donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Lamhaye Fikr
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Ghaus Siwani
Title :
   Teen Talaq Aur Yaksan Civil Code Ke Jaal Me Phansta Hindustani Musalman


تین طلاق اور یکساں سول کوڈ کے جال میں

 

پھنستا ہندوستانی مسلمان


تحریر: غوث سیوانی، نئی دہلی


    ’’تین طلاق‘‘ اور یکساں سول کوڈ،ان دنوں میڈیا میں زیر بحث ہیں اور ایسا تاثر جارہاہے کہ گویا مسلمان اپنی خواتین کو اسلام کے نام پر بنیادی حقوق سے محروم کرتے ہیں اور مظلوم مسلم خواتین کو تب ہی حقوق مل سکتے ہیں جب ہندوستان میں یکساں سول کوڈ کا نفاذ کیا جائے۔ ٹی وی چینلوں پر گرماگرم بحثیں چل رہی ہیں اور بحثوں میں سب سے نمایاں وہ حضرات وخواتین ہوتے ہیں جنھیں ملکی قوانین اور اسلامی شریعت دونوں کی بہت کم معلومات ہوتی ہے۔’’تین طلاق‘‘ اور یکساں سول کوڈ کے سلسلے میں حکومت کی طرف سے آنے والے بیانات اور ٹی وی چینلوں کی خبروں وبحثوں نے بھرم پھیلایا ہے کہ ہندوستان میں اسلام خطرے میں ہے اور حکومت اسلامی قوانین پر عمل کا حق چھیننے جارہی ہے۔ اس بھرم نے مسلمانوں کو تحریک کے راستے پر دھکیلنے کا کام کیاہے اور علماء کی طرف سے گرماگرم بیانات اخبارات میں پڑھنے کو ملنے لگے ہیں۔ دیوبند سے بریلی تک اور مسلم پرسنل لاء بورڈ سے لے کرمحلہ سطح کی مسلم تنظیموں تک میں حرارت پیدا ہوگئی ہے اور مسلمانوں کا ایک طبقہ سڑکوں پر اترنے کے لئے تیار نظر آرہاہے ۔ کوئی یہ سوچنے کو تیار نہیں کہ آخر تین طلاق اور یکساں سول کوڈ کا مسئلہ کیوں چھیڑا جارہاہے؟ اس کے پیچھے کے مقاصد کیا ہیں؟ آخر کیا سبب ہے کہ وزیراعظم نریندر مودی سے لے کروزیرقانون اور وزیراقلیتی امور تک اس ایشو پر بیانات دے رہے ہیں؟ اس کے پیچھے کے سیاسی عزائم کیا ہیں؟ کہیں یہ پُرفریب جال دانستہ طور پر تو نہیں پھینکا جارہاہے جس میں مسلمان  پھنستے جارہے ہیں؟

کیا ہیںسیاسی مقاصد؟

    اترپردیش میں عنقریب اسمبلی الیکشن ہونے جارہاہے۔ یہاں سے بی جے پی کو گزشتہ لوک سبھا انتخابات میں سب سے زیادہ سیٹیں ملی تھیں مگر اب عوام نے مودی سرکار کا تجربہ کرلیا ہے اور ’’اچھے دن‘‘ کامطلب انھیں مہنگائی نے سمجھا دیا ہے۔  جن دلتوں نے لوک سبھا الیکشن میں بی جے پی کی حمایت کی تھی وہ بھی سمجھ چکے ہیں کہ سنگھ پریوار ان کا کس قدر ہمدرد ہے؟ ایسے میں بی جے پی کے لئے یوپی کی ڈگر بہت کٹھن ہے۔مسئلہ صرف یوپی کا نہیں بلکہ اس کے ساتھ اتراکھنڈ،پنجاب ، گوااور منی پور کے انتخابات بھی ہونے والے ہیں اور سال بھر بعد نریندر مودی کے گڑھ گجرات سمیت پانچ ریاستوں میں چنائو ہے۔ ان انتخابات کو لے کر سنگھ پریوار پریشان ہے اور اسے معلوم ہے کہ بی جے پی کا دلی اور بہار کے اسمبلی انتخابات میں جو حال ہوا، وہی دس ریاستوں میں ہوسکتا ہے۔ ایسے میں ملک کے مسائل سے توجہ ہٹانے کا نسخہ ’’تین طلاق‘‘ اور یکساں سول کوڈ کے عنوان سے ڈھونڈا گیا ہے۔ حال ہی میں وزیراعظم نریندر مودی نے اترپردیش میں الیکشن مہم کی شروعات کرتے ہوئے جس طرح سے مسلمان عورتوں کے لئے گھڑیالی آنسو بہائے، اس سے یہ پکا ہوگیا کہ بی جے پی یہاں ’’سب کا ساتھ، سب کا وکاس‘‘ کے نعرے پر الیکشن نہیں لڑے گی کیوں کہ اب نعرے کا بھرم کھل چکا ہے۔اب وہ ’’تین طلاق‘‘ ویکساں سول کوڈ کے بہانے ہندووں کو مسلمانوں کے خلاف محاذ آرا کرے گی۔ ورنہ ایسے شخص کی زبان سے خواتین کے حقوق کی بات کا کیا مطلب ہے جس نے بغیر طلاق کے ہی اپنی بیوی کو بے یارومددگار چھوڑ رکھا ہے ۔ظاہر ہے کہ اسی مقصد سے رام مندر کا ایشو بھی اٹھایا جارہاہے۔ بی جے پی کو اپنے مقاصد میں کامیابی تب ہی ملے گی، جب مسلمان ہنگامہ مچائیں، سڑکوں پر اتریں اور تحریک کے نام پر ناعاقبت اندیشی کا ثبوت دیں۔ آج مسلمانوں کی سمجھداری کے امتحان کا بھی وقت ہے۔ اگر وہ سنگھ پریوار کے جال میں پھنس گئے تو آئندہ ۲۰۱۹ کا مرحلہ اس کے لئے آسان ہوجائیگا۔ مسلمانوں کو سرکار اور نام نہاد مسلم قائدین کے بہکاوے میں آنے سے بچنا ہوگا۔مسلمانوں کو سمجھنا ہوگا کہ جب ان پر مظالم ہوتے ہیں اور واقعی ان کی حق تلفی ہوتی ہے تو ان نام نہاد قائدین کا کوئی اتہ پتہ نہیں ہوتا۔ملک کے گائوں گائوں میں دنگے فساد ہوتے رہے ہیں اور مسلمانوں کو دہشت گردی کے نام پر عقوبت خانوں میں بند کیا جاتا رہا ہے مگر تب ان قائدین میں سے کوئی تحریک کے لئے آگے نہیں آیا اور آج جب سیاسی فائدہ اٹھانے کی بات ہے تو مسلمانوں کو حکومت سے ٹکرانے کے لئے آگے بڑھایا جارہاہے۔یاد رکھئے آج جومسلمان لیڈران، مسلمانوں کو تحریک پر اکسا رہے ہیں، ان میں سے کوئی بھی تب ان کے ساتھ نہیں ہوگا جب ان کے بچوں کے سینے پولس کی گولیوں سے چھلنی ہورہے ہونگے۔    

مسلمان تاریخ سے سبق لیں

    ’’تین طلاق‘‘ اور یکساں سول کوڈ کے سوال پر مسلمانوں کا جو ردعمل آیا وہ فطری تھا مگر علماء وقائدین کو چاہئے تھا کہ مسلمانوں کو تحریک کے راستے پر لے جانے سے پہلے ذرا ’’نگاہ بصیرت‘‘ کا استعمال بھی کرتے۔حالانکہ بعض علماء کے بیانات ایسے آئے جن سے پتہ چلتا ہے کہ وہ حکومت اور سنگھ پریوار کی چال کو سمجھ رہے ہیں باوجود اس کے وہ تحریک پر اتارو ہیں۔آخر مسلمان یہ کیوں بھول رہے ہیں کہ شاہ بانو کیس پر مسلمانوں کی تحریک نے بی جے پی کو زندگی دی تھی اور اسی ایشو پر ہندووں کی رائے عامہ کو مطمئن کرنے کے لئے بابری مسجد کا مسئلہ چھیڑا گیا تھا۔ انھیں ایشوز نے بی جے پی کو لوک سبھا میں دو سیٹوں سے ۸۶ تک پہنچادیا تھا اور کئی ریاستوں میں اس کی سرکار بن گئی تھی۔اگر مسلم پرسنل لاء کے تحفظ کے نام سے تحریک نہیں چلتی اور بابری مسجد کا مسئلہ نہیں کھڑا ہوتا تو ہندوستان پر سنگھ پریوار کا قبضہ بھی نہیں ہوتا۔ جب جب مسلمان سڑکوں پر اترتے ہیں،ہنگامہ کرتے ہیں، جلوس نکالتے ہیں، تب تب ہندووں کو یہ سمجھانے کی کوشش کی جاتی ہے کہ مسلمان ، ہندو اکثریت کے لئے خطرہ بن رہے ہیں۔ ہندووں کو متحد ہونا چاہئے اور اس کا سیاسی فائدہ بی جے پی کو ملتا ہے۔ شاہ بانوکیس کے بعد بی جے پی ہندوستان پر چھاگئی مگر مسلمانوں نے جس مقصد کے لئے تیس سال قبل تحریک چلایا تھا وہ آج تک پورا نہیں ہوا۔ تب کے وزیراعظم راجیو گاندھی نے مسلمانوں کی تحریک کے دبائو میں مسلم پرسنل لاء بل پاس ضرور کرادیا تھامگر شاہ بانو کیس میں جس قسم کا فیصلہ آیا تھا، آج بھی آرہاہے، توآخر اس تحریک سے فائدہ کیاہوا؟ وہ قربانیاں جو مسلمانوں نے دی تھیں،ان سے قوم کو کیا حاصل ہوا؟ آج ایک بارپھر ضرورت ہے کہ ہم تاریخ سے سبق حاصل کریں۔

مسلمانوں کے استحصال کی کوشش

    عام مسلمان بہت بھولے ہیں اور مذہب کے نام پر وہ بہت جلد اشتعال میں آجاتے ہیں۔ اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ کچھ مفادپرست انھیں مذہب کا جھانسہ دے کر اپنا مقصد پورا کرلیتے ہیں۔ ذرا یاد کریں شاہ بانو کیس کے بعد کی تحریک کو! جن لوگوں کے ہاتھ میں تحریک کی کمان تھی ان میں کچھ تو واقعی دیندار علماء تھے اور خلوص وللٰہیت کے ساتھ اپنا کام کر رہے تھے مگر ان کے ساتھ بڑی تعداد میں سیاسی طالع آزما حضرات بھی جڑ گئے تھے،جو بعد میں ایم پی، ایم ایل اے اور منتری تک بن گئے۔ حالانکہ ان حضرات کے قانون ساز اداروں اور بارسوخ جگہوں پر پہنچ جانے سے کسی بھی مسلمان کا بھلا نہیں ہوا۔ کیا ان میں سے کسی لیڈر نے مسلمانوں کی تعلیم کے لئے ایک بھی اسکول، کالج کھولا؟ 

آپ نے مڑ کے بھی دیکھا نہ مسلمانوں کو
آپ کے سر کی قسم آپ سے کافر اچھے

مسلمانوں کے کندھوں پر سوار ہوکر اعلیٰ مناصب تک پہنچنے والوں نے اپنی عیش گاہیں تو تعمیر کیں مگر کبھی مڑکر مسلمانوں کی غربت ومفلسی کی طرف نہیں دیکھا۔ ذرا ڈھونڈیئے تو کہ آج کہاں ہیں وہ حضرات جنھیں مسلم پرسنل لاء اور بابری مسجد کی تحریک نے ہیرو بنایا تھا۔ کس حالت میں ہیں مسلم تحریکوں کے ’’ ہیرو‘‘ اور کس حالت میں ہیں وہ مسلمان جنھوں نے اپنی جانی اور مالی قربانیاں دی تھیں؟ ہماری آنکھوں نے ’’مسلم پرسنل لاء کانفرنس‘‘ کے عنوان سے ہونے والے وہ جلسے بھی دیکھے ہیں جنھیں ’’چندہ کا دھندہ‘‘ چلانے کے لئے ملک بھر میں منعقد کیا جاتاتھا اور عام مسلمانوں سے ’’تحفظ شریعت‘‘ کے لئے مالی قربانی مانگی جاتی تھی۔ آخرت کی فکر میں سادہ لوح مسلمانوں نے اپنے لیڈروں کی دنیا بنادی ۔ ہندوستان کے مسلمان کی غربت کا یہ عالم ہے کہ آج بھی اسے سر چھپانے کے لئے چھت میسر نہیں ہے کہ مگر ان کے مبینہ لیڈروں کی آرامگاہوں کو اگر دیکھیں تو بے ساختہ زبان سے نکلے گا کہ

اگر فردوس بر روئے زمین است
ہمین است و ہمین است و ہمین است

مسلمانوں کے کندھوں پر سواری کی کوشش

    آج بھی حالات زیادہ تبدیل نہیں ہوئے ہیں اور مسلمانوں کو ایک بارپھر اسی جال میں پھنسانے کی کوشش ہورہی ہے جس میں وہ ماضی میں پھنس چکے ہیں۔ ’’تین طلاق‘‘ کی قانونی اور شرعی حیثیت کیا ہے؟ یہ سوال سپریم کورٹ کے زیر غور ہے۔ اس کے خلاف سڑکوں پر ہنگامہ مچانے سے کچھ نہیں ہوگا۔ اسی طرح یکساں سول کوڈ کی راہ میں مسلم پرسنل لاء کے علاوہ بھی ہزاروں رکاوٹیں ہیں جنھیں پار کرنا آگ کے دریا کو پارکرنے جیسا ہے۔ویسے بھی اگر اس ملک میں کچھ ہونا ہے تو ہوجائے گا،تمام مسلمان مل کر اسے ہونے سے روک نہیں سکتے۔ ہم نے دیکھا ہے کہ ۲۰۱۴ء کے لوک سبھا انتخابات میں مسلمانوں نے متحد ہوکر بی جے پی کو جیتنے سے روکنے کی کوشش کی مگروہ پوری قوت سے اقتدار میں آئی۔ ایسے میں جلسہ جلوس کرنے اور ہنگامہ مچانے سے نقصان کے سواکچھ نہیں ہوگا۔ ایساکرکے ہم بی جے پی کو ہی فائدہ پہنچائینگے۔ دوسری طرف آج جو لوگ مسلمانوں کی قیادت سنبھالنے کا دعویٰ کر رہے ہیں ،وہ ہمارے کندھوں پر سوار ہوکر اونچی کرسیوں پر پہنچیںگے۔ آج جو لوگ مسلمانوں کو تحریک کے لئے اکسارہے ہیں،ان کے سیاسی عزائم بلندہیں۔ بعض سیدھے طور پر سیاسی پارٹیوں سے منسلک ہیں تو بعض ماضی میں سیاست کا حصہ رہے ہیں اور بعض ’’تین طلاق‘‘ اور یکساں سول کوڈ کو زینہ بناکر راجیہ سبھا تک پہنچنا چاہتے ہیں ۔ اس بہتی گنگا میں ہاتھ دھونے کے لئے بڑی سیاسی پارٹیوں کے ساتھ ساتھ کئی چھوٹی اور’’ مسلم‘‘ پارٹیاں بھی اترپڑی ہیں۔ حدتو یہ ہے کہ وہ اسلامی جماعتیں جو اپنے ممبران کو کل تک ووٹ ڈالنے کی اجازت تک نہیں دیتی تھیں، آج اپنی سیاسی ونگ بناکرسیاست میں ہاتھ آزمانے لگی ہیں۔ اس پورے معاملے میں اگر مسلمان تحریک چلاتے ہیں، سڑکوں پر اترتے ہیں اور جلسہ جلوس کرتے ہیں تو بی جے پی کا سب سے زیادہ فائدہ ہوگا۔ اس کے بعد دوسری سیاسی پارٹیوں کا فائدہ ہوگا جو مسلمانوں کی ہمدردی حاصل کرنے کے لئے محض بیانات تک خود کو محدود رکھینگی اور ان مسلم لیڈروں کا فائدہ ہوگا جو سرکاری عہدے پانے کے لئے مذہب کو زینہ کے طور پر استعمال کر رہے ہیں۔ اس پورے معاملے میں اگر کسی کو نقصان ہوگا تو وہ مسلمان ہے، لہٰذا عام مسلمان کو کسی بہکاوے میں نہیںآنا چاہئے اور اپنی انرجی کو حکومت کے خلاف نعرے لگانے میں ضائع کرنے کے بجائے قوم کو تعلیم کے میدان میں آگے لانے میں استعمال کرنا چاہئے۔ یاد رکھئے اگر ہندوستان مسلمانوں کے مسائل کو کسی راستے سے حل نکل سکتا ہے تو وہ بس تعلیم ہے۔

email: ghaussiwani@gmail.com
Ghaus Siwani/Facebook

 ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

Comments


Login

You are Visitor Number : 1091