donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Personality
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Dr. Ahsan Alam
Title :
   Maulan Azad Ki Ibtedayi Taleem Aur Unke Asatzah


احسان عالم


رحم خاں، دربھنگہ

 


مولانا آزاد کی ابتدائی تعلیم اور ان کے اساتذہ کرام


    ہر انسان کی زندگی میں استاد کا اہم رول ہوتا ہے۔استاد اس شخصیت کا نام ہے جو کسی بھی انسان کی زندگی میں نکھار پیدا کرتا ہے ۔ اسے سجاتا اور سنوارتا ہے۔ اسے اخلاق و تہذیب کا درس دیتا ہے۔ مولانا ابوالکلام آزاد کی زندگی بھی ایسے اساتذہ کرام کے اثر سے خالی نہیں ۔ مولانا آزاد نے جس خانوادے میں آنکھیں کھولیں ان پر گہرا مذہبی اثر تھا۔ ان کے والد مولانا محمد خیر الدین بھی اس خاندان کے فرد تھے جن پر ماحول کا مکمل اثر تھا۔ ان پر مذہب کا ایک خاص رنگ نمایاں تھا۔ مولانا آزاد کے درس و تدریس کا مسئلہ جب درپیش آیا تو ان کے والد نے یہ فیصلہ لیا کہ آزاد کی تعلیم گھر پر ہی ہو۔ انہیں انگریزی تعلیم سے روکنا چاہتے تھے کیونکہ ان کو خدشہ تھا کہ انگریزی تعلیم سے مذہبی عقیدے کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔ اپنے تعلیم کے سلسلے میں مولانا آزاد فرماتے ہیں :۔

’’انگریزی تعلیم کی ضرورت کا تو یہاں کسی کو وہم و گمان ہی نہیں تھا لیکن کم از کم یہ تو ہوسکتا ہے کہ قدیم تعلیم کے مدرسوں میں سے کسی مدرسہ سے واسطہ پڑتا ۔ مدرسہ کی تعلیمی زندگی گھر کی چاردیواری کے گوشۂ تنگ سے زیادہ وسعت رکھتی ہے اور اس لئے طبیعت کو کچھ نہ کچھ ہاتھ پانو پھیلانے کا موقع مل جاتا ہے۔ لیکن والد مرحوم یہ بھی گوارا نہیں کر سکتے تھے۔ کلکتہ کے سرکاری مدرسہ عالیہ کی تعلیم ان کی نظروں میں کوئی وقعت نہیں رکھتی تھی اور فی الحقیقت قابل وقعت تھی بھی نہیں اور کلکتہ سے باہر بھیجنا انہیں گوارا نہ تھا۔ انہوں نے خود یہی طریقہ اختیار کیا کہ خود تعلیم دیں یا بعض خاص اساتذہ کے قیام کا انتظام کرکے ان سے تعلیم دلائیں۔ ‘‘

(غبار خاطر۔ ابوالکلام آزاد۔ مرتبہ: مالک رام، ص: ۹۶)

    مولانا ابوالکلام آزاد کی تعلیم گھر پر شروع ہوئی۔ شروعاتی تعلیم ان کے والد محترم مولانا خیرالدین صاحب کے ہاتھوں ہوئی۔ اپنے علاوہ ہر مضمون کے لئے مختلف قابل اساتذہ مقرر کئے گئے۔ وہ چاہتے تھے کہ ابوالکلام آزاد کی تعلیم و تربیت ممتاز علماء کی رہنمائی میں ہو۔ اپنے والد مولانا خیر الدین کے متعلق آزاد فرماتے ہیں:

’’والد مرحوم اگرچہ ہم کو درس نظامیہ سے بھی کچھ زیادہ چاہتے تھے اور طب و ریاضی اور نجوم تک انہوں نے ہمیں پڑھایا لیکن زیادہ زور صرف معقولات اور فروعات فقہ کے حفظ و استحضار پر دیتے تھے یا بعد کو انہوں نے بعض متون تصوف مثل خوصی و عوارف کے بھی درس پڑھائے ، لیکن حدیث و تفسیر پر نصاب درسیات سے زیادہ زور نہیں دیا تھا۔ عام موجودہ نصاب درسی سے زیادہ جو انہوں نے کیا وہ یہ تھا کہ بیضاوی صرف چند پارے ہی نہیں پڑھائی، جیسا کہ عام قاعدہے ، بلکہ پوری پڑھوائی ۔ منطبق پر بہت زور دیتے تھے۔ کہتے تھے جس نے منطبق نہیں پڑھی وہ قابل خطاب ہی نہیں ہے۔ ‘‘

(آزاد کی کہانی خود آزاد کی زبانی بہ روایت ملیح آبادی ، ص:۲۶۶)

    مولانا آزاد کے والد کا خواب انہیں اونچے مقام تک پہنچانا تھا ، نہ کہ دنیا سے انہیں دور کرنا تھا۔ ان کے لئے درس و تدریس کا جتنا مناسب نظم ہوسکتا تھا مولوی خیرالدین صاحب نے ۔ اس کا نتیجہ ہوا کہ مولانا ابوالکلام آزاد نے دنیا کے سامنے اپنے آپ کو ایک ماڈل کی شکل میں پیش کیا۔     

    مولانا خیر الدین وقت پر جاگتے اور وقت پر سوتے تھے ۔ بیماری کی حالت میں بھی ان کے اس معمول میں تبدیلی نہیں آتی تھی۔ اپنی والد کی توجہ کی وجہ سے ابوالکلام آزاد کی زندگی کا بھی یہ معمول بن چکا تھا ۔ وہ بھی وقت پر سوتے اور جاگتے۔ سحر خیزی ان کی زندگی کا بھی معمول بن چکا تھا۔وقت کی پابندی ان کی کامیابی کا ضامن بنا۔  

    اب یہاں مولانا ابولکلام آزاد کے چند ایسے اساتذہ کرام کا ذکر کر رہا ہوں جنہوں نے ان کی ذہنی نشو و نما میں اہم کردار ادا کیا :۔

مولانا محمد یعقوب:۔    مولانا محمد یعقوب صاحب مولوی خیر الدین کے مریدوں میں سے تھے۔ جب مولانا کے والد محترم کی مصروفیت کافی بڑھ گئی تو انہوں نے عربی اورمنطق پڑھانے کے لئے مولانا محمد یعقوب کو چنا ۔ محمد یعقوب صاحب دہلی کے رہنے والے تھے ۔ وہ اس کام کے لئے بہ آسانی راضی ہوگئے۔ 

مولانا محمد ابراہیم:۔    مولانا محمد ابراہیم صاحب بڑے مستعد مدرس تھے۔ مولانا محمد ہدایت اللہ جونپوری کے مشہور و معروف شاگردوں میں تھے۔ ان کے متعلق مولانا آزاد فرماتے ہیں :۔

’’ان کو صفحوں کے صفحے کتابوں کے بر زبان یاد تھے۔ انہوں نے مجھے یاد ہے مسئلہ اجماع اور ایک مرتبہ قراۃ فاتحہ میں بڑے زور لگائے اور خاص طور پر مطالعہ کیا۔ ہمارے ہی یہاں سے فتح القدیر اور دیگر شروغِ ہدایہ اور شقائق النعمان نکلواکے دیکھتے رہے۔ ‘‘

(آزاد کی کہانی خود آزادی کی زبانی ، بہ روایت ملیح آبادی، ص:۳۷۵)

مولانا محمد عمر:۔  مولانا آزاد کو پڑھانے کے لئے تفسیر جیسا اہم موضوع ان کے ذمہ تھا۔ ان کے پڑھانے کے متعلق مولانا آزاد فرماتے ہیں:۔

’’وہ پورا درس بالکل قدیم کتابی اردو میں دیا کرتے تھے ۔ اس درجہ و ہ اس کے پابند تھے کہ گھنٹوں تقریر کرتے رہیں اور معلوم ہو کہ گویا غدر سے پہلے کا کوئی لفظی اردو ترجمہ رفیع الدین مرحوم کا ترجمۃ القرآن سن رہے ہیں۔ ‘‘

(آزاد کی کہانی خود آزادی کی زبانی ، بہ روایت ملیح آبادی، صـ۱۹۲)

شمس العلماء مولانا سعادت حسین:۔  مولانا ابوالکلام آزاد اپنے بڑے بھائی ابو النصر آہ کے ساتھ مولانا سعادت حسین سے تعلیم حاصل کی جونہایت نیک طبیعت انسان تھے۔ مدرسہ عالیہ اسلامیہ میں مدرس دوئم کی حیثیت سے کام کرتے تھے۔ انہوں نے مولانا آزاد کو نخبۃ الفکر بھی پڑھائی۔ طلبہ کو درس دینے میں بڑی دلچسپی لیتے تھے۔ مدرسہ کے علاوہ گھر پر بھی طلبہ کو وقت دیا کرتے تھے ۔ مدرسہ کے اساتذہ میں ان خاص مقام تھا۔ ان کی علمی صلاحیتوں کے سب معترف تھے۔ 

مولانا محمد شاہ محدث: ۔   ۱۹۰۱ء میں وہ کلکتہ تشریف لائے تھے اور دو ماہ یہاں قیام کیا۔ اس موقع پر بعض فارغ التحصیل طلبہ نے ان سے ترمذی شریف کا درس لینا شروع کیا۔ مولانا آزاد نے بھی اس دوران ان سے استفادہ حاصل کیا۔ مولانا ابولکلام آزاد اس وقت درسیات کی آخری کتابیں پڑھ رہے تھے اور سرسید کی تصانیف کا مطالعہ کر چکے تھے۔ ان کی جب مولانا محمد شاہ سے ملاقات ہوئی تو اس کا ان پر بہت ہی اچھا اثر ہوا۔ ایک مرتبہ مولانا آزاد نے ان سے درخواست کی کہ وہ جب تک کلکتہ میں تشریف رکھتے ہیں ایک گھنٹہ انہیں بھی دیں تاکہ وہ ان سے پڑھ سکیں۔ مولانا انہیں ترمذی شریف پڑھانے کے لئے راضی ہوگئے۔ مولانا ابوالکلام آزاد نے ان دو مہینوں میں مختصر مدت میں ان کے درس سے بہت اچھا اثر قبول کیا۔ 

    اس طرح ہم دیکھتے ہیں کہ بڑے بڑے اعلیٰ اور جید علمائوں کا سایہ مولانا ابوالکلام آزاد کی زندگی پر رہا۔ پھر اس شخصیت کا ایسا ہونا لازمی تھا جو اپنے کارناموں سے دنیا والوں کو ایک خاص روشنی دے ۔ جس کی روشن کرنیں لمبے عرصے تک دنیا کو فیض یاب کرتی رہیں۔ 

 (مطبوعہ روزنامہ ’’پندار‘‘ پٹنہ، ۲؍ اپریل ۲۰۱۵ئ)


٭٭٭

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 772