donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Lamhaye Fikr
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Nayab Hasan
Title :
   Jo Chup Rahegi Zabane Khanjar Lahu Pukarega aasteeN Ka

جوچپ رہے گی زبانِ خنجر لہوپکارے گا آستیں کا


نایاب حسن

9560188574


     وطنِ عزیز کی موجودہ صورت حال جس زہرہ گدازی سے گزر رہی ہے،اس سے یہ صاف ہوتا نظرآرہاہے کہ مٹھی بھر تشدد و نفرت کی پشت پناہی کرنے والے عناصر سوا ارب ہندوستانیوں پر حاوی ہوتے جارہے ہیں،فرقہ وارا نہ فسادات و سانحات ہندوستان کی تاریخ میں ایک عرصے سے ہورہے ہیں،مگر گزشتہ سوا سال کے اندر ان میں جیسی برق رفتاری آئی ہے،اس نے ملک کے سنجیدہ اور باشعور طبقے کے ذہن و دماغ کو جھنجھوڑکر رکھ دیاہے؛کیوں کہ مسئلہ صرف یہ نہیں کہ فرقہ وارانہ فسادات تیزی سے رونما ہورہے ہیں،مسئلہ یہ ہے کہ ایسا کرنے والے افراد اور جماعتوں کو حکومت اور حکمراں پارٹی کے لیڈروں کی خفیہ؛بلکہ بسااوقات علانیہ حمایت حاصل ہے۔ہندوستان کی کم و بیش ہزار سال کی تاریخ یہ بتاتی ہے کہ یہاں کسی ایک مذہب اوراس کے متبعین کا کبھی بھی مکمل کنٹرول نہیں رہا،یہاں ہمیشہ مختلف تہذیبوں اور الگ الگ مذاہب کے پیروکاررہتے آئے ہیں اور سبھوں نے اپنی اپنی استطاعت و صلاحیت کے مطابق اس ملک کی تعمیروترقی میں اپنا رول اداکیاہے،اس کے برخلاف جب کبھی بھی کسی بھی طبقے کی جانب سے پورے ملک میں کسی ایک مذہب و کلچرکونافذکرنے کی کوششیں تیز ہوئیں،توپورے ملک کو شدید نقصانات اٹھانے پڑے اور ملک کی جڑیں تک ہل گئیںہیں،ماضی میں کئی ایسے موڑ آئے جب تصادم و محاذ آرائی کی فضا پورے ملک پر مسلط کرنے کی شیطانی کوشش و سازش کی گئی،مگرمآل کار اسے ناکامی ہی کامنہ دیکھنا پڑااور گو نقصانات سہہ کر ہی،یہاں کے عوام نے ایسی ہر سازش کو ناکام بنایا ہے۔

     مستقبل میں مذہبی و تہذیبی تصادم سے بچنے کے لیے ہی آزادی کے بعد اس ملک کا دستور جمہوری بنایاگیاتھا،جس میں تمام مذاہب کے ماننے والوں کو یکساں شہری،سماجی،قانونی ،معاشی و مذہبی حقوق دیے گئے،مگربعض وجوہ سے اُسی وقت کچھ ایسے عناصربھی پائے جاتے تھے،جوہندوستان کو ایک ہندوراشٹر کے طورپر دیکھتے اور اس خواب کو تعبیر دینے کی مہم چلانے لگے تھے،افسوس کہ ملک کی سلامتی کے لیے ناسورایسے عناصرکوبروقت کچلانہ جاسکا،جس کی وجہ سے گزرتے وقت کے ساتھ اس کی شاخیں پھیلتی ہی چلی گئیں اور ساراملک اس کے دائرۂ رسائی میں آگیا اور اب ہماری آنکھیں وہ دن بھی دیکھ رہی ہیں،جب اس ملک کی قیادت و حکومت تک کی کلیدیں ان کے ہاتھوں میں چلی گئی ہیں اور وہ اس ملک کی اپنے طورپرتشکیلِ نو،بالفاظِ دیگرمکمل تخریب کے درپے ہیں۔

     بی جے پی اور اس کی اشتراکی پارٹیوں کی مخلوط حکومت کے اب تک کے دورانیے میںملک کی جو تصویرابھرکر سامنے آئی ہے،اس سے تو یہی واضح ہوتا ہے کہ آنے والے بہت قریبی وقت میں اس ملک کی جمہوریت کی بنیادیں کھودی جانے والی ہیں اور ان کی جگہ ہندوتوکے پر تعصب نظریۂ سیاست کوملنے والی ہے؛حالاں کہ رواںصدی میںعالمی پیمانے پر یہ کوششیں ہورہی ہیں کہ جمہوری اقدار و روایات اور جمہوری سیاسی فکرکو فروغ دے کر ،اس پر کاربندہوکر،تہذیبی تنوع اور مذہبی تعددیت کی عالمی حقیقت کوکھلے دل سے قبول کرکے ملکوں کی سالمیت و بقااور امن و امان کو محفوظ کرنے کے ساتھ ان کی ترقی و فروغ کی کوششیں کی جائیں،عالمی منظرنامے پر ہمیں جتنے بھی ترقی یافتہ یا معاشی و تہذیبی سطح پرنمایاں ممالک نظرآتے ہیں،جن کے نام سن کر ہمارے دل میں ایک قسم کا جذبۂ احترام اورنگاہوں میں چمک سی پیدا ہونے لگتی ہے،ان کے تقدم وارتقاکا ایک اہم رازیہ بھی ہے کہ وہاں مذہبی رواداری اور جمہوریت کا بول بالاہے،جس کی وجہ سے ہر طبقے سے تعلق رکھنے والا انسان انفرادی طورپر بہت ہی مامون ،ہر طرح کے خطرات اور اندیشوں سے بے نیازاپنی اور اپنے ملک کی فلاح وبہبودی کے لیے سرگرمِ عمل و جہد ہے؛چنانچہ اس کی کوششوں کے اچھے ثمرات بھی مرتب ہوتے ہیں اور جہاں فردکی سطح پرایسے ملکوں کے لوگ بہت ہی اچھی حالت میں ہوتے ہیں،وہیں مجموعی طورپران کا ملک بھی خوش حال،مامون و محفوظ اور ترقی کی نئی منزلوںکی طرف رواں دواں ہوتاہے۔ ہندوستانی سیاست کے مہاپرشوںکوبھی یہ حقیقت سمجھنی چاہیے،مگر کوئی سمجھنے کے لیے تیار ہی کہاں ہے؟ہمارے وزیر اعظم اپنے خارجی دوروں میں ہندوستانی جمہوریت کا ڈھول پیٹتے اور اقوامِ متحدہ کو دہشت گردی سے نمٹنے کے گربتاتے ہیں،مگر خود اپنے ملک کی ناگفتہ بہ صورت حال  ان کے لیے لائقِ توجہ ہی نہیں۔

ان کی پارٹی کے سینئرلیڈران اور پارلیمنٹ کے ممبران تک اس حد تک بے باک و بے لگام ہوچکے ہیںاور ان کے ذہن میں ہندوستان کی مذہبی اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں کے تئیں اتنا زیادہ زہر گھل گیاہے کہ وہ جب بھی زبان کھولتے ہیں،گویاپورے ملک کی فضاکومسموم کردیتے ہیں،مرکزمیں چوںکہ ان ہی کی حکومت ہے؛اس لیے یہی ذہنیت بتدریج پھیل کرعام لوگوں تک بھی پہنچ رہی ہے اور اس طرح مختلف فرقوں کے مابین بے اطمینانی،شک و شبہ اور بے اعتمادی کی عجیب و غریب فضا پیدا ہورہی ہے،جس کے نتیجے میں اب ان علاقوں میں بھی فرقہ وارانہ کشیدگی کے پرہول واقعات رونما ہونے لگے ہیں،جہاں صدیوں سے امن و سکون تھا اور مختلف فرقوں کے لوگ آپسی بھائی چارے کے ساتھ مطمئن اور پر سکون زندگی گزار رہے تھے۔مثال کے طورپر29؍ستمبرکو رونما ہونے والے دادری سا نحہ کو لیجیے،لوگ بتاتے ہیں کہ وہاں کبھی بھی ایسا واقعہ نہیں پیش آیا،جس میں کسی ایک مذہب کے ماننے والوںنے دوسرے مذہب سے تعلق رکھنے والے پر تشدد کیاہو،مگر ابھی عین بقرعید سے پہلے گئوکشی پر پابندی کے تئیں مرکز اور مختلف صوبوں کی بی جے پی سرکاروں نے ایسا ماحول تیار کردیاکہ گاؤںدیہات کے ہندوبھی مسلمانوں کومشکوک نگاہوں سے دیکھنے لگے ہیں، دادری میںگائے کا گوشت کھانے اور رکھنے سے متعلق محض افواہ کی بناپرایک مسلمان کونہایت ہی بے دردی اور درندگی سے قتل کردینے کا جودل خراش سانحہ پیش آیا،وہ گورنمنٹ کے پیداکردہ اسی ملک گیر ماحول کے زیرِ اثرتھا۔

     مرکزی حکومت اس معاملے میں اپنی ملزمانہ شبیہ کو چھپانے کے لیے اسے ایک اتفاقی حادثہ قراردے رہی ہے،مرکزی وزیر ثقافت مہیش شرمانے جائے حادثہ کا دورہ کرتے ہوئے یہی کہااوروزیر داخلہ راجناتھ سنگھ بھی یہی کہتے نظرآئے؛حالاںکہ حادثے کے بعد سے اب تک جو ثبوت و شواہد سامنے آئے ہیں وہ تو یہ واضح کرتے ہیں کہ یہ کوئی اتفاقارونماہونے والا سانحہ نہیں تھا؛بلکہ ایک منصوبہ بندحملہ تھااوراس کی لپیٹ میںایک گھریاگاؤںنہیں؛بلکہ2013میں مظفرنگر کے خونیں فساد کی مانندکئی گاؤںآنے والے تھے،مگر پولیس کی سنجیدگی اور بر وقت مداخلت نے اس پر قابوپالیا۔اس واقعے کے بعد صوبے کی ایس پی حکومت سینٹرل گورنمنٹ اور بی جے پی پر الزام تراشی کر رہی ہے؛حالاںکہ خود وہ بھی کم مجرم نہیں ہے؛کیوںکہ اس کی حکومت میں یوپی کے مختلف اضلاع اور خطوںمیں فسادات رونما ہوچکے ہیں اور بعض تو نہایت ہی دل دوزاور نتائج کے اعتبار سے بھیانک ترین تھے اورفسادات کا یہ سلسلہ تھمابھی نہیں ہے،تو حکومت ان کی روک تھام کے لیے موزوںاقدامات کیوںنہیں کرتی؟وزیرِاعلیٰ سمیت کابینی وزیراعظم خان ہمیشہ اپنی حکومت کی کوتاہی کا ٹھیکرامخالفین کے سر پھوڑ کر اورمسلمانوں کے مذہبی جذبات کااستحصال کرکے سرخروہونے کی کوشش میں رہتے ہیں،جبکہ دوسری طرف ان کی ناقاعاقبت اندیشانہ بیان بازیوں کا نقصان بھی عام مسلمانوںکوہی بھگتنا پڑتاہے،یہ کتنی حیرت کی بات ہے کہ جس دن یوپی کے وزیر اعلیٰ مسٹراکھلیش یادو لکھنؤمیں اپنی رہایش گاہ پرمرحوم محمد اخلاق کے گھروالوں سے مل کرانھیں45لاکھ روپے معاوضے کا اعلان اور خاطیوں کوقرارِواقعی سزادینے کی یقین دہانی کرارہے تھے،اسی دن کرفیوکے باوجوددادری میں بی جے پی کے ایم ایل اے اور مظفر نگر فسادات کے کلیدی ملزم سنگیت سوم وہاں کے لوگوں کے ایک ہجوم کویہ کہہ کر ورغلارہے تھے کہ ہم مسلمانوں سے موزوںانتقام لیں گے ،یہ صورتِ حال تو صاف بتاتی ہے کہ موجودہ یوپی حکومت سے یاتونظم و انتظام سنبھالانہیں جارہاہے اور وہ بے بسی کے دورسے گزررہی ہے یاپھر دہلی کے وزیر اعلیٰ اروند کیجریوال کے بقول بی جے پی-سماج وادی پارٹی میں اندورنی طورپرکوئی گٹھ جوڑ ہوگیاہے۔ملکی سطح پر یہ مشہور ہے اوردائیں بازوکی ساری سیاسی پارٹیاں بھی یہ کہتی رہتی ہیں کہ ایس پی مسلمانوں کی سیاست کرتی ہے اور مسلمانوں پر ہی دھیان دیتی ہے،مگر حقیقت یہ ہے کہ ماضی سے لے کر اب تک یوپی کے مسلمانوں کوسب سے زیادہ درد و کرب اسی پارٹی کے دورِ حکومت میں جھیلنے پڑے ہیں۔

     دوسری طرف مرکزی وزیر ثقافت و داخلہ اس حادثے کو اتفاقی بتاتے ہوئے اس پر سیاست کرنے سے باز رہنے کی تلقین کررہے ہیں،مگر لگاتار ایسے شواہد سامنے آرہے ہیں،جو یہ بتاتے ہیں کہ اس واقعے کو انجام دینے میں مقامی بی جے پی لیڈرکے بیٹوںاور رشتے داروں کا ہاتھ ہے،انڈین ایکسپریس کی5؍اکتوبرکی رپورٹ کے مطابق مرحوم محمد اخلاق کے گھر والوں نے جن گیارہ لوگوں کے خلاف ایف آئی آردرج کروایاہے،ان میں سے دس وہاں کے مقامی بی جے پی لیڈرسنجے رانا کے بیٹے اور رشتے دار ہیں اور وہ سب اٹھارہ سے چوبیس سال کی عمر کے ہیں،اس کے علاوہ واقعے کے دوچار دن بعد ہی سنگیت سوم نے وہاں جاکر جو زہر ناک بیان دیاہے،اس سے کیاسمجھاجائے؟کیامحض اس دردناک ترین سانحے کو ایک اتفاقی حادثہ قراردے دینے سے یا سوم کے بیان سے پلہ جھاڑلینے سے بی جے پی کی ذمے داری ختم ہوجاتی ہے؟

     سپریم کورٹ کے سابق جج جسٹس مارکنڈے کاٹجونے مذکورہ واقعے پر اپنے محسوسات کا اظہار یوںکیاہے کہ’’جہاں تک میں دیکھ سکتاہوں،اس وقت ملک کوشدیدمنحوس فرقہ وارانہ بحران کا سامنا ہے،فرقہ واریت کو بعض مفاد پرست عناصر کی جانب سے ہوا دی جارہی ہے اور فرقہ واریت کا یہ وائرس اب بھارت کے دیہی علاقوںتک بھی پہنچ چکاہے،اگر یہ اسی طرح جاری رہا،توآنے والے وقت میں ملک میں مذہب کے نام پر بڑے پیمانے پر خون خرابہ ہوگا‘‘۔ملک کے موجودہ ماحول کو دیکھتے ہوئے ان کا یہ اندازہ بالکل صحیح معلوم ہوتاہے،وقت رہتے اگر اس پرقابوپانے کی سنجیدہ کوشش نہیں کی گئی اور منافرت کی سیاست کا بازار اسی طرح گرم رہا،توپھروطنِ عزیزمیں ہر چہار سوابتری ہی ابتری پھیلی ہوگی اور رواداری و بقائے باہمی کی سار ی بنیادیںمنہدم ہوکر رہ جائیں گی۔

 

**********************

 

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 869