donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Personality
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Ataur Rahman Noori
Title :
   Syed Nazmi Mian Marharwi Ki Deeni Adbi wa Sheri Khidmat

(پہلے عرس کی مناسبت سے لکھی گئی تحریر)

حضور نظمی  ؔمیاں:رُخ حیات کی چند جھلکیاں


سید نظمی  ؔمیاں مارہروی کی دینی،ادبی وشعری خدمات


از:عطاء الرحمن نوری مبلغ سنّی دعوت اسلامی ،مالیگائوں


    سید آل رسول حسنین میاں نظمی مارہروی ،ہندوستان کے نجیب الطرفین ساداتِ کرام میں بلندوبالامقام پر فائز خاندان برکات کے چشم وچراغ ہیں۔حضرت نظمی میاں کی ولادت باسعادت مارہرہ شریف میں ۶؍رمضان المبارک ۱۳۶۵ھ بمطابق ۱۴؍اگست ۱۹۴۶ء کوہوئی۔خاندانی نام محمد حیدراور تاریخی نام سیدفضل اللہ قادری ہے۔آپ سید آل رسول حسنین میاں برکاتی کے نام سے مشہور ہے اور آپ کا تخلص’’نظمی‘‘ہے۔ابتدائی تعلیم کے بعد انگریزی ادب اور اسلامیات میں گریجویشن کی تکمیل کے بعد انڈین انسٹی ٹیوٹ آف ماس کمیونیکیشن،دلی سے جرنلزم کے کورس میں نمایاں کامیابی حاصل کی۔بعدہ UPSCکے تحت منعقد ہونے والے سول سروسز کے مشکل ترین امتحان میں شرکت کی اور تمغۂ کامیابی سے سرفراز ہونے کے بعد مرکزی حکومت کی وزارت اطلاعات ونشریات کے محکمۂ پریس انفارمیشن بیورو(P.I.B.)سے ملازمت کا آغاز کیا۔

٭زباندانی:حضور نظمی ؔ میاں کثیرلسانی شخصیت کے حامل تھے۔آپ کو اردوکے علاوہ عربی،فارسی،ہندی،انگریزی،مراٹھی،گجراتی اور سنسکرت جیسی زبانوں پر عالمانہ و فاضلانہ دسترس حاصل تھی۔یہی وجہ ہے کہ آپ کی فکرونظر میں گہرائی وگیرائی جلوہ فگن تھی۔آپ کی زبان دانی کے سلسلے میںیہ بھی ملحوظ رہے کہ ان کاشعری شجرہ حضور سیدالعلماء سیدمیاں مارہروی اور حضرت احسن مارہروی سے ہوتاہوا براہِ راست داغ دہلوی تک پہنچتاہے جنھوں نے بڑے زعم کے ساتھ یہ شعر کہاتھا   ؎

اردوہے جس کانام ہمیں جانتے ہیں داغؔ            سارے جہاں میں دھوم ہماری زباں کی ہے

    زبان کے سلسلے میں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ آپ کے داداجان حضرت سیدآل عبا رحمۃ اللہ علیہ اردوزبان کے منفرد انشاپردازاور صاحب ِ اسلوب ادیب تھے۔بچپن سے کثیرالمطالعہ ہونے کی وجہ سے آپ کے پاس الفاظ کا خزانہ موجودتھا۔علامہ سید محمداشرف قادری برکاتی صاحب(شہزادۂ حضور احسن العلمائ)تحریرفرماتے ہیں:شعر کی عمارت الفاظ کے اینٹ گارے سے تیار کی جاتی ہے۔الفاظ بظاہر یک رخے ہوتے ہیں لیکن جب ان کاخلاقانہ استعمال ادب میں ہوتاہے تووہ یک رخے الفاظ ہشت پہل ہیرے بن جاتے ہیں،جن کے لشکارے میں پوراشعر چمک اٹھتاہے۔ضرورت صرف اس بات کی ہوتی ہے کہ شاعر شعر کے موضوع اور خیال کی نزاکت کی مناسبت سے الفاظ کااستعمال کس طرح کررہاہے۔نگینے کی طرح جڑ رہاہے یابڑھئی کی طرح کیلیں ٹھونک رہاہے۔نظمی اپنے شعر میں جو لفظ لاتے ہیںوہ اس کی روح سے واقف ہوتے ہیں۔جہاں آسمان کہناہوتاہے وہاں فلک نہیں کہتے ،جہاں زمین باندھناہوتاہے وہاں دھرتی نہیں باندھتے‘‘۔(بعد ازخدا،ص۲۱)آپ نے چوکھارنگ،ملنگ،دبنگ،پیم ،سونے نین،چرن،دن دنادن،سناسن،ٹناٹن،اور کھناکھن وغیرہ ہندی کے مدھربولوں کااستعمال بھی بڑی حسن خوبی سے کیاہے۔

٭شاعری کی ابتدائ:حضور نظمی  ؔ میاں نے چھٹی یاساتویں جماعت میں شاعری کاآغاز کردیاتھا۔ آپ نے اعلیٰ حضرت امام احمد رضا رحمۃ اللہ علیہ کا مجموعۂ کلام’’ حدائق بخشش ‘‘پڑھناشروع کیا ،اس دوران آپ کو کئی ایک نعتیںازبر ہوگئیںاور مختلف تقاریب میںآپ وہ نعتیں پڑھنے بھی لگے۔مزار اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ کی حاضری پر آپ نے بارگاہ صمدیت میں دعاکی’’اے پرودردگار!عشق رسول اور نعت مصطفی علیہ التحیۃ والثناء کاجوسمندر تونے اپنے محبوب بندے احمد رضا کے سینے میںموجزن فرمایاتھااس کاایک قطرہ اپنے کرم سے میرے سینے میں بھی ڈال دے۔‘‘(بعد از خدا،ص۴۳)سفر بریلی سے واپسی کے بعد آپ نے اعلیٰ حضرت کی سترہ نعتوں پر تضامین لکھی۔بہت کم لوگوں نے کلام ِرضا میں پیوندکاری کی جسارت کی ہے کیونکہ ظاہرہے کہ مخمل میں ٹاٹ کاپیوندنہیں لگایاجاتا۔حضور نظمی ؔ میاںنے سترہ نعتوں پرتضامین لکھی ہیں اور ہرنعت میں مخمل کے ساتھ مخمل کاہی جوڑلگایاہے۔مثلاً:

انگلیوں سے چشمے جاری ہوںوہ ان کادست پاک   بادشاہی جس پہ ہوقرباں وہ ان قدموںکی خاک

معجزات مصطفی کی سارے عالم میں ہے دھاک  سورج الٹے پائوں پلٹے چانداشارے سے ہوچاک

اندھے نجدی دیکھ لے قدرت رسول اللہ کی

کلام رضاپر تضامین کامجموعہ ’’شان مصطفیﷺ‘‘کے نام سے شائع ہوکر عام وخاص سے دادودہش حاصل کرچکاہے ۔

٭عظیم روحانی پیشوا:آپ کی شخصیت کاسب سے اہم اور قابل ذکر پہلویہ تھاکہ آپ امام احمدرضا علیہ الرحمہ کے پیرومرشداور مفتی اعظم ہند کے پیرومرشدکی گدی کے وارث وامین اور سجادہ نشین تھے۔اس اعتبار سے آپ روحانیت وعرفانیت،تصوف ومعرفت اور طریقت وحقیقت کے بھی کوہ گراں تھے۔ہزارہا مصروفیات کے باوجود دین اسلام کی تبلیغ واشاعت میں تاحیات کوشاں رہے ۔آپ نے اصلاح امت،تحفظ سنّیت،ترویج مسلک اعلی حضرت،رشدوہدایت،تصوف وولایت،تاریخ اسلامی اور سیرت طیبہ کے اہم گوشوں کواجاگر کرنے کے لیے درجنوں کتابیں تصنیف فرمائی۔تاحیات ملکی وبیرونی تبلیغی اسفارکا سلسلہ جاری رہا۔ایسابھی نہیں ہیکہ آپ کادائرہ کار صرف خانقاہ تک ہی محدود تھا بلکہ آپ ایک ہمہ جہت شخصیت تھی۔اس بات کا اندازہ پروفیسر ڈاکٹرانور شیرازی کے اس تبصرے سے لگایاجاسکتاہے۔چنانچہ ڈاکٹر شیرازی رقم طراز ہیں:’’مولیٰناسیدآل رسول نظمی سے میری ملاقات پریسٹن میں ہوئی تھی جب وہ سنّی دعوت اسلامی کے اجتماع میں شرکت کے لیے آئے تھے۔پہلی نظر میں وہ مولیٰنا ہی لگے،کہیں سے کہیں تک شاعر نہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔نظمی کامیدان بنیادی طور پر روحانیت ہوناچاہئے تھاکیونکہ وہ جس خاندان عالی سے تعلق رکھتے ہیں اس کایہی تقاضاہے۔مگرمیں جس نظمی سے ملاوہ روحانیت کے علاوہ فلمی ادب ، جاسوسی ادب،زرد صحافت وغیرہ جیسے نازک موضوعات پر بھی کافی گہری نظررکھتاہے۔تقریباًچونتیس کتابوں کے مصنف نے مجھ سے عالمی مذاہب کے تقابلی موازنے پر کافی تفصیل سے گفتگوکی،کبھی مجھے ایسالگاکہ میں پنڈت آل رسول سے مخاطب ہوں اور کبھی یوں محسوس ہواکہ میرے سامنے فادر آل رسول بیٹھے ہوئے ہیں۔نظمی اپنے ہررنگ میں منفرد لگے‘‘۔(بعداز خدا،ص۳۳

٭تصنیفی خدمات:نعتیہ شاعری تو آپ کاخاص میدان فکروعمل تھا ویسے آپ کا رہ وار قلم نثرونظم دونوں ہی میدانوں میں یکساں رواں دواں تھا۔آپ نے اپنا قلمی سفر ۱۹۵۸ء میں ایک کہانی سے شروع کیا۔’’یادگار‘‘ کے عنوان سے یہ کہانی دلی سے شائع ہونے والے بچوں کے رسالے ماہنامہ کھلونا میں چھپی تھی۔کئی اور کہانیاں اور افسانے ہندوستان کے مشہور ادبی رسالوں میں چھپے۔کئی برس غزلیں اور نظمیں لکھیںجوملک کے مشہور ومعروف ادبی رسالوں اور اخبارات میں شائع ہوئیں۔آپ نے اردو کے علاوہ فارسی،ہندی گجراتی اور انگریزی میں بھی اپنا علمی اثاثہ علمی دنیااور جہانِ ادب کو عنایت کیا ہے۔دیگر زبانوں سے اردو میں تراجم بھی کیے ہیں اور اردو سے دیگر زبانوں میں بعض اہم کتب کو منتقل بھی کیا ہے۔ آپ کی بیش تر تصانیف زیورِ طبع سے آراستہ ہو کر منصہ شہود پر جلوہ گر ہو کر اہلِ علم و دانش سے خراجِ تحسین حاصل کر چکی ہیں۔حضورنظمی مارہروی کی42؍ تصانیف موجودہیں۔

٭وفات: ۶؍نومبر بروز بدھ ۲۰۱۳ء کوحضور نظمی میاں جیسی تہہ در تہہ اور متنوع صفات وخصوصیات کی حامل شخصیت اپنے مالک حقیقی سے جا ملی۔نزدمینارہ مسجد ممبئی میں آپ کے صاحبزادہ کی اقتدا میں ہزارہاعقیدت مندوں نے نم پلکوں کے ساتھ نماز جنازہ ادا کیں۔مارہرہ شریف میں تدفین عمل میں آئی ۔ مولیٰ کی بارگاہ میں دعاہیکہ اللہ پاک اپنے محبوب کے قدموں میں اعلیٰ مقام عطافرمائے

یو این این

ماخذ:
۱۔بعدازخدا        ۲۔اقلیم نعت کا معتبر سفیر:سیدنظمی مارہروی

***********************

 

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 680