donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Eucational Article -->> Maloomati Baaten
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Dr. Mushtaq Ahmad
Title :
   Hindustan Me Ghair Mulki Universition Ke Qayam Ki Wakalat


ہندستان میں غیر ملکی یونیورسٹیوں کے قیام کی وکالت؟


ڈاکٹر مشتاق احمد

پرنسپل مارواڑی کالج، دربھنگہ

موبائل:9431414586

ای میل:rm.meezan@gmail.com

 

    جب سے مرکز میں نریندر مودی کی قیادت میں سنگھ پریوار نظرئے کی حکومت قائم ہوئی ہے ، اس وقت سے کچھ اس طرح کی پالیسیاں بنائی جارہی ہیں جن کے دوررس نتائج ملک کے مفاد میںنہیں ہیں۔ سب سے دلچسپ بات تو یہ ہے کہ جب بھاجپا حزب اختلاف کی پارٹی تھی ، اس وقت جن سرکاری پالیسیوں کی وہ مخالفت کرتی تھی ، اب وہ اپنی حکومت کے ذریعہ ان پالیسیوں کے نفاذ کے لئے قانون بنانے کو بے چین ہے۔ جس وقت پلاننگ کمیشن کا نام تبدیل کرکے نیتی آیوگ کیا جارہا تھا ، اس وقت بھی ملک کے مختلف حصّوں سے یہ آواز بلند ہوئی تھی کہ پلاننگ کمیشن کا نام بدلنے کی ضرورت کیا ہے؟ لیکن موجودہ حکومت کے حامیوں کی طرف سے یہ دلیل پیش کی جارہی تھی کہ نیتی آیوگ کا دائرہ عمل پلاننگ کمیشن سے مختلف اور وسیع ہوگا۔ لیکن نریندر مودی کی دوسالہ دورِحکومت میں اس نیتی آیوگ نے کچھ بھی ایسا الگ نہیں کیا جس کی بنیاد پر پلاننگ کمیشن سے اسے مختلف سمجھا جائے البتہ اس نیتی آیوگ نے ان پالیسیوں کو قانونی صورت دینے کی پہل ضرور کی ہے جس کی حمایت سنگھ پریوار کرتی رہی ہے۔ حال ہی میں اس آیوگ نے ملک میں غیر ملکی نجی یونیورسٹیوں کے قیام کی وکالت کی ہے۔ حیرت ہے کہ ہندستان میں غیر ملکی یونیورسٹیوں کے قیام کی تجویز وزیر اعظم کے دفتر یعنی پی ایم او اور وزارت تعلیم کی طرف سے پیش کی جارہی ہے اور حکومت اس تجویز کو جلد از جلد نافذ کرنا چاہتی ہے۔ واضح ہو کہ ملک میں غیر ملکی یونیورسٹیوں کے قیام کے معاملے میں پیش تر کی یوپی اے حکومت بھی بہت عجلت میں تھی، بالخصوص اس وقت کے مرکزی وزیر برائے محکمۂ ترقیات انسانی وسائل کپل سبل بضد تھے کہ ان کے وقت میں ہی غیر ملکی نجی یونیورسٹیوں کے قیام کے بل کو ہری جھنڈی مل جائے۔ لیکن اس وقت اسی بھارتیہ جنتا پارٹی اور بایاں محاذ کی مخالفت کی وجہ سے وہ بل پاس نہیں ہو پایا اور یوپی اے کی حکومت میں غیر ملکی نجی یونیورسٹیوںکو ہندستان میں پائوں جمانے کا موقع نہیں مل سکا۔

     ہندستان میں اس وقت ۷۴۴ یونیورسٹیاں اور تقریباً ۳۷ ہزار کالجز ہیں۔ حالیہ دنوں میں ملکی نجی یونیورسٹیاں بھی قائم ہوئی ہیں اور کئی بڑے کالجوں کو ڈیمڈ یونیوسٹی کا درجہ بھی دیا گیا ہے۔ یہ حقیقت اپنی جگہ مسلّم ہے کہ آج کے عہد ِ عا  لمیت میں معیاری تعلیم کی اہمیت قدرے بڑھ گئی ہے اور عالمی پیمانے پر ہمارے ملک کی نامی گرامی یونیورسٹیاں بھی کھری نہیں اتر رہی ہیں۔ حال ہی میں بین الاقوامی سطح کی ایک تنظیم نے ۱۰۰  اور ۲۰۰ معیاری یونیورسٹیوں کی فہرست جاری کی تھی، اس میں پہلے زمرے کی ۱۰۰  یونیورسٹیو ں میں  اپنے ملک کی ایک بھی یونیورسٹی شامل نہیں تھی۔ دوسرے زمرے کی ۲۰۰  یونیورسٹیوں کی فہرست میں ہماری محض دو یونیورسٹیاں شامل تھیں۔ اب سوال اٹھتا ہے کہ ملک کی ۷۴۴  یونیورسٹیاں آخرکار بین الاقوامی معیار تعلیم کے تقاضوں کو پورا کرنے میں ناکام کیوں ہے ؟ اس پر فکر مندی ضروری ہے اور اپنی کمیوں کو دور کرنے کے لئے ٹھوس اقدام کرنے کی بھی ضرورت ہے۔ لیکن اس کا قطعی یہ جواز نہیں کہ اپنی ملکی یونیورسٹیوں کی کمیوں کو دور کرنے کے بجائے غیر ملکی نجی یونیورسٹیوں کو ملک میں قدم جمانے کا موقع دیا جائے۔ ہمارے ملک کی اقتصادی حالت کیا ہے ، وہ جگ ظاہر ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ خواندگی کی طرف ہمارا رجحان بڑھا ہے ، بالخصوص دیہی علاقے کے لوگ بھی چاہتے ہیں کہ ان کے بچے اعلیٰ تعلیم حاصل کریں لیکن ان کی راہوں میں اتنے روڑے ہیں کہ وہ اپنے مقصد میں کامیاب نہیں ہوپارہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ یوروپ اور دیگر ممالک کا جی ای آر پچاس سے تجاوز کر چکا ہے جبکہ ہندستان کا جی ای آر ۲۲ فیصد ہی ہے۔ اور بعض ریاستوں کا جی ای آر تو دہائی ہندسہ میں بھی پہنچ پایا ہے۔ ایسی صورت میں اگر غیر ملکی نجی یونیوسٹیوں کے قیام کا قانون بن جاتا ہے اور ملک کے مختلف حصّوں میں غیر ملکی یونیورسٹیاں قائم ہو جاتی ہیں تو پہلا نقصان تو یہ ہوگا کہ ہماری ملک کی یونیورسٹیاں مزید خستہ حالی کی شکار ہو جائیں گی کہ جس طرح ملک میں غیر سرکاری اسکولوں کے قیام کے بعد سرکاری اسکولوں کی حالت بد سے بدتر ہو گئی ہے۔دوسرا بڑا نقصان یہ ہوگا کہ اقتصادی طور پر مستحکم افراد تو اپنے بچّوں کو موٹی فیس دے کر بھی ان غیر ملکی یونیورسٹیوں میں داخلہ دلائیں گے لیکن ملک کی نوّے فیصد آبادی کے نصیب میں غیر ملکی یونیورسٹی کا منہ دیکھنا بھی ممکن نہیں ہوگا۔ اس لئے ضرورت اس بات کی ہے کہ حکومت اپنے ملک کی یونیورسٹیوں اور کالجوں کے معیار تعلیم کو بلند کرنے کے لئے ٹھوس اقدام اٹھائے۔ بالخصوص اعلیٰ تعلیمی اداروں میں فیکلٹی ممبران یعنی اساتذہ کی کمیوں کو پورا کرے اور تعلیمی ادارو ں کے بنیادی ڈھانچوں کے استحکام کے لئے خصوصی پالیسی بنائے۔ایک سروے کے مطابق ہمارے ملک کی یونیورسٹیوں میں۳۲  فیصد اساتذہ کی آسامیاں خالی پڑی ہیں۔ ریاستی یونیوسٹیوں کے حالت تو اتنی دگر گوں کہ کئی یونیورسٹیوں کے پی جی شعبہ میں بھی محض ایک دو اساتذہ باقی رہ گئے ہیں۔ ہمارے یہاں ریاستی یونیورسٹیوں میں اساتذہ کی بحالی کے جو طریقۂ کار ہیں وہ اتنے ناقص ہیں کہ ایک بحالی کے بعد دوسری بحالی میں ایک دہائی سے زیادہ کی مدت طے ہوجاتی ہے۔ مثلاً ریاست بہار میں یونیورسٹیوں اور کالجوں کے لئے ۲۰۰۳ ء میں لکچرر کی بحالیاں ہوئی تھیں ۔ اس کے بعد ۲۰۱۶ ء میں بحالی کا عمل شروع ہوا ہے ۔ اسی طرح کی حالت کئی دوسری ریاستوں کی بھی ہے۔ جہاں تک ملک کے تعلیمی اداروں کے معیار کو بلند کرنے کا سوال ہے تو اس کے لئے دو دہائی کے قبل ہی مرکزی حکومت نے این اے اے سی(NAAC)قائم کیا تھا اور اس نے قومی سطح پر ہر ایک اعلیٰ تعلیمی ادارے کے لئے نیک کے پیمانے کو پورا کرنے کو لازم بنایا تھا ا ور اس نے اے ، بی اور سی گریڈ کے ذریعہ تعلیمی اداروں کی درجہ بندی کی ہے ، مگر افسوس کا مقام یہ ہے کہ نیک کے ذریعہ جن یونیورسٹیوں اور کالجوںکو اے گریڈ کا درجہ دیا گیا ہے وہ تعلیمی ادارہ بھی بین الاقوامی تعلیمی معیار کے اداروں کے مقابل کھڑے نہیں اتر رہے ہیں۔ یہ ایک لمحۂ فکریہ ہے۔
    مختصر یہ کہ غیر ملکی تعلیمی اداروں کے قیام کے بعد بہتیرے ایسے مسائل در پیش ہوں گے جو ہماری تہذیب و تمدن بلکہ کئی معنیٰ میں ملک کی سا  لمیت کے لئے بھی مضر ہو سکتے ہیں۔ جو لوگ اس وقت غیر ملکی یونیورسٹیوں کے قیام کی وکالت کر رہے ہیں وہ یہ دلیل بھی پیش کر رہے ہیں کہ اس وقت بھی ملک کے ہزاروں طلبہ ہجرت کرکے غیر ملکوں میں تعلیم حاصل کر رہے ہیں ۔ بلاشبہ جن کی معاشی حالت بہتر ہے یا جن کے پاس دیگر ذرائع و سہولیات ہیں ان کے بچّے غیر ملکی یونیورسٹیوں میں تعلیم پارہے ہیں ۔ لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ اب اپنے ملک میں ہی ان غیر ملکی یونیورسٹیوں کو قدم جمانے کا موقع فراہم کر دیا جائے۔ ایسا کیا جانا ملک و سماج کے مفاد میں نہیں ہے۔ ساتھ ہی ساتھ ہمارے ملک میں ۱۹۵۶ ء میں جو یونیورسٹیوں کے قیام کی پالیسی بنائی گئی تھی ،اس کے بھی خلاف ہے ۔ اس لئے موجودہ نریندر مودی حکومت کوملک کی یونیورسٹیوں اور دیگر اعلیٰ تعلیمی اداروں کو وہ سہولیات مہیا کرانے کی پہل کرنی چاہئے جن کی بدولت غیر ملکی یونیورسٹیاں بین الاقوامی سطح پر معیاری سمجھی جاتی ہیں۔ اس حقیقت سے تو دنیا واقف ہے کہ ہمارے ملک میں ذہین طلبہ کی کمی نہیں ہے مگر ان ذہین طلبہ کو جو معیاری کیمپس ملنا چاہئے ، اس کا فقدان ہے۔ اس لئے ملک کے تعلیمی اداروں کے ماحول کو سازگار بنانے کے لئے ہر جہت پر کام کرنے کی ضرورت ہے۔ اگر ہم اپنے ملک کی ان ۷۴۴ یونیورسٹیوں میں صرف ۱۰۰  یونیورسٹیوں کو بھی بین الاقوامی معیار ِ تعلیم کے پیمانے کے لائق بنا دیتے ہیںتو خود بخود غیر ملکی یونیوسٹیوں کے قیام ضرورت محسوس نہیں ہوگی۔ ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہئے کہ ہمارے آئین میں ہر شہری کو تعلیم کی یکساں سہولیات اور مواقع دینے کی وکالت کی گئی ہے مگر افسوس صد افسوس کہ آزادی کے ۶۹ برسوں کے بعد بھی ہم اپنے آئینی تقاضوں کو پورا کرنے میں ناکام ہیںا ور اپنی ناکامیوں پر پردہ ڈالنے کی مزید کوشش کررہے ہیں کہ اپنے تعلیمی اداروں کے مستحکم کرنے کے بجائے غیر ملکی تعلیمی اداروں کے قیام کی وکالت کر رہے ہیں۔ ضرورت تو اس بات کی ہے کہ آج ملک کے بہتیرے ایسے سب ڈویژن ہیں جہاں اعلیٰ تعلیم کے ادارے نہیں ہیں ۔ اولاً کوشش تو یہ ہونی چاہئے کہ بلاک سطح پر ہی کالجوں کا قیام عمل میں آئے تاکہ لڑکوں کے ساتھ ساتھ لڑکیوں کو بھی اعلیٰ تعلیم کے یکساں مواقع مل سکیں کیونکہ بہت سی لڑکیاں محض اس لئے دسویں (میٹرک )کے بعد پڑھائی ترک کر دیتی ہیں کہ وہ دور دراز کا سفر نہیں کر سکتیں۔ بالخصوص دیہی علاقے کا وہ طبقہ جو زراعت پیشہ ہے اور اقتصادی طور پر کمزور ہے، وہ چاہتے ہوئے بھی اپنے بچوں کو اعلیٰ تعلیم نہیں دلا پارہا ہے۔ اس لئے ریاستی حکومت ہو کہ مرکزی حکومت ، اسے یہ پہل کرنی چاہئے کہ زیادہ سے زیادہ سرکاری اعلیٰ تعلیمی ادارے قائم کئے جائیں اور اس دور عا  لمیت میں جب تکنیکی اور پیشہ وارانہ تعلیم کو غیر معمولی اہمیت حاصل ہو گئی ہے ، ایسے وقت میں تکنیکی اور پیشہ وارانہ تعلیمی اداروں کے قیام پر سنجیدگی سے غور و فکر کرنے کی ضرورت ہے۔ لیکن اب تک مرکز میں خواہ کسی سیاسی پارٹی کی حکومت رہی ہو ، اعلیٰ تعلیم کے تئیں اس کا رویّہ سنجیدہ اور مثبت نہیں رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج بھی آبادی کے تناسب میں اعلیٰ تعلیمی ادارے کا فقدان ہے۔ جبکہ تعلیمی پالیسی پر خوب خوب سیاست ہوتی رہی ہے۔ بہرکیف، اس وقت مرکز میں نریندر مودی کی قیادت والی جو حکومت ہے وہ دیسی کھان پان ، لباس اور فکر و نظر کی وکالت کرتی رہتی ہے لیکن تعلیمی معاملے میں وہ غیر ملکی نظرئے کی ہمنوا نظرآرہی ہے۔ غرض کہ اس حکومت کی پالیسیاں دوہرے پن کی شکار ہیں جس کی وجہ سے ملک میں نت نئے مسائل پیدا ہورہے ہیں اور عوام الناس میں اضطراب کی کیفیت بڑھتی ہی جارہی ہے۔


٭٭٭

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 498