کم قوت سماعت کا علاج ممکن
رپورٹ کے مطابق عمر بڑھنے کے ساتھ ساتھ لوگوں کی سننے کی قوت کم ہوتی جاتی ہے۔ اس وقت دنیا بھر میں پینسٹھ برس کی عمر کے ایک کروڑ پینسٹھ لاکھ افراد سماعت کی کمزوری کا شکار ہیں۔
٭ واشنگٹن ،عالمی ادارہ صحت کے مطابق دنیا بھر میں کم قوت سماعت کے حامل افراد کی نصف تعداد کی سماعت کو ٹھیک کرنا اب ممکن ہوگیاہے۔ عالمی ادارہ صحت کے اندازوں کے مطابق اس وقت دنیا بھر میں تےن کروڑ ساٹھ لاکھ افراد جودنیاکی آبادی کا پانچ فیصد سے زائد بنتا ہے ، سماعت کم ہونے کی شکایت میں مبتلا ہیں۔
رپورٹ کے مطابق عمر بڑھنے کے ساتھ ساتھ لوگوں کی سننے کی قوت کم ہوتی چلی جاتی ہے۔ رپورٹ کے مطابق اسوقت دنیا بھرمیں پینسٹھ برس کی عمرکے ایک کروڑ پینسٹھ لاکھ افراد سماعت کی کمزوری کاشکار ہیں۔
عالمی ادارہ صحت میں بنائی قوت سماعت کے تدارک کے شعبے سے ڈاکٹر شبلی چڈھا کاکہناہے کہ دنیا بھر میں پندرہ برس یا اس سے بھی کم عمر کے بتےس لاکھ بچے سماعت کی کمزوری میںمبتلا ہیں۔ ڈاکٹر شیلا چڈھا کے الفاظ ، ”بہت سے مسائل کی وجہ سے سماعت کم یابا لکل ختم بھی ہوسکتی ہے۔ ان مسائل کاسامنا ترقی پذیر ممالک کے لوگوں کوزیادہ کرناپڑتا ہے۔“
عامی ادارہ صحت کی رپورٹ کے مطابق دنیا بھرمیں جنوبی ایشیا اور افریقی ممالک اس مسئلے کا زیادہ شکار ہیں۔ اس کی وجہ سے موروثی یا غیر موروثی معاملات ہوسکتے ہیں۔ جن میں سے ایک بڑا مسئلہ ان ممالک میں خواتےن کے حمل اور زچگی کے دوران پیچید گیاں بھی ہیں۔ عالمی ادارہ صحت کے مطابق اب ایسے افراد کی مددکرنا ممکن ہوجائے گا جن کی سماعت میں مسئلہ ہے۔ جن میںسے پہلا قدم اس مرض کی بروقت تشخیص اور دوسرا قدم بروقت سرجری ہے۔ ڈاکٹر چڈھا کہتی ہیںکہ بہت سے لوگ مدد حاصل کرنے سے کتراتے ہیں۔
ان کے الفاظ میں ”جولوگ سماعت کی خرابی میں مبتلا ہوتے ہیں وہ زیادہ تر خود کو اکیلا اور تنہا محسوس کرتے ہیں۔
ترقی پذیر ممالک میں اس بیماری میں مبتلا بچوں کواسکول نہیں جانے دیا جاتا۔ جو بالغ اور قدرے جوان ا فراد قوت سماعت کے مسئلے سے دو چار ہوتے ہیں انہیں نوکریاں ڈھونڈنے میں مسائل کاسامنا کرنا پڑتا ہے جسکے معیشت پر بھی برے اثرات مرتب ہوتے ہیں۔“
*********
’انسانی صلاحیتوں ‘ میں اضافہ
سائنسدانوں کاکہنا ہے کہ یہ بھی ممکن ہے کہ انسانوں کی ایسی نسل پیدا ہو جو اندھیر ے میں بھی دیکھ سکے۔ سائنسدانوں کا کہنا ہے انسانی صلاحیتوں میںا ضافے کے لئے جس شدت سے ریسرچ کی جارہی ہے اس سے یہ ممکن ہے کہ انسانوں کی ایسی نسل پیدا ہوجو اپنی زندگی کی ہر بات کو یاد رکھ سکے اور کبھی تھکے ہی نہیں۔ واضح رہے کہ آج کے دورمیں پہلے ہی ایسے بہت سارے لوگ ہیں جو دماغی صلاحیت میں اضافے اور رات رات بھر جاگنے کے لئے ایسی ادویات کا استعمال کررہے ہیں جو صرف یادداشت کھونے کی بیماری کے علاج کےلئے استعمال ہوتی ہیں۔ سائنسدانوں کاکہنا ہے کہ صرف آئندہ پندرہ برسوں میں اس طرح کے آلات موجود ہوں گے جو انسان کی زندگی میں ہونے والی روز کی تمام باتوں کوایک ویڈیو ریکارڈنگ کی طرح ریکارڈ کرسکے گا اور لوگ اس ریکارڈنگ کا استعمال تب تب کرسکتے ہیںجب جب ان کی یادداشت ان کاساتھ نہ دے۔ سائنسدانوں کاکہنا ہے کہ یہ بھی ممکن ہے کہ انسانوں کی ایسی نسل پیداہو جو اندھیرے میں بھی دیکھ سکے۔ سائنسدانوںکاکہنا ہے کہ انسانی صلاحیتوں میں اس قدر ا ضافہ ایک خوشی کی بات ہے لیکن اس کی ایک قیمت بھی چکانی پڑے گی جو صرف معاشی نہ ہو کراخلاقی بھی ہوگی۔ برطانیہ کی اکاڈمی، دی رائل اکاڈمی آف انجنیئرنگ اور رائل سوسائٹی کے سائنسدانوںکا کہناہے کہ انسانی صلاحیتوں کے اضافے کے بارے میں ہونے والی ریسرچ کے نقصانات کے بارے میں فوری طورپر بحث کی ضرورت ہے۔ سائنسدانوں کا کہناہے کہ انسانی صلاحیتوں میں اضافہ عمر دراز لوگوں کے لئے مددگار ثابت ہوسکتا ہے تاکہ وہ نوجوان لوگوں کے ساتھ کام کرنے میںمقابلے کی صلاحیت رکھ سکیں۔ ایک سائنسدان پروفیسر جنویرا رچرڈسن کا کہنا تھا ’ایسی مختلف تکنیک عمل میں لائی جارہی ہیں جس سے انسانی صلاحیتوں میں اضافہ ہوسکے اور بعض جگہ انکا استعمال بھی ہورہا ہے اور وہ ہمارے کام کرنے کے طریقے میں اچھی اور بری تبدیلیاں لارہی ہیں۔
واضح رہے کہ متعدد جائزوں سے یہ معلوم ہوا ہے کہ بہت سے طلباءاس طرح کی ادویات کا استعمال کررہے ہیں جس سے امتحان میں ان کی کارکردگی بہتر ہورہی ہے۔ بعض لوگ یہ دوائیں انٹر نیٹ کی ذریعے خریدتے ہیں جس سے یہ خطرہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ دوائیں کھانا محفوظ بھی ہے یا نہیں۔
سائنسدانوںکا کہنا ہے کہ ان ادویات کے دور اندیش اثرات کے بارے میں معلومات کم ہے اور یہ بھی نہیں معلوم کہ آگے چل کر یہ دوائیں نوجوان افراد کے دماغ پر کیا اثر ڈالتی ہیں۔ میڈیکل ریسرچ کاؤنسل کے ڈاکٹر رابن لول بیج کا کہنا ہے، انسانی صلاحیت میں اضافے والی دوائیں پالیسی بنانے والوں کے سامنے بڑے چیلنج پیدا کرتی ہیں، ان کا مزید کہنا تھا ’ یہ دوائیں کھانے میں آسان ہوتی ہیں، بغیر ڈاکٹر کی صلاح کے بازار میں آسانی سے دستےاب بھی ہیں اوربہت سے صحت مند افراد ان ادویات کا استعمال بھی کر رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ان ادویات کا استعمال صحیح ہے لیکن اس کے کیانتائج ہوں گے اس کے بارے میںبحث اور غور وفکر بھی بے حد ضروری ہے۔
***********