donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Mazahiya Mazameen
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Rasheed Ahmad Siddiqui
Title :
   Dhobi


دھوبی

 

رشید احمد صدیقی

 

علی گڑھ میں نوکرکوآقا ہی نہیں‘‘آقائے نامدار’’بھی کہتے ہیں اور وہ لوگ کہتے ہیں جوآج کل خودآقا کہلاتے ہیں بمعنی طلبہ!اس سے آپ اندازہ کرسکتے ہیں کہ نوکرکا کیا درجہ ہے۔ پھرایسے آقا کا کیا کہنا ‘‘جو سپید پوش’’واقع ہو۔سپید پوش کا ایک لطیفہ بھی سن لیجئے۔آپ سے دور اور میری آپ کی جان سے بھی دورایک زمانے میں پولیس کا بڑا دور دورہ تھا اسی زمانہ میں پولیس نے ایک شخص کا بدمعاشی میں چالان کردیا کلکٹر صاحب کے یہاں مقدمہ پیش ہوا۔ ملزم حاضرہواتو کلکٹرصاحب دنگ رہ گئے۔نہایت صاف ستھرے کپڑے پہنے ہوئے صورت شکل سے مرد معقول بات چیت نہایت نستعلیق کلکٹر صاحب نے تعجب سے پیشکار سے دریافت کیا کہ اس شخص کا بدمعاشی میں کیسے چالان کیا گیا دیکھنے مںد تویہ بالکل بدمعاش نہیں معلوم ہوتا! پیشکار نے جواب دیا حضور! تامل نہ فرمائیں یہ سفید پوش بدمعاش ہے!’’

لیکن میں نے یہاں سفید پوش کا لفظ اس لیے استعمال کیا ہے کہ میں نے آج تک کسی دھوبی کو میلے کپڑے پہنے نہیں دیکھا۔ اور نہ اس کو خود اپنے کپڑے پہنے دیکھا۔ البتہ اپنا کپڑا پہنے ہوئے اکثر دیکھا ہے بعضوں کو اس پر غصہ آیا ہوگا کہ ان کا کپڑا دھوبی پہنےہو۔کچھ اس پر بھی جز بز ہوئے ہوں گے کہ خود ان کو دھوبی کے کپڑے پہننے کا موقع نہ ملا۔ میں اپنے کپڑے دھوبی کو پہنے دیکھ کر بہت متاثر ہوا ہوں۔ کہ دیکھئے زمانہ ایسا آگیا کہ یہ غریب میرے کپڑے پہننے پر اتر آیا گو اس کے ساتھ یہ بھی ہے کہ اپنی قمیص دھوبی کو پہنے دیکھ کر میں نے دل ہی دل میں افتخار بھی محسوس کیا ہے۔ اپنی طرف سے نہیں تو قمیص کی طرف سے۔ اس لیے کہ میرے دل میں یہ وسوسہ ہے کہ اس قمیص کو پہنے دیکھ کر مجھے در پردہ کسی نے اچھی نظر سے نہ دیکھا ہوگا۔ ممکن ہے خود قمیص نے بھی اچھی نظر سے نہ دیکھا ہو۔

دھوبیوں سے حافظؔ اوراقبالؔ بھی کچھ بہت زیادہ مطمئن نہ تھے۔ مجھے اشعاریاد نہیں رہتےاورجویادآتے ہیں وہ شعرنہیں رہ جاتے سہل ممتنع بن جاتے ہیں۔ کبھی سہل زیادہ اورممتنع کم اوراکثرممتنع زیادہ اور سہل بالکل نہیں۔ اقبال نے میرے خیال میں (جس میں اس وقت دھوبی بسا ہوا ہے) شاید کبھی کہا تھا۔

آہ بیچاروں کےاعصاب پہ دھوبی ہے سوار

یا حافظ نے کہا ہو

فغان کین گا ذران شوخ و قابل داروشہرآشوب

ان دونوں کا سابقہ دھوبیوں سے یقیناً رہا تھا۔ لیکن میں دھوبیوں کے ساتھ نا انصافی نہ کروں گا۔ حافظؔ اور اقبال کو تو میں نے تصوف اور قومیات کی وجہ سے کچھ نہیں کہا۔ لیکن میں نے بہت سے ایسے شعراءدیکھے ہیں جن کے کپڑے کبھی اس قابل نہیں ہوتے کہ دنیا کا کوئی دھوبی سوا ہندوستان کے دھوبی کے دھونے کے لیےقبول کرلے۔ اگر ان کپڑوں کو کوئی جگہ مل سکتی ہے تو صرف ان شعراء کے جسم پر۔میں سمجھتا ہوں کہ لڑائی کے بعد جب ہر چیز کی دروبست نئے سرے کی جائے گی اس وقت عام لوگوں کا یہ حق بین الاقوامی پولیس مانے اور منوائے گی کہ جس شاعر کے کپڑے کوئی دھوبی دھوتا ہو بشرطیکہ دھوبی خود شاعر نہ ہو اس سے کپڑے دھلانے والوں کو یہ حق پہنچتا ہے کہ دھلائی کا نرخ کم کرالیں۔ یہ شعراء اور ان کے بعض قدردان بھی دھوبی کے سپرد اپنے کپڑے اس وقت کرتے ہیں جب ان میں اور کپڑے میں کوڑا اور کوڑا گاڑی کا رشتہ پیدا ہوجاتا ہے۔

                     

دھوبی کپڑے چراتے ہیں بیچتے ہیں کرایے پر چلاتے ہیں، گم کرتے ہیں، کپڑے کی شکل مسخ کردیتے ہیں، پھاڑ ڈالتے ہیں یہ سب میں مانتا ہوں اور آپ بھی مانتے ہوں گے لیکن اس میں بھی شک نہیں کہ ہمارے آپ کے کپڑے اکثر ایسی حالت میں اترتے ہیں کہ دھوبی کیا کوئی دیوتا بھی دھوئے تو ان کو کپڑے کی ہیئت و حیثیت میں واپس نہیں کرسکتا۔مثلاً غریب دھوبی نے ہمارے آپ کے ان کپڑوں کو پانی میں ڈالا ہو میل پانی میں مل گیا اللہ اللہ خیر سلا جیسے خاک کا پتلا خاک میں مل جاتا ہے خاک خاک میں آگ آگ میں پانی پانی میں اور ہوا ہوا میں۔ البتہ ان کپڑے پہننے والوں کا یہ کمال ہے کہ انہوں نے کپڑے کو تو اپنی شخصیت میں جذب کر لیا اور شخصیت کو کثافت میں منتقل کردیا۔ مثلاً لطافت بے کثافت جلوہ پیدا کر نہیں سکتی! اور یہی کثافت ہم دنیا داروں کو قمیص پگڑی اور شلوار میں نظر آتی ہو۔ یہ بات میں نے کچھ یوں ہی نہیں کہہ دی ہے۔ اونچے قسم کے فلسفے میں آیا ہے کہ عرض بغیر جوہر کے قائم رہ سکتا ہے اور نہ بھی آیا ہو تو فلسفیوں کو دیکھتے یہ بات کبھی نہ کبھی ماننی پڑے گی۔

دھوبی کے ساتھ ذہن میں اوربہت سی باتیں آتی ہیں مثلاً گدھا، رسی، ڈنڈا، دھوبی کا کتا،دھوبن( میری مراد پرند سے ہے) استری (اس سے بھی میری مراد وہ نہیں ہے جو آپ سمجھتے ہیں) میلے ثابت پھٹے پرانے کپڑے وغیرہ۔ ممکن ہے آپ کی جیب میں بھولے سے کوئی ایسا خط رہ گیا ہو جس کو آپ سینے سے لگا رکھتے ہوں لیکن کسی شریف آدمی کو نہ دکھا سکتے ہوں اور دھوبی نے اسے دھو پچھاڑ کر آپ کا آنسو خشک کرنے کے لئے بلاٹنگ پیپر بنا دیا ہو یا کوئی یونانی نسخہ آپ جیب میں رکھ کر بھول گئے ہوں اوردھوبی اسے بالکل ‘‘صاف نمودہ’’ کر کے لایا ہو۔

لڑائی کے زمانے میں جہاں اور بہت سی دشواریاں ہیں۔ وہاں یہ آفت بھی کم نہیں کہ بچے کپڑے پھاڑتے ہیں عورتیں کپڑے سمیٹتی ہیں۔ دھوبی کپڑے چراتے ہیں دوکاندار قیمتیں بڑھاتے ہیں اور ہم سب کے دام بھگتے ہیں۔ لڑائی کے بعد زندگی کی ازسر نو تنظیم ہو یا نہ ہو کوئی تدبیرایسی نکالنی پڑے گی کہ کپڑے اوردھوبی کی مصیبتوں سے نوع انسانی کو کلیتہً نجات نہ بھی ملے تو بہت کچھ سہولت میسرآجائے۔

کپڑے کا مصرف پھاڑنے کےعلاوہ حفاظت، نمائش اورسترپوشی ہے میراخیال ہے کہ یہ باتیں اتنی حقیقی نہیں ہیں جتنی ذہنی یارسمی۔ سردی سے بچنے کی ترکیب تویونانی اطبا اور ہندوستانی سادھو جانتے ہیں ایک کشتہ کھاتا ہےدوسرا جسم پرمل لیتا ہے۔ نمائش میں ستر پوشی اور ستر نمائی دونوں شامل ہیں۔ میرا خیال ہے کہ اگر ستر کے رقبہ پر کنٹرول عائد کردیا جائے تو کپڑا یقیناً کم خرچ ہوگا اور دیکھ بھال میں بھی سہولت ہوگی۔ جنگ کے دوران میں یہ مراحل طے ہوجاتے تو صلح کا زمانہ عافیت سے گزرتا۔

لیکن اگرایسا نہ ہو سکے تو پھردنیا کی حکومتوں کو چاہیے کہ وہ تمام سائنس دانوں اور کاریگروں کو جمع کر کے قوم کی اس مصیبت کو ان کے سامنے پیش کریں کہ آئندہ سے لباس کے بجائے ‘‘انٹی دھوبی ٹینک’’کیوں کر بنائے اوراوڑھے پہنے جاسکتے ہیں۔ اگریہ ناممکن ہے اوردھوبیوں کے پھاڑنے پچھاڑنے اورچُرانے کے پیدائشی حقوق مجروح ہونے کا اندیشہ ہو جس کو دنیا کی خدا ترس حکومتیں گوارا نہیں کر سکتیں یا بعض بین الاقوامی پیچیدگیوں کے پیش آنے کا اندیشہ ہے تو پھر رائے عامہ کو ایسی تربیت دی جائے کہ لباس پہننا ہی یک قلم موقوف کردیا جائے۔ اورتمام دھوبیوں کو کپڑا دھونے کے بجائے بین الاقوامی معاہدوں اورہندوستان کی تاریخوں کودھونے پچھاڑنےاور پھاڑنے پرمامورکردیا جائے۔

بفرضِ محال سترپوشی پرکنٹرول ناممکن ہویا ترک لباس کی اسکیم پربزرگان قوم جامے سے باہر ہوجائیں اور دھوبی ایجی ٹیشن کی نوبت آئے تو پھر ملک کے طول و عرض میں ‘‘بھارت بھبھوت بھنڈار’’ کھول دیئےجائیں۔ اس وقت ہم سب سرجوڑکراورایک دوسرے کے کان پکڑ کر ایسےبھبھوت ایجادکرنے کی کوشش کریں گےجن میں چائے کے خواص ہوں گے یعنی گرمی میں ٹھنڈک اور سردی میں گرمی پیدا کریں گے۔ستر پوشی سے چشم پوشی کرنا پڑے گی۔اگرہم اتنی ترقی نہیں کرسکتے ہیں اور قوم وملک کی نازک اورناگفتہ بہ حالت دیکھتےہوئے بھی سترکوقربان نہیں کرسکتے تو بھارت بھبھوت بھنڈار کے ذریعہ ایسے انجینئر اورآرٹسٹ پیدا کےف جائیں گے جو ستر کو کچھ کا کچھ کر دکھائیں جیسےآج کل لڑنےوالی حکومتیں دشمن کو دھوکا دینے کے لیے دھوکے کی ٹٹی قائم کر دیا کرتے ہیں جس کو انگریزی میں(Smoke Screen) کہتے ہیں اورجس کےتصرف سےدیوارودردرودیوارنظر آنے لگتے ہیں۔

میں تفصیل میں نہیں پڑنا چاہتا۔ صرف اتنا عرض کردینا کافی سمجھتا ہوں کہ اس بھبھوتیائی آرٹ کے ذریعہ ہم کسی حصہ جسم کو یا ان میں سے ہر ایک کو اس طرح مسخ یا مزین کر سکیں گے کہ وہ کچھ کا کچھ نظر آئے۔ بقول ایک شاعر کے جو اس آرٹ کے رمز سے غالباً واقف تھے یعنی۔

وحشت میں ہرایک نقشہ الٹا نظرآتا ہے

مجنوں نظر آتی ہے لیلیٰ نظر آتا ہے

شعراء نے ہمارے آپ کے اعضاء و جوارح کے بارے میں تشبیہہ استعارہ یا جنون میں جو کچھ کہا ہے بھارت بھبھوت کے آرٹسٹ اسی قسم کی چیز ہمارے آپ کے جسم پر بنا کر غزل کو نظم معرا کر دکھائیں گے اس وقت آرٹ برائے آرٹ اور آرٹ برائے زندگی کا تنازعہ بھی ختم ہوجائے گا۔ بہت ممکن ہے بھبھوت بھنڈار میں ایسے سرمے بھی تیار کیے جاسکیں جن کی ایک سلائی پھیرنے سے چھوٹی چیزیں بڑی اوربڑی چیزیں چھوٹی نظر آنے لگیں یا دور کی چیز قریب اور قریب کی دور نظر آئے۔ اس طور پر شعرا آرٹ اور تصوف کو ایک دوسرے سے مربوط کر سکیں گے۔ دوسری طرف ستر دوستوں یا ستر دشمنوں کی بھی اشک شوئی ہو جائے گی۔ اس وقت دھوبیوں کو معلوم ہوگا کہ ڈکٹیٹر کا انجام کیا ہوتا ہے۔

علی گڑھ میں میرے زمانۂ طالب علمی کے ایک دھوبی کا حال سنےھ جواب بہت معمر ہوگیا ہے وہ اپنے گاؤں میں بہت معزز مانا جاتا ہے۔دو منزلہ وسیع پختہ مکان میں رہتا ہے۔کاشتکاری کا کاروبار بھی اچھے پیمانہ پر پھیلا ہوا ہے۔ گاؤں میں کالج کے قصے اس طور پر بیان کرتا ہے جیسے پرانے زمانے میں سورماؤں کی بہادری و فیاضی اور حسن و عشق کے افسانے اور نظمیں بھاٹ سنایا کرتے تھے۔ کہنے لگا میاں وہ بھی کیا دن تھے اور کیسے کیسے اشراف کالج میں آیا کرتے تھے۔ قیمتی خوبصورت نرم و نازک کپڑے پہنتے تھے جلد اتارتے تھے دیر میں منگاتے تھے ہرمہینہ دوچارکپڑےادھرادھرکردئیے وہاں خبر بھی نہ ہوئی یہاں مالا مال ہوگئے۔ ان کے اتارے کپڑوں میں بھی میرے بچے اور رشتہ دار ایسے معلوم ہوتے تھے جیسے علی گڑھ کی نمائش۔ آج کل جیسے کپڑے نہیں ہوتے تھے گویا بوری اور چھولداری لٹکائے پھر رہے ہیں۔ ایک کپڑا دھونا پچاس ہاتھ مگدر ہلانے کی طاقت لیتا ہے۔ کیسا ہی دھوؤ بناؤ آب نہیں چڑھتا۔ اس پر یہ کہ آج لے جاؤ کل دے جاؤ کوئی کپڑا بھول چوک میں آجائے تو عمر بھر کی آبرو خاک میں ملادیں۔

میاں ان رئیسوں کے کپڑے دھونے میں مزہ ا ٓتا تھا جیسے دودھ ملائی کا کاروبار۔دھونے میں مزا، استری کرنے میں مزا، دیکھنے میں مزا، دکھانے میں مزا،کنوئیں کے پاس کپڑے دھوتے تھےکہ کوتوالی کرتے تھے۔ پاس پڑوس دور سے کھڑے تماشا دیکھتے۔ پولیس کا سپاہی بھی سلام ہی کر کے گزرتا۔ مجال تھی جو کوئی پاس آجائے۔ برادری میں رشتہ ناتا اونچا لگتا کہ سید صاحب کے کالج کا دھوبی ہے۔ پنچایت چکانے دور۔ دور سے بلاواآتا۔ ایسے ایسے کپڑے پہن کر جاتا کہ گاؤں کے مکھیا اور پٹواری دیکھنے آتے۔ جو بات کہتا سب ہاتھ جوڑ کر مانتے کوئی چین چپڑ کرتا تو کہہ دیتا بچہ ہیکڑی دکھائی تو سید صاحب کے ہاں لے چل کر وہ گت بنوائی ہو کہ چھٹی کا دودھ یاد آجائے گا پھر کوئی نہ منگتا!

شہر میں کہیں شادی بیاہ ہوتا تو مجھے سب سے پہلے بلایا جاتا لڑکی لڑکے کا بزرگ کہتا بھیا انگنو لڑکی کی شادی ہے عزت کا معاملہ ہے برادری کا سامنا ہے مدد کا وقت ہے میں کہتا نچنت رہو۔ تمہاری نہیں میری بیٹی۔ کالج پھلے پھولے فکر مت کرو پرماتما کا دیا سب کچھ موجود ہے۔ میاں مانو کالج آتا لڑکوں سے کہتا حضور لرکی کی شادی ہے اب کے جمعہ کو کپرے نہ آئیں گے سب کہتے انگنو کچھ پروا نہیں ہم کو بھی بلانا جو چیز چاہو لے جائو دب کے کام نہ کرنا۔ میاں پھر کیا تھا گز بھر کی چھاتی ہوجاتی!

ایک باری کے کپڑے، دری، فرش، چاندنی، تولئے، دسترخوان سب دے دیتا۔ محفل چماچم ہوجاتی ایسا معلوم ہوتا جیسے کالج کا کوئی جلسہ ہے۔ براتی دنگ رہ جاتے میاں ہیرا پھیری اور ہڑگم میں ایک آدھ گم ہوجاتا کچھ رکھ لیتا یا ادھر ادھر دے ڈالتا۔ دوسرے تیسرے جمعہ کو کالج آتاہرلڑکا بجائےاس کے کہ کپڑے پرٹوٹ پڑتا دور ہی سے پکارتا کیوں انگنو اکیلے اکیلے لڑکی کی شادی کرڈالی ہم کو نہیں بلایا۔ سب کو سلام کرتا کہتا میاں تمہارا لکھنے پڑھنے کا ہرج ہوتا کہاں جاتے تمہارے اقبال سے سب کام ٹھیک ہوگیا۔

میاں لوگ نواب تھے کہتے انگنو ہم کو فرصت نہیں میلے کپرے لے لینا۔ دھلے کپڑے بکس میں رکھ دینا چابی تکیے کے نیچے ہوگی بکس بند کر کے مجھے دے جانا۔ان کو کیاخبرکون سے کپڑے لےگیا تھا کیا واپس کر گیا۔ کبھی کچھ یاد آگیا تو پوچھ بیٹھے انگنو فلاں کپڑا نظرنہیں آیا میں کہہ دیتا سرکار وہ لڑکی کی شادی نہ تھی۔ کہتے ہاں ہاں ٹھیک کہا یاد نہیں رہا اور کیوں تم نے ہم کو نہیں بلایا۔ میرا یہ بہانہ اور ان کا یہ کہنا چلتا رہتا اور پھر ختم ہو جاتا۔

کالج میں کرکٹ کی بڑی دھوم تھی ایک دفعہ کپتان صاحب نے گھاٹ پر سے بلوابھیجا۔کہنے لگے انگنو دلی سی کچھ کھیلنے والے آگئے ہیں۔ ہم لوگوں کو کھیلنے کی فرصت نہیں لیکن ان کو بغیر میچ کھلائے واپس بھی نہیں کیا جاسکتا۔ چنانچہ یہ میچ کالج کے بیررکھیلیں گے۔تم ممتاز کے یہاں چلے جاؤ وہ بتلائے گا کہ کتنے کوٹ پتلون اور قمیص مفلر وغیرہ درکار ہوں گے۔ بیروں کی پوری ٹیم کو کرکٹ کا یونیفارم مہیا کر دو کل گیارہ بجے دن کو میں سب چیزیں ٹھیک دیکھوں، میاں کپتان صاحب کا یہ جنڈیلی آرڈر پورا کیا گیا۔ ٹیم کھیلی اور جیت گئی۔ کپتان صاحب نے سب کو دعوت دی اور بھرے مجمع میں کہا‘‘انگنو کا شکریہ!’’

اکثرسوچتا ہوں کہ دھوبی اور لیڈر میں اتنی مماثلت کیوں ہے۔ دھوبی لیڈر کی ترقی یافتہ صورت ہے یا لیڈر دھوبی کی! دونوں دھوتے پچھاڑتے ہیں۔دھوبی گندے چیکٹ کپڑے علیحدہ لے جاکر دھوتا ہے اور صاف اور سجل کر کے دوبارہ پہننے کے قابل بنا دیتا ہے۔ لیڈر برسرعام گندے کپڑے دھوتا ہے اورگندگی اچھالتا ہے(Washing Dirty Linen in Public ) کایہی تو مفہوم ہے۔ لیڈر کا مقصد نجاست کو دور کرنے کا اتنا نہیں ہوتا جتنا نجاست پھیلانے کا۔ دھوبیوں کے لیے کپڑے دھونے کے گھاٹ مقرر ہیں۔ لیڈر کے لیے پلیٹ فارم حاضر ہیں۔ اس میں شک نہیں دھوبی کپڑے پھاڑتا ہے غائب کردیتا ہے اور ان کا آب ورنگ بگاڑ دیتا ہے۔ لیکن لیڈر کی طرح وہ گندگی کو پائیدار یا رنگین نہیں بناتا نہ متعدی کرتا ہے۔

ہمارے معلم بھی دھوبی سے کم نہیں وہ شاگرد کو اسی طرح دھوتے پچھاڑتے مروڑتے اور اس پر استری کرتے ہیں جیسے دھوبی کرتا ہے۔ آپ نے بعض دھوبیوں کو دیکھا ہوگا جو دھلائی کی زحمت سے بچنے اور مالک کو دھوکا دینے کے لیے سفید کپڑے پر نیل کا ہلکا سا رنگ دے دیتے ہیں۔ دھوبی کو اس کی مطلق پروا نہیں کہ سر پر سے گھما گھما کر کپڑے کو پتھر پر پٹکنا اینٹھنا اور نچوڑنا اور اس کا لحاظ نہ کرنا کہ کپڑے کے تار وپود کا رنگ کا کیا حشر ہوگا، بٹن کہاں جائیں گے لباس کی وضع قطع کیا سے کیا ہوجائے گی، استری ٹھیک گرم ہےیا نہیں ٹھنڈی استری کرنا چاہئے یا گرم بالکل اسی طرح معلم کو اس کی پروا نہیں کہ طالب علم کس قماش کا ہے اس پر کیا رنگ چرھا ہوا ہے، اور اس کے دل و دماغ کا کیا عالم ہے وہ اسے دے دے مارتا ہے اور بھرکس نکال دیتا ہے۔ وہ طالب علم کی استعداد اس کے میلانات اور اس کی الجھنوں کو سمجھنے کی کوشش نہیں کرتا۔ صرف اپنا رنگ چڑھانے کی کوشش کرتا رہتا ہے چنانچہ گاذری کے سارے مراحل طے کرنے کے بعد جب طالب علم دنیا کے بازار یا گاہک کے ہاتھ میں آتا ہے تو اس کا جسم ذہن و دماغ سب جواب دے چکے ہوتے ہیں۔ اس پر رنگ بھی ناپائدار ہوتا ہے۔ کلف دے کر اس پر جو بے تکی اور بے تکان استری کی ہوتی ہے وہ حوادث روزگار کے ایک ہی چھینٹے یا جھونکے سے بدرنگ اور کاواک ہوجاتی ہے۔ دھوبی کی یہ روایات معلمی میں پورے طور پر سرایت کر چکی ہیں۔

ہندوستانی دھوبی کے بارے میں آپ نے ایک مشہور ستم ظریف کا فقرہ سنا ہوگا جس نے اس کو کپڑے پچھاڑتے دیکھ کر کہا تھا کہ دنیا میں عقیدہ بھی کیا چیز ہے، اس شخص کو دیکھئے کپڑے سے پتھر توڑ ڈالنے کے درپے ہے۔ اگر ستم ظریف نے ہندوسادنی شعراء یا عشاق کا مطالعہ کیا ہوتا جو ننگ سجدہ سے محبوب کا سنگ آستاں گھس کر غائب کر دیتے ہیں تواس پرمعلوم نہیں کیا گزرجاتی۔ ویسے تو پرانے شعراء کا وطیرہ تھا حال کےشعراءکارنگ کچھ اورہے۔انہوں نے سوسائٹی کے میلے گندے شارع عام پر دھونے پچھاڑنے کا نیا فن ایجاد کیا ہے۔ اس قبیل کے شعراء سوسائٹی کی خرابیوں کو دور کرنے کےاتنے قائل اور شاید قابل بھی نہیں رہے جتنا ان خرابیوں کا شکار ہو چکے ہیں یا اس کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ وہ ان خرابیوں کی نمائش کرنے اوراس کوایک فن کادرجہ دینے کےدرپے ہیں۔ کمزوریوں کو تسلیم کرنا اوران کو دور کرنے کی کوشش کرنا اورمستحسن آثارہیں لیکن ان کو آرٹ یا الہام کا درجہ دینا کمزوری اور بد توفیقی ہے۔ شاعری میں دھوبی کا کاروبار برانہیں لیکن دھوبی اور دھوبی کے گدھے میں تو فرق کرنا ہی پڑے گا!

میرا ایک دھوبی سے سابقہ رہا ہے جسے بہانے تراشنے میں وہ مہارت حاصل ہے جو اردو اخبارات و رسائل کی ایڈیٹر کو بھی نصیب نہیں۔ پرچہ کے توقف سے شائع ہونے پر یا بالکل نہ شائع ہونے پر یہ ایڈیٹر جس جس طرح کے عذر پیش کرتے ہیں اورعاشقانہ شعر پڑھتے ہیں اور فلمی گانے سناتے ہیں وہ ایک مستقل داستان ہے اور فن بھی۔ لیکن میرا دھوبی اور اس کی بیوی جس قسم کے حیلے تراشتے ہیں وہ انہیں کا حصہ ہے۔

مثلاً موسم خراب ہے اس کے یہ معنی ہیں کہ دھوپ نہیں ہوئی کہ کپڑے سوکھتے یا گردوغبار کا یہ عالم تھا کہ دھلے کپڑے بن دھلے ہو گئےیا دھوپ اتنی سخت تھی کہ دھونے کے لئے کپڑے کا ترکرنا محال ہوگیا! صحت خراب ہے یعنی دھوبی یا دھوبن یا اس کے لڑکے بالے یا اس کے دور و نزدیک کے رشتہ دار ہر طرح کی بیماریوں میں مبتلا رہے۔ قسمت خراب ہے یعنی ان میں سے ایک ورنہ ہر ایک مرگیا۔ زمانہ خراب ہے، یعنی چوری ہوگئی، فوجداری ہوگئی یا گدھا کا نجی ہاؤس بھیج دیا گیا۔ کپڑا خراب ہے یعنی پھٹ گیا بدرنگ ہوگیا یا گم ہوگیا۔

عاقبت خراب ہے یعنی ریڈیو پر طرح طرح کی خبریں آتی ہیں اور مٹی خراب ہے۔ یعنی وہ میرے کپڑے دھوتا ہے۔ میرے خلاف اورغالباً ناظرین میں سے بھی بعض حضرات کے خلاف دھوبیوں کو یہ شکایت ہے کہ میں کپڑےاتارنے اور دھوبی کے سپرد کرنے میں زیادہ دیرلگاتا ہوں یہی نہیں بلکہ دھوبی کے حوالہ کرنے سے پہلے وہ لوگ جو دھوبی نہیں ہیں یا دھوبی سے بھی گئے گزرے ہیں میرے اترے ہوئے کپڑوں میں میل دور کرنے کی اپنے اپنے طور پر کوشش اور تجربے کرتے ہیں۔ کوئی چونارگڑ کر کوئی کتھا، پیالی پلیٹ اور دیگچی پونچھ کر کوئی جھاڑو کا کام لے کر کوئی آلو ٹماٹر اور کوئی لنگوٹ باندھ کراور جب یہ تمام تجربے یا مراحل طے ہو لیتے ہیں تو وہ کپڑے دھوبی کے حوالہ کئے جاتے ہیں۔

دنیا کو رنگ برنگ کے خطروں سے سابقہ رہا ہے۔مثلاً لال خطرہ پیلا خطرہ سفید خطرہ کالا خطرہ ان سے کسی نہ کسی طرح اور کسی نہ کسی حد تک گلو خلاصی ہوتی رہتی ہے لیکن یہ دھوبی خطرہ زندگی میں اس طرح خارش بن کرسمایا گیا ہے کہ نجات کی کوئی صورت نظر نہیں آتی۔ مصیبت و مایوسی میں انسان تو ہم پرست ہوجاتا ہے اور ٹوٹے ٹوٹکے اورفال و تعویذ پر اتر آتا ہے میں نے دھوبی کو ذہن میں تول کر غالب سے رجوع کیا تو فال میں یہ مصرعہ نکلا۔

تیرے بے مہر کہنے سے وہ تجھ پر مہرباں کیوں ہو

گھبرا گیا لیکن چونکہ غالب یہ بھی کہہ چکے تھے کہ اگلے زمانہ میں کوئی میر بھی تھا اس لئے میر صاحب کی خدمت میں حاضر ہوا۔ وہاں سےیہ جواب ملا۔

ہم ہوئے تم ہوئے کہ میر ہوئے

اسی دھوبی کے سب امیر ہوئے

بایں ہمہ دھوبی جس دن دھلے کپڑے لاتا ہے اور میلے کپڑے لے جاتا ہے۔ مجھے ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے گھر میں برکتیں آئیں اور بلائیں دور ہوئیں چاندنی،چادریں،غلاف،پردے، دسترخوان، میزپوش سب بدل گئے نہا دھو کر چھوٹے بڑوں نے صاف ستھرے کپڑے پہنے۔ طبیعت شگفتہ ہوگئی اور کچھ نہیں تو تھوڑی دیر کے لیے یہ محسوس ہونے لگا کہ زندگی بہرحال اتنی پرمحن نہیں ہے جتنی کہ بتائی جاتی ہے۔

۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸

Comments


Login

You are Visitor Number : 2041