donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Eucational Article -->> Muslim Moashra
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Dr. Mozaffar Hussain Ghazali
Title :
   Bachpan Bachega To Desh Badhega


بچپن بچے گا تو دیش بڑھے گا


ڈاکٹر مظفر حسین غزالی


بچے ملک و قوم کا مستقبل ،خاندان و والدین کی ا میدوں کے چشم و چراغ اور روایتوں کے سفیر ہوتے ہیں ۔والدین اپنی استعداد کے مطابق اپنے بچو ں کی حفاظت و پرورش کرتے ہیں ۔ پرورش و حفاظت کا احساس تو جانوروں اور پرندوں میں بھی پایا جاتا ہے لیکن وہ اپنے بچوں پر اس وقت تک کام کا بوجھ نہیں ڈالتے جب تک وہ کام کرنے کے لائق نہ ہو جائیں ۔ شکار پر گزارا کرنے والے جانور و پرندے اپنے بچوں کو شکار کی تربیت دیتے ہیں ۔ سبزی خور یا دانے دنکے کی خوراک والے بچوں میں اس کی سمجھ پیدا کرتے ہیں ۔ کئی انسان کچی عمر میں اپنے بچوں کو کام میں لگا دیتے ہیں ۔ اس سے ان کی پوری طرح نشودنما نہیں ہو پاتی اور صحت پر خراب اثر پڑتا ہے ۔ یہ مسئلہ لمبے عرصے سے سرکار اور سماج کے لئے تشویش کا باعث رہا ہے ۔ کیلاش ستیارتھی  کو اسی موضوع پر کام کرنے کے لئے نوبل انعام سے نوازا گیا ۔

بچوںکو کام یا مزدوری خاص طور پر جوکھم بھرے کاموں میں لگانے سے ان کی صحت اور زندگی کو لاحق ہونے والے خطرات کو سرکار اور سماج نے محسوس کیا ۔بچپن بچائو جیسی کئی رضاکار تنظیموں نے بچوں کو ان پریشانیوں سے نجات دلانے کا بیڑا اٹھایا ۔ سرکار نے 1986میں قانون بنا کر بچوں کے حق میں ایک بڑا فیصلہ لیا ۔ لیکن پھر بھی جن بچوں کو اسکول جانا چاہئے وہ ہوٹلوں ، زردوزی ، کارچوبی ، سلائی کڑھائی ، بیڑی کے کارخانوں ، موٹر مکینک، پنچر ساٹنے  کی دکانوں اور چاندی کے ورق بنانے کے کارخانوں میں  نظر آجائیں گے ۔ بڑی فیکٹری اور کارخانوں میں بچوں کو کام پر رکھنے میں قانون بننے کے بعد کمی ضرور آئی ہے ۔ لیکن اس پر پوری طرح روک نہیں لگ سکی ۔ بچہ مزدوری کو ختم کرنے کے لئے ملکی و بین الاقوامی سطح پر آوازیں اٹھتی رہی ہیں ۔ مرکزی وزارت برائے لیبر اور روزگار کے مطابق بچہ مزدوری (پابندی اور قوانین ) ترمیم بل 2012کو مرکزی کابینہ کی منظوری مل گئی ہے ۔اسے پارلیمنٹ میں رکھا جانا ہے ۔یہ بدلائو نہ صرف 1986کے قانون کی کمیاں دور کرنے سے متعلق ہے بلکہ اس میں  چودہ سے اٹھارہ برس کے کمسنوں کے کام کو لیکر نئی تعریف یا وضاحت بھی کی جا رہی ہے ۔اس سے پہلے 2006میں بھی کچھ تبدیلیاں کی گئی تھیں ۔ مجوزہ ترمیم میں پوری کوشش کی گئی ہے کہ تما م طرح کے کاروبار میں چودہ برس سے کم عمر کے بچوں کو کام پر رکھنے پر پابندی ہو۔ دیکھا جائے تو اسے لازمی تعلیمی حق ایکٹ 2009کی عمر سے بھی جوڑنے کا کام کیا گیا ہے ۔ حالانکہ اس سب کے با وجود کچھ معاملے مثلا روایتی کاروبار استاد شاگرد رشتے کے تحت کام کرنے والے بچے قانون میں شامل نہیں ہوں گے ۔مگر ان کا اسکول جانا ضروری ہوگا ۔ سرکار نے چودہ برس سے کم عمر  کے بچوں کو  لے کر پابند والے قانون پر اصولی رضا مندی تو دیدی ہے لیکن اس کو ٹھوس شکل دینا ابھی باقی ہے ۔ سماجی و معاشی بدلائو کے اس دور میں کافی کچھ بدل رہا ہے اس کے با وجود کئی معاملے زمینی سطح پر سدھار سے محروم ہیں ۔ اس میں بچہ مزدوری بھی شامل ہے ۔عالمی سطح پر بچہ مزدوری کی جو حالت ہے وہ کہیں زیادہ تشویشناک ہے ۔

بھارت میں آزادی کے بعد سے ہی سرکار بچہ مزدوری کولیکر فکر مند رہی ہے ۔ اس مسئلہ کے تمام پہلوئو ںکا جائزہ لینے کے لئے 1979میں گروپادسوامی کمیٹی بنائی گئی تھی ۔ اس کی سفارش پر بچہ مزدوری (ممانعت کے قواعد ) ایکٹ 1986لاگو کیا گیا ۔1987میں بچہ مزدوری پر ایک قومی پالیسی کو عملی شکل دی گئی ۔اس کے علاوہ 1990میں نیشنل لیبر سنستھان جیسی اکائیوں کو ٹھوس شکل دی گئی  پھر بھی بچپن مزدوری کی گرفت سے پوری طرح نہیں نکل پایا ۔بچہ مزدوری کا مطلب ایسے کام سے ہے جس میں کام کرنے والا شخص قانون کے ذریعہ مقرر کی گئی عمر کے اندر ہوتا ہے ۔بچہ مزدوری بچوں کو ان بنیادی سہولیات سے محروم کرتی ہے جن پر ان کا پیدائشی حق  ہے ۔ساتھ ہی اس سے بچوں کی جسمانی ، ذہنی سماجی اور اخلاقی نشودنما میں بھی رکاوٹ پیدا ہوتی ہے ۔ یہ ایسا مسئلہ ہے جس کا حل تلاش کئے بغیر مستقبل کا خیال ممکن نہیں ہے یہ خود میں ملک و سماج کے لئے کلنک تو ہے ہی دوسرے مسئلوں کو بھی جنم دیتا ہے ۔دیکھا جائے تو یہ نو نہالوں کے ساتھ جبرا ہونے والا ایسا عمل ہے جس سے ملک و سماج کا مستقبل خطرے میں پڑتا ہے ۔ یہ ایسا حساس مدہ ہے جو سو سالوں سے غور و فکر کے مرکز میں  ہے ۔ بین الاقوامی سطح پر 1924میں اس وقت اسے لیکر پہل ہوئی تھی جب جینوا منشور میں بچوں کے حقوق کو منظوری دیتے ہوئے پانچ نکاتی پروگرام کا اعلان کیا گیا تھا ۔ اس کے چلتے بچہ مزدوری پر پابندی لگائی گئی ساتھ ہی بچوں کے لئے کچھ مخصوص حقوق کو منظوری دی گئی ۔

بھارت کے آئین میں بچوں کے حقوق کے حوالے موجود ہیں ۔ اس کی کئی دفعات بچوں کو انصاف فراہم کرتی ہیں ۔دفعہ(A)24  تعلیم کا بنیادی حق دیتی ہے ۔جبکہ رہنمائے اصول کے تحت یہ لازمی کیا گیا ہے کہ چھ سے چودھ برس تک بچوں کو ریاست مفت اور لازمی تعلیم مہیا کرائے گی ۔ اتنا ہی نہیں دفعہ 51(A) کے تحت بنیادی فرض کے طور یہ تجویز بھی 2002میں لائی گئی کہ سرپرست انہیں لازمی طور پر تعلیم دلائیں گے ۔ بین الاقوامی لیبر آرگنائزیشن چائلڈ لیبر کو بچے کی صحت اس کی تعلیم میں رکاوٹ ڈالنے اور اس کے استحصال کی شکل میں دیکھتا ہے ۔ آرگنائزیشن کی رپورٹ بتاتی ہے کہ 140ممالک میں 71دیش ایسے ہیں جہا ں بچوں سے مزدوری کرائی جاتی ہے ۔ان دیشوں میں بھارت بھی شامل ہے ۔ ننھے ہاتھوں میں بیڑی ، پٹاخے  ، ماچس  ، اینٹیں ، اسٹیل کا فرنیچر ، چمڑے سے بنے سامان،  جوتے وغیرہ یہی سب دکھائی دیتے ہیں ۔قالین بنوائے جاتے ہیں ، کڑھائی کروائی جاتی ہے اور ریشم کے کپڑے بنوائے جاتے ہیں فائنڈنگ آن دا فارمس آف چائلڈ لیبر ، رپورٹ چونکانے والا خلاصہ کرتے ہوئے بتاتی ہے کہ ریشم کے تار خراب نہ ہوں اس لئے بچوں سے ہی یہ کام کرایا جاتا ہے ۔فلپائن میں بچوں سے کیلا ، ناریل ، تمباکو کی کھتیی کے کاموں کے ساتھ گہنے اور فحش فلموں میں استعمال ہونے والا سامان بھی بنوایا جاتا ہے جبکہ ہمارے پڑوسی ملک بنگلہ دیش میں چودہ مصنوعات کا ذکر کیا گیا ہے جن سے کمسن مزدور جڑے ہیں ۔

بچہ مزدوری پر پابندی لگانے کے لئے 1948کے کارخانہ ایکٹ کے علاوہ درجنوں قانون موجود ہیں ۔اس کے با وجود بچہ مزدوروں کی تعداد میں برابر اضافہ ہو رہا ہے ۔ کل مزدور طاقت میں پانچ فیصد حصہ چائلڈ لیبر کا ہے ۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق دیش میں قریب 43لاکھ چائلڈ لیبر ہیں ۔ بچوں کے حقوق کے لئے کام کرنے والی تنظیم بچپن بچائو  آندولن کا کہنا ہے کہ ایسے بچوں کی تعداد ایک کروڑ 17لاکھ ہے جس میں کام کرنے اور کام کی تلاش کرنے والے سبھی طرح کے بچہ مزدور شامل ہیں ۔پارلیمنٹ میں پیش کئے جانے والے چائلڈ لیبر ممانعت ترمیم بل 2012پر شک ظاہر کرتے ہوئے  تنظیم کی جانب سے جاری سروے میں کہا گیا ہے کہ 2011کی مردم شماری کے مطابق 6سے 14برس کی عمر کے 3کروڑ 39لاکھ بچے  اسکول کی پڑھائی بیچ میں ہی چھوڑچکے ہیں ۔ ایسے میں ان کا آسانی سے بچہ مزدور بننے کا شک ہے ۔ سب سے زیادہ چائلڈ لیبر کپڑا اور جوٹ کے کام میں ہیں ۔ اس کے بعد فٹویئر اور ہوٹل ادیوگ میں ہیں ۔ ایسے بچوں کو مجوزہ قانون سے کوئی راحت نہیں ملنے والی ۔ رپورٹ کے مطابق چائلڈ لیبر کے 21فیصد معاملے گھر خاندان سے جڑے ادیوگ میں دکھائی دیتے ہیں۔ اس میں 14برس سے کم عمر کے 21فیصد بچے اپنے سرپرستوں یا رشتہ داروں کے کام میں ہاتھ بٹاتے ہیں جبکہ 14سے 17سال عمر کے 19فیصد بچے بھی ایسا ہی کررہے ہیں بل میں ایسے بچوں کی حفاظت کی کوئی تجویز نہیں ہے ۔ اس کے علاوہ بل میں خطرناک ادیوگ کی تعداد 86سے گھٹا کر تین کر دیئے جانے کی تجویز بھی چائلڈ لیبر کے لئے بے حد خطرناک ثابت ہو سکتی ہے ۔

ملک میں آئین لاگو ہوئے 65سال ہو گئے ۔لیکن بچہ مزدوری کی فکر سے دیش آزاد نہیں ہوا ۔ یونائیٹیڈ نیشن بچوں کے حقوق سمجھوتے کی دفعہ 32پر بھارت نے ابھی تک رضا مندی نہیں دی ہے ۔ جس میں چائلڈ لیبر کو جڑ سے ختم کرنے کی شرط شامل ہے ۔1992میں یوناٹیٹیڈ نیشن میں بھارت نے کہا تھا کہ اپنے معاشی انتظام کو دیکھتے ہوئے اس سمت میںرک رک قدم اٹھائیں گے اسے ایکدم نہیں روکا جا سکتا ۔23برس بیتنے کے بعد بھی دیش بچہ مزدوری سے اٹا پڑا ہے ۔اتنا ہی نہیں چائلڈ لیبر قانون کی ترمیم میں بھی نرمی دیکھنے کو مل رہی ہے ۔ تازہ معاملہ یہ ہے کہ تفریحی ادیوگ ، کھیل اور خاندانی کاروبار کو اس زمرے سے باہر رکھا گیا ہے اس لئے قانون میں بدلائو کے با وجد بچہ مزدوری کی گنجائش بنی رہے گی ۔ ساتھ ہی قانون میں یہ جوڑا گیا ہے  کہ والدین بچوں کی پڑھائی اور صحت کا دھیان رکھیں  گے کہ وہ متاثر نہ ہو۔سزا کے معاملہ میں بھی یہ ترمیم کافی حد تک ڈھیلا پن لئے ہوئے ہے۔ اس سے ماہرین اور بچوں کے لئے کام کرنے والی تنظیمیں فکر مند ہیں کہ حالات بہتر ہونے کے بجائے اور بد سے بدتر ہو سکتے ہیں ۔بچہ مزدوری کے معاملہ کے ساتھ استحصال اور روزگار کے کئی پہلو جڑے ہیں غیر قانونی کاروبار اور جسمانی استحصال کے شکار بھی زیادہ تر بچے ہی ہوتے ہیں اور اس کے پیچھے غریبی بڑی وجہ ہے۔ دو جون کی روٹی جٹانے کی کوشش میں بچہ مزدوری جنم لیتی ہے ۔چائلڈ لیبر کو پوری طرح ختم نہ ہونے دینے میں پونجی وادی سوچ بھی آڑے آرہی ہے ۔ جب تک کمزور ، غریب لوگوں کی مالی حالت کو بہتر بنانے اور بچو ں کو تعلیم سے جوڑنے کی کوشش نہیںکی  جائے گی تب تک قانون لولے لنگڑے ہی ثابت ہوں گے ۔ چائلڈ لیبر کو ختم کرنے والے مثالی خیال بہت عمدہ ہو سکتے ہیں لیکن زمین پر بچپن پستا رہے گا ۔ ضرورت ہے کہ سرکار کے ساتھ سماج اس مسئلہ کے تئیں حساس ہو۔  ہر شخص کو آگے آکر ملک سے  اس کلنک کو مٹانے کے لئے اپنی ذمہ داری ادا کرنی ہوگی کیونکہ بچپن بچے گا تبھی دیش ترقی کرے گا ۔

(یو این این)

***************************

 

 

 

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 655