donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Islamic Articles -->> Mohammad S.A.W. Ki Baten
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Ghaus Siwani
Title :
   Rahbare Insaniyat Ki Hayat Taiyaba


رہبر انسانیتﷺ کی حیات طیبہ


 آج کی دنیا کے لئے مشعل راہ


تحریر:غوث سیوانی،نئی دہلی

 

جس جگہ کئی انسان ایک ساتھ رہتے سہتے ہیں‘ اسے معاشرہ کہاجاسکتا ہے۔ معاشرہ میں ہر قسم کے لوگ رہتے ہیں اور اس کے لئے کچھ اصول وضوابط کی ضرورت پڑتی ہے‘ جسے قانون کہاجاتا ہے۔ انسان کا پیدا کرنے والا اللہ ہے اور اسی نے انسان کواس دھرتی پر بسایا۔ اس کے لئے زندگی گذارنے کے ذرائع پیدا فرمائے۔ انسانوں کی بڑھتی آبادی نے گائوں‘ محلے‘ شہر اور ملک کی بنیاد رکھی۔ سوال یہ ہے کہ کیا انسان اور اس دنیا کے بنانے والے نے انسان کو بغیر کسی ضابطے کے چھوڑ دیا؟ کیا خالق نے اس دنیا کے لئے کچھ ضابطے نہیں بنائے؟ یقینا ایسانہیں ہوسکتا۔ کیونکہ جب ایک چھوٹی سی مشین بنانے والا انجینئر بھی اس مشین کے کچھ ضابطے بناتا ہے اور ان ضابطوں کے بغیر مشین ٹوٹ پھوٹ کی شکار ہوجاتی ہے‘ تو کیسے ممکن ہے کہ دنیا کی سب سے پیچیدہ خلقت کو پیدا فرمانے والا مالک اس کے لئے کوئی ضابطہ اور قانون نہ بنائے۔ یقینا اس نے قانونی ضابطے بنائے اور انہیں ضابطوں کو بتانے کے لئے اس دنیامیں انبیاء کرام کی تشریف آوری  ہوئی۔ اس سلسلے کی ابتدائی کڑی حضرت آدم علیہ السلام ہیں اور آخری کڑی حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔

اللہ کا آخری پیغام

جب دنیاکی آبادی اور ضرورتیں محدود تھیں‘ تو اس کے مطابق اللہ کے فرمودات لے کر انبیاء کرام آتے رہے‘ مگر جب دنیا کی ضرورتوں کی کوئی انتہا نہ رہی ‘تو اللہ نے اپنے آخری نبی کو دنیا میں بھیجا۔ نبی کے ساتھ اللہ کا ہدایت نامہ بھی آیا‘ جسے قرآن کہاجاتا ہے ۔ قرآن اورنبی ﷺکی سیرت میں وہ سب کچھ موجود ہے‘ جس کی انسان کو ضرورت ہے۔ ہر ہدایت نامہ سماج کے مخصوص طبقے اور مخصوص زمانے کے ساتھ وابستہ ہوتا ہے‘ مگر قرآن اور سیرت نبوی کی خصوصیت یہ ہے کہ یہ کسی طبقے اور زمانے کے ساتھ محدود نہیں ہے‘ بلکہ اس کا فیضان عام ہے اوریہ قیامت تک آنے والی تما م نسلوں کے لئے کافی ہے۔ اس میں کسی ترمیم وتنسیخ کی ضرورت نہیں۔یہی سبب ہے کہ قرآن اور سیرت نبوی سے چودہ سو سال قبل‘ جس طرح لوگ فیضیاب ہوتے تھے‘ آج کے انسان کے لئے بھی یہ اسی طرح سرچشمہ حیات ہے۔

اترکرحرا سے سوئے قوم آیا
وہ اک نسخۂ کیمیا ساتھ لایا

نبوی طریقے کے اثرات

نبی محترم صلی اللہ علیہ وسلم کا طریقہ اس قدر دلکش اور پرکشش ہے کہ اس نے عرب کے جاہل معاشرے میں انقلاب برپا کردیاتھا۔ عرب کا سماج مختلف قسم کی برائیوں اور اخلاقی خرابیوں سے بھرا ہواتھا‘ مگر اس طریقے نے مکمل طور پر اسے بدل کر رکھ دیا۔ اس وقت کئی قسم کی برائیاں لوگوں میں موجود تھیں‘ جن میں سے بعض یہ ہیں‘شرک ‘جنگ وجدال‘تکبر‘ شراب نوشی‘ زنا کاری ‘چغل خوری‘ بیٹیوں کو زندہ درگور کرنا‘ سود خوری وغیرہ وغیرہ ۔ رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے جب عرب معاشرے کی اصلاح کا بیڑا اٹھایا‘ تو بہت تیزی کے ساتھ اس پسماندہ ترین قوم کے اندر تبدیلیاں آنے لگیں۔ انہوں نے برائیوں سے کنارہ کشی اختیار کی اور تمام اخلاقی خرابیوں سے پاک ہوکر دنیا کی پاکیزہ ترین قوم بن گئے۔

خود نہ تھے جو راہ پر اوروں کے ہادی بن گئے
کیا  نظر تھی جس نے  مردوں کو مسیحا کردیا

عہدحاضر میں قرآن وسیرت کی معنویت

آج انسان اکیسویں صدی میں قدم رکھ چکا ہے۔ وہ کائنات کو تسخیر کرچکا ہے۔ چاند پر قدم رکھ چکا ہے اور مریخ پر کمندیں ڈال رہا ہے۔ علم وفن میں وہ اعلیٰ مقام پر فائز ہے اور کائنات کی ہر شے کی حقیقت اس کی نگاہوں کے سامنے ظاہر ہوچکی ہے‘ مگر باوجود اس کے وہ اخلاقی طور پر آج بھی ذلالت کی گہری کھائی میں نظرآرہا ہے۔ وہ تمام برائیاں جوکل کے پسماندہ اور جاہل سماج کا حصہ تھیں‘ موجودہ معاشرے میں بھی کسی نہ کسی روپ میں موجود ہیں‘ بلکہ سچ کہاجائے‘ تو آج یہ زیادہ بھیانک روپ میں ہمارے سماج کو کھوکھلا کر رہی ہیں۔ آج نبی ﷺکے طریقے کو اپنانے کی زیادہ ضرورت ہے۔ آج کی دنیا کے لئے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی لائی ہوئی کتاب اورسیرت زیادہ بامعنی اور بامقصد ہوگئی ہیں۔

بخاری ومسلم کی حدیث ہے،رسول اللہ ﷺنے ارشاد فرمایا:

’’ سات ہلاک کرنے والی چیزوں سے بچو۔ لوگوں نے کہا‘ یا رسول اللہ‘ وہ کیا ہیں؟ حضور ﷺنے فرمایا: اللہ کے ساتھ شر ک کرنا‘جادوکرنا‘ کسی بھی جان کو جسے اللہ نے حرام کیا ناحق قتل کرنا‘ سود کھانا‘ یتیموں کامال کھانا‘ جہاد کے دن لڑائی سے پیٹھ پھیرنا اورمومن غافل عورت پر زنا کی تہمت لگانا‘‘۔

اس حدیث میں آپ نے جو باتیں کہی ہیں وہ مختلف حدیثوں میں کہی گئی ہیں اور ہم غور کریں‘ تو ان میں سے بیشتر برائیاں ہمارے سماج میں انتہائی بھیانک روپ میں موجود ہیں۔ آپ نے شرک یعنی ایک اللہ کے علاوہ کسی غیر کی پوجا سے منع فرمایا۔ شرک کے کچھ فطری نقصانات ہیں‘ جن میں سب سے بڑانقصان یہ ہے کہ وہ انسان کو بے حد کمزور بنادیتا ہے۔ انسان جسے خالق نے تمام مخلوقات میں سب سے افضل اور اشرف بنایا ہے‘ جب دوسری مخلوقات کے سامنے اپنے سرنیاز کو خم کرنے لگتا ہے‘ تو وہ اعتقادی طورپر کمزورہونے کے سبب اشرف سے ارزل بن جاتا ہے۔ توحید انسان کو ساری دنیا سے بے نیا ز کرکے ایک خالق کانیازمند بنادیتا ہے اور وہ ساری دنیا سے بے خوف ہوکر زیادہ ہمت وحوصلہ کا مالک ہوجاتا ہے۔

اخلاقی خرابیوں سے اجتناب

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اوپر کی حدیث میں ناحق قتل سے منع فرمایا۔ آ ج ہم دیکھتے ہیں کہ سماج میںکس قدر خونریزی کا ماحول ہے اور انسان خود انسان کے خون کا کس طرح پیاسا ہو رہا ہے ۔ ہرملک میںنیشنل کرائم ریکارڈ بیورو ہے‘ جو ریکارڈ جمع رکھتا ہے کہ ہر سال کتنے انسانوں کو ناحق قتل کیاگیا ہے۔ علاوہ ازیں جو انسان سرحدوں پر مارے جاتے ہیں اور مختلف ملکوں کے حملوں میں مارے جاتے ہیں‘ وہ الگ ہیں۔ انہوں نے جس دنیا کو امن وامان کی جگہ بنایاتھا‘ اسے انسان نے دہشت اور خونریزی کی جگہ بنادیا ہے۔ اب ایسے ماحول میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے درس انسانیت کوعام کرنے کی کتنی ضرورت ہے‘ سمجھا جاسکتا ہے۔

رسول اللہ صلی اللہ صلی وسلم نے اس حدیث میں سود خوری کو بھی ہلاک کرنے والی برائی بتایا ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ برائی آج کل اس قدر عام ہے کہ شاید ہی دنیا کا کوئی انسان ا س سے محفوظ ہو۔ اس وقت ہماری معیشت کی بنیاد ہی سود پر رکھی گئی ہے۔

رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:

’’صلہ رحمی کومنقطع کرنے والا‘جواری‘احسان جتانے والا اورشراب پینے والا جنت میں نہیں داخل ہوگا۔

(مشکوٰۃ)

آپ نے فرمایا:

’’ جس چیز کی زیادہ مقدار نشہ پیداکرے‘ اس کی قلیل مقدار بھی حرام ہے۔‘‘

(ترمذی)

 آپ کاارشاد ہے:

’’لڑکیوں کو زندہ دفن کرنے والا اور جس کے لئے دفن کیاجائے‘دوزخ میں جائیں گے‘‘

(ابودائود‘ترمذی)

 فرمان نبوی ہے:

’’ دوزخ میں وہ شخص داخل نہ ہوگا جس کے دل میں رائی برابر ایمان ہو اورجنت میں وہ داخل نہ ہوگا‘ جس کے دل میں رائی برابر تکبر ہو‘‘

( مسلم)

ذرا غور تو کیجئے اوپر کی احادیث میں‘ جن برائیوں سے منع فرمایاگیا ہے‘ وہ ہمارے معاشرے میں کس پیمانے پر موجود ہیں۔ شراب‘ زنا‘ جوا جیسی بیماریوں نے نہ جانے کتنے گھرو ں کو برباد کیا ہے اور اس کے اثرات نے پورے سماج کو اورنسل آدم کونقصان پہنچایا ہے۔

اچھے اخلاق

جہاں ایک طرف اللہ کے رسولﷺ نے برائیوں سے منع فرمایا‘ وہیں دوسری طرف آپ نے اچھے کاموں کی اپنے قول وعمل سے تاکید فرمائی۔ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہاسے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی کسی کو اپنے ہاتھوں سے نہیںمارا‘ نہ بیوی کو‘ نہ خادم کو‘ البتہ اللہ کی راہ میں جہاد کرتے تھے۔ اگر حضوراکرمﷺ کوکسی سے کوئی چیز پہنچتی تھی‘ جو تکلیف کا باعث ہو‘ تو آپ اس سے بدلہ نہیں لیتے تھے۔ ہاں اگرکوئی اللہ کی حرام کی ہوئی باتوں کی خلاف ورزی کرتا‘ تواللہ کے لئے اس سے انتقام لیتے تھے

(مسلم)

یہ ہے اخلاق رسول جس نے ایک دنیاکو اپنا گرویدہ بنایا اور ساری دنیامیں اخلاقی برائیوں کو مٹاکر خوبیوں کو عام کیا۔ آج پھر ضرورت اس بات کی ہے کہ نبی پاک کے طریقے کو اپنایاجائے۔ یہ وہی ضابطہ ہے‘ جسے خالق کائنات نے انسانوں کی بھلائی کے لئے دنیا میں بھیجا۔ یہی قانون فطرت ہے۔یہی آسمانی دین ہے اور اسی میں انسانیت کی بھلائی پنہاں ہے۔

محمد یعنی وہ نقش نخستیں کلک فطرت کا
کیا جس نے مکمل نسخۂ اخلاق انسانی


*********************************

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 957