donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Personality
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Dr. Syed Ahmad Qadri
Title :
   Dr. Mushtaq Ahmad Ba Haisiyat Sahafi



ڈاکٹر سید  احمد قادری

موبائل: 09934839110


ڈاکٹر  مشتاق احمد  بحیثیت صحافی

                               

             عہد  حاضر میں بہار کی اردو  صحافت کے منظر نامے پر جن چند صحافیوں نے  اپنی صحافتی شعور و آگہی سے مخصوص پہچان بنائی ہے، ان میں سیک اہم اور منفرد نام ڈاکٹر مشتاق احمد کا ہے۔
     مشتاق  احمد  کی پیدائش  21 نومبر 1967 کو دربھنگہ میں ہوئی۔ اردو زبان و ادب میں ایم اے اور ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کرنے کے بعد وہ درس و تدریس سے منسلک ہو گئے۔ 2009 میں انھوں نے ملّت کالج ، دربھنگہ میں بحیثیت پرنسپل جوائن کیا اور ابھی حال میں ان کی بہتر کارکردگی کو دیکھتے ہوئے انھیں مارواڑی کالج کا پرنسپل بنایا گیا ہے۔ پرنسپل بننے سے قبل دو سال تک مولانا آزاد چیئر ، متھلا یونیورسٹی  کے ڈائرکٹر کے عہدہ پو فائز رہے اور کئی سال تک شعبۂ اردو میں اپنی خدمات پیش کرتے رہے۔ 

    ان تمام فرائض منصبی کے ساتھ ساتھ اردو زبان و ادب اور صحافت کی بھی خدمات کو وہ ترجیح دینے میں پیش پیش ہیں ۔ 2001  سے مشتاق  احمد ــ’’  جہان اردو ‘‘ جیسا بے حد معیاری اور قابل ذکر سہہ ماہی رسالہ کی ادارت سنبھالے ہوئے ہیں ۔ اس رسالہ کے اب تک  56 سے زائد شمارے منظر عام پر آکر اردو قارئین کے درمیان مقبول عام ہو چکے ہیں ۔ اس کا علّامہ اقبال، پریم چند، بہار میں اردو تحقیق و تنقید ،  بہار میں جدید اردو غزل  وغیرہ جیسے خاص نمبر دستاویز کی حیثیت رکھتے ہیں ۔ 

     ’’ جہان اردو‘‘ جیسا اہم اور معیاری سہہ ماہی بغیر کسی تعطل کے  جاری رکھنا اپنے آپ میں جوئے شیر لانے سے کم نہیں ہے۔ جو لوگ صحافتی سنگلاخ راستوں سے گزرتے ہیں ، انھیں اندازہ ہوگا کہ معیاری ادبی رسالہ نکالنا کس قدر  جرأت مندانہ اور مشکل عمل ہے۔ لیکن  مشتاق  احمد کے اندر جرأت کی کمی ہے ، نہ حوصلہ کی ۔ ساتھ ہی ساتھ  صلہ کی پرواہ ہے نہ ستائش کی تمنّا کی فکر ہے۔ بس ایک جنون ہے اور مشتاق  احمد اسی جنون کے تحت صحافتی خدمات انجام دے رہے ہیں ۔ 

      مشتاق  احمد  نے ’ جہان اردو ‘  سے قبل اردو ہفتہ وار ’’ آواز نو ‘‘ کے نام سے ایک اخبار بھی نکالا تھا ۔ جس کے تقریباََ پچیس سے زائد شمارے منظر پر آئے۔ اس اخبار کے مشتاق  احمد  چیف اڈیٹر تھے۔ اسی اخبار سے انھوں نے صحافت کے نشیب و فراز دیکھے اور بہت کچھ سیکھا ۔اس ہفتہ وار کے بے باک ، بے لاگ، اور بے خوف اداریوں اور مختلف سیاسی، سماجی، معاشرتی اور لسانی مضامین و تبصروں کو لوگ آج بھی یاد کرتے ہیں ۔ 

     ’’  آواز نو ‘‘ بند ہو جانے کے بعد ریاستی، قومی اور بین ا لاقوامی سطح پر آئے دن طرح طرح کی سماجی، ادبی، لسانی ، سیاسی اور معاشرتی و اقتصادی انتشار و اختلاف کی خبریں انھیں بے چین کرتی رہتی ہیں اور ان کا حسّاس ذہن اپنے مافی ا لضمیر کے اظہار و بیان کے لئے بے قراررہنے لگا ، تب انھوں نے ان حالات ، حادثات ، واقعات اور سانحات پر صحافتی تبصرے اور مضامین لکھ کر ملک بھر کے اخبارات و رسائل میں شائع کرانے لگے اور شائد کہ اتر جائے تیرے دل میں میری بات کے مصداق اپنی باتوں کو بے حد سنجیدگی ، متانت اور متوازن انداز میں لکھ کر پورے بھارت کی صحافتی دنیا میں ایک منفرد مقام بنانے میں بھی کامیاب ہوئے ہیں ۔ طوالت کا خوف ہے اس لئے چند مثالوں پر اکتفا ٔ کر رہا ہوں ۔ ۱۲؍ نومبر ۲۰۱۱ء کے ایک روزنامہ میں ’’ بہار  کے مسلمانوں کے مسائل کے لئے ذمّہ دار کیوں ؟ ‘‘ کے عنوان سے مشتاق  احمد نے بڑی بے باکی سے لکھتے ہیں ۔۔۔۔۔

    ’’  ۔۔۔۔اگر حکومت کی نیّت صاف ہو تو اس طرح لے مسئلے منٹوں میں حل ہو سکتے ہیں ۔ ریاست میں کئی ایسے مسئلے ہیں ، جن کا تعلق سیدھے طور پر مسلم اقیت سے ہے۔ لیکن  یہ حل نہیں ہو پا رہا ہے ‘‘ 

       ایسے بہت سارے مسئلوں سے حل و عقد کو بتانے کا ایک سلسلہ ہے، جو ڈاکٹر  مشتاق احمد کرتے ہیں ۔ ڈاکٹر مشتاق احمد صحافتی دنیا میں کس قدر فعال اور متحرک ہیں ، اس کا اندازہ صرف ایک ماہ یعنی اکتوبر ۱۴ء میں شائع ہونے والے ان کے مضامین  سے لگایا  جا سکتا ہے۔ طوالت کے خوف سے میں مضامین کے اقتباسات کی بجائے صرفضامین کے عنوانات درج کر رہا ہوں۔ 

      ۱۔ انسانیت کے پیامبر تھے مہاتما گاندھی(۲؍ اکتوبر) ۲۔ دلت کے داخلہ پر مندر دھلائی ، طبقاتی نظام کی بھیانک تصویر (۹؍۱کتوبر) ۳۔ جسے طوفان میں بھی دھن رہی شمع جلانے کی۔ ملالہ اور کیلاش ستیارتھی اور ہم ہندوستانی(۱۵؍ اکتوبر) ۴۔ سر سید کی عصری معنویت(۱۷؍ اکتوبر) ۵۔بہار میں فساد کی فصل اگانے کی کوشش (۲۵؍ اکتوبر) ۶۔ ووٹوں کے انتشار نے  رسوا کیا تجھے (۲۸؍ اکتوبر )۔ یہ سارے مضامین ڈاکٹر مشتاق احمد کے نہ صرف صحافتی شعور و ادراک کے مظہر ہیں ، بلکہ  ان کی عالمی سطح پر رونما ٔ ہونے والے حادثات  اور واقعات پر گہری نظر اور نظریہ کو بھی اجاگر کرتے ہیں ۔ سماجی اور سیاسی ناہمواریوں پر بھی مشتاق احمد بہت کھل کر لکھتے ہیں ۔ ڈاکٹر مشتاق احمد جس رفتار سے ملک و قوم کے سیاسی، سماجی، ملّی، اقتصادی، لسانی  اور معاشرتی مسائل کو پیش کر رہے ہیں ، اس سے یہ بات صاف ظاہر ہے کہ ان کے اندر ملک و قوم کا درد پنہاں ہے اور وہ صحافت کو ایک مشن بنایا ہے، تجارت نہیں ۔ 

٭٭٭٭٭٭٭٭


 

Comments


Login

You are Visitor Number : 728