donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Lamhaye Fikr
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Dr. Mozaffar Hussain Ghazali
Title :
   Rohit Ka Saneha Samaj Ko Aayina


روہت کا سانحہ سماج کو آئینہ


ڈاکٹر مظفر حسین غزالی


ملک میں آئین کو لاگو ہوئے قریب سات دہائیاں ہونے کو ہیں ۔ اس کی یاد میں 67واں یوم جمہوریہ منایا گیا ۔ جس میں آئین پر عمل کے عہد کو دوہرانا بھی شامل تھا ۔ جو دستور کے تئیں ہمارے یقین کو ظاہر کرتا ہے ۔ اس کے با وجود سماج میں آج بھی چھوا چھوت، نا برابری اور نا انصافی موجود ہے ۔ اظہار رائے خاص طور پر نظریاتی اختلافات اب بھی نا قابل برداشت ہے ۔صدر جمہوریہ نے 26جنوری کے ملک سے اپنے خطاب میں عدم تحمل و برداشت اور تشدد سے محفوظ رہنے کی نصیحت کی ہے ۔ آزادی کے اتنے دنوں کے بعد بھی سماج میں ذات کی بنیاد پر نفرت اور تکلیف پہنچانے کا سلسلہ کسی نہ کسی شکل میں جاری ہے ۔ اس میںاونچ نیچ کی برائی بھی شامل ہے ۔ ہندوتوا کے پیرو کار اس سلسلہ میں ہندو گرنتھوں کی دہائی دیتے ہیں ۔ ہندو وادی نظریہ کے حامیوں کے اقتدار تک پہنچنے کے ساتھ ہی دلتوں ، کمزوروں ، اقلیتوں اور حاشیہ پر زندگی گزار رہے لوگوں کو ہراساں کئے جانے کے واقعات بڑھ گئے ہیں ۔فرید آباد میں دلت بچوں کو زندہ جلایا نا ، داری میں اخلاق کے گھر میں زبردستی گھس کر ا سے مار دینا اور روہت ویمولاکا درد ناک خاتمہ۔ جسے حیدر آباد یونیورسٹی میں خودکشی کرنے پر مجبور کردیا گیا یہ ذات کی بنیاد پر تشدد کی ہی مثالیں ہیں ۔

حیدر آباد مرکزی یونیورسٹی میں ذات کو لے کر بھید بھائو یا تشدد کا یہ پہلا واقع نہیں ہے ۔ پچھلی ایک دہائی میں یہاں آٹھ دلت طلباء خود کشی کر چکے ہیں ۔ اگر اسے آگے جاکر پورے ملک کی سطح پر دیکھا جائے تو چار سال میں اٹھارہ دلت طلباء نے خود کشی کی ہے ۔ یہ اعداد بتاتے ہیں کہ تعلیمی اداروں کی چہار دیوار یاں بھی ذات کی وجہ سے نفرت ، بھید بھائو اور ہراساں کئے جانے سے محفوظ نہیں ہیں ۔لیکن  اب شیڈول کاسٹ، شیڈول ٹرائب اور پسماندہ طبقے سے تعلق رکھنے والے طلبہ اکٹھے ہو کر آواز اٹھانے لگے ہیں ۔ اس کا اندازہ آئی آئی ٹی مدراس کے امبیڈکر پھولے اسٹیڈی سرکل اور حیدرآباد یونیورسٹی میں امبیڈکر اسٹوڈینٹ ایسوسی ایشن کی سرگرمیوں سے لگایا جا سکتا ہے ۔روہت ویمولا امبیڈکر ایسوسی ایشن کے ذمہ داروں میں سے ایک تھا ۔ اس طلباء تنظیم کا حیدرآباد یونیورسٹی میں جن سنگھ کے زمانے سے چلی آرہی ’’ اکھل بھارتیہ ودیارتھی پریشد ‘‘ جو ہمیشہ اعلیٰ ذات کے ہندئوں کی تنظیم رہی ہے سے سیدھا مقابلہ تھا ۔جو بی جے پی کے اقتدار میں آنے کے بعد بھیانک موڑ پر پہنچ گیا ۔ اے بی وی پی کو ملک میں بر سر اقتدار پارٹی میں پہنچ کا فائدہ ملا ۔ کیونکہ اس تنظیم کے صدر سشیل کمار کی شکایت پر روہت سمیت پانچ دلت طلبہ کو یونیورسٹی سے معطل کیا گیا تھا ۔

روہت کی خود کشی ایک مایوس نو جوان کا نجی سانحہ نہیں ہے ۔ ہاں اس میں مایوسی تھی لیکن یہ مایوسی اپنے ذاتی حالات کو لے کر نہیں تھی ۔ یہ اپنے آس پاس کے ماحول کو لے کر تھی ۔ دیش کو لیکر تھی ۔ جس کا اندازہ اس کے ذریعہ وائس چانسلر کو لکھے گئے خط  سے ہوتا ہے ۔ خط میں اس نے لکھا تھا کہ داخلے کے وقت ہر دلت طالب علم کو سوڈیم ایذائڈ کی گولی اور پھندا لگانے کے لئے اچھی رسی بھی دے دی جائے ۔ اس نے آئینہ دکھایا تھا کہ دلتوں کو لیکر کیا کچھ بدلا ہے ؟ ویسی ہی چھوا چھوت ہے ؟  ویسا ہی بھید بھائو ، نفرت ہے ۔ویسی ہی بے عزتی ، ہراساں کیا جانا ، تشدد ہے ۔ اس کی اس بات سے ہل اٹھنا چاہئے تھا لیکن ایسا کچھ نہیں ہوا ۔ ہوتا بھی کیسے ؟ یہ کوئی نئی بات ہے !  اب بھی ملک کے ہزاروں اسکولوں میں دلت بچے کلاس میں الگ بٹھائے جاتے ہیں ۔ دلت دولہا گھوڑی نہیں چڑھ سکتا ۔ یہاں تک کہ مرنے کے بعد آخری رسومات کے لئے شمشان بھی الگ ہیں ۔کئی مندروں میں دلتوں کے داخلہ پر پابندی ہے ۔کھانے کے لئے ہرہمنوں اور دوسری ذات کے لوگوں کو الگ الگ لائنوں میں بٹھایا جاتا ہے ۔یوم جمہوریہ سے چند دن قبل اوڈپی کے پیجاور مٹھ میں تقریب ہوئی تھی جس میں بھاجپا کے مرکزی وزیر ، آندھر پردیش کے وزیر اعلیٰ ، کرناٹک کے سابق وزیر اعلیٰ اور وزیروں نے حصہ لیا تھا یہاں کے کرشن مندر میں مڈے اسنانم ( برہمنوں کا آشرواد لینے کے لئے ان کی جھوٹی پتلوں پر لوٹنا ) کا رواج چلا آرہا ہے ۔اس پر کسی نے بھی ایک لفظ تک نہیں کہا جبکہ یہ دلت و نچلی ذاتوں کے ساتھ کھلم کھلا بھید بھائو ہے ۔

روہت کو  خود کشی نہیں کرنی چاہئے تھی لیکن اگر اس نے  خودکشی نہ کی ہوتی تو کیا دلت و نچلی ذاتوں کے سوال پر بات ہو رہی ہوتی ؟ کیا راشٹریہ واد اور ملک مخالف رویہ زیر بحث آتا ؟ بات آج کیوں ہو رہی ہے ؟ ہنگامہ تو تبھی ہونا چاہئے تھا جب بابا صاحب امبیڈ کر کی تصویر ہاتھ میں لے کر ہاسٹل سے باہر نکلے پانچ طالبعلموں کی تصویریں اخبارات میں چھپی تھیں ۔ شور تو تب بھی اٹھنا چاہئے تھا جب مرکزی وزیر ان دلت طلبہ کو ملک مخالف بتاتے ہوئے اپنی سرکار کو چٹھی  لکھ رہا تھا ۔ بات اس وقت ہونی چاہئے تھی جب مظفر نگر دنگوں پر بنی فلم ’’ مظفر نگر باقی ہے ‘‘ کو دہلی یونیورسٹی میں اکھل بھارتیہ ودیارتھی پریشد نے دکھانے سے روک دیا تھا ۔اس پر امبیڈکر اسٹوڈینٹ ایسوسی ایشن کے احتجاج کو ملک مخالف کہا گیا تھا ۔یا اس وقت جب  یعقوب میمن کی پھانسی کی سزا پر چل رہی بحث  کے دوران اے ایس اے نے  Capital punishment(سزائے موت) کے مسئلہ پر یونیورسٹی میں تیستاشیتل واڑ اور اسد الدین اویسی کو طلبہ سے خطاب کے لئے بلایا  تھا ۔ اسے اے بی وی پی کے ذریعہ نا قابل معافی جرم قرار دیا گیا ۔ بحث اس وقت ہونی چاہئے تھی جب اے بی وی پی نے فیس بک ، شوشل میڈیا میں اے ایس اے پر ملک مخالف ہونے کا الزام لگا کر جنگ چھیڑی تھی ، یا پھر اس وقت جب اے بی وی پی کے شسیل کمار کی شکایت کو یونیورسٹی انتظامیہ نے بے بنیاد مان کر خارج کردیا تھا لیکن مرکز کے دبائو میں نئی کمیٹی کے ذریعہ پانچ طلبہ کو معطل کرایا گیا تھا ۔ من اس وقت بھر آنا چاہئے تھا جب ہاسٹل سے نکالے جانے ، اسکالر شپ رد ہونے اور کیمپش میں داخلہ ممنوع ہونے کے بعد 17دنوں تک یہ طلبہ کھلے آسمان کے نیچے رہنے سونے کو مجبور تھے ۔

اس وقت ایسا کچھ بھی نہیں ہوا ۔ آج یہ سب باتیں اس لئے ہو رہی ہیں کیونکہ روہت نے خودکشی کرلی ۔ اس کے آخری خط کو دیکھ کر رگھوویر سہائے کی نظم ’’ اوداس رام داس ‘‘ بے ساختہ یاد آگئی ۔ جس میں رام داس کی مایوسی روہت جیسی ہے ۔ رام داس کے قاتل نے جب اس کا نام پکار کر ہاتھ تول کر چاقو مارا تو نہ دیکھتے ہوئے بھی سب نے دیکھا اسی طرح روہت کا قاتل بھی بہت چھپا ہوا نہیں ہے ۔وہ خودکشی خط کے پیچھے اپنا چہرہ چھپانا چاہتا ہے ۔ کیونکہ پورے دیش نے اس کو پہچان لیا ہے ۔ اس لئے پورا ملک روہت کی حمایت میں کھڑا ہو گیا ۔ یہاں تک کہ حیدرآباد یونیورسٹی کے دلت پروفیسران نے سبھی انتظامی ذمہ داریوں سے استعفیٰ دے دیا ۔ مرکزی وزیر اسمرتی ایرانی کی یہ بات صحیح ہے کہ یہ دلت و غیر دلت کے جھگڑے کا معاملہ نہیں ہے ۔اگر ہوتا تو روہت کی خود کشی پر پورے ملک میں اتنا احتجاج نہ ہوا  ہوتا کہ جس نے ایرانی اور ان کی سرکار کو بچائو کے راستے کھوجنے پر مجبور کردیا ۔ خود یونیورسٹی میں بھی یہ دلت بنام دیگر کا معاملہ نہ تھا ورنہ امبیڈکر اسٹوڈینٹ ایسوسی ایشن اور ایس ایف آئی کے وفاق کو اسٹوڈیٹ یونین کے انتخاب میں اتنی زبردست کامیابی نہ ملی ہوتی ۔


در اصل یہ پورا جھگڑا اس ذہنیت کا ہے جو ہندو پہچان کو راشٹرواد مانتی ہے ۔ ہندو راشٹر کا نظریہ دیگر مذاہب کے لوگوں کو دوسرے درجہ کا شہری بنا دینا چاہتا ہے ۔ یہ اعلیٰ ذات اور فرقہ واریت کا میل ( سنگھ پریوار)  راشٹرواد کے نام پر ترقی کا لبادہ اوڑھے ملک کی گدی پر بیٹھا ہے ۔جس سے نظریاتی اختلافات کا مطلب ملک سے غداری ، بے وفائی ، ملک کی مخالفت یا دشمنی سمجھا جاتا ہے ۔ روہت ویمولا کو اسی جرم میں اپنی جان دینی پڑی ۔ سوال یہ ہے کہ کیا سنگھ ، سنگھ پریوار ، بی جے پی اور اس کی ذیلی تنظیمیں ہی راشٹر ہیں ؟ کیا وہی طے کریں گی کہ راشٹر کیا ہے؟ اس کی Difinationتعریف کیا ہے ۔ جو راشٹر اور راشٹر واد کی ا س تعریف سے اتفاق نہ رکھتا ہو وہ ملک مخالف ہے ؟ یہ انتہائی تشویشناک ہے ۔اس کی آہٹ نریندر مودی کے  گدی نشین ہونے کے فورا  بعد شروع ہو گئی تھی اور اب ہر قدم پر فاسزم کے یہ نشان دکھنے لگے ہیں ۔ ہفتہ بھر پہلے الہ آباد یونیورسٹی میں اے بی وی پی نے سینئر صحافی سدھارتھ ورد راجن کو طلبہ کو خطاب نہیں کرنے دیا ۔ انہیں لگ بھگ بندھک بنا کر رکھا ۔ کیونکہ اے بی وی پی کی رائے میں وردراجن فرقہ پرست اور ملک مخالف ہیں ۔ کچھ دن پہلے میگ سائے سائے انعام یافتہ شوشل ورکر سندیپ پانڈے کو ملک مخالف بتاکر کاشی ہندو یونیورسٹی کے ویژیٹنگ فیکلٹی کے عہدے سے ہٹا دیا گیا تھا ۔

اسی سوچ کے نتیجہ میں حیدرآبا د یونیورسٹی میں اے بی وی پی کے صدر شسیل کمار  کو روہت اور اس کے ساتھیوں کی سرگرمیوں ( اگر کوئی ملک مخالف تھیں ) کی شکایت پولس میں کرنے کے بجائے سرکار کی مدد لینا زیادہ آسان لگا ۔ کیونکہ اسے معلوم تھا کہ مرکز میں اپنی حکومت ہے ۔ تبھی تو مرکزی وزیر بنڈارو دتاترے سے وزارت برائے انسانی وسائل اور ترقی کو خط لکھ کر وائس چانسلر پر دبائو بنوایا گیا تاکہ ان دلت طلبہ کو ان کی اوقات بتا کر سبق سکھایا جا سکے ۔ جبکہ یونیورسٹی کے پاس اس بات کا کوئی جواب نہیں ہے کہ کس جرم میں ان طلبہ کو یونیورسٹی و ہاسٹل سے نکالا گیا ؟ اوران کی اسکالر شپ کیوں ردکی گئی ؟ اب یہ حقیقت بھی سب کے سامنے آچکی ہے کہ کس طرح نیا وائس چانسلر مقرر کر دوسری جانچ کرائی گئی ۔ یونیورسٹی نے اپنی پہلی رپورٹ کو بالکل پلٹ دیا ۔ روہت و دیگر چار طلبہ کے خلاف سماجی بائیکاٹ  اور معطلی جیسی نا انصافی والی کاروائی کی گئی جبکہ سنگھی ویر سشیل کمار نے یونیورسٹی کے سیکورٹی آفیسر کی موجودگی میں لکھ کر امبیڈکر اسٹوڈینٹ ایسوسی ایشن کے روہت اور اس کے ساتھیوں سے معافی مانگی تھی ۔ یہ سچ بھی سامنے آچکا ہے کہ اسے کوئی چوٹ نہیں لگی تھی بلکہ وہ اپینڈے سائٹس کے آپریشن کے لئے اسپتال میں بھرتی ہوا تھا ۔ کیا اب اس کے خلاف کوئی کاروائی ہوگی ؟
یہ مسئلہ اس وقت روشنی میں آیا جب پانچ ریاستوں میں انتخابات ہونے والے ہیں ۔ اس وقت بی جے پی دلت مخالف ہونے کا الزام اپنے سر نہیں لینا چاہتی ۔ دوسری طرف اس معاملہ کو لے کر پارٹی کے دلت رہنما و وفاقی پارٹیوں کے دلت لیڈران اپنی ناراضگی جتا چکے ہیں ۔ روہت کی موت پر ملک کے عوام نے شدید رد عمل کا اظہار کیا ہے۔ وہیں حیدرآباد یونیورسٹی  اسٹوڈیٹ یونین کے چنائو میں اے بی وی پی کو شکست کا منھ دیکھنا پڑا ہے ۔ اس دبائو کے چلتے پوری پارٹی ڈیمیج کنٹرول میں لگ گئی ہے ۔اسمرتی ایرانی یونیورسٹی کی خود مختاری کی دہائی دیتے ہوئے اسے یونیورسٹی کا انپا نجی انتظامی معاملہ بتارہی  ہیں ۔ وہیں وزیر اعظم نریندر مودی لکھنئو کے عوامی پروگرام میں روہت کو یاد کرکے جذباتی ہو گئے  ان کی آنکھیں نم ہو گئیں ۔ یقینا انہیں اس حادثہ سے صدمہ پہنچا ہوگا ۔ ایسے حادثہ سے بھلا کسے صدمہ نہ پہنچے گا ہم سب کو صدمہ پہچا ہے ۔ لیکن تسلی تب ہوتی جب وہ اپنی پارٹی اور سنگھ پریوار کے لوگوں کو بھی نصیحت دیتے ۔ الٹے انہوں نے روہت کو ماں بھارتی کا پتر کہہ کر اس کی پہچان ہی ختم کرنے کی کوشش کی ۔

حیدر آباد یونیورسٹی نے روہت  اور اس کے چار ساتھیوں کا سسپینن Suspensionواپس لے لیا ہے ۔ساتھ ہی سرکار نے اس پور ے معاملہ کی جانچ کے لئے کمیشن بنائے جانے کا اعلان کیا ۔ سوال یہ ہے کہ کیا اس سے روہت واپس آجائے گا ؟ کیا اسے اور اس کے ساتھیوں کو انصاف مل  سکے گا ؟ کیا دلتوں کے تعلق سے اعلیٰ ذات کے لوگوں کے رویہ میں کچھ تبدیلی آئے گی ؟ 125ویں سال گرہ پر بھاجپا کی امبیڈکر کو ہڑپنے کی کوششوں کے با جود کیا سنگھ کو یہ منظو رہوگا کہ دلت و پسماندہ کے ساتھ برتا جا رہا بھید بھائو ، نا برابری ، نا انصافی ختم ہو ۔ وہ اپنی طبقہ واری پہچان کے ساتھ آگے بڑھیں اور مین اسٹریم کا حصہ بنیں ۔ اس کی امید کم ہے کیونکہ سنگھ کا راشٹر واد استحصال ، قوم پرستی اور فرقہ واریت پر ہی ٹکا ہے ۔وہ تو بھارت کے آئین سے مجبور ہیں ورنہ یہ دلتوں و پسماندوں کو تعلیم گاہوں میں گھسنے بھی نہ دیتے ۔ آئین کے سیکولر مزاج کو بدلنا ان کے منصوبہ میں شامل ہے ۔خیر روہت کے سانحہ نے سماج کو آئینہ دکھایا ہے کہ کتنا ہی ہم اکیسویں صدی کے ترقی یافتہ دور میں ہونے کا دعویٰ کریں لیکن ہماری سوچ و عمل اب بھی دقیانوسی ہے ۔باہر بھلے ہی اجالا ہے لیکن بھیتر ابھی بھی اندھیرے کا ہی باس ہے ۔

( یو این این)

***************************

 

 

 

 

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 496