donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Eucational Article -->> Muslim Moashra
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Ghaus Siwani
Title :
   Sufia Ki Talimaat Apnayo Aur Dahshat Gardi Se Nejat Payo


 صوفیہ کی تعلیمات اپنائو اور دہشت گردی سے نجات پائو 


غوث سیوانی، نئی دہلی


    دہشت گردی کو کیسے ختم کیا جائے؟ کیا کوئی ایسی ترکیب ہے جس کے ذریعے دہشت گردی کا خاتمہ ہوسکتا ہے؟ کیا دہشت گرد گروہوں کے پھلنے پھولنے سے روکا جاسکتا ہے؟ اس قسم کے سوال ان دنوں اکثر پوچھے جاتے ہیں اور میڈیا میں اس قسم کی بحثیں بھی ہوتی رہتی ہیں۔ اس کا سبب یہ ہے کہ دہشت گردی اور تشدد ہمارے سماج کا ناسور بن چکا ہے اور دنیا اس کے خاتمے کے لئے سرگرداں ہے۔ جہاں ایک طرف طاقت ور ملکوں کی طرف سے کمزور ملکوں کے خلاف دہشت گردی کا سلسلہ جاری ہے، وہیں دوسری طرف سماج کا ایک طبقہ دوسرے طبقے پر ظلم وجبر میں مصروف ہے۔اس وقت دنیا بھر میں کئی قسم کی دہشت گردیاں نظر آرہی ہیں۔ امیر اور طاقت ور ممالک کمزور ممالک کے قدرتی وسائل پر قبضہ کر رہے ہیں۔ حکمراں طبقہ عوام کے حقوق مار کے اپنے لئے عیش وعشرت کے محل تعمیر کررہا ہے تو کچھ تشدد پسند جماعتیں عوامی مقامات پر بم دھماکے کرکے لوگوں کو خوف وہراس میں مبتلا کر رہی ہیں۔خواتین کے خلاف جرائم عام ہیں جو تشدد اور دہشت گردی کی ہی ایک قسم ہیں اور ان جرائم میں ترقی یافتہ اور ترقی پذیر ممالک کے بیچ کوئی فرق نہیں ہے۔ ہمارے سماج کا امن وسکون انھیں حالات کی نذر ہوچکا ہے اور ایسا لگتا ہے کہ آنے والے ایام مزید بدتر ہونگے کیونکہ بڑے دہشت گرد چھوٹے دہشت گردوں کو ختم کرنے کے درپے ہیں تاکہ ان کے مظالم کے خلاف کوئی آواز اٹھانے والا باقی نہ رہے۔    

بغداد ،دلی، ماسکو،لندن کے درمیاں

 بارود بھی بچھائے گی اکیسویں صدی

دہشت گردی کے خاتمے میں تعلیمات ِصوفیہ کی اہمیت 


    انسانی سماج اور جنگل راج میں یہ واضح فرق ہے کہ انسانی سماج کا ایک دستور ہوتا ہے جب کہ جنگل میں کوئی قانون نہیں چلتا ہے۔ ہر طاقت ور جانور کمزور جانور کو کھاجاتا ہے۔ مگر انسانی معاشرہ میں ایسا نہیں چل سکتا۔ انسان کو بقائے باہم کے دستور پر چلنا پڑتا ہے اور ’’جیو اور جینے دو‘‘کے مطابق زندگی گزارنا پڑتا ہے۔ یہ حق پورے مہذب سماج کا ہے ۔ اس کے بغیر کوئی انسانی معاشر ہ وجود میں نہیں آسکتا ۔ بقائے باہم کا اصول اقوام متحدہ کے تسلیم شدہ حقوق کا حصہ ہے۔ ویسے بھی اگر انسان خون انسانی کااحترام کرنا بند کردے تو یہ دنیا باقی نہیں بچے گی اور سب کچھ تہس نہس ہوجائے گا ۔ بقائے باہم کے اصول کو توڑنا ہی بنیادی طور پر دہشت گردی ہے۔ یہ جرم کوئی ایک انسان کرے، پوری جماعت کرے یا کوئی ملک کرے، بہرحال غلط ہے۔جو انسان ایسی حرکت کا ارتکاب کرتا ہے، وہی دہشت گرد ہے اور وہ اس سماج میں رہنے کے لائق نہیں۔ ملکی قوانین انسان کو دہشت گردی سے روکنے کا کام کرتے ہیں اور قانون کے خوف سے لوگ جرائم سے رک جاتے ہیں مگر صوفیہ کی تعلیمات میں دہشت گردی اور تشدد سے بچائو کا ایک مختلف راستہ اپناتا ہے۔ وہ انسان کو انسان کا احترام سکھاتا ہے۔ وہ کہتا ہے کہ قانون کا احترام اپنی جگہ پر مگر اصل بات اپنے خالق ومالک کا خوف ہے۔قانون کا خوف تو لوگوں کے اندر تب ہوتا ہے جب گواہ موجود ہوں،جب کہ صوفیہ کی تعلیمات انسان کو غلط کاریوں اور ظلم وتشدد سے روکنے کے لئے اللہ کی جانب مائل کرتی ہیں۔ تصوف بتاتا ہے کہ اللہ ہروقت ،ہرجگہ انسان کی نگرانی کر رہاہے ،اس لئے اسے کبھی بھی قدرت کے قانون کے خلاف نہیں جانا چاہئے۔ اللہ انسان کے دلوں کے بھید سے بھی واقف ہے لہٰذا دل کے اندر بھی ایسا خیال نہ لایا جائے۔  تصوف انسان کی ایسی تربیت کرتا ہے کہ وہ اس قسم کے ظالمانہ کاموں کی طرف مائل ہی نہ ہو ۔ یہاں آدمی کی سوچ کو مثبت بنایا جاتا ہے۔ حضرت نظام الدین اولیاء رحمۃ اللہ علیہ کا ایک مشہور واقعہ ہے کہ کسی شخص نے آپ سے پوچھا کہ فلاں شخص میرے ساتھ بدسلوکی کرتا ہے ،کیا میں بھی اس کے ساتھ ویسا ہی سلوک کروں توآپ نے فرمایا کہ ،ہرگزنہیں۔ اگر کوئی تمہارے راستے میں کانٹے بچھائے اور تم بھی اس کے راستے میں کانٹے بچھائو تو یہ دنیا کانٹوں سے بھر جائے گی۔کانٹوں کو جواب کانٹے ہرگز نہیں ہوسکتے۔ صوفیہ کرام کی یہی تعلیمات انسان کے اندر مثبت اسپرٹ پیدا کرتی ہیں اور اسے ظلم وتشدد سے روکتی ہیں۔ اگر دہشت گردی کو ختم کرنا ہے تو دنیا کو اسی سوچ کی جانب آنا پڑے گا۔اس تعلیم وتربیت کی ضرورت آج جس قدر ان جماعتوں کے لوگوں کو ہے جو حکومتوں کے خلاف مسلح ہوکر کھڑے ہوئے ہیں،اس سے زیادہ ان حکمرانوں کو ہے جن کے غیرمنصفانہ اقدام نے تشدد اور دہشت گردی کو جنم دیا ہے۔   

مظالم کی ممانعت

    صوفیہ کرام کی تعلیمات مظالم کی ممانعت کرتی ہیں۔وہ انسان ہی نہیں جانوروں پر بھی ظلم کے خلاف ہیں۔امام محمد غزالی علیہ الرحمہ نے اپنی تصنیفات میں ظلم کے خلاف کئی واقعات درج کئے ہیں ۔جن میں سے ایک واقعہ یوں ہے کہ:

    ’’وہب بن منبہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کسی ظالم بادشاہ نے شاندار محل بنوایا ۔ایک مفلس بڑھیا آئی اور اس نے محل کے پہلو میں اپنی کٹیا بنا لی ،جس میں وہ سکون سے رہتی تھی ۔ ایک مرتبہ ظالم بادشاہ نے سوار ہوکر محل کے ارد گرد چکر لگایا تو اسے بڑھیا کی کٹیا نظر آئی ، اس نے پوچھا کس کی ہے ؟ کہا گیا ایک بڑھیا ہے جو اس میں رہتی ہے ۔ چنانچہ اس نے حکم دیا کہ اسے گرادو لہٰذا اسکے حکم سے گرا دیا گیا ۔جب بڑھیا واپس آئی تو اس نے اپنی منہدم کٹیا کو دیکھ کر پوچھا کہ اسے کس نے گرا دیا ہے؟لوگوں نے کہا اسے بادشاہ نے دیکھا اور گرادیا ۔ تب بڑھیا نے آسمان کی طرف سر اٹھایا اور کہا اے ا للہ اگرمیں حاضر نہیں تھی تو، تو کہاں تھا؟ اللہ نے جبریل کو حکم دیا کہ محل کو اس کے رہنے والوں پر الٹ دو اور الٹ دیا گیا۔،،

    اس قسم کے واقعات عموماً صوفیہ کے تذکروں، ملفوظات اور مکتوبات میں مل جاتے ہیں۔ان واقعات کے ذریعے صوفیہ کرام اپنی خانقاہوں میں آنے والوں کی تربیت کیا کرتے تھے اور اس کا مقصد یہ ہوتا تھا کہ لوگ ظلم وتشدد سے دور رہیں اور ایک دوسرے کے حقوق کا احترام کریں۔

انسانی جان کے احترام کی تعلیم

     دہشت گردی کا اصل سبب ہے انسان کے دل کا خوفِ خدا سے خالی ہونا۔ جس کے دل میں خدا کا خوف نہ ہو وہ کچھ بھی کر سکتا ہے۔ آخرت میں جوابدہی کے احساس کی کمی بھی اسے جرائم کی جانب مائل کرتی ہے۔ صوفیہ کرام کی تعلیمات انسان کے دل میں جہاں اس کی معرفت جگانے کا کام کرتی ہیں، وہیں اس کے بندوں کے ساتھ حسن سلوک کرنابھی سکھاتی ہیں۔صسوفیہ کی تعلیمات انسانی جانوں کا احترام سکھاتی ہیں ،خونِ ناحق سے دور رہنے کی ترغیب دیتی ہیں۔ صوفیہ تو جانوروں کے احترام کی بھی تعلیم دیتے ہیں پھر ان کی تعلیمات پر عمل کرنے والا شخص انسان کو کیسے مارسکتا ہے اور دہشت گردی وجرائم کی جانب کیسے مائل ہوسکتا ہے۔

حضرت امام محمد غزالی علیہ الرحمہ جو کہ ایک عالم دین ہونے کے ساتھ ہی ساتھ ایک بلند پایہ صوفی بھی تھے ، اپنی کتاب مکاشفۃ القلوب میں تحریر کرتے ہیں کہ ’’رسول اکرم ﷺ کا ارشاد ہے،جنت میں رحم کرنے والاہی داخل ہوگا ،صحابہ نے کہا ہم سب رحم کرنے والے ہیں،آپ نے فرمایا رحم کرنے والا وہ نہیں جو اپنے آپ پر رحم کرے بلکہ رحم کرنے والا وہ ہے ،جواپنے آپ پر اور دوسروں پر رحم کرے۔،،وہ مزید لکھتے ہیں کہ’’فرمان نبوی ہے جوکسی بھوکے کو کھانا کھلاتا ہے اس کے لئے جنت واجب ہوجاتی ہے اور جس نے کسی بھوکے سے کھانا روک لیا اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس شخص سے اپنا فضل وکرم روک لے گا ۔،، ایک بزرگ شیخ ابو عبداللہ بلیانی رحمۃ اللہ علیہ گزرے ہیں وہ فرماتے ہیں کہ ’’درویشی صرف شب بیداری،نماز روزہ ہی نہیں ہے بلکہ یہ سب تو بندگی کے اسباب ہیں۔ درویشی یہ ہے کہ کسی کو تکلیف نہ دینا ،اگر تجھے یہ بات حاصل ہو جائیگی تو واصل بن جائیگا۔، ، 

    برصغیر ہندوپاک میں چشتی سلسلہ کے بزرگوں کی تعلیمات کا زیادہ اثر رہا کیونکہ یہاں خواجہ معین الدین چشتی رحمۃ اللہ علیہ نے اس سلسلے کو رائج کیا اور ان کے بعد ملک بھر میں اس سلسلے کو فروغ حاصل ہوا۔ خواجہ صاحب نے اپنے پیرومرشدخواجہ عثمان ہارونی علیہ الرحمہ کا قول اپنی کتاب انیس الارواح کی دسویں مجلس میں بیان کیا ہے جو اس طرح ہے: ’’جب کوئی پیاسے کو پانی پلاتا ہے،اس وقت اس کے تمام گناہ بخش دئیے جاتے ہیں،وہ ایسا ہوتا ہے جیسے ابھی ماں کے پیٹ سے پیدا ہوا ہو،اگر وہ مرجائے تو اس کا شمار شہداء میں ہوگا۔پھر فرمایا جو شخص بھوکے کو کھانا کھلائے اللہ اسکی ہزارضرورتوں کو پورا کرتا ہے اور جہنم کی آگ سے اسے آزادکرتا ہے اور جنت میں اسکے لئے محل مخصوص کرتا ہے۔ ‘‘ قابل غور پہلو یہ ہے کہ جن صوفیہ کی نظر میں پیاسے کو پانی پلانا، بھوکے کو کھانا کھلانا اور پریشان حال شخص کی پریشانی دور کرنا اللہ کی رضامندی کا ذریعہ ہے ،وہ کسی کو اس بات کی اجازت کیسے دے سکتے ہیں کہ وہ کسی پر بھی ظلم وتشدد کرے یا دہشت گردی میں ملوث ہو۔حضرت مجدد الف ثانی شیخ احمد سرہندی اپنے ایک مکتوب میں لکھتے ہیں:

    ’’حق تعالیٰ کی خوشنودیوں میں کوشش کرنا چاہئے اور مخلوق خدا پر رحم کرنا چاہئے۔اللہ کے حکم کی تعظیم کرنا اور االلہ کی مخلوق پرشفقت کرنا یہ دونوں آخرت کی نجات کے لئے اصلِ عظیم ہیں۔‘‘

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 574