donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Islamic Articles -->> Life Sketch Of Holy Person
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Adil Faraz
Title :
   Hazrat Fatma Ulmaye Ahle Sunnat Ki Nazar Me

حضرت فاطمہؑ علماء اہلسنت کی نظر میں


  عاد ل فراز نقوی


رسول اسلام کی اکلوتی بیٹی اور عالمین کی عورتوں کی سردار جناب فاطمہ زہرا سلام اللہ علیھا کی ذات گرامی سے متعلق علماء اہل تشیع کی کتابوں میں روایات اور احادیث کی کثرت ہے ۔مختلف ملکوں کے الگ الگ شہروں سے آپکی سیرت و سوانح پر بیش بہا قیمتی کتابوں کا ذخیرہ سامنے آتا رہاہے ۔لیکن علماء تشیع کے علاو ہ آپکی ذات گرامی قدر پر جو تحقیقی کام علماء اہل سنت نے کیاہے وہ بھی قابل ذکر ہے ۔خاص کر دور قدیم میں جتنی روایات اور احادیث علماء اہلسنت نے جناب فاطمہ زہرا سے متعلق جمع کیں اور ان روایات کو علم درایت کی روشنی میں جانچا اور پر کھا اسکی مثال کم ہی ملتی ہے ۔اس مقالہ میں ایسی چند احادیث کا ذکر کیا گیاہے جو فریقین کے مابین شہرت کی حامل ہیں ۔

ولادت جناب فاطمہ :    ولادت جناب فاطمہ سے متعلق جو احادیث وارد ہوئی ہیں انمیں متن کے لحاظ سے کافی تفریق ہے ۔اول تو یہ کہ کچھ روایات کی بنیاد پر جب حضور کو معراج ہوئی اس وقت جبریل نے آپ کو جنت کا پھل دیا جس سے نور فاطمہ زہرا آپ تک منتقل ہوا جیساکہ محب الدین طبری نے نقل کیا ہے ۔دوسری وہ روایات ہیں جن میں زمین پر  ہی جبریل نے آپ کو اور آپکی زوجہ جناب خدیجہ کو جنت کے پھل لاکر دیے جن کی بنیاد پر نور سیدہ طاہرہؑ آپ تک منتقل ہوا جیسا کہ شیخ شعیب ابو مدین بن سعد مصری نے بیان کیاہے ۔لیکن ان تمام رویات کے تناظر میں یہ واضح ہوتا ہے کہ نور سیدہ رسالتمآب اور جناب خدیجہ تک جنت کے پھل کے ذریعہ منقل کیا گیا ۔

(۱)

    حافظ ابوالفدا ء ’’ البدایہ و النھایہ ‘‘ میں لکھتے ہیں  ،فلما ولدت فاطمہ لم یرضعھا‘جس وقت فاطمہ زہرا ؑ کی ولادت ہوئی تو آپ نے کسی کا دودھ نہیں پیا۔کیونکہ اس وقت عربوں میں یہ رسم عام تھی کہ بچوں کی رضاعت اور تربیت کے لئے دایہ کو رکھا جاتا تھا جیساکہ رسول اکرم کی دیکھ بھال کے لئے جناب حلیمہ خاتون کو معین کیا گیا تھا ۔لیکن علماء اہلسنت اس بات پر متفق ہیں کہ جناب فاطمہ کو سوائے جناب خدیجہ کے نہ تو کسی نے دودھ پلایا اور نہ کسی اور خاتون نے تربیت دی ۔چونکہ آپکی والدہ جناب خدیجہ کا انتقال اپکی صغر سنی میں ہی ہوگیا تھا لہذا تربیت کے لئے رسم عرب کے مطابق ضروری تھاکہ کسی دایہ کو معین کیا جاتا مگر رسول خدا نے آپکی تربیت خود کی اور کسی دایہ کومتعین نہیں کیا ۔

(۲)

فاطمہ نام رکھنے کی وجہ تسمیہ :    حافظ ابو بکر احمد بن علی شافعی تاریخ بغداد میںلکھتے یں کہ رسول اسلام فرمایا کرتے تھے ’’ ابنتی فاطمہ حوراء آدمیہ لم تحض و لم تطمث و انما سما ھا فاطمہ لان اللہ فطمھا و محبیھا عن النار‘‘۔میری بیٹی فاطمہ عورتوں کی تمام مخصوص عادات سے مبرا ہے اور انکا نام فاطمہ اس لئے رکھا گیا کیونکہ اللہ نے انہیں پاکیزہ بنا یا اور انکے دوستوں پر جہنم کو حرام کردیا۔

(۳)

    دوسر ی حدیث ابوہریرہ سے وارد ہوئی ہے جسے علامہ علی متقی نے کنز العمال میں تحریر کیا ہے کہ رسول اکرم نے فرمایا ’’ انما سمیت ابنتی فاطمہ لان اللہ فطمھا و ذریتھا و محبیھا عن النار‘‘۔ینابیع المودۃ میں بھی اس حدیث کو اسی طرح ’’ مولف فردوس‘‘ کے حوالے سے نقل کیاگیاہے

(۴)


بتول کا مطلب:    علامہ امرتسر ی ارجح المطالب میں نقل کرتے ہیں کہ رسول اسلام سے بتول کے متعلق سوال کیا گیا تو رسول خدا نے فرما یا ’’ البتول التی لم تر حمرۃ قط ،أی لم تحض فان الحیض مکرہ من بنات الانبیاء اخرجہ الحاکم ‘

(۵)


    فاطمہ سیدۃ نساء العالمین:    مسند ابو دائو د میں جناب عائشہ کی روایت نقل کی گئی ہے کہ رسول اکرم نے ایک خاص موقع پر فرما یا ’’ یا فاطمہ اما ترضین ان تکونی سیدۃ نساء العالمین او سیدۃ نساء ھذہ الامۃ فضحکت ‘‘ جناب عائشہ روایت کرتی ہیں کہ رسول اسلام نے جناب فاطمہ سے ارشاد فرمایا فاطمہ کیا تم راضی نہیں ہو کہ تمہیں عالمین کی عورتوں کا سردار منتخب کیاگیاہے تو جناب فاطمہ مسکرائیں ۔(۶)علامہ شیخ علی بن حسن شافعی اپنی کتاب ’’ الحفۃ العلیہ و الادب العلمیۃ‘‘ میں اس حدیث کو دوسرے زاویہ سے نقل کرتے ہیں ’’ ام الحسن ؑ بن علی سیدۃ نساء الدنیا و لآخرۃ ‘‘مادر حسنین دنیاء و آخرت میں عورتوں کی سردار ہیں۔

(۷)

    علامہ ابن عبد البر اندلسی نے ’’الاستیعاب ‘‘میں معروف راوی حدیث ابوہریرہ سے ا س حدیث کو بیان کیا ہے مگر مفہوم و معنی کے لحاظ سے حدیث مختلف ہوگئی ہے ابوہریرہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اسلام نے مجھ سے بیان فرمایا ’’ خیر نساء العالمین اربع مریم بنت عمران ،وآسیہ بنت مزاحم ،وخدیجۃ بنت خویلد و فاطمہ بنت محمد ؐ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔‘‘عالمین کی بہترین عورتیں چار ہیں مریم بنت عمران ،آسیہ بنت مزاحم ،خدیجہ بنت خویلد اور فاطمہ بنت محمد ؐ۔ علامہ ابن حجر عسقلانی نے بھی اس حدیث ’’الاصابہ میں بیان کیاہے ۔

(۸ )

تسبیح فاطمہ کی روایت :    کثرت کے ساتھ علماء اہل سنت والجماعت نے تسبیح جناب فاطمہ سے متعلق روایات کو قلم بند کیا ہے اور اسکی اسناد سے بھی بحث کی ہے ۔مختلف کتب احادیث میں اس رویات کو الگ الگ طریقوں سے بیان کیا گیا ہے ۔روایت کے الفاظ اس طرح ہیں ’’ رسول اسلام نے حضرت علی اور جناب فاطمہ ؑ سے فرمایا کیا میں تمہیں ایک ایسی شے کی تعلیم دو ں جو تمہارے لئے’’ حمرالنعم‘‘ (سرخ اونٹ۔سرخ یاقوت )سے بھی بہتر ہو ۔حضرت علی نے فرمایا بے شک یا نبی خدا،اس وقت رسول اسلام نے فرمایا ’’تکبیرات و تسبیحات و تحمیدات مأۃ حین تریدان ان تناماا ،فتبیتا علی الف حسنہ و مثلھا حین تصبحان ،فتقومان علی الف حسنہ ،فقال علی : فاتتنی منذ سمعتھا من رسول اللہ الا لیلہ صفین ،فانی نسیتھا حتیٰ ذکرتھا من آخر الیل فقلتھا۔‘‘ اس روایت کی اسناد کو علماء رجال نے درست تسلیم نہیں کیاہے کیونکہ اس روایت کی بنیاد پر ان ثقہ احادیث کی تردید ہوتی ہے جن میں بیان ہوا کہ تسبیح فاطمہ کے ورد کو علی ؑ نے لیلۃ الہریر میں بھی ترک نہیں کیا۔اس سلسلے میں عبدالرحمٰن ابو لیلیٰ کی روایت کافی شہرت رکھتی ہے ۔

(۹)

    عبد الرحمن بن ابو لیلیٰ نے حضرت علی سے سوال کیا کہ یا علی کیا آپنے رسول کی تعلیم کردہ اس تسبیح کے ورد کو صفین کی رات میں بھی اسی طرح جاری رکھا جیسا کہ آپ کا وطیرہ ہے ۔حضرت علی نے جواب دیا کہ ہاں میں نے صفین کی رات میں (لیلۃ الہریر) میں بھی اس ورد کو اسی طرح انجام دیا ۔مذکورہ علماء کے علاو ہ تسبیح فاطمہ کی رایت کو بیان کرنے والے علماء میں سے چند یہ اسماء اس طرح ہیں ان میں ابو دائو د السبحستانی سنن ابو دائود میں  ،ابوالفرج ابن جوزی صفۃ الصفوہ جلد ۲ ص ۴ پر ،ابو نعیم اصفہا نی ’’حلیۃ الاولیاء جلد۱ ص ۶۹ پر ‘‘ ابن اثیر جزری ،محب الدین الطبری’’ذخائر العقبی ص ۶۹و۱۰۵ پر ‘‘ ابن حجر عسقلانی’’فتح الباری فی شرح البخاری جلد ۱۱ ص ۱۰۲ پر ‘‘ سیلمانی قندوزی ’’ینابیع المودۃ ص ۲۰۰ پر ‘‘ور جلال الدین سیوطی ’’الثغور الباسمۃ فی مناقب سید تنا فاطمہ ص ۲‘‘ پر ۔اسکے علاوہ بہیقی ،ابو بکر احمد بن علی ،احمد بن حنبل اور حافظ بخاری جیسے علماء اکابر نے تسبیح فاطمہ سے متعلق روایات کو اسناد صحیہ کے حوالے سے نقل کیاہے ۔

فاطمہ خیر نساء الامۃ:    مندرجہ بالا احادیث کی بنیاد پر جناب فاطمہ زہر ا ؑ کا سیدۃ نساء العالمین ہونا ثابت ہے ۔دیگر احادیث میں جناب فاطمہ کے لئے روایت کے چند جملوں کی تفریق ہے ۔ان لفظی تفریقات کی بنا پر مفہوم حدیث پر کوئی منفی اثر مرتب نہیں ہوتا بس حدیث کی معمولی نوعیت تبدیل ہوجاتی ہے ورنہ معنی و مفہوم کابھی تقریبا وہی حاصل ہے  ۔علامہ ابن عساکر اور دیگر مورخین و محدثین نے حدیث پیغمبر کو اس طرح بیان کیاہے ’’ خیر رجالکم علی ،و خیر شبابکم الحسن و الحسین ؑ و خیر نسائکم فاطمہ ‘‘ ۔اس حدیث سے جہاں عظمت علی ابن ابی طالب اور منزلت حسنین ؑ آشکار ہے وہیں واضح طور پر آپ نے کائنات کی تمام عورتوں سے امیتاز جناب فاطمہ کو بھی بیان کیاہے ۔’’خیر نسائکم ‘‘ کا یہ توصیفی جملہ رسول اکرم نے مکمل دور حیات میں کسی دوسری عورت کے لئے ارشاد نہیں فرمایا ۔تفصیلات کے لئے دیکھیں

(۱۰)

غضب فاطمہ غضب خداہے :    حاکم نیشاپوری نے اپنی مستدرک میں رسول اسلام کی اس معروف حدیث کو نمایا ں طور پر نقل کیاہے کہ رسول اسلا م نے جناب صدیقۂ طاہرہ سے فرمایا ’’ ان اللہ یغضب لغضبک و یرضیٰ لرضاک ‘‘فاطمہ بیشک اللہ تیری ناراضگی سے ناراض اور تیری خوشی میں خوش ہوتاہے ۔حاکم نیشا پوری نے اس حدیث کے آخر میں تحریر کیاہے کہ ’’ ھذا حدیث صحیح الاسناد ‘‘ کہ یہ حدیث اپنی اسناد کے لحاظ سے بالکل درست ہے ۔

(۱۱)


    اسی مفہوم کی دوسری حدیث جو مابین اہل تسنن و علماء اہل تشیع مشہور ترین حدیث ہے کہ رسول اسلام نے فرمایا ’’ ان اللہ عزو جل یغضب لغضب فاطمہ و یرضیٰ لرضاھا ‘‘ بیشک فاطمہ اللہ تیرے غضبناک ہونے سے غضبناک اور تیرے خوش ہونے سے خوش ہوتاہے ۔

ذریت فاطمہ پر آتش دوزخ حرام ہے :    ذریت جناب سیدہ طاہرہ پر پروردگار عالم نے آتش جہنم کو حرام قراردیاہے ۔ حدیث میں ذریت میں شمولیت کا زمانہ متعین نہیں کیا گیا ہے اور نہ کسی مخصوص پس منظر میں یہ حدیث حضور نے بیان فرمائی ہے ۔ہاں اتنی تخصیص ضرور رکھی کہ آتش جہنم کو صرف ذریت سیدہ پر حرام قرار دیا اور یہ سلسلہ قیامت تک کے لئے جاری ہے ۔ محدثین اہل سنت نے اس حدیث شریف کو صراحت کے ساتھ اپنی کتابوں میں نقل فرمایاہے ۔مستدرک میں حاکم نیشا پوری نے عبداللہ ابن مسعود کے حوالے سے اس حدیث کو رقم کیا ہے متن حدیث یوں ہے ’’ ان فاطمہ احصنت فرجہا فحرم اللہ ذریتھا علی النار ‘‘اس حدیث کے آخر میں بھی انہوںنے لکھا ہے کہ اسناد کے لحاظ سے یہ حدیث بھی صحیح ہے ۔

(۱۲)  

    یہی حدیث دوسرے الفاظ میں بھی نقل ہوئی ہے ۔جیساکہ علامہ طبرانی اور حافظ ابونعیم اصفہانی وغیرہ نے حدیث کی کتابوں میں درج کیاہے ’’ ان فاطمہ حصنت فرجھا و ان اللہ عز و جل ادخلھا با حصان فرجھا و ذریتھا الجنۃ ‘‘

(۱۳)

عمر و ابو بکر کی خواہش تزویج :    حضرت ابو بکر اور عمر نے رسول اسلام کے سامنے جناب فاطمہ سے تزویج کی درخواست پیش کی تو رسو ل اسلام نے فرمایا کہ مجھے اس امر میں کوئی اختیار نہیں ہے ۔فاطمہ کے امر میں تمام اختیارات خدا وند متعال کو ہیں ۔انس ابن مالک کی روایت کے مطابق ان دونوں حضرات نے فاطمہ زہرا سے تزویج کی خواہش کو لیکر اپنی اپنی بیٹیوں کے ذریعہ بھی رسول اکرم سے سفارش کی تھی ۔اگر ہم کنز العمال کی روایت پر اعتماد کریں تو اس روایت کے مطابق رسول اسلام نے ان دونوں کے جواب میں خاموشی اختیار کی اور جب وہ بضد ہوئے تو آپ نے فرمایا کہ اس امر میں مجھے کوئی اختیار نہیں ہے ،فاطمہ کی تزویج کے لئے میں حکم الہی کا منتظر ہوں اور تمام اختیارات خدا کے پاس ہیں ۔ا س جواب کے بعد دوبارہ اکابر صحابہ کو کسی کی بھی سفارش کا استعمال کرنا گویا رسول کے قول کی صداقت پر انگشت نمائی ہے ۔علامہ ہیتمی نے مجمع الزائد میں انس ابن مالک کے حوالے سے روایت کو بیان کیا ہے کہ حضرت عمر و ابوبکر نے رسول خدا کے منع کرنے کے باوجود تزویج جناب سیدہ کے لئے اپنی اپنی بیٹیوں سے سفارش کرنے کے لئے زور دیا مگر رسول اسلام نے ہر بار وہی جواب دیا جو آپ نے پہلے ان دونوں کو دیا تھا ۔اس طرح یہ حقیقت بھی واضح ہوتی ہے کہ تزویج فاطمہ کے لئے حضرت علی کا انتخاب بحکم خدا ہو ناکہ رسول اسلام کی مرضی کے مطابق ۔

(۱۴)

جنت مشتا ق فاطمہ :    علامہ ابوالحسن الواحدی اپنی کتاب ’’ قلائد الدرر فی الھداۃ الغرر ‘‘ میں طویل سلسلۂ اسناد کے ساتھ نقل کرتے ہیں کہ رسول اکرم ؐ نے فرمایا ’’ اشتاقت الجنۃ الی اربع من النساء :مریم بنت عمران ،وآسیہ بنت مزاحم زوجۃ فرعون و خدیجہ بنت خویلد و فاطمہ‘‘ ۔

اسی زمرہ کی روایات دیگر کتابوں میں بھی مرقوم ہیں ۔صدیقہ ٔ طاہرہ سے متعلق وہ احادیث بھی کثرت کے ساتھ درج ہیں جن میں آپ نے فرمایا ہے کہ بہترین عورتوں کی فہرست بغیر فاطمہ کے مکمل نہیں ہوسکتی ۔ان میں آپ نے چار عورتوں کا خصوصیت کے ساتھ تذکرہ کیا ہے ۔یہ وہی فہر ست ہے جنکی احادیث نبوی کی بنا پر جنت مشتاق ہے ۔فصول المھمۃ میں ابن صباغ المالکی نے مسلم و ترمذی کے حوالے سے حدیث پیغمبر ؐ کو بیان کیاہے کہ آپ نے فرمایا’’ لم یکمل من النساء الا مریم بنت عمران و آسیہ بنت مزاحم امرئۃ فرعون و خدیجۃ بنت خویلد و فاطمہ بنت محمد ؐ ‘‘ ۔

(۱۵)

فاطمہ روز محشر :    مقا تل و کتب احایث میں یہ معرو ف حدیث نبوی طویل سلسلۂ اسناد کے ساتھ مرقوم ہے جسے علامہ اثیر جذری کے علاوہ حاکم نیشاپوری ،علامہ طبرانی اور معروف علماء اہل تسنن نے بیان کیاہے کہ رو ز قیامت ایک منادی ندا کریگا ’’ یا اھل الجمع غضوا ابصارکم عن فاطمہ بنت محمد ؐ حتیٰ تمر ھذا حدیث صحیح علی شرط شیخین ‘‘اے اہل محشر اپنی آنکھیں بند کرلو یہاں تک کہ فاطمہ یہاں سے گذرجائیں ۔اس حدیث سے جہاں عصمت فاطمہ اور عظمت و جلال سیدہ کی نشاندہی ہوتی ہے وہیں نگاہ پروردگار عالم میں آپکی شرف و منزلت بھی واضح ہوتی ہے ۔

(۱۶)


اسی حدیث شریف کو علامہ ذہبی نے دوسرے طریقے سے بھی نقل کیاہے ’’ اذا کان یوم القیامۃ نادی منادیا اھل الجمع غضوا ابصارکم عن فاطمہ حتیٰ تمر علی الصراط الی الجنۃ ‘‘اس حدیث کے الفاظ میں معمولی سا فرق ہے مذکورہ حدیث میں ’’حتیٰ تمر علی الصراط الی الجنۃ ‘‘ کی عبارت نہییں ہے مگر اس سے مفہوم حدیث پر کوئی اثر مرتب نہیں ہوتا۔

(۱۷)

تاریخ بغداد میں  حافظ ابو بکر بغدادی نے اس حدیث کو جناب عائشہ کی سند کے ساتھ بھی نقل کیاہے ۔حدیث کے الفاظ وہی ہیں جو اثیر جذر ی اور علامہ طبرانی کی روایت میں آئے ہیںتقدم و تاخر لفظیات کا فرق اتنا معنی خیز نہیں ہے  ۔’’ عن عائشہ ۔قالت : قال النبی ؐ  ینادی مناد یوم القیامۃ غضو ابصار کم حتیٰ تمر فاطمۃ بنت محمد النبی ؐ ‘‘ ۔

(۱۸)

    اس حدیث کے سلسلۂ اسناد میں یوں تو علی ابن ابی طالب بھی شامل ہیں جسکے بعد اس حدیث شریف کی اہمیت و افادیت مزید بڑھ جاتی ہے مگر علماء اہل سنت نے دیگر راویو ں کے نام بھی نقل کئے ہیں جیسے صواعق محرقہ میں یہ حدیث ابوہریرہ سے ص ۱۸۸ پر اور فتح الکبیر وغیرہ میں بھی مذکورہ راوی کے حوالے سے یہ حدیث رقم کی گئی ہے ۔

    مذکورہ احادیث کی بنیاد پر روز محشر جناب فاطمہ کی عظمت واضح ہوجاتی ہے ۔اب ان احادیث کو بیان کیا جارہاہے جن میں نقل ہواہے کہ سیدہ طاہرہ اپنے فرزند امام حسین ؑ کے خون ناحق کے لئے روز محشر بارگاہ خدا وند عالم میں فریاد کریں گی ۔اس سلسلے کی تمام تر روایات میں معنوی اور لفظی اعتبا ر سے کوئی نمایاں فرق نہیں ہے ۔ان روایات کو علامہ مغازلی ،علامہ ابن شیرویہ الدیلمی ،علامہ قندوزی ،اور علامہ بدخشی نے اپنی کتابو ں میں نقل فرمایا ہے ۔یہ حقیقت بھی صیغہ ٔ راز میں نہیں ہے کہ شہادت حسین ؑ کی پیشن گوئی خود رسول اکرم نے اپنی زندگی میں فرمائی تھی اور اس سلسلے میں کثرت سے احادیث وارد ہوئی ہیں ۔یہ حدیث بھی اسی زمرہ کی احادیث میں سے ہے ۔رسول اکرم ؐ نے ارشاد فرمایا’’ تحشر ابنتی فاطمہ یوم القیامۃ و معھا ثیاب مصبوغۃ بدم ،فتتعلق بقائمۃ من قوائم العرش فتقول یا عدل یا جبار احکم بینی و بین قاتل ولدی ،قال رسول اللہ ؐ فیحکم اللہ لا بنتی و رب الکعبۃ‘ قیامت کے دن جب میری بیٹی فاطمہ آئے گی تو اسکے ساتھ ایک خون میں رنگا ہو لباس ہوگا اور و ہ پایۂ عرش کو تھام کر فریاد کرے گی اے صاحب عدل و اختیار میرے اور میرے بیٹے کے قاتل کے درمیان فیصلہ فرما ۔رسول اللہ نے فرماتے ہیں قسم رب کعبہ کی اس وقت خدا میری بیٹی کے حق میں فیصلہ دیگا۔

(۱۹)

محبوب رسالت فاطمہ :    علامہ ترمذی نے اپنی کتاب صحیح میں ابن بریدہ کے حوالے سے نقل کیاہے کہ رسول اسلام فرمایا کرتے تھے ’’ کان احب النساء الی رسول اللہ فاطمہ و من الرجال علی ‘‘ رسول کے نزدیک عورتوں میں سب سے زیادہ محبوب فاطمہ زہراؑ اور مردوں میں علی ابن ابی طالب تھے ۔

(۲۰)

    علامہ متقی ہندی نے کنزالعمال میں اسی مفہوم کی دوسری حدیث ابوہریرہ کے حوالے سے بھی نقل کی ہے کہ رسول اسلام نے علی ابن ابی طالب سے ارشاد فرمایا ’’  فاطمہ احب الی منک و انت اعز علی منھا‘‘۔اے علی فاطمہ مجھے تم سے زیادہ محبوب ہے اور تم مجھے اس سے زیادہ عزیز ہو ۔اس حدیث شریف میں دونوں کی عظمت و اہمیت کو یکساں طریقے سے بیان کیا گیا ہے

(۲۱)

    مستدرک میں حاکم نیشاپوری نے حضرت عمرابن خطاب کے حوالے سے نقل کیاہے کہ خلیفۂ دوم نے فرمایا کہ ایک بار حضرت علی علیہ السلام جناب فاطمہ کے پا س تشرف لائے اور فرمایا ’’ یافاطمہ واللہ مارأیت احداََ احب الی رسول اللہ ؐ منک وواللہ ماکان احد من الناس بعد ابیک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم احب الی منک ‘‘۔حدیث مذکور میں حضرت عمر ابن خطاب کی روایت کے مطابق جسے حاکم نیشا پوری نے حدیث موثق تسلیم کیا ہے رسول اسلاؐم کے نام کے بعد ’’صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ‘‘ ذکر ہوا ہے یہ علماء اہل تسنن کے لئے قابل غور نکتہ ہے اور سنت خلیفہ دوم بھی جس عمل ضروری اور فرض ہے

(۲۲)

علامہ سیوطی جامع صغیر میں جناب عائشہ کے حوالے سے نقل کرتے ہیں ’’ قالت : کان النبی ؐ کثیراََ ما یقبل عرف فاطمۃ‘‘۔حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ رسول اللہ فاطمہ کی پیشانی کا اکثر بوسہ لیا کرتے تھے

(۲۳)

دوسری روایت بھی جناب عائشہ ہی سے مروی ہے جسے علامہ قندوزی نے ینابیع میں نقل کیاہے کہ ام المومین نے فرمایا ’’ کان النبی ؐ اذا قدم من سفر قبّل نحر فاطمہ ،و قال : منھا اشم رائحۃ الجنۃ ‘‘ رسول خدا جب کسی سفر کا ارادہ کرتے تھے تو فاطمہ ؑ کی گردن کا بوسہ لیتے تھے اور پھر فرماتے تھے مجھے فاطمہ سے جنت کی خوشبو محسوس ہوتی ہے ۔

(۲۴)

    علامہ ابن عبد البر اندلسی ابی ثعلبہ کے حوالے سے اسی طریق کی حدیث کو نقل کیا ہے مگر اس حدیث میں کچھ متن کا اختلاف بھی ہے ۔متن حدیث اس طر ح ہے ’’ کان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اذا قدم من غز و ،أو سفر بدء بالمسجد فصلیٰ بیہ رکعتین ثم یاتی فاطمہ یاتی ازواجہ ‘‘۔

(۲۵)

    علامہ بہیقی اس حدیث کو ثوبا ن کی روایت کی بنا پر یوں بیان کرتے ہیں ’’ کان رسول اللہ اذا سافر کان آخر عہدہ بانسان من اھلہ فاطمہ ،و اول من یدخل علیہا اذا قدم فاطمہ ‘‘ رسول اللہ جب کسی سفر سے کا ارادہ کرتے تھے  تو فاطمہ آپکے اہل سے وہ پہلی فرد ہوتی تھیں جس سے آپ ملاقات کرتے تھے اور جب واپس ہوتے تھے تو سب سے پہلے آپ ہی کے پاس تشریف لے جاتے تھے

(۲۶)
ابن اثیر جذری ابن عباس کی روایت کی بنا پر اس طرح نقل کرتے ہیں ’’ ان النبی کان اذا قدم من سفر قبّل ابنتہ فاطمہ‘‘    

(۲۷)
بضعت الرسول :    اس طریق کی تمام تر احادیث کو تواتر کے ساتھ علماء اہل تسنن نے اپنی کتب احادیث میں نقل کی ہیں اور کتب صحیحہ میں بھی ’’ بضعۃ منی ‘‘ کی احادیث موثق و مستند اسناد کے ساتھ وارد ہوئی ہیں ۔حافظ امام احمد بن حنبل عبد اللہ ابن زبیر کی روایت کی بنا پر نقل کرتے ہیں کہ رسول اسلام نے ارشاد فرمایا ’ ’ فاطمۃ بضعۃ منی یوذینی ما اذاھا و ینصبی ما أنصبھا ‘‘ فاطمہ میرا جز و ہے جس نے اسے اٰذیت دی اسنے مجھے اذیت دی اور جس نے اس سے دشمنی کی اس نے مجھ سے دشمنی کی ۔اس حدیث شریف کو حافظ ترمذی ،ابن حجر ہیتمی ،علی متقی ہندی ،علامہ بدخشی اور دوسرے علماء اہل سنت نے بھی اس حدیث شریف کو نمایاں طور پر بیان فرمایا ہے ۔

(۲۸)
بخاری میں یہی حدیث اختلاف متن کے ساتھ نقل کی ہے کہ رسو ل اللہ نے فرمایا ’’ فاطمہ بضعۃ منی فمن اغضبھا أ غضبنی ‘‘ فاطمہ میرا جزو ہے جس نے اسے غضبناک کیا اس نے مجھے غضبناک کیا ۔

(۲۹)
دیگر کتب احادیث میں اس حدیث کے الفاظ مختلف طریقے سے واقع ہوئے ہیں اختصار کے ساتھ ہم ان احادیث کو نقل کرتے ہیں ۔’’انما فاطمۃ بضعۃ منی یوذینی ما آذاھا ‘‘

(۳۰)
 علامہ نورالدین بن صباغ المالکی کی رویات کے مطابق ’’فاطمہ بضعۃ منی و ھی قلبی و روحی التی بین جنبی من آذاھا فقد آذانی و من آذانی فقد آذی اللہ ‘‘    

(۳۱)
علامہ دینوری کی تحقیق کے مطابق متن حدیث یوں ہے ’’ من ارضٰیفاطمہ فقد أرضانی و من اسخط فاطمہ فقد اسخطنی ‘‘

(۳۲)

مشیت فاطمہ مشیت رسول اللہ :    حافظ اسماعیل بخاری ابونعیم کی روایت کردہ حدیث کو اس طرح بیان کرتے ہیں جسے ابو نعیم نے جناب عائشہ سے سنا تھا’’ قالت :أ قبلت فاطمہ تمشی کان مشیتھا مشی النبی ؐ فقال مرحبا با بنتی ثم أجسلھا عن یمینہ اؤ عن شمالہ ‘‘    

(۳۳)
احترام فاطمہ  :حافظ ابودائو د نے اپنی سنن میں حضرت عائشہ سے روایت نقل کی ہے کہ ’’ کانت اذا دخلت علیہ قا م الیہا،فأ خذ بید ھا ،و قبلھا ،و اجلسھا فی مجلسہ ۔۔۔۔۔‘‘۔جس وقت فاطمہ رسول اللہ کی خدمت میں حاضر ہوتی تھیں تو آپ سراپا تسلیم کے لئے کھڑے ہوجاتے تھے ۔بیٹی کے ہاتھوں کو اپنے ہاتھ میں لیتے تھے اور اپنی جگہ پر بٹھاتے تھے ۔'

(۳۴)
ترمذی کی رایت کے مطابق جناب عائشہ کا بیان ہیکہ میں نے فاطمہ سے زیادہ کسی کو اپنے باپ سے اتنا مشابہ نہیں دیکھا ۔انکے قیام و قعود کا انداز اور رفتار و گرفتار میں رسالت کی جھلک محسوس ہوتی تھی ۔اور جب بھی وہ فاطمہ رسول اللہ کی خدمت میں تشریف لاتی تھیں تو حضور تعظیم کے لئے اٹھ جاتے تھے اور اپنی جگہ پر بٹھلاتے تھے ۔

(۳۵)
حجاب فاطمہ :    رسول اللہ نے اپنی دختر نیک اختر سے ایک دن سوال کیا بیٹی عورتوں کے لئے بہترین عمل کیاہے ؟تو آپ نے فرمایا :باباجان !نہ کوئی مرد اسے دیکھے اور نہ وہ کسی مرد کی طرف نگاہ اٹھاکر دیکھے ۔رسول خدا نے یہ سنکر فرمایا کیوں نہ ہو بیشک فاطمہ میر ا جزو ہے

(۳۶)
عبادت فاطمہ :    علامہ زمخشری امام حسن ؑ کے حوالے سے نقل کرتے ہیں ’’ ماکان فی ھذہ الامۃ أعبد من فاطمہ ،کانت تقوم حتٰی تورم قدماھا‘‘ فاطمہ سے زیادہ اس امت میں کوئی عباد ت گذار نہیں ۔آپکے کثرت قیام کا عالم یہ تھا کہ پیروں پر ورم آجا تھا ۔

(۳۷)
خبر شہادت :    رسو ل اسلام نے مختلف موقعوں پر اپنی لخت جگر کو شہادت کی خبر دی تھی ۔جس وقت حضور حالت نزع میں تھے اور جاب فاطمہ شدت گریہ سے بے حال تھیں اس وقت رسول اللہ نے فرمایا فاطمہ میری وفات کے بعد میرے اہل سے سب سے پہلے تم میرے پاس آئوگی۔یہ سنکر فاطمہ زہرا سلام اللہ علیھا مسکرانے لگیں ۔اس روایت کو مختلف اسناد اور منفرد متون کے ساتھ نقل کیا گیا ہے ۔

(۳۸)
اس روایت کو علامہ دارمی نے اپنی سنن میں بھی درج کیا ہے مگر متن میں معمولی اختلاف ہے ۔’’ لما نزلت اذا جاء نصراللہ والفتح ۔۔دعا رسول اللہ فاطمہ فقال:قد نعیت الی نفسی فبکت فقال: لا تبکی فانک اول اھلی لحاقا بی فضحکت فرأھا بعض أزاواج النبی ؑ فقلن یا فاطمہ رأیناک بکیت ثم ضحکت قالت: انہ اخبرنی انہ قع نعیت الیہ نفسہ فبکیت فقالی :لاتبکی فانک اول اھلی لاحق بی فضحکت ‘‘۔    علامہ دارمی نے اس واقعہ کو ابن عباس کی روایت کی بنا پر نقل کیا ہے جو امہات المومنین کی موجودگی میں پیش آیا ۔یہاں بھی مفہوم حدیث مذکورہ حدیث سے الگ نہیں ہے ۔اس روایت کو تفسیر کشاف میں علامہ زمخشری نے بھی سورہ نصر کی تفسیر بیان کرتے ہوئے نقل کیاہے ۔

(۳۹)
وصیت فاطمہ :    جناب فاطمہ نے شہادت سے قبل جو وصیتیں اپنے شوہر نامدار حضرت علی سے کیںوہ بھی تاریخ کے صفحات پر آج تک محفوظ ہیں ۔چند وصیتوں کا ذکر کیا جاتاہے تاکہ سند رہے ۔علامہ بہیقی نے سنن کبریٰ میں ام جعفر سے روایت نقل کی ہے کہ جناب فاطمہ نے ام سلمہ سے وصیت کی ’’ اے ام سلمہ میری شہادت کے بعد تم اور علی ؑ مجھے غسل دینا لہذا علی اور ام سلمہ نے سیدہ کو غسل دیا ‘‘۔خوارزمی نے ’’مقتل حسین ؑ ‘‘ میںاس وصیت کا تذکرہ علی ؑ و ام سلمہ دونوں کے حوالے سے کیاہے ۔

(۴۰)
وصیت صدیقۂ طاہرہ کے مطابق آپکا جنازہ شب میں اٹھا اور رسم عرب کے بر خلاف آپکا جنازہ تابوت میں لے جایا گیا اور حضرت علی ؑ نے آپکو رات کے وقت مطابق وصیت دفن کیا ۔اس قبیل کی تما متر روایات و احادیث کو شرح نہج البلاغہ میں ابی الحدید معتزلی ،علامہ دیار بکری نے تاریخ الخمیس ،بہیقی نے سنن الکبریٰ ،علامہ شیبانی نے تیسرالاصول میں بھی نقل کیاہے اور ساتھ ہی وصیت جناب فاطمہ پر تفصیل سے روشنی ڈالی ہے ۔خاص کر ان نکات پر جنکی بنیاد پر سیدہ طاہرہ کا جنازہ شب کے وقت اٹھا اور آپ کی وصیت کے مطابق کچھ افراد کو حضرت علی ؑ نے جنازہ کی خبر بھی نہیں دی اور نہ ان افراد نے نماز جنازہ میں شرکت کی ۔

(۴۱)
    حافظ اسماعیل بخاری کی روایت قابل غور ہے انہوںنے حضرت عائشہ کے قول کو ترجیح دی ہے ’’ أن فاطمہ بنت النبیؑ ارسلت الی ابی بکر تسألہ میر اثھا من رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم (الی أن قال) فأبی أبوبکر ان یدفع الی فاطمہ ؑ منہا شیئافوجدت فاطمہ علی ٰ أبی بکر فی ذلک فہجرتہ فلم تکلمہ حیٰ توفیت فلما توفیت دفنہا زوجہا علی ؑ لیلا و لم یوذن بہا ابا بکر ‘‘۔صحیح بخاری کی اس روایت کی بنیا د پر یہ واضح ہوتاہے کہ رسول کی لخت جگر اپنی میراث سے محروم کئے جانے کی بنا پر تا حیات حضرت ابوبکر سے ناراض رہیں اور وصیت کے مطابق حضرت علی نے انہیں دفن فاطمہ کی بھی خبر نہیں دی اور خاموشی کے ساتھ آپکو رات ہی میں دفن فرمایا۔

(۴۲)
    ان چند احادیث کی بنیاد پر جو اہل سنت کے جلیل القدر علماء کی کتابوں سے مأخوذ ہیں ہم جناب فاطمہ کی عظمت و منزلت کا اندازہ کرسکتے ہیں ۔طوالت کے خوف کی بنیاد پر ان تمام احادیث کا اس مختصر مقالہ میں جائزہ پیش کرنا اور انکے مطالب کو اختصار کے ساتھ سمیٹ پانا بھی مشکل ہے جنہیں صراحت کے ساتھ علماء اہل تسنن نے اپنی کتابوں میں نقل فرمایا ہے ۔اس مختصر مقالہ میں ان احادیث کو ترجیح دی گئی ہے جو کسی بھی حوالے سے مابین اہل تشیع و اہل سنت معرو ف ہیں ۔

        منابع و مآخذ:۔

۱۔الروض الفائق         ص ۲۱۴  ،ذخائر العقبی ص ۴۴
۲۔البدایہ و النھایہ         ج ۵ ، ص ۳۷۰
۳۔تاریخ بغداد             ج۱۳ ،ص  ۳۳۱
۴۔ینابع المودۃ             ص  ۲۴۰
۵۔ارجح المطالب         ص  ۲۴۱، ۲۴۷
۶۔مسند ابودائود             ص ۱۹۶

۷۔تحفۃ العلمیہ ولادب         ص ۱۱  مخطوطہ بحوالہ ملحقات احقاق الحق ج ۱۰  ص  ۲۸
۸۔استیعاب             ج ۲،ص ۷۵۰،الاصابہ فی تمیز الصحابہ ج ۴ ص ۳۶۶
۹۔حلیتہ الاولیاء             ج ۱  ص ۶۹۔سنن ابودائود ج ۳ ص ۲۰۶ عمدۃ القاری فی شرح البخاری ج ۱۵  ص ۳۶

۱۰۔مفتاح النجا             ص  ۶۱،  ارجح المطالب  ص ۳۱۱
۱۱۔مستدرک حاکم         ج  ۳ص ۱۵۳۔اسد الغابہ  ج ۵ ص ۵۲۲
۱۲۔مستدرک حاکم         ج۳ ص ۱۵۳،

۱۳۔معجم الکبیر             ص ۱۳۲۔ذخائر العقبی ص ۴۸۔کنز العمال ج ۱۳ ص ۹۳
۱۴۔الفصو ل المھۃ         ص ۱۲۷،مطالب السئول ص ۱۰،
۱۵۔اسد الغابہ         ج ۵ ص ۵۲۳،کفایۃ الطالب ص ۲۱۲،معجم الکبیر ص ۴۱
۱۶۔میزان الاعتدال         ج ۲ ص ۱۸

۱۷۔تاریخ بغداد         ج۸ ص ۱۴۱

۱۸۔ینابیع المودۃ         ص ۲۶۰،مفتاح النجا ص ۱۵۰ ،مودۃ القربیٰ ص ۱۰۴

۱۹۔ترمذی             ج ۱۳ ص ۲۴۷طبع مصر

۲۰۔کنز العمال         ج ۱۳ ص ۹۴مطبوعہ حیدرآباد دکن

۲۱۔مستدرک حاکم         ج ۳ص ۱۵۵ طبع حیدرآباد دکن

۲۲۔جامع الصغیر         ج ۲ ص ۲۹۶

۲۳۔ینابیع المودۃ         ص۱۹۷،۲۶۰،وسلیۃ الآمال از علامہ حضرمی  ص ۷۹

۲۴۔استیعاب         ج ۲ ص ۷۵۰

۲۵۔سنن الکبریٰ         ج ۱ ص ۲۶

۲۶۔اسد الغابہ         ج۵ ص ۵۲۲

۲۷۔مسند احمد بن حنبل         ج ۴ ص ۵،ترمذی ج ۱۳ص ۲۴۷،ینابیع المودۃ ص ۱۷۲،ارجح المطالب ص ۲۴۵،صواعق محرقہ ص ۱۸۸

۲۸۔صحیح بخاری         ج ۵ ص ۲۱،۲۹

۲۹۔صحیح مسلم             ج ۷ ص ۱۴۰

۳۰۔فصول المھمۃ        ص ۱۲۸

۳۱۔الامامۃ و السیاسۃ         ج۱ص۳

۳۲۔الادب المفرد         ص ۲۶۶

۳۳۔سنن ابودائود         ج ۴ ص ۴۸۰،ترمذی ج ۱۳ص ۲۴۹

۳۴۔ترمذی             ج ۱۳ ص ۲۴۹

۳۵۔حلیۃ الاولیا ء         ج ۲ ص ۶۰و الکبائر ص ۱۷۱

۳۶۔ربیع الابرار         ص ۹۵

۳۷۔صحیح ترمذی         ج ۱۳ ص ۲۶۹،جامع الاصول ج ۱۰ص ۸۶،صحیح مسلم ج ۱۴۲۷
۳۸۔سنن دارمی جزو اول         ص ۳۷ ،تاریخ اسلام ذہبی ج ۲ ص ۹۶
۳۹۔سنن الکبریٰ         ج۳ ص۳۹۶، مقتل الحسین ؑ ص ۸۲
۴۰۔الا ستیعاب         ج ۲ ص ۷۵۲،مقتل الحسین ص ۸۲
۴۱۔ شرح نہج البلاغہ ابی الحدید معتزلی    ج ۲ ص ۱۸،تاریخ الخمیس ج ۱ ص ۳۴۷،
۴۲۔صحیح بخاری         ج ۵ ص ۱۳۹،سنن الکبریٰ ج ۶ ص ۳۰۰،تاریخ امم و الملوک ج ۲ ص ۴۴۸

(یو این این)

***********************************

 

 

 

 

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 1000