donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Personality
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Dr. Mushtaq Ahmad
Title :
   Ateeq Muzaffarpuri : Apne Safar Ka Tanha Musafir


عتیق مظفرپوری: اپنے سفر کا تنہا مسافر


(پہلی برسی پر خصوصی مضمون)


ڈاکٹر مشتاق احمد

موبائل9431414586-

ای میل:rm.meezan@gmail.com

 

                                       
اردو صحافت کی دو سو سالہ تاریخ کے اوراق اس حقیقت کے غماز ہیں کہ اردو صحافت اپنے دور آغاز سے ہی سماجی سروکار کی آئینہ دار رہی ہے۔ ہمارے اکابر صحافیوں نے اردو صحافت کے پودوں کی آبیاری نہ صرف اپنے خون جگر سے کیا ، بلکہ اس کی خاطر تو بہتوں نے اپنی جانیں بھی گنوا دیں۔ ظاہر ہے کہ ہندوستان میں اردو صحافت کا سورج اس وقت طلوع ہوا تھا جب ہمارا ملک انگریزی حکومت کے شکنجے میں تھااور اس وقت بھی اردو صحافت کی حق گوئی کا جادو سر چڑھ کر بولتا تھا۔ مختصر یہ کہ اردو صحافت کی تاریخ ایثار وقربانی کی دین ہے اور اپنے اکابرین کی اس روایت کو جن صحافیوں نے ایمان کا حصہ سمجھا ان میں عہد جدید کے نامور صحافی عتیق مظفر پوری نمایاں حیثیت کے حامل ہیں۔ وہ ایک کل وقتی صحافی تھے، کبھی ادبی رسائل سے جڑے رہے تو کبھی کسی ہفتہ وار اخبار سے۔ کبھی روزنامہ اخباروں کے صحرا میں کشتی چلاتے رہے تو کبھی خود رسالہ اور اخبار نکالنے کی دھن میں غلطاں وپیچاں رہے۔عتیق مظفرپوری سے یوں تو میں آشنا بہت پہلے سے تھا کہ ان کی تحریریں اردو روزناموں اور اخباروں میں گاہے بگاہے شائع ہوتی رہتی تھیں لیکن ان سے میری بالمصافحہ ملاقات 1985 کے اواخر میں اس وقت ہوئی جب وہ پٹنہ سے ایک ادبی ماہنامہ ’افسانوی دنیا‘ نکالنے کے تگ ودو میں تھے۔وہ سلطان گنج میں رہتے تھے اور ان کے قریب ہی میرے ایک دوست نہال احمد بھی رہا کرتے تھے۔ چونکہ اس وقت ہم لوگوں کے اندر بھی لکھنے اور چھپے کی للک تھی اس لئے جب کبھی کسی نئے رسالے کا اعلان ہوتا تو اس کی طرف قدرے توجہ زیادہ ہوتی۔

قصہ کوتاہ ! ایک شام نہال احمد کے ساتھ عتیق مظفرپوری سے باضابطہ ملاقات ہوئی۔ اس پہلی ملاقات میں ہی دوران گفتگو یہ احساس ہوا کہ عتیق صاحب ایک محتاط رویے کے آدمی ہیں کیوں کہ عام طور پر نیا رسالہ نکالنے والے مدیر کی یہ کوشش ہوتی ہے کہ وہ اپنے رسائل کے فروغ کے سلسلے میں زیادہ گفتگو کرتے ہیں۔ لیکن تقریباً دو گھنٹے کی ملاقات میں وہ بار بار بس یہی کہتے رہے کہ اگر آپ لوگوں کی تخلیقات معیاری ہوںگی تو ضرور شائع کروںگا۔ رسالہ آنے دیجئے اس کا معیار دیکھ کر اپنی تخلیق بھیجئے گا۔اسی ملاقات میں یہ بھی احساس ہوا کہ عتیق صاحب گفتگو میں بھی زبان کی صحت کا بہت خیال رکھتے ہیں۔ ان دنوں وہ کثرت سے سیگریٹ بھی پیتے تھے اور چائے کے بھی کافی شوقین تھے۔بہرکیف، ہم لوگوں نے ان سے گزارش کی کہ اس نئے رسالے میں نئے لکھنے والوں کو زیادہ سے زیادہ موقع ملنا چاہئے مگر وہ صرف اور صرف معیاری تخلیقات کی بات کرتے رہے۔یہ بات شاید دسمبر 85ء کی ہے۔ اب ہم لوگوں کو اس نئے پرچے کا انتظار تھا۔ ایک دن نہال احمد ’افسانوی دنیا‘ کی دو کاپیاں لے کر حاضر ہوئے۔اس وقت کے لحاظ سے اس کا گیٹ اپ بہت ہی دیدہ زیب تھا اور اس کے ٹائٹل پر یہ لکھا ہوا تھا ’’اس شمارہ کی خصوصیت عصمت چغتائی کا خصوصی انٹر ویو‘‘ اور قیمت تین روپئے درج تھے۔ ظاہر ہے کہ اس وقت اڑتالیس صفحات پر مشتمل نو وارد رسالہ کی قیمت تین روپئے گراں معلوم ہوئی، تاہم میرے لئے سب سے خوشی کی بات یہ تھی کہ اس اولین شمارے میں میری ایک غزل شال تھی جس کا مطلع یہ تھا

زندگی ایک خواب ہو جیسے 
فلسفے کی کتاب ہو جیسے 

پہلا شمارہ اپریل 1986کا تھا، ایڈیٹر خود عتیق مظفرپوری صاحب تھے، سرپرست اعزازی میں ڈاکٹر طلحہ رضوی برق اور مدیر اعزازی کے طور پر ایچ کے ثانی تھے، جبکہ ادارہ ترتیب میں شمش قدر آزاد، تعظیم احمد کاظمی اور شمیمہ خاتون کا نام درج تھا۔ اس شمارہ کے صفحہ 3 پر انہوںنے اداریہ تحریر کیا تھا جس میں اس بات کی وضاحت کی تھی کہ:

 ’’شاید آپ کو یہ جان کر تعجب ہوگا کہ ہم نے ’افسانوی دنیا‘ نکالنے کا ارادہ کیا تو ادب اور صحافت سے تعلق رکھنے والے ہمارے کسی بھی دوست یا ملاقاتی نے ہمارے ارادے کی حمایت نہیں کی۔ ان سب کا مشورہ یہی تھا کہ ماہنامہ کا ارادہ ترک کرکے اخبار نکالا جائے لیکن ہمیں مناسب نہیں لگا کہ صرف پٹنہ (پورا بہار نہیں) سے شائع ہونے والے اردو کے تقریباً تین درجن روزانہ اور اس سے کہیں زیادہ ہفتہ وار اخباروں کی فہرست میں مزید ایک اخبار کا اضافہ کیا جائے۔ہمارے بہی خواہوں کے مطابق ماہنامہ نکالنا کاروباری اعتبار سے منافع بخش نہیں ہے اور شاید یہی وجہ ہے کہ راجدھانی سے شائع ہونے والے اردو ماہناموں کی تعداد روزنامہ یا ہفتہ وار اخباروں کے مقابلے آٹے میں نمک کے برابر سے بھی کم ہے۔ درحقیقت اسی بات نے ہمیں مجبور کیا کہ اس کمی کو دور کرنے کی کوشش کی جائے۔‘‘ 

مذکورہ اقتباس کے سرسری جائزے سے یہ حقیقت اجاگر ہوجاتی ہے کہ عتیق مظفرپوری کاروباری نظریے کے صحافی نہیں تھے۔ وہ اس بات سے آگاہ تھے کہ ادبی ماہنامہ نکالنا خسارے کا سودا ہے، باوجود اس کے وہ ماہنامہ کی اشاعت کے نہ صرف خواہاں رہے بلکہ اسے حقیقت کا روپ بھی دیا۔پہلے شمارے میں مضامین کی ترتیب کا صفحہ نہیںتھا، میں نے ایک ملاقات میں اس کمی کی طرف اشارہ کیا تو وہ اپنے مست مولا انداز میں بولے :

’’ارے یار یہ تو میںنے جان بوجھ کر کیا ہے۔ کچھ لوگ رسالے کی مشمولات پڑھ کر اسے چھوڑ دیتے ہیں، میری کوشش ہے کہ لوگ پورا رسالہ پڑھیں۔‘‘ اور یہ روش انہوں نے شاید آخر تک برقرار رکھی۔ اس وقت میرے پاس افسانوی دنیا کے چار شمارے ہیں اور کسی میں بھی مشمولات کا صفحہ نہیں ہے۔ ہاں دوسرے شمارے سے ایڈیٹر کے طور پر صرف عتیق مظفرپوری کا ہی نام شائع ہونے لگا اور دیگر سرپرست اور اعزازی مدیران کے نام غائب ہوگئے ۔ اتنا ضرور تھا کہ اس وقت کے نامور شعرا اور ادبا کا تخلیقی تعاون انہیں حاصل تھا۔ اگرچہ رسالہ عام روش سے ہٹ کر نہیں تھا، باوجود اس کے اسوقت ادبی حلقے میں اس کی خوب خوب پذیرائی ہوئی تھی، بالخصوص نئی نسل کے قلم کاروں کے رسالہ درمیان کافی پسند کیا جانے لگا تھا۔

                              

عتیق صاحب کسی بھی موضوع پر خوب خوب غور وفکر کرتے تھے، الفاظ کی نشست وبرخاست کا بھی انہیں خیال رہتا تھا ساتھ ہی زبان کی صحت اور اس کی درستگی سے ان کی کافی دلچسپی تھی کیوں کہ بعد کے دنوں میں جب ان سے بے تکلفی بڑھی اور عمر کا فاصلہ رہتے ہوئے دوستانہ راہ ورسم کی راہ ہموار ہوئی تو اس بات کا احساس ہوا کہ عتیق صاحب ایک ایک لفظ کی ادائیگی سے قبل اس پر غور وفکر کرتے ہیں اور شاید اس لئے وہ ٹھہر ٹھہر کر گفتگو کرنے کے عادی ہوگئے تھے۔ مخاطب بس اس انتظار میں رہتا کہ عتیق صاحب اب بولیں گے لیکن وہ خاموش ۔۔۔۔، ایسا لگتا کہ وہ کہیں کھو گئے ہیں یا پھر تصور میں اردو لغت کے اوراق الٹ رہے ہیں، پھر گویا ہوتے اور مختصر سا جملہ کہہ کر مخاطب کو مطمئن کرنے کی کوشش کرتے۔ افسانوی دنیا کے اداریے میں بھی اسی طرز کا اہتمام کرتے ۔ شمارہ تین ستمبر 1986 کا یہ مختصر سا اداریہ غور فرمائیے:

’’یہ دنیا بہت کی حسین ہے۔ اس میںبسنے والے وہ لوگ اس سے بھی زیادہ پیارے ہیںجو اسے سنوارنے اور سجانے کی سعی میں لگے رہتے ہیں۔ ہم اس دنیا اور دنیا والے کو صحیح معنوں میں اسی وقت سمجھ سکتے ہیں جب ہم اپنی آنکھوں پر لگے تعصب کے ہمہ رنگ چشمے کو اتار کر اسے دیکھیں گے۔ ہمارے اندر سب سے خراب بات یہ ہے کہ ہم اپنی فہم وفراست، عقل ودانش، مذہب، تہذیب وتمدن حد یہ ہے کہ اپنی رفتار وگفتار کو بھی ساری دنیا سے ممتاز سمجھتے ہیں جبکہ ہمارے اندر اپنے فرسودہ رسم ورواج کے دائرے سے باہر نکلنے کی بھی صلاحیت نہیں پیدا ہوئی ہے۔ہمارے اندار ایک بہت بڑی کمی یہ بھی ہے کہ ہم کسی چیز کا اہتمام کرتے ہیں، خوب شان وشوکت کے ساتھ اہتمام کرتے ہیں، ایسا اہتمام کرتے ہیں کہ مقصد اہتمام ہی فوت کرجاتا ہے، افسوس ہے۔ ہم روزے کا اہتمام کرتے ہیں، نماز کا اہتمام کرتے ہیں، عید کا اہتمام کرتے ہیں، بقرعید کا اہتمام کرتے ہیں، محرم کا اہتمام کرتے ہیں۔ لیکن ان کے مقاصد کو فراموش کرتے ہیں۔ ‘‘

اس مختصر سی عبارت کو دیکھئے، خود بخود یہ حقیقت عیاں ہوجاتی ہے کہ عتیق مظفر پوری کے غور وفکر کا محور ومرکز کیا تھا۔ ان کے سامنے لسانی تخصص کیا معنی رکھتی تھی، موضوع کے انتخاب میں وہ کتنے محتاط تھے۔ یہ عبارت عتیق مظفر پوری کے مفکرانہ ذہن اور تعمیری فکر ونظر کی آئینہ دار ہے۔ اس وقت ’بیسویں صدی ‘ میں جس طرح ’تیر ونشتر‘ شائع ہوتا تھا اسی طرح افسانوی دنیا میں ’منظر پس منظر‘ کا صفحہ ہوتا تھا جس میں سیاسی، سماجی اور مذہبی موضوعات پر تنقید وتبصرے ہوتے تھے، مثلاً ’’فلمیں دیکھ کر بچے برباد ہورہے ہیں‘‘ (ایک عنوان)---جوان اور بوڑھوں کے متعلق کیا خیال ہے؟
ملک فرقہ وارانہ جوالا مکھی کے دہانے پر کھڑا ہے (بہوگنا) --- اور کچھ لوگ اسے ہوا دینے میں لگے ہیں۔

عورت دل کی گہرائیوں سے پیار کرتی ہے،(ریکھا) --- کاش تمام عورتوں کے دل کی گہرائی برابر ہوتی۔
واضح ہوکہ یہ صفحہ عتیق مظفر پوری خود تحریر کرتے تھے اور ایک ایک شمارے کے لئے کئی صفحے تیار کرتے تھے پھر اس میں سے ایک کو کسی خاص شمارے کے لئے منتخب کرتے اور اس بات کا خیال رکھتے کہ منظر پس منظر کا تعلق حالات حاضرہ سے ہو۔

اس وقت اردو ادب میں گروہ بندی کی روش اپنی جڑیں جما چکی تھیں لیکن عتیق مظفر پوری نے اپنے اس رسالے کو تمام تر گروہ بندی سے مبرہ اور پاک رکھا تھا لیکن انہیں اس بات کا اندیشہ تھا کہ شاید لوگ افسانوی دنیا کو بھی کسی گروپ کا رسالہ تصور کرتے ہیں، لہٰذا انہوںنے شمارہ چار، اکتوبر 1986کے اداریے میں اس بات کی وضاحت بھی کی ہے:

’’اب تو آپ کو اس میں شک نہیں ہونا چاہئے کہ افسانوی دنیا ہر طرح کی گروہ بندی ، تمام قسم کی فرقہ پرستیوں، سیاسی تکرم بازیوں اور عصبیت سے پاک وصاف خالص عوامی ماہنامہ ہے۔ اب آپ اس کے ساتھ ہی یہ بھی یقین کریں کہ یہ رسالہ صرف اور صرف آپ لوگوں کے تعاون اور خریداری کے سہارے چل رہا ہے۔‘‘

ظاہر ہے کہ اس وقت دنیائے ادب میں کسی نئے رسالے کی اشاعت پر کسی نہ کسی گروپ کا ٹھپہ لگ جاتا تھا لیکن عتیق صاحب تو اپنے سفر کے تنہا مسافر تھے ، وہ کسی کے نقش پا کے کب قائل رہے۔ تمام عمر اپنی شرطوں پر جئے۔۔۔۔ پٹنہ سے دہلی کا سفر، وہاں کئی ہفتہ وار اخباروں کی ملازمت، پھر روزناموں سے وابستگی، پھر اپنے اخبار ’سائبان‘ کی اشاعت یعنی ہر صبح وشام اردو صحافت کے لئے زندہ رہے اور آخری دم تک صفحہ قرطاس پر اپنے افکار ونظریات کے گوہر بکھیرتے رہے۔ دور حاضر میں ایسے یقیں محکم اور عمل پیہم کے کتنے صحافی کی مثالیں ہیں جو یکتا ویگانہ ہوکر اپنے راستوں پر گامزن رہے۔اب جب کبھی اردو صحافت کی تاریخ لکھی جائے گی تو عتیق مظفرپوری کی بے لوث خدمات کے ذکر کے بغیر نامکمل رہے گی۔

یادش بخیر، عتیق مظفر پوری سے آشنائی، پھر دوستی اور پھر ایک جنوں کی حد تک ایک دوسرے کو چاہنے کی دنیا تقریباً تین دہائیوں پر محیط ہے۔ اب جبکہ عتیق بھائی ہمارے درمیان نہیں ہیں تو ان کی آخری ملاقات کا یہ جملہ بار بار ذہن پر دستک دے رہا ہے: 

’’یار بتائو ! مجھ جیسا کوئی بزرگ تمہارا دوست ہے۔‘‘ یہ بات عتیق بھائی نے اپنے سفر آخرت سے محض دو ماہ پہلے کہی تھی۔ وہ دہلی سے اپنے وطن مظفرپور آئے تھے، جون کے اخیر میں ایک دن اچانک ان کا فون آیا۔ اچانک اس لئے کہ وہ جب کبھی فون کرتے تو اس کا وقت بھی متعین تھا۔ اتوار کی صبح میں یا پھر عام دنوں میں رات کے دس بجے کے بعد اور مجھے بھی اس بات کی تلقین کرتے کہ یار فرصت کے اوقات میں ہی بات کرنی چاہئے، تاکہ کسی بات کی عجلت نہ ہو اور اکثر یہ بھی کہتے کہ ہاں! جب کبھی کوئی ایمرجنسی ہو تو کبھی بھی کرسکتے ہو۔ اس دن خلاف توقع دن کے تقریباً ایک بجے انہوںنے فون کیااور اپنے حاکمانہ انداز میں کہا کہ بس میں دس پندرہ منٹ میں تمہارے پاس ہوں۔ میں نے کہا، لگتا ہے آج صبح سے کوئی نہیں ملا۔۔۔۔، ارے یار ملے تو بہت ہیں مگر تم سا نہیں ملا۔میں نے کہا سچ سچ بتائیے کہاں ہیں، بولے بس تمہارے شہر میں ہوں اور یہ امتحان لینا چاہتا تھا کہ عاشق کی آمد کی آہٹ معشوق تک پہنچتی ہے یا نہیں۔ پھر گویا ہوئے، دراصل میں بغیر کسی طے پروگرام کے ایک عزیز کے ساتھ ذاتی کام سے دربھنگہ آیا تھا۔ یہاں آکر اگر تم سے ملے بغیر چلا جاتا تو نہ جانے کتنی راتیں آنکھوں میں چلی جاتیں۔ میںنے کہا شکر ہے کہ اب آنکھیں چار ہوںگی اور وہ واقعی محض پندرہ بیس منٹ کے بعد میرے دفتر میں حاضر ہوئے۔ چائے کے بعد گھنٹوں ادھر ادھر کی گفتگو ہوتی رہی پھر میں نے گھڑی کی طرف اشارہ کیا اور کہا کہ چلئے گھر پے کھانے کا انتظار ہورہا ہے۔کہنے لگے کہ آج میں کسی قیمت پر یہاں نہیں رک سکتا اور نا ہی کھانا کھاؤںگا کیوں کہ میں کہیں اور کھانا کھا چکا ہوں، البتہ ایک اور چائے پی کر رخصت ہوجائوں گا اور انہوںنے اس دن دوران گفتگو یہ بھی کہا کہ لگتا ہے، ہماری محبت اب کمزور پڑرہی ہے کیوں کہ اب جاوید سے تمہاری خیریت زیادہ ملنے لگی ہے۔ میں نے کہاکہ اب جاوید ہی ہماری اور آپ کی فکر ونظر کا وارث ہے ، ایسے میں اس سے روابط رکھنا ہی فائدے کا سودا ہے۔ وہ اپنے نرالے انداز میں مسکرائے اور پھر یہ وعدہ کرکے اجازت لی کہ ہفتہ دس دنوں کے بعد باضابطہ دو تین دنوں کے لئے دربھنگہ آئوںگا اور بہار سے جو اخبار جاری کیا ہے اس کے سلسلے میں مشورہ کروںگا۔ مگر وہ ملاقات توآخری ٹھہری کہ 18 اگست 2015کو ان کے اس دنیائے فانی سے کوچ کرنے کی خبر کے ساتھ ہی میری یادوں کے تمام تانے بانے ٹوٹنے بکھرنے لگے تھے۔ آج جب ان کی پہلی برسی ہے تو تین دہائیوں کی بہت ساری کھٹی میٹھی یادیں ذہن کے دریچے میں ضیائے نور کی صورت جھلملا رہی ہیں اور مجھے ایسا لگا رہا ہے کہ وہ مجھ سے کہہ رہے ہوں کہ یار ! بتائو مجھ سا کوئی بزرگ تمہارا دوست ہے۔۔۔۔، ہاں عتیق بھائی آپ سا بزرگ اب میرا کوئی دوست نہیں!!

********************************

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 602