 

ادب اور زندگی کے تئیں ان کا ایک واضح تصور تھا، وہ ادب برائے زندگی کے قائل تھے جس کا اعلانیہ ان کی پہلی کتاب ادب اور نفسیات میں واضح ہے۔جدید شاعری کے نئے چراغ، ادبی قدریں اور نفسیات، اقبال روشنی کی جمالیات، اقبال اور فنون لطیفہ اور دست فکر(تنقیدی مضامین کا مجموعہ) میں بھی انہوں نے اپنے نظریہ زیشت اور نظریہ ادب کی وضاحت کی ہے۔ جیسا کہ پہلے ہی یہ ذکر آچکا ہے کہ پروفیسر شکیل الرحمان کے افکار ونظریات کا محور ومرکز جمالیات رہا ہے، بالخصوص اساطیر کی جمالیات ان کے لئے خاص مطالعہ کی چیز رہی ہے۔ جیسا کہ وہ لکھتے ہیں :

’’دراصل انیسویں صدی میں سائنسی ذہن نے پہلی بار ذہن انسانی کی تاریخ کے قوانین کا مطالعہ کیا اور اسطور کو ایک بڑا ذریعہ سمجھا ۔ اس سے قبل ہی علمائے اساطیرے نے مطالعے کی بنیاد مضبوط کردی تھی، اس بنیا د کے بغیر کسی سائنسی قدر کی پہچان مشکل تھی۔ اسطوری علامات کی کائنات وسیع ، تہہ دار اور جہت دار ہے۔ یہ علامات گہرائیوں سے آشنا کرتی ہیں اس طرح تخیل کی شادابی، زرخیزی اور بلندی کا احساس ہوتا ہے اور ساتھ ساتھ اقدار کے تصادم اور ان کے تسلسل کے تعین میں بھی بیداری پیدا ہوتی ہے۔‘‘

(اساطیر کی جمالیات، ص12)

پروفیسر شکیل الرحمان کی نگاہ میں امیر خسرو ہوں کہ کبیر، رومی ہوں کہ نظیر اکبر آبادی، غالب ہوں کہ اقبال، فراق ہوں کہ فیض، پریم چند ہوں کہ منٹو، سب کے سب جمالیاتی نقوش کے شاعر وفنکار ہیں۔ اس لئے وہ ان تمام فنکاروں کا مطالعہ جمالیات کی قوس وقزح کی روشنی میں کرتے ہیں۔ جب وہ کبیر کا مطالعہ کرتے ہیں تو وہ یہ ثابت کرتے ہیں کہ ’کبیر جمالیات اور آرچ ٹائپ اور سائیکی کے تعلق سے بیداری کے وہ بہت بڑے شاعر ہیں۔‘‘ اور جب نظیر اکبر آبادی کی شاعری پر تبصرہ کرتے ہیں تو لکھتے ہیں کہ’’ ان کی جمالیات میں انسان، اس کی تمدنی اور تہذیبی زندگی، مناظر حسن وجمال، مظاہر کائنات، رقص حیات، محبتوں کے نغمے، قہقہے، مختلف قسم کی خوبصورت آوازوں کا آہنگ، سب شامل ہیں۔‘‘

میر، غالب، اقبال اورفیض وفراق کے یہاں بھی انہیں صرف اور صرف جمالیات کی دنیا آباد نظر آتی ہے اور ان شعرا کے جمالیاتی تجربہ کو جہان ادب کے لئے سرمایہ عظیم قرار دیتے ہیں۔ اختر الایمان کی نظموں میں بھی انہیں پوری نسل انسانی سانس لیتی ہوئی نظر آتی ہے اور وہ اس لئے کہ اختر الایمان کے لاشعور میں جمالیاتی عکس کارفرما ہے۔ وہ فیض احمد فیض کو دنیائے ادب کا ایک عظیم شاعر اس لئے تسلیم کرتے ہیں کہ ان کی نگاہ میں :

’’فیض کی شخصیت کا ارتقا اسی تہذیب میں ہوا ہے، ان کی شاعری اسی تہذیب کی جمالیات کے مختلف پہلوئوں کو پیش کرتی ہے۔ ان پہلوئوں اور جہتوں کو ہیومنزم کے جمالیاتی مظاہر سے تعبیر کرنا مناسب ہوگا۔ فیض کا اپنا منفرد رومانی، جمالیاتی شعور واحساس ہے جو اس عہد کی دین ہے۔‘‘

(فیض احمد کی جمالیات، ص10) 

شکیل الرحمان کی نگاہ میں شاعری ہو کہ فکشن جہاں کہیں بھی جمالیاتی حس کی کافرمائی نہیں ہوتی وہ شاعری یا نثر نگاری قاری کی دلکشی کا باعث نہیں ہوسکتا۔ اس لئے کسی بھی تخلیق کار کے لئے حسی طور پر بیدار ہونا ضروری ہے، اگر فنکار یا تخلیق کار فطرت کے اس عطیہ سے محروم ہے تو اس کے فن میں ابدیت نہیں آسکتی ہے۔ شکیل الرحمان منٹو کے افسانوں کے حوالے سے اس بنیادی حقیقت کو واضح کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور جب پریم چند کا مطالعہ پیش کرتے ہیں تو پریم چندکی ’دھنیا‘ اور ’مادھوو گھیسو‘ کی تصویروں میں بھی انہیں جمالیات کا پرتو دکھائی دیتا ہے۔ دراصل شکیل الرحمان زندگی کی جمالیات کی گہرائی اور گیرائی تک رسائی رکھتے ہیں اس لئے وہ جب کسی بھی کردار کا تنقیدی جائزہ لیتے ہیں تو اس کردار کی زندگی کے اسرار ورموز میں جمالیات کو کارفرما دیکھتے ہیں۔

*************************

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 591