donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Personality
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Dr. Marzia Arif
Title :
   Sir Syed Ahmad Khan Ki Fikro Nazar Ka Ajmali Jayeza

سرسید احمد خاں کی فکر ونظر کا اجمالی جائزہ

 

( ڈاکٹر مرضیہ عارف (بھوپال

 

* ہرسال ماہ اکتوبر میں محسنِ قوم وملت سرسید احمد خاں کی بلند وبالا شخصیت اور زریں کارناموں کی یاد کو تازہ کرنے کے لئے فرزندانِ علی گڑھ ’’سرسید ڈے‘‘ مناتے آرہے ہیں لیکن اس موقع پر جو سوال عام ذہنوں کو چھوئے بغیر رہ جاتا ہے وہ یہ کہ ہندوستانی مسلمانوں کے لئے سال کے کسی مخصوص دن سرسید کو یاد کرلینا ہی کافی ہے یا پھر سرسید جیسی عہد ساز

شخصیت کی فکر ونظر کا جائزہ لیکر اپنی ترجیحات متعین کرنا بھی ضروری ہے۔

 

اس میں کوئی شک نہیں کہ اپنے زمانے کی ایک انقلاب آفریں شخصیت کا نام سرسید احمد خاں ہے۔ جس نے سماج کے مختلف حصوں پر انمٹ اثرات مرتب کئے اور یہ کہا جائے تو زیادہ مناسب ہوگا کہ جن شخصیتوں نے مسلمانوں کو سب سے زیادہ متاثر کیا ان میں سرسید کا نام اوپر ہے۔ سرسید کی شخصیت کے اسی طلسم کی وجہ سے ان کے گرد ہر فن اور علم ودانش کے مشاہیر جمع ہوگئے تھے ان میں شاعر، ادیب، مورخ، فلاسفر، عالم دین، مفسر قرآن، ماہر تعلیم، قانون داں سب شامل تھے۔ اور یہ تمام بڑی شخصیتیں سرسید کو اپنا رہبر تسلیم کرتی تھیں۔

مقناطیسی شخصیت

علامہ شبلی کہتے ہیں اگر میری زندگی کا کوئی حصہ علمی یا تعلیمی قرار پاسکتا ہے تو اس کا آغاز، اس کی نشو ونما اس کی ترقی، اس کی نمو، اس کا جو کچھ ہوا اس کالج سے ہوا اور یہ کالج جلوہ ہے اس بڑے شخص (سرسید) کا، ’’جدھر دیکھتا ہوں ادھر تو ہی تو ہے‘‘ حالی مرحوم نے سرسید کی وفات پر زار وقطار روتے ہوئے کہا تھا ’’سرسید کیا گئے‘‘ ایک برگشتہ قسمت قوم کا سرمایہ، ایک نادار ملک کا گنج بے بہا اور میرا مرشد،رہبر اور دوست جاتا رہا، ہم نے اس سے قومی خدمت کا مفہوم سیکھا، دوسروں کے لئے اپنی زندگی کا عیش وآرام قربان کردینے کا سبق پڑھا ‘‘۔ سرسید کے جانثار محسن الملک نے سرسید یعنی اپنے محبوب کے بارے میں کہا تھا ’’مجھے صرف ان کی ذات سے ہی محبت نہ تھی بلکہ پچاس سالہ تجربہ نے یہ بات میرے دل پر نقش کردی تھی کہ قومی درد اور بہی خواہی کو جب خدا تعالیٰ نے ایک جسم اور شکل دینا چاہی تو سید احمد اس کا نام رکھ دیا۔ خلوت وجلوت، تنہائی ویکجائی، دن رات، صبح وشام جب میں نے ان کو دیکھا اسی حال میں دیکھا، ہم لوگ ان کے پیرو اور دوست کہلاتے تھے مگرمیں سچ کہتا ہوں کہ جو قومی وملی محبت سرسید میں تھی اور وہ آگ جو ان کے دل میں لگی ہوئی تھی اور وہ درد جس سے ان میں یہ سب باتیں فطری تھیں اور ہم میں مصنوعی، سرمگیں آنکھ اور چیز اور سرمہ لگانا اور بات ہے۔‘‘

ڈپٹی نذیر احمد، نواب وقار الملک، سید محمود، مولانا وحید الدین سلیم، مولوی عنایت اللہ، مولوی عبدالحق جیسی بلند وبالا شخصیتیں سرسید کی تربیت و کوشش سے پیدا ہوئی تھیں ان میں سے ہر شخص اپنی جگہ آفتاب وماہتاب سے کم نہیں تھا۔ ہندوستان کی تاریخ میں ایسی کہکشاں ایسی صلاحیتوں کا اجتماع پھر کسی رہبر و رہنما کے گرد جمع نہیں ہوا، حقیقت یہ ہے کہ سرسید کے اخلاص، ملت کے لئے تڑپ اور انسانیت کے لئے گہری ہمدردی کا نتیجہ تھا کہ وہ اپنے ساتھ جمع ہونے والوں کے جوہر نکھارتے اور فراخ دلی کے ساتھ ان کی صلاحیت و محنت کا اعتراف کرتے تھے ، اس کی ایک مثال حالی کی مسدس کے بارے میں سرسید کا یہ قول ہے کہ ’’جب خدا پوچھے گا کہ کیا لایا ہے تو کہہ دوں گا کہ حالی سے مسدس لکھوا کر لایا ہو۔‘‘

سرسید کا تدبر

سرسید بڑے مدبر اور دور اندیش انسان تھے انہوں نے مغلیہ سلطنت کے زوال کا اندازہ لگاکر اس حقیقت کو سمجھ لیا تھا کہ کسی کمزور بنیاد پر بھروسہ کرنا مناسب نہیں اسی لئے انگریزی حکومت کی ملازمت کرلی اور لگن کے ساتھ اپنے فرائض کی انجام دہی شروع کردی۔ ساتھ ہی اپنی عملی استعداد بڑھانے میں مصروف ہوگئے اور چند سالوں میں ترقی کرکے سب جج کے عہدے تک پہونچ گئے اسی محنت ومستقل مزاجی کا نتیجہ ان کے لئے اعلیٰ عہدوں ، اعزازات اور معیاری تصانیف کی شکل میں نمودار ہو اور سبکدوشی کے بعد انہیں اپنی باقی زندگی ملک وملت کے لئے تعمیری کاموں میں وقف کرنا آسان ہوگیا، ابھی سرسید نائب منشی کے عہدہ پر مامور تھے کہ ’’تربیتِ دفتر کا دستور العمل‘‘ انہوں نے تیار کرلیا۔ علاوہ ازیں منصفی سے متعلق قوانین دیوانی کا خلاصہ بھی تیار کیا جس کی حکومت کی طرف سے کافی پذیرائی ہوئی۔ ۱۸۵۷ء کے غدر میں سرسید بجنور کے سب جج تھے اس ہنگامہ میں انہوں نے جو کچھ دیکھا یا جو نتیجہ اخذ کیا اس کو ’’اسباب بغاوت ہند‘‘ کے نام سے ایک کتاب میں تحریر کردیا، اس میں نہایت جرأت کے ساتھ ان تمام الزامات پر روشنی ڈالی گئی تھی جو بغاوت کے سلسلہ میں ہندوستانیوں کے مسائل ، مشکلات اور مزاج کے سمجھنے میں کافی مددگار بنی اور کسی حد تک انگریزوں کو اپنے سلوک میں تبدیلی لانے کا بھی احساس ہوا۔

غدر کے بعد ہندوستانیوں خصوصاً مسلمانوں کی حالت بہت خراب ہوگئی تھی۔ سرسید کا درد مندل دل ان کی بدحالی پر کافی افسوس کرتا تھا جس کا اظہار انہوں نے اپنے الفاظ میں اس طرح کیا ہے:
’’غدر کے بعد مجھ کو نہ اپنا گھر لٹنے کا رنج تھا نہ مال واسباب کے تلف ہونے کا ، جو کچھ رنج تھا اپنی قوم کی بربادی اور ہندوستانیوں کے ہاتھ سے جو کچھ انگریزوں پر گزری اس کا رنج تھا۔‘‘
عرصہ تک انہوں نے قوم وملت کی بہبودی اور ترقی کی تدابیر پر غور کرنے کے بعد یہ نتیجہ اخذ کیا کہ اس زمانے میں عصری تعلیم خصوصاً انگریزی زبان کا علم حاصل کرنا ضروری ہے اور اس کے لئے صدق دلی کے ساتھ کوشش شروع کردی، خود انگریزی زبان سیکھی اپنے بچوں کو بھی اس کی تعلیم دلائی۔

تعلیمی مشن

دوران ملازمت سرسید نے سب سے پہلے ۱۸۵۹ء میں ضلع مرادآباد اترپردیش میں ایک مدرسہ کی بنیاد ڈالی اس کے بعد ۱۸۶۳ء میں غازی پور میں انگریزی تعلیم کے لئے وکٹوریہ اسکول کے نام سے مدرسہ قائم کیا، اس مدرسہ میں اردو، فارسی، عربی اور سنسکرت کی تعلیم کا بھی انتظام تھا۔ اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ سرسید کو انگریزی کے ساتھ دوسری زبانوں کا کتنا خیال تھا، غازی پور میں ہی سرسید نے ایک علمی انجمن ’’سائنٹفک سوسائٹی‘‘ قائم کی اور اس کے ذریعہ تمام ہندوستانیوں ، خصوصاً مسلمانوں کو جو جدید تعلیم اور ماڈرن خیالات سے خائف تھے انہیں ا س طرف راغب کرنے کی کوشش شروع کی گئی، یہی وہ انجمن ہے جو علی گڑھ تحریک کا نقطہ آغاز بنی۔ ۱۸۶۴ء میں علی گڑھ تبادلہ ہونے پر دو سال بعد سرسید نے ’’برٹش انڈین ایسوسی ایشن‘‘ کی شاخ قائم کی، اس کا مقصد برطانوی پارلیمنٹ کے ارکان سے رابطہ قائم کرکے طرفین کو ایک دوسرے کے حالات ومعاملات سے باخبر رکھنا تھا، اسی سال سائنٹفک سوسائٹی نے اخبار نکالاجو بعد میں ’’علی گڑھ انسٹی ٹیوٹ گزٹ‘‘ کے نام سے مشہور ہوا۔

سرسید ہندوستان کے مروجہ نظام تعلیم سے مطمئن نہیں تھے۔ خصوصاً مسلمانوں کے حق میں اسے نقصان دہ قرار دیتے تھے چنانچہ ہندوستان کے نظام تعلیم کے خلاف انہوں نے انگریزی کا ایک پمفلٹ شائع کیا، اس کا اصل مقصد مسلم یونیورسٹی قائم کرنا تھا، سرسید پہلے شخص تھے جنہوں نے ۱۸۶۷ء میں اردو یونیورسٹی کے قیام کی تجویز انگریز حکومت کو پیش کی آخر کار ان کی جدوجہد رنگ لائی اور ۲۴ مئی ۱۸۷۵ ء کو علی گڑھ میں ’’محمڈن اینگلو اور نیٹل کالج‘‘ کی بنیاد پڑی۔ اس کالج سے مسلمانوں کو کتنا فائدہ پہونچا اس کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا کہ جس وقت سے کلکتہ، بمبئی اور مدراس میں یونیورسٹیاں قائم ہوئیں اس وقت سے ۱۸۸۱ء تک پورے ہندوستان میں گریجویٹس کی تعداد صرف ۴۳ تھی لیکن ۱۸۸۳ء سے ۱۸۹۳ء تک یعنی دس برس کے مختصر عرصہ میں ان کی تعداد ۳۹۹ ہوگئی۔ اس کالج کے تعلیم یافتہ نوجوانوں کا معیار تعلیم بھی کافی بلند تھا۔ سرسید نے مسلمانوں کی تعلیم وتربیت کے لئے صرف محمڈن کالج ہی قائم نہیں کیا ’’محمڈن ایجوکیشنل کانفرنس‘‘ کی داغ بیل بھی ڈالی جس نے ملک کے تمام مسلمانوں میں تعلیم کا چرچہ شروع کردیا، سرسید کے انتقال کے بعد ۱۹۲۰ء میں مسلم یونیورسٹی علی گڑھ کا قیام ہوا لیکن اس یونیورسٹی کا منصوبہ سرسید نے بہت پہلے سے تیار کرلیا تھا۔

طلباء سے مشفقانہ سلوک

آج ہمارے ملک کی درس گاہوں میں جو افرا تفری نظر آٹی ہے اس کی ایک اہم وجہ استاد وشاگرد کے درمیان کا مقدس رشتہ باقی نہ رہنا ہے دوسری وجہ اساتذہ اور منتظموں کا تعلیم وتربیت کے فن سے ناآشنا ہونا ہے۔ اس لئے مختلف گھرانوں اور ماحول سے جو طلباء تعلیم گاہوں میں پہونچتے ہیں وہاں اپنے استادوں کی خاطر خواہ شفقت ومحبت نہ ملنے کی وجہ سے اکثر نئے ماحول میں وہ ڈھل نہیں پاتے اور جب کسی طالب علم سے کوئی شرارت یا شوخی سرزد ہوتی ہے تو اسے نظر انداز یا نرمی کے ساتھ اصلاح کی کوشش نہیں کی جاتی مگر سرسید نے جہاں تعلیم سے متعلق دوسرے پہلوؤں پر کافی توجہ دی وہیں انہوں نے اپنے طلباء سے نہایت شفقت و محبت کا سلوک کیا ایسے ہی کچھ واقعات کچھ سال پہلے شائع ایک کتاب ’’روایاتِ علی گڈھ‘‘ مصنف محمد ذاکر علی خاں میں بیان کئے گئے ہیں۔ ایک واقعہ اس طرح ہے:

’’سرسید احمد خاں مرحوم بسا اوقات از راہِ شفقت ودلجوئی بیمار طالب علموں کو اپنے گھر لے آیا کرتے تھے تاکہ علا ج وپرہیز باقاعدہ ہوسکے، دو ایسے طالب علموں نے رو بصحت ہونے کے دوران ان کے باغ سے انار کھانا شروع کردیئے، صبح کو مالی جب انار پیڑوں سے توڑنے جاتا تو خالی ہاتھ لوٹتا، اس نے جب ان انار خوروں سے معلوم کیا تو جواب ملا کہ گلہریاں کھا جاتی ہیں، اس غریب نے سرسید سے بھی انار نہ ملنے کی یہی وجہ بیان کردی، سرسید نے مسکرا کر کہا ان سے کہہ دینا کہ گلہریوں کے لئے آہنی منہ دان بنوالئے ہیں چنانچہ اس کے بعد ’گلہریاں‘ ہوشیار ہوگئیں۔

اس چھوٹے سے واقعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ انار چرانے والوں کا علم ہوتے ہوئے بھی سرسید نے انہیں سزا دینا تو درکنا خود پوچھ تاچھ کی ضرورت بھی محسوس نہیں کی۔دوسرا واقعہ بریلی کے تحصیل دار جمیل خاں نے بیان کیا۔

’’ایک روز دوپہر کو ہم نے کچی پارک میں جمع ہوکر خربوزے کھائے اور ان کے چھلکے اور بیج کھڑکی سے میدان میں پھینک دیئے بدقسمتی سے اسی وقت سرسید اپنی فٹن میں بیٹھے ادھر سے گزرے اور سارا کچرہ ان کی گود میں جا پڑا۔ لڑکے سہم کر خاموشی سے اپنی مصروفیات میں اس طرح مشغول ہوگئے جیسے کچھ ہوا ہی نہ ہو لیکن ذرا ہی دیر میں ہم نے دیکھا کہ سرسید کی فٹن ٹھیک ہمارے کمرے کے سامنے کھڑی ہے اور گود میں خربوزوں کے چھلکے بھرے سرسید اس میں سے اتر رہے ہیں۔ وارڈن صاحب طلب کئے گئے اور ہم یہ سوچ کر کانپنے لگے کہ خدا معلوم خربوزے کیا رنگ لائیں؟ سرسید نے وارڈن سے مخاطب ہوکر کہا کہ کیوں ماسٹر صاحب آپ انہیں یہی سکھاتے ہیں وہ بولے حضرت میں نے تو انہیں سخت تاکید کررکھی ہے کہ چھلکے وغیرہ باہر پھینکتے وقت دیکھ لیا کریں کہ کوئی شریف آدمی تو ادھر سے نہیں گزررہا ہے۔؟

’’انہوں نے ٹھیک ہی کیا ‘‘ سرسید فرمانے لگے ’’کیونکہ علی گڑھ میں مجھ سے زیادہ شریف انہیں کہاں ملتا‘‘ اتنا کہہ کر وہ رخصت ہوگئے نہ کوئی سرزنش کی نہ کسی طرح کی ڈانٹ ڈپٹ نہ اخراج کی کارروائی لیکن تنبیہ کے اس انداز کا جو اثر ہوا وہ کبھی محو نہیں ہوسکا۔‘‘

تیسرے واقعہ سے بھی سرسید کی طلباء کے تئیں غیر معمولی شفقت کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے

راوی کا بیان ہے۔


’’ایک شام ہم سب مسجد کے عقب میں واقع کرکٹ گراؤنڈ پر کھیلنے میں ایسے مصروف تھے کہ مغرب کی نماز کا بھی ہوش نہیں رہا۔ اتنے میں نظر پڑی تو دیکھا کہ سرسید نماز مغرب پڑھنے مسجد کی طرف آرہے ہیں ، گھبراہٹ میں کچھ اور نہ سوجھا تو کپتان نے صفیں درست کراکر اپنی امامت میں نماز پڑھانا شروع کردی اور رکوع کے بعد سجدہ میں سر رکھے رکھے باآواز بلند دریافت کیا، بھائیوں کیا بڈھا چلا گیا ، مقتدیوں کی طرف سے جواب نہ ملنے پر امام صاحب نے سجدہ سے سر اٹھاکر دیکھا تو سجدہ ریز مقتدیوں میں ’’بڈھا بھی شامل تھا‘‘۔

لیکن گستاخی کے ایسے مظاہرہ کے باوجود سرسید نے مشفقانہ عفو و درگزر سے ہی کام لے کر مسجد کی راہ لی لیکن اس کا اثر یہ ہوا کہ اذان سنتے ہی سب طالب علم مسجد میں جمع ہونے لگے اور پھر کبھی اس میں خلل نہ آیا۔ یہ تھا سرسید کا مشفقانہ سلوک جس کے ذریعہ انہوں نے ایک بالغ نظر مربی کا فرض ہی نہ نبھایا مخلص و درد مند معالج کا کردار بھی انجام دیا۔

سرسید اور دو قومی نظریہ

سرسید نے ایک حقیقت پسند انسان کی طرح حالات کا معروضی تجزیہ کرکے ۱۸۵۷ء کی پٹی ہوئی قوم کو پھر سے باعزت مقام دلانا چاہا۔ اس مقصد سے کبھی وہ ہندوستانی مسلمانوں کو مخاطب کرکے کہتے کہ ’’جب تک تم ہندوستانی نہ بنوگے نہ تمہاری اپنے ملک میں عزت ہوگی اور نہ اسلامی ممالک میں تمہیں احترام کی نظر سے دیکھا جائے گا۔‘‘

سرسید نے ہمیشہ تعصب سے نفرت کی، جہاں مسلمانوں کی بھلائی کے لئے سوچا وہیں غیر مسلموں کو بھی گرداب سے نکالنے کی کوشش کی اور ہندوؤں مسلمانوں کو دلہن کی دو آنکھوں سے تشبیہ دیتے ہوئے کہا کہ ’’ہندوستان میں رہتے رہتے دونوں کا خون بدل گیا ہے، دونوں کی صورتیں بدل کر ایک دوسرے سے مشابہ ہوگئیں، یہاں تک کہ ہم دونوں آپس میں ایسے ملے کہ ہم دونوں نے مل کر ایک نئی زبان پیدا کرلی جو نہ ہماری زبان تھی نہ ان کی ‘‘ لیکن افسوس کہ سرسید کے اس نظریہ قومیت کی قدر نہیں کی گئی اور اکثریت کی طرف سے اردو کو مصنوعی اور بدیسی زبان کا نام دیکر دیوناگری رسم الخط اور سنسکرت کی وکالت ہونے لگی تو اس سے سرسید کا نظریہ قومیت متزلزل ہوگیا اور وہ ہندو مسلم اتحاد کے ساتھ ساتھ برطانوی ہندوستان کے مسلمانوں اور اردو کومساوی درجہ دلانے کی جدوجہد میں مصروف ہوگئے۔

سرسید نہ دو قومی نظریہ کے حامی تھے نہ تصورِ پاکستان کا انہیں خالق قرار دیا جاسکتا ہے بلکہ حقیقت یہ ہے کہ وہ مسلمانوں کے لئے عزت وقار کی زندگی چاہتے تھے اور اس راہ میں کانگریس انہیں حائل ہوتی نظر
آتی تو وہ اس کی مخالفت کرتے، تعلیم ضروری محسوس ہوتی تو اس کو اپنانے پر زور دیتے اور انگریز حکمرانوں سے مصالحت مفید معلوم ہوتی تو اس سے بھی پرہیز نہ کرتے ۔

سچائی یہ ہے کہ سرسید احمد خاں نہایت سچے اور کھرے ہندوستانی تھے، ان کا ذہن قوم کی ہمدردی اور فکر کی گہرائی کا بے مثل نمونہ تھا، ان میں حیرت انگیز پیش بینی تھی، وہ اس موجِ خوں کے شناور تھے جو اس دور کے سر سے گزر رہی تھی۔ اس کے باوجود تہذیب وسیاست کا کوئی نکتہ ایسانہ تھا جو ان کی نگاہ سے پوشیدہ ہو اور ان کی دل سوزی تو ایسی تھی کہ اس کی ہمسری کرنے والا سرزمین ہند پر نہ پہلے کوئی تھا اورنہ بعد میں دکھائی دیتا ہے۔


*********************

 

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 759