donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Eucational Article -->> Muslim Moashra
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Dr. Gholam Jeelani Barq
Title :
   Man Ki Baat

"من کی دنیا"


عقل و دل و نگاہ کا مرشد ِ اولیں ہے عشق

عشق نہ ہو تو شرع و دیں بْت کدوتصورات

 

علامہ ڈاکٹر غلام جیلانی برق


بچہ جب تک ماں کے پیٹ میں ہوتا ہے ، یہی سمجھتا ہے کہ کائنات صرف یہی چھوٹی سی جگہ ہے۔اس میں کہیں روشنی موجود نہیں، اور کہ وہ اس کائنات میں
تنہا ہے۔باہر آتا ہے تو اسے بے شمار انسان، پرندے،حیوان اور درخت نظر آتے ہیں۔نیز ایک ایسی دنیا جو زمین سے آسمان تک ، اور افق سے افق تک پھیلی ہوئی ہے۔کیا یہی ممکن نہیں کہ زندگی ایک قدم اور آگے بڑھ کر ایک ایسی دنیا میں پہنچ جائے ، جس کی بے کراں وسعتوں کے سامنے یہ دنیا رحمِ مادر کی حیثیت رکھتی ہو۔

تمام فلسفوں اور مذہبوں کی بنیاد اس نظریہ پر ڈالی گئی ہے کہ حیات میں تسلسل ہے۔انسان پیدا ہوتا ہے لیکن مرتا نہیں۔جب یہ جسمِ خاکی بیکار ہوجاتا ہے تو حیات جسمِ لطیف میں منتقل ہوجاتی ہے اور اعمال کے مطابق مقام حاصل کرتی ہے۔ تسلسلِ حیات اور مکافاتِ عمل کا عقیدہ نسلِ انسانی کا بہت بڑا سہارا ہے۔ہم اس زندگی میں کتنی ہی دشواریاں، ناکامیاں اور رسوائیاں اس امید پر گوارا کر لیتے ہیں کہ اگلی زندگی میں ان کی تلافی ہوجائے۔اگر آج اس عقیدہ کو ہم کسی طرح ختم کردیں تو ہر طرف  قنوطیت چھا جائے۔شدتِ اضطراب میں کروڑوں نفوس خود کشی کرلیں، بھوکے دولت مندوں کے کپڑے نوچ لیں، بوالہوس حسن کو اْچک لے جائیں۔امنِ عالم برہم ہوجائے، اور تمام اخلاقی و روحانی اقدار کا جنازہ نکل جائے۔

آپ نے سنا ہوگا کہ دنیا کا فلسفء اعظم یعنی سقراط اونٹ کے بالوں کا کْرتہ پہنتا، باسی ٹکڑے کھاتا اور ایک ٹوٹے ہوئے مٹکے میں رہتا تھا۔یہ بھی سنا ہوگا کہ ایک بلند مقصد کی خاطر ابراہیم ؑآگ میں کود پڑے تھے۔مسیح نے صلیب قبول کر لی تھی اور حسین نے اپنا سارا خاندان کربلا کے میدان میں کٹوا دیا تھا۔ اور یہ بھی کہ سرور عالم صلعم کی کل کائنات ایک اونٹی، ایک گھوڑا، کھدر کا ایک جوڑا، اور بان کی ایک چارپائی تھی، سات سات دن بھوکے رہتے تھے، بعثت سے رحلت تک چین کا ایک لمحہ بھی نصیب نہ ہوا، رات عبادت ، دن سیاسی ، تبلیغی اور انتظامی مصروفیات،سال میں دو دو تین تین جنگوں کی تیاری، اور استغنا و بے نوائی کا یہ عالم کہ انتقال سے پہلے حضرت عائشہ سے فرمایا " عائشہ ! میری بالیں کے نیچے دو دینار رکھے ہیں، انہیں اللہ کی راہ میں دیڈالو، مبادا کہ ربِ محمد ، محمد سے بدگمان ہوکر ملے۔"


سوال یہ ہے :

ان دانایانِ رازِ فطرت، ان ہادیانِ نسلِ انسانی اور عظیم مقتدایانِ کائنات نے یہ رویہ کیوں اختیار فرمایا؟ کیا انہیں حسین محلات، دل نواز جَنّات اور آسودگی ہائے حیات سے خدا واسطے کا بیر تھا؟ کہیں اس کی وجہ یہ تو نہیں کہ وہ اس زندگی کی دل فریبیوں میں الجھ کر اپنی حقیقی منزل سے غافل نہیں ہونا چاہتے تھے؟ اور انہیں یقین تھا کہ یہاں اللہ کی راہ میں اٹھائی ہوئی ہر مصیبت وہاں جنّت میں بدل جائے گی۔

اِسی دنیا میں وہ لوگ بھی موجود ہیں جو اللہ سے لاکھوں میل دور اورنش  دولت میں چْور ہیں، اقدارِ عالیہ سے غافل، جزا و سزا کے منکر، مصائب ِ انسان سے بے خبر، بدمست، مغرور اور متکبر ہیں۔اگر موت کو انجام ِ حیات سمجھا جائے تو قدرتاً سوال پیدا ہوگا کہ ان بدمستیوں میں کیا خوبی تھی کہ اللہ نے انہیں اتنا نوازا، اورمسیح و خلیل  نے کیا قصور کیا تھا کہ انہیں جگر دوز مصائب کا ہدف بنایا؟ اس سوال کا جواب ایک ہی ہو سکتا ہے کہ دنیائیں دو ہیں۔
یہ دنیا ، جس کی بقا "یک شرر بیش نہیں۔۔۔۔"

اور وہ دنیا، جس کا کوئی کرانہ نہیں۔

کوئی دانش مند چند روز عیش کیلئے کروڑوں سال کی زندگی کو تباہ نہیں کر سکتا، اور دانایانِ رازِ فطرت نے ہمیشہ یہی کیا کہ اس زندگی کے مفاد کو مقدم رکھا۔ اس سائنس دان سے، جو علّت کو معلول سے، اسباب کو نتائج سے اور ایکشن کو ری ایکشن سے الگ فرض ہی نہیں کر سکت، ہم یہ پوچھنے کا حق رکھتے ہیں کہ جن لوگوں نے دفاعِ وطن، قیامِ صداقت اور بقائے انسان کیلئے ظالم و سنگدل حکمرانوں ، ڈاکوؤں اور چوروں کے خلاف جہاد کیا، گھر بار لٹایا، سینوں میں برچھیاں کھائیں، اور صحراؤں میں تڑپ تڑپ کر جان دی، ان کا صلہ کہاں ہے؟ جس ہلاکو خاں نے صرف بغداد میں اٹھارہ لاکھ نفوس کو قتل کیا، ہمارے اسلاف کی دو کروڑ کتابیں دجلہ میں پھینک دی، اسے کیا سزا ملی؟ خود اپنی ہاں ہم آئے دن دیکھتے ہیں کہ بے نوا و بے سفارش لوگ ہر مقابلے میں ناکام رہ جاتے ہیں، اور نااہل سفارشی اونچی کرسیوں پہ جا بیٹھتے ہیں، کیا ان تمام ناانصافیوں کو ختم کرنے کیلئے اس زندگی کا خاتمہ اور اک نئی زندگی کا وجود ضروری نہیں؟
فلسفے کو چھوڑئیے ، اور روح کی بات سنئے۔روح  کی گہرائیوں سے دما دم یہ صدا اٹھ رہی ہے کہ میں لازوال ہوں، ابدی و سرمدی ہوں، زمان و مکان میں میرا قیام عارضی ہے ، اور میرا اصلی مسکن دنیائے اثیر ہے۔یہ وہ صدا ہے جس کی تائید ایک کروڑ مساجد، ساٹھ لاکھ گرجوں اور لاتعداد مندروں سے ہورہی ہے اور یہ وہ حقیقت ہے ، جس کی تصدیق سوا لاکھ انبیا نے کی، اور جس پر آج کم از کم اڑھائی ارب انسان ایمان رکھتے ہیں۔


میں نے مندرجہ ذیل حقائق کو واضح کیا ہے:

1۔ کہ حیات مسلسل ہے
2۔کہ حسین اعمال سے روح عظیم و توانا بن جاتی ہے
3۔کہ انسان کا جلال، شوکتِ سنجر وسلیم ہے، اور جمال وہ نیاز و گداز، جو عبادت سے پیدا ہوتا ہے۔
4۔کہ مسلم جمال و جلال کا حسین امتزاج ہے
5۔ کہ عبادت سے شخصیت میں مقناطیسی کشش پیدا ہوجاتی ہے
6۔کہ تمام مسرتوں اور توانائیوں کا سر چشمہ اللہ ہے اور جو شخص اس ذات سے رابطہ قائم کر لیتا ہے، اس کی ہستی عمیق اطمینان و سکون کا گہوارہ بن جاتی ہے۔
7۔کہ اللہ سے رابطہ قائم نہ ہو، تو پرسنلٹی کھوکھلی ہوجاتی ہے اور صورت بگڑ جاتی ہے۔
8۔کہ اثیرمیں لا تعداد طاقتیں رہتی ہیں جو اللہ کے بندوں کو ہر الم، ناکامی اور افتاد سے بچاتی ہیں، نیز ان کی ہر جائز خواہش کو پورا کرنے کے لئے اسباب کی غیر مرئی کڑیاں فراہم کرتی ہیں۔
9۔کہ کائنات میں اثیری لہروں کا ایک حیرت انگیز سلسلہ قائم ہے ، جن کی وساطت سے ہماری آہیں اور دعائیں حضورِ باری تک جاتی اور وہاں سے قبولیت و سکوں لے کر واپس آتی ہیں۔
10۔ کہ جسم ِ لطیف ہوا میں اڑ سکتا ہے ، اور ماضی و مستقبل کو برابر دیکھ سکتا ہے۔
11۔کہ گناہ بے چینی، مفلسی اور بیماری میں تبدیل ہوجاتا ہے۔
12۔کہ الہامی الفاظ توانائی کے طاقت ور یونٹ ہیں ، جن کی مدد سے امراض کا بھی علاج کیا جاسکتا ہے۔

ہمارے مخاطب وہ لوگ ہیں جنہوں نے یونیورسٹیوں سے تعلیم حاصل کی اور جو انگریز مصنفین سے مرعوب ہیں۔میں نے ان لوگوں کی خاطر صرف مغربی حکما کے انکشافات پیش کئے ہیں اور اپنے اسلاف کا کہیں حوالہ نہیں دیا۔البتہ قرآن ِحکیم کو بکثرت استعمال کیا ہے تاکہ ان پر واضح ہوجائے کہ جن حقائق کی تلاش میں آج  علمائے مغرب ٹھوکریں کھا رہے ہیں ، قرآن انہیں چودہ سو برس پہلے بیان کر چکا تھا۔بالآخر مجھے اتنا ہی کہنا ہے کہ  :

دنیا میں لاکھ گھومئے، ہزار اسبابِ عیش مہیا فرمائیے، محل بنایئے، کاریں خریدئیے، کچھ کیجئے، سکون کبھی حاصل نہیں ہوگا۔یہ نعمتِ اعظمیٰ صرف ایک مقام سے مل سکتی ہے اور وہ مقام ہے۔

(یو این این)

****************************

 

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 835