donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Personality
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Ahmad Jawed
Title :
   Dr Alif Ansari Nasar Nigari Me GonagoN Shakhsiat Ke Malik


 ڈاکٹر الفؔ انصاری نثر نگاری میں گوناگوں شخصیت کے مالک

 

( از:  احمد جاوید،شیب پور، ہوڑہ (مغربی بنگال

 موبائل:9831516136

    کسی بھی قوم کی تہذیب و ثقافت اور آگہی کی بنیاد اس کی زبان پر قائم ہوتی ہے اور زبان ہی ایک ایسا وسیلہ ہے جس کے سہارے انسان اپنی زندگی کے ارتقائی مراحل طے کرتا ہے ۔ جس زبان میں جتنی وسعت ہوگی اس سے وابستہ قوم بھی اتنی ہی ترقی یافتہ ہوگی۔جس طرح دنیا کی بیشتر زبانیں کئی زبانوں سے مل کر عالمِ وجود میں آئیں ٹھیک اسی طرح سے ایک نئی زبان کی تخلیق ہوئی جسے مخلوطی زبان سے تشبیہ دی جاسکتی ہے۔ اس طرح اردو ایک مخلوط زبان ہے ۔ ابتدا میں پوری دنیا میں ایک ہی زبان بولی جاتی تھی یا الگ الگ جگہوں پر الگ الگ زبانوں نے جنم لیا یا پھر یہ کہ زمانے کے ساتھ ساتھ زبانیں بھی بدلتی رہتی ہیں۔ اردو ایک لشکری زبان ہے۔ اس کا شمار دنیا کی جدید زبانوں میں ہوتا ہے حالانکہ اردو زبان کو خالص زبان نہیں کہا جا سکتا ہے کیونکہ جب مسلمان بحیثیت فاتح ہندستان میں داخل ہوئے اور ہندستانی باشندوں سے ان کا میل جول بڑھا۔ اس وقت ملک کی زبان میں ایک معمولی سی تبدیلی ہونی شروع ہوئی۔ مسلمان فارسی بولتے تھے ۔ دفاترمیں اسی کا سکہ تھا۔ ہندوئون نے بھی اسے شوق سے سیکھا۔ ادھر ملک میں جو زبان رائج تھی اسے بھی مسلمانوں نے سیکھا۔عوام وہی بولتے تھے چنانچہ اس مخلوط زبان میں بڑے بڑے شاعرو ادیب ہوئے اور تالیف و تصنیف بھی ہوئی۔ اس میل جول اور خلاملا سے ایک نئی زبان نے جنم لیا جس کانام بعد اردو رکھاگیا۔ اس وقت نثرنگاری کا چلن نہ کے برابر تھا۔ منظوم ، تک بندی میں لوگ بڑی دلچسپی لیتے تھے ۔ بیشتر کہانیاں، قصے اور افسانے عربی و فارسی میں مروج تھے۔

    مغلیہ سلطنت کے زوال کے بعد سمندر کے راستے ہندواور مسلمان سے جدا ایک نئی قوم انگلستان سے ہندستان پر مسلط ہوئی جو ان دونوں سے بالکل غیر تھی۔ ہندستانی تہذیب اور زبان سے روشناس کرانے کے لئے10جولائی 1800ء میں لارڈ ٹرالی نے فورٹ ولیم کالج کی بنیاد رکھی تاکہ ہندستانی زبانوں کو کسی حد تک سمجھنے اور بولنے کی تعلیم دی جائے۔ کالج کے قیام سے بہت پہلے انگریزوں کو اس ضرورت کا احساس ہوچکا تھا۔ نتیجہ یہ کہ اردو میں فارسیت سے آزاد لفاظی اور عبارت آرائی سے بے نیاز سلیس زبان کی داغ بیل پڑ گئی اور اردو نثر کی ترقی کے امکانات روشن ہوگئے۔

     نثر کی تاریخ اٹھاکر دیکھیں تو سترہویں صدی میں نثر نگاری کا آغاز ہوچکا تھا اور اردو کا سب سے پہلا ناول 1636میں لکھاگیا۔ کلکتہ کے فورٹ ولیم کالج میں بہت سارے مشہور صاحب قلم، مصنفین و مترجمین میرامن، میر حیدر بخش حیدری، میر شپر علی افسوس، نہال چند لاہوری، بینی نرائن جہاں، غلام غوث، کندن لال اورکاشی راج وغیرہ کی شعبۂ تصنیف و تالیف میں تقرری ہوئی۔

    ڈاکٹر درخشاں زریں اپنی تخلیق ’’اردو لسانیات کی تاریخ‘‘ میں شکیل الرحمن کے حوالے سے زبان کی تعریف کچھ اس طرح کرتی ہیں:

’’زبان جذبات کے اظہار کا سب سے اعلیٰ ذریعہ ہے ۔ زبان جذبات کی سانس ہے ۔ اس سانس کی خوشبو سے انسان کی سرمستی قائم رہتی ہے۔ یہ سانس اکھڑ جائے تو جذبات کی لہریں خاموش ہوجائیں۔ ساری خوشبو اڑ جائے ۔ سارے گیت اداس ہوجائیں اور شہد کی مٹھاس اور شیرینی باقی نہ رہے۔‘‘

    اور زبان کی تعریف E.H.Sturtevantبیان کرتا ہے:

 "A language is a system of orbitrary vocal system by which menbers of a social group cooperate and interact."

    یعنی زبان خود سے اختیار کی گئی صوتی علامات کا ایک ایسا نظام ہے جس کی  مدد سے کسی سماجی گروہ کے افراد آپس میں تعاون کرتے مختلف چیزوں سے متعلق اپنے ردعمل کا اظہار کرتے ہیں۔مگر یہ افسوس کامقام ہے کہ شاعری نے اردو ادب میں جتنا اپنا مقام بلند کیا نثرنگاری میں اس کی مقبولیت  کم ہے۔ ہندستان میں دوسری زبان والے مثلاً بنگلہ، تامل ، کناڈی، گجراتی اور آسامی ادب نثر نگاری میں نہ صرف ہندستان میں بلکہ اپنی نثر نگاری کو بیرون ملکوں تک اپنے فنِ ادب کے ذریعہ لوہا منوانے کی کوشش کی ہے اور اس میں ایک حد تک کامیاب بھی ہیں۔

    الف انصاری کی مطبوعہ تصنیفات و تالیفات بارہ کتابی شکل میں ہیں اور تیرہویں تالیف ’’نثر نگارانِ بنگالہ‘‘ ہے۔ ایم نصر اللہ نصر لکھتے ہیں کہ نثر نگاری ہو یا شعر گوئی دونوں اصناف کارِ سہل نہیں۔ دونوں کے لئے مطالعے و مشاہدے، زبان و بیان پر قدرت اور لفظ شناسی کے ہنر سے واقفیت لازمی ہے۔

    چونکہ نثر نگاری سب سے پہلے بنگال کی سرزمین سے باقاعدہ شروع ہوئی تو ظاہر ہے اس کا جرم(Jerm) اس کا مواد یہاں کے لوگوں میں پایاگیا ہے اور نثری تخلیق کے سہارے بنگال کے مصنفین و موّلفوں نے جو کوششیں کی ہیں ان میں محترم الف انصاری صاحب نے ان کے ساتھ منصفانہ رویہ اختیار کیا ۔ انہوں نے نہ انصاف دلانے کے لئے بلکہ نثر نگاران بنگالہ کی جلد دو کی تالیف کی ہے ۔ اس میں کچھ ایسے قلم کار ہیں میں ان کانام لکھنا نہیں چاہتا ہوں ان کی طرز نثر نگاری کو دیکھ کر جنہیں باربار پڑھنے کو جی چاہتا ہے اور اگر وہ لوگ نثر نگاری میں اپنا وقت صرف کریں تو شاعری سے بہتر نثر نگاری میں اپنامقام بلند کرسکتے ہیں۔

    محترم الف انصاری صاحب نے ایک کارنامہ انجام دیا ہے کہ مؤلف ہونے کے باوجود مصنف اور محقق سے زیادہ اپنادرجہ بلند کیا ہے۔ جلد اول میں129اور جلد دوم میں 113نثر نگاروں کو ان کی تحقیق و تخلیقات کے ذریعہ نہ انہیں متعارف کروایا بلکہ بنگال کے نثر نگاروں کو اعلیٰ مرتبہ ، صحت مندانہ اور حوصلہ افزائی بخشا ہے۔ اس کے لئے وہ مبارک باد کے مستحق ہیں ۔جب بھی کسی دوسری ریاستوں میں دونوں کتابیں پڑھی جائیں گی تو وہ لوگ یہ کہنے پر مجبور ہوجائیں گے کہ کون کہتا ہے نثر نگاری کا ارضِ بنگالہ میں فقدان ہے۔ اس کی لاج نہ صرف قلم کاروں نے رکھی ہے بلکہ محترم الف انصاری نے بنگال کے نثر نگاروں کو جلا بخشی ہے ۔ میری ان سے مؤدبانہ گزارش ہے کہ اگر کچھ نثر نگار وقلم کارجو ان کی فہرست میں آنے سے رہ گئے ہیں’’نثر نگارانِ بنگالہ‘‘ کی تیسری جلد میں انہیں شامل کرکے اس مشن کو مزید تقویت پہنچائیں۔ ہمیں امیدقوی ہے کہ جلد سوم میں ڈاکٹر الف انصاری اس کے تدارک کی کوشش ضرور کریں گے ۔ میں ان کی کاوشوں کو سراہتے ہوئے ایک بار پھر انہیں دلی مبارکباد پیش کرتا ہوں اورآخرمیں اقبالؔ کے اشعار ان کی نذر کررہا ہوں:

خرد کے پاس خبر کے سوا کچھ اور نہیں
ترا علاج نظر کے سوا کچھ اور نہیں
ہر اک مقام سے آگے مقام ہے تیرا
حیات ذوقِ سفر کے سوا کچھ اور نہیں

٭٭٭

احــمــد جـــاویــد
 شیب پور، ہوڑہ
 موبائل:9831516136
Email: ahmedjawed15@gmail.com

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 678