donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Lamhaye Fikr
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Ghaus Siwani
Title :
   Qanoon Ki Aankh Me Dhool Jhonkne Ke Liye Mazhab Ka Istemal


قانون کی آنکھ میں دھول جھونکنے کے لئے مذہب کا استعمال


تحریر: غوث سیوانی،نئی دہلی


    ایک ہندو مرد نے ایک وکیل سے مشورہ کیا کہ وہ دوسری شادی کرنا چاہتا ہے مگر وہ پہلے سے شادی شدہ ہے،ایسے میں اسے کرنا چاہیے؟ وکیل نے بتایا کہ وہ پہلے کاغذی طور پراسلام قبول کرلے، اس کے بعد شادی کرلے۔ اسلام میں ایک سے زائد شادی ہوسکتی ہے جب کہ ہندو میرج ایکٹ کے تحت یہ ممکن نہیں ہے۔ اسی طرح ایک نوجوان جوڑا ایک قانون داں کے پاس مشورہ کرنے پہنچا کہ وہ دونوں آپس میں چچازاد بھائی بہن ہیں مگر ایک دوسرے سے محبت کرتے ہیں اور اب شادی کرنا چاہتے ہیں،اس کے لئے انھیں کیا کرنا چاہئے؟ اس پر قانون داں نے مشورہ دیا کہ وہ پہلے اسلام قبول کرلیں،اس کے بعد شادی کرلیں، کیونکہ اسلام میں چچازاد کے ساتھ شادی ہوسکتی ہے جب کہ ہندووں میں اس کی اجازت نہیں۔ آج کل ہندوستان میں اس قسم کے بے شمار واقعات سامنے آتے رہتے ہیں جب کسی نے اپنے قانونی معاملے کے لئے مذہب کا سہارا لیا ہو اور اسے حیلے کے طور پر استعمال کیا ہو۔ مذہب کا سیاسی استعمال کوئی نہیں بات نہیں تھی مگر اب قانونی استعمال زور پکڑ رہاہے۔اسی کے ساتھ مذہب کا استعمال بلیک میلنگ کے لئے بھی ہورہاہے۔ آئے دن میڈیا میں خبریں آتی رہتی ہیں کہ فلان علاقے کے لوگوں نے سرکارکو دھمکی دی کہ اگر ان کے مطالبات نہیں مانے گئے تو وہ اسلام قبول کرلینگے۔ یہ دھمکی اکثر کارگر بھی ثابت ہوتی ہے اور حکومت ان کے مطالبات مان لیتی ہے۔ سوال یہ ہے اگر ہندو مرد دوسری شادی کرنے کے لئے اسلام قبو ل کرتے ہیں، کیا یہ جرم نہیں ہے؟ جی ہاں! یہ قانونی جرم ہے مگر باوجود اس کے جاری ہے اور اس کے لئے اب تک کسی کو سزا نہیں ملی ہے ۔ بھارت کے قانون کی رو سے پہلی بیوی کے ہوتے کسی بھی ہندو کی دوسری شادی درست نہیں ہے۔ حالانکہ اس ملک میں سینکڑوں مثالیں موجود ہیں جب انھوں نے دوسری شادیاں کی ہیں۔ ایک رپورٹ کے مطابق مسلمانوں سے زیادہ غیر مسلم دوسری شادیاں کرتے ہیں اور وہ قانون کی پرواہ نہیں کرتے ۔ فلم اداکار دھرمیندر کی دو بیویاں ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ انھوں نے اپنی پہلی بیوی کے ہوتے ہوئے اداکارہ اور سیاست داں ہما مالینی سے شادی کرنے کے لئے اسلام قبول کیا تھا،حالانکہ ان کی طرف سے کبھی بھی اس الزام کو قبول نہیں کیا گیا مگر سوال یہ ہے کہ اگر انھوں نے ہندو کے طور پر دوسری شادی کی تو ہندو میرج ایکٹ کے تحت یہ غیر قانونی ہوئی اور انھوں نے مجرمانہ عمل کیا۔ ان کی دوسری بیوی کے بچے ان کی جائداد سے وراثت کے حقدار نہیں ہوسکتے۔ یونہی سماج وادی پارٹی کے صد ملائم سنگھ یادو نے دو شادیاں کیں۔ ان کی پہلی بیوی کے ہوتے ہوئے کوئی نہیں جانتا تھا کہ ان کی دوسری بیوی بھی ہے اور اس سے ایک بچہ بھی ہے مگر جیسے ہی ان کی پہلی بیوی کا انتقال ہوا اچانک ایک دوسری خاتون سامنے آگئیں جو مسز گپتا کے نام سے مشہور ہیں اور جن سے پرتیک یادو ہیں۔ یونہی تمل ناڈو کے وزیر اعلیٰ ایم کرونانیدھی کی تین بیویوں سے بچے ہیں۔ ہندی فلموں کے مشہور پلے بیک سنگر اُدِت نارائن کی دوبیویاں ہیں۔ سوال یہ ہے کہ کیا ان لوگوں کی دوسری شادی قانونی طور پر درست ہے؟ اگر ہندو میرج ایکٹ اس کی اجازت نہیں دیتا توا نھوں نے کیسے کرلیا اور اگر کرلیا تو ان کے خلاف قانونی کارروائی کیوں نہیں ہوئی؟ ویسے بات اس سے بھی آگے کی ہے کہ کچھ لوگ تو اپنی دوسری شادی کو قانونی طور پر جائز ٹھہرانے کے لئے اسلام کا سہارا لے رہے ہیں ۔ ہمیں نہیں معلوم کہ مذکورہ بالا افراد میں سے کسی نے سرکاری کاغذات پر اسلام قبول کیا تھا یا نہیں مگرایسی مثالیں بھی کم نہیں ہیں، جب دوسری شادی کے لئے ہندووں نے اسلام قبول کرنے کا سوانگ کیا۔ ہریانہ کے سابق نائب وزیر اعلیٰ چندر موہن کی مثال زیادہ پرانی نہیں ہے۔آج جو لوگ ’’لوجہاد‘‘کے بہانے اسلام اور مسلمانوں پر حملے کر رہے ہیں کیا انھوں نے کبھی ان نقلی مسلمانوں کے خلاف آواز اٹھائی؟ کیا یوگی آدتیہ ناتھ نے کبھی اپنی ہی پارٹی کی ممبر پارلیمنٹ ہما مالینی اور سابق ممبر پارلیمنٹ دھرمیندر سے پوچھا کہ انھوں نے اپنی دوسری شادی کے لئے کیا قانونی سہارا لیا؟ کیا بی جے پی، وشو ہندو پریشد اور سنگھ پریوار کے لوگ ان لوگوں کے قبول اسلام پر کبھی ہنگامہ کرتے ہیں جو شادی کے لئے اسلام کا سہارا لے کر اسلام کو بھی بدنام کرتے ہیں؟

دوسری شادی کے لئے قبولِ اسلام کا ڈرامہ

    ۲۷فروری ۱۹۷۸ء کو جتیندر ماتھر کی مینا کماری نامی ایک لڑکی سے شادی ہوئی۔ لگ بھگ دس سال تک وہ دونوں میاں بیوی کے طور پر رہے اور ان کے تین بچے بھی ہوئے۔ جنوری ۱۹۸۸ء میں انھوں نے خفیہ طور پر ایک دوسری شادی سنیتانرولا سے کرلی۔ظاہر ہے کہ پہلی بیوی کے ہوتے ہوئے ان کی دوسری شادی ہندو میرج ایکٹ کے تحت غیر قانونی ہوتی اور اس کے لئے انھیں نہ صرف سزا ہوسکتی تھی بلکہ ان کے بچوں کو بھی وراثت میں حصہ نہیں ملتا لہٰذا انھوں نے اسے قانونی بنیاد فراہم کرنے کے لئے اسلام کا سہارا لیا اور جتیندر و سنیتا دونوں نے سرکاری کاغذات پہ اسلام قبول کرلیا۔ابھی اس واقعے کو صرف چار مہینے گزرے تھے کہ جتیندر دوبارہ ہندو ہوگیا اور اپنی پہلی بیوی مینا کماری کے پاس لوٹ گیا اس کے کچھ دن بعد اس کی دوسری بیوی سنیتا نے ایک بچے کو جنم دیا جس کے قانونی حقوق کے لئے اسے  کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹانا پڑا۔ یہ پورا واقعہ عبرت آموز ہے اور اس کے قانونی پہلو تو قابل غور ہیں ہی، یہ نفسیاتی اور سماجی لحاظ سے بھی مطالعہ کا موضوع ہے۔ یونہی علماء اور اہل اسلام کے لئے بھی قابل توجہ ہے۔ اسلام ایک پاکیزہ دین ہے اور جسے یہ حق محسوس ہوتاہے وہ ایمان لاتا ہے ،مگر جس طرح سے اس کیس میں اسلام کا سہارالے کر قانون کی دھجیاں اڑائی گئیں وہ بھی کم تشویش کی بات نہیں ہے۔

دوسری شادی اور قانونی پیچیدگی

    نومبر ۱۹۸۸ء میں پردیپ کمار کی شادی گیتا رانی سے ہوئی۔ ابھی شادی کو تین سال گزرے تھے کہ پردیپ کا معاشقہ دیپا نامی ایک خاتون سے چلنے لگا اور دونوں نے اسلام قبول کرنے کے بعد نکاح کرلیا۔۱۹۸۴ء میں ایک اور ایسا ہی واقعہ سامنے آیا جب کہ جی سی گھوش نامی ایک شخص نے ونیتا گپتا نامی ایک عورت سے اسلام قبول کرنے کے بعد شادی کرنی چاہی، حالانکہ وہ پہلے ہی سے شادی شدہ تھا اور اس کی پہلی بیوی سشمیتا کے ساتھ اس کی طلاق بھی نہیں ہوئی تھی۔یہ تمام مقدمات کورٹ میں گئے اور نچلی عدالت سے ہی خواتین کو راحت ملی مگر پھر بھی یہ معاملہ سپریم کورٹ تک پہنچا اور ملک کی سب سے اونچی عدالت نے جتیندر کی سنیتا اور پردیپ کی دیپا کے ساتھ شادی کو غیر قانونی قرار دیا۔کورٹ کے فیصلہ کے مطابق ان کی دوسری شادی آئین ہند کے مطابق غیر قانونی تھی اور قابل تعزیر جرم۔ جب کہ جی سی گھوش کو ونیتا کے ساتھ شادی کی کورٹ سے اجازت نہیں ملی۔کورٹ نے اس معاملے پر رائے زنی کرتے ہوئے کہا کہ شادی کے لئے اسلام قبول کرنا اسلام کی نظر میں ’’منافقت‘‘ہے اور پیغمبر اسلام کی تعلیمات کے خلاف ہے۔ حالانکہ بعد میں گھوش   حالانکہ بعد میں گھوش کو کچھ مسلم مذہبی شخصیات کا سہارا ملا جنھوں نے یہ بتانے کی کوشش کی کہ جی سی گھوش نے اسلام کی سچی محبت کے سبب اسے اپنایا ہے مگر کورٹ کا فیصلہ اٹل تھا۔ مینا، گیتا ار سشمیتا کی طرح اور بھی بہت سی عورتیں اپنے شوہروں کی طرف سے مظالم کا شکار ہوئیں اور انھوں نے اپنے شوہروں کی دوسری شادی کے خلاف کورٹ کا سہارا لیا اور انھیں کورٹ سے راحت بھی ملی۔ اصل میں ۱۹۵۵ء میں نافذ ہندو میرج ایکٹ کے تحت ہندووں کی دوسری شادی مکمل طور پر غیر قانونی ہے۔ اس کے لئے بیوی سے طلاق ہونی چاہئے یا پھر اس کی موت ہوگئی ہو تب ہی دوسری شادی ہوسکتی ہے۔حالانکہ جھوٹے قبول اسلام کے کاغذات تیار کراکے شادیوں کا فرضی واڑاجاری ہے اور کئی واقعات اس قسم کے سامنے آچکے ہیں۔

ایک ہائی پروفائل ڈرامہ

    ۲۰۰۸ء میں اس قسم کا ایک ہائی پروفائل معاملہ سامنے آیا جب ہریانہ کے نائب وزیراعلیٰ چند موہن نے اسلام قبول کرلیا اور اپنا نام چاند محمد رکھ کردوسری شادی کی۔ ان کی بیوی بنیں ان کی معشوقہ اور ریاست کی ایڈوکیٹ جنرل انورادھا بالی، جنھوںنے اسلام قبول کر کے اپنا نام فضا رکھ لیا تھا۔ چند رموہن پہلے سے شادی شدہ تھے اور ان کے کئی بچے بھی تھے۔ دونوں اچانک غائب ہوئے اور میڈیا میں ان کی گم شدگی کی خبریں آتی رہیں، طرح طرح کی قیاس آرائیاں ہوتی رہیں مگر ایک مدت کے بعد وہ سامنے آئے تو پتہ چلا کہ وہ دونوں اپنا آبائی مذہب تبدیل کرکے شادی کرچکے ہیں۔ یہ خبر ان کے گھر والوں اور رشتہ داروں کے لئے بھی چونکا دینے والی تھی۔ حالانکہ چند مہینے بعد ایک بار پھر چند موہن غائب ہوئے اور ان کی گمشدگی کی رپورٹ خود انورادھا (فضا) نے پولس میں درج کرائی۔ اس بار ان کی بازیابی ان کی پہلی بیوی کے پاس سے ہوئی مگر انورادھا کے پاس وہ پھر کبھی نہیں آئے بلکہ ان کا طلاق نامہ آیا جس کے ساتھ مہر کی رقم بھی تھی۔ کچھ دن بعد میڈیا میں خبر آئی کہ انھوں نے دوبارہ اپنا پرانا مذہب قبول کرلیا ہے اور اسلام کو خیرآباد کہ دیا ہے۔ اب انورادھا اکیلی تھیں اور اس اکیلے پن سے انھیں موت نے نجات دلا دیا۔ یہ خبر بھی کم حیرت انگیز نہیں تھی کہ ان کے مکان میں ان کی لاش بری حالت میں پائی گئی تھی۔

اے محبت ترے انجام پہ رونا آیا

دوسری شادی کی شرائط سخت ہوں

    شادی انسانی اور سماجی ضرورت ہے۔ اس کی راہ میں مذہب نہیں آتا بلکہ اس کے لئے سبھی مذاہب اور آئین کے اندر ضابطے رکھے گئے ہیں لیکن اگر ایک شادی دوسرے کی بربادی کا سبب بن جائے تو اس میں قانون کی مداخلت ضروری ہے۔ جو لوگ دوسری شادی کے لئے مذہب کو بہ طور ڈھال استعمال کرتے ہیں ان کی یہ حرکت قابل مذمت ہے اور اس کی حوصلہ افزائی نہیں کی جاسکتی۔ یہ خود مذہب کی توہین کا معاملہ بھی بنتا ہے اور اسلام کی نظر میں یقینا منافقت ہے۔ خود اسلام اگر دوسری شادی کی اجازت دیتا ہے تو اس کے ساتھ ڈھیر ساری شرائط عائد کرتا ہے۔ اب جو کوئی ان شرائط پہ عمل نہیں کرتا اسے دوسری شادی کے حق کا استعمال بھی نہیں کرنا چاہئے۔ یہ بات عام طور پر دیکھی جاتی ہے کہ دوسری شادی کے لئے مذہب کا حوالہ دیا جاتا ہے مگر ایسا کرنے والے کبھی ان شرائط کو یاد نہیںرکھتے جو اس کے لئے اسلام نے عائد کی ہیں۔ دنیا کے مسلم ملکوں میں دوسری شادی کے لئے عدالت کی اجازت لینی پڑتی ہے اور بغیر جائز وجوہات کے اس کی اجازت نہیں ملتی ہے مگر بھارت میں ایسا نہیں ہے اور بہت سے مسلمان دوسری شادیاں کر لیتے ہیں اور پہلی بیوی کی حق تلفی جاری رکھتے ہیں، جس پر قانونی بندش ضروری ہے۔ اب اسی چھوٹ کا فائدہ اٹھانے کے لئے ہندو بھائی بھی رسمی اور قانونی طور پر اسلام قبول کر لیتے ہیں اور دوسری شادی کو جائز ٹھہرانے کی کوشش کرتے ہیں۔ حالانکہ کورٹ نے اب تک ایسے معاملات میں ان کے خلاف ہی فیصلے سنائے ہیں۔ ملک کا قانون روایتی مذہبی اصولوں کو مانتا ہے مگر آج حالات مختلف ہیں اور دنیا کی سوچ قدیم اقدار سے بہت آگے نکل چکی ہے اسی لئے الگ الگ مذاہب کے لوگ اپنے مذہب پر قائم رہتے ہوئے اگر شادی کرنا چاہتے ہیں تو اس کے لئے قانون میں سول میرج کا ضابطہ موجود ہے۔ البتہ کسی بھی طرح سے ایسی شادیوں کی حوصلہ افزائی نہیںکی جاسکتی جو مذہب کو تماشہ بناتی ہوں اور مذہب کے غلط استعمال کے ذریعے وجود میں آتی ہوں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 566