donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Lamhaye Fikr
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Dr. Aslam Jawed
Title :
   AMU Jamia Millia Par Shab Khoon Marne Ka Maqsad Kya Hai


اے ایم یو،جامعہ ملیہ پر شب خون مارنے کا مقصد کیا ہے؟


ڈاکٹراسلم جاوید


سر سید کے خوابوں کی تعبیر اور ملک کے مسلمانوں کی اعلیٰ تعلیم کا اہم مرکز علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کی اقلیتی شناخت ایک بار پھر خطرے میں دکھائی دے رہی ہے۔مرکزی حکومت نے سپریم کورٹ میں اپنی اس پٹیشن کو واپس لینے کا کا فیصلہ کیا ہے جس میں سابقہ یو پی اے حکومت نے اے ایم یو کو اقلیتی ادارہ تسلیم کیا تھا۔مرکزی حکومت کے اس بدلے ہوئے رویے سے قانون دانوں میں تشویش کی لہر دوڑ گئی ہے۔معروف قانون داں اور الہ آباد ہائی کورٹ کے سینئر وکیل روی کرن جین کا کہنا ہے کہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی روز اول سے ہی ایک مسلم ادارہ ہے ،لہٰذا اس کا اقلیتی کر دار کسی عدالتی فیصلے سے ختم نہیں کیا جا سکتا ۔دوسری جانب علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے وابستہ افراد اس معاملے کو ایک سیاسی مسئلہ بھی مان رہے ہیں۔اے ایم یو اولڈ بوائز ایسو سی ایشن کے جنرل سکریٹری بختیار یوسف اس پورے معاملے کو مرکزی حکومت کی نیت سے جوڑ کر دیکھ رہے ہیں۔بختیار یوسف کا کہنا ہے کہ موجودہ مرکزی حکومت اے ایم یو کے اقلیتی کردار کو ایک سیاسی ایشو بنانا چاہتی ہے۔

ایسا پہلی بار نہیں ہوا ہے کہ اے ایم یو کے اقلیتی کردار کو نشانہ بنا یا گیا ہے۔اس سے پہلے سن 1967 میں عزیز پاشا کیس میں مسلم یونیورسٹی کے اقلیتی کردار پر قانونی بحث ہو چکی ہے،لیکن1981میں اس وقت کی کانگریس حکومت نے مسلم یونیورسٹی کے اقلیتی کردار کو تسلیم کر لیا تھا۔آج ایک بار پھر علی گڑھ مسلم یونیورسٹی اور جامعہ ملیہ اسلامیہ کے اقلیتی کردار پر سوال اٹھائے جا رہے ہیں۔لیکن اس بار کا معاملہ لوگ زیادہ سنگین تصورکر رہے ہیں۔سرسید نے جب 1875 میں ’مدرسۃ العلوم مسلمانانِ ہند‘ کی بنیاد ڈالی، جو 1878 میں ’محمڈن اینگلو اورینٹل‘ (ایم اے او) کالج بنا، تب بھی اس تعلیمی ادارہ کے نام کے ساتھ ’مسلم‘ یا ’محمڈن‘ کا لفظ جڑا ہوا تھا اور جب 1920 میں ہندوستانی قانون کے تحت علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کو سنٹرل یونیورسٹی کا درجہ دیا گیا، تب بھی اس کے نام کے ساتھ ’مسلم‘ لفظ جڑا ہوا تھا۔ یہی حال جامعہ ملیہ اسلامیہ کا بھی ہے، جس کے نام کے ساتھ قوم و ملت کی مناسبت سے ’ملیہ‘ اور مذہب اسلام کی مناسبت سے ’اسلامیہ‘ لفظ جڑا ہوا ہے، جیسا کہ بابا رام دیو کے ادارہ ’پتنجلی یوگا پیٹھ‘ کے ساتھ ’یوگا‘ لفظ لگا ہوا ہے۔ جس طرح ہری دوار کے ’پتنجلی یوگا پیٹھ‘ میں کوئی مسجد نہیں ہے، اسی طرح علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے کسی بھی ہوسٹل یا جامعہ ملیہ اسلامیہ کے کیمپس میں کوئی مندر نہیں ہے۔ گویا کہ یہ دونوں ہی جگہیں ایک مخصوص تہذیب و ثقافت کی علامت ہیں اور اس سے انکار کرنا نہ صرف بددیانتی ہے ، بلکہ سراسر بیوقوفی اور جہالت بھی ہے۔ اب بعض حلقوں اور خاص کر بھارتیہ جنتا پارٹی کی طرف سے ایک دلیل یہ دی جاتی ہے کہ جب 1920 میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی یا جامعہ ملیہ اسلامیہ کو سنٹرل یونیورسٹی کا درجہ دیا گیا، تب ملک میں انگریزوں کی حکومت تھی، بالکل صحیح بات ہے۔ لیکن، 1947 میں جب ہندوستان آزاد ہوا، تو اقتدار کی منتقلی کے وقت عدالت ہو یا قانون، سرکاری دفاتر ہوں یا پھر گورننس کے دیگر ادارے، ہمیں وہی ساری چیزیں وراثت میں ملیں، جن کا بنیادی ڈھانچہ انگریزوں نے تیار کیا تھا۔ اس کے بعد جب ہمارے آئین سازوں نے اپنی انتھک محنتوں اور کوششوں سے آئندہ ملک کو چلانے کے لیے ایک نیا آئین بنایا، جسے 1950 میں نافذ کیا گیا، تو اس آئین میں بھی بیشتر چیزیں دنیا کے دیگر ممالک اور خاص کر امریکی و برطانوی آئین سے ہی مستعار لی گئی تھیں۔ یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ بی جے پی اور دیگرفرقہ پرست عناصر کی جانب سے یہ کہاجارہاہے کہ ملک میں اسی تعلیمی ادارے کو اقلیتی درجہ حاصل ہوسکتاہے جس کے بانیان میں اکثریت اقلیتی طبقہ کی رہی ہو۔اب اگراس فارمولے کی روشنی میں اے ایم یو کے بانیوں کی فہرست کا سرسری نظرسے ہی جائزہ لیاجائے توبآسانی یہ اندازہ لگایا جاسکتاہے کہ اس ملی دانش گاہ کی تعمیرمیں کس طبقہ اپنا لہو نچوڑکر ڈالاتھا۔جب کوئی حکومت یا ظالم حکمراں آپ کے اْن اداروں کو ، جن کی تعمیر میں آپ کے بزرگوں کی محنتوں کے ساتھ ان کا خون اور پسینہ بھی شامل ہے’’ ہتھیانے‘‘ کے لئے اختیارات کا ناجائز استعمال کرے گی تو آپ حوصلہ کھوہی بیٹھیں گے ، مایوسی آپ کو گھیرہی لے گی۔اِن دنوں اس ملک میں مسلم قوم وملّت کے ساتھ کچھ ایسا ہی ہورہا ہے۔ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے ’اقلیتی کردار‘ کا مسئلہ ابھی ایک ’تازہ زخم‘ کی طرح ہرا ہی ہے کہ جامعہ ملّیہ اسلامیہ کے’اقلیتی کردار‘ پر بھی انگلی اٹھادی گئی ہے۔ مسلمانوں کی اِن دونوں ہی یونیورسٹیوں سے ’اقلیتی کردار‘ چھین لینے کی تجویز نریندر مودی سرکار کے اٹارنی جنرل مکل روہتگی نے پیش کی ہے۔یہ تجویز فروغ انسانی وسائل کی وزارت یا باالفاظ دیگر اس وزارت کی سربراہ اسمرتی ایرانی کو دی گئی ہے۔ روہتگی کے مطابق تکنیکی طور پر نہ ہی علی گڑھ مسلم یونیورسٹی’اقلیتی کردار‘ والا ادارہ ہے اور نہ ہی جامعہ ملیہ اسلامیہ۔ مطلب یہ کہ اسمرتی ایرانی اگر چاہیں تو اِن دونوں ہی یونیورسٹیوں کے انجینئرنگ، ڈاکٹری اور ایسے ہی دوسرے اعلیٰ تعلیمی شعبوں میں، مسلمانوں کو ملنے والے پچاس فیصد داخلے کی آزادی کوسلب کرلیں اور اِن یونیورسٹیوں کو بھی اْن دوسری یونیورسٹیوں کی طرح ہی بنادیں ، جہاں مسلمان اگر داخلہ لینا چاہیں تو’قطار‘میں لگ کر میرٹ کی بنیاد پر ہی آسکیں۔ پھر داخلہ ملے تو ٹھیک نہ ملے تو ٹھیک۔ نریندر مودی سرکار کی ’ اقلیت دشمنی‘ خوب واضح ہے اسی لئے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی اور جامعہ ملّیہ اسلامیہ کے ’اقلیتی کردار‘کو چھین لینے کی یہ جو کوششیں ہورہی ہیں ان پر کوئی حیرت نہیں ہے۔مذکورہ بالا خیالات معروف صحافی شکیل رشید نے کیا ہے۔اسی قسم کی تشویش اس وقت اقلیتی طبقہ کیلئے پورے ملک سوہان روح بناہواہے۔ایک طرف نام نہاد القاعدہ اورداعش جیسی تنظیموں سے تعلقات کے الزامات میں اعلیٰ تعلیم یافتہ اور زیرتعلیم مسلم نوجوانوں کو سلاخوں کے پیچھے دھکیلا جارہاہے تو دوسری جانب مسلم اقلیتوں پر ایک مہذب زندگی گزارنے کے تمام وسائل کو نیست ونابود کردینے کی لگاتار کوششیں شروع کردی گئیں ہیں۔جامعہ ملیہ اسلامیہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی ہردواداروں کو پہلی نگاہ میں دیکھنے سے ہی یہ پتہ چل جاتا ہے کہ یہاں تعلیم وتعلم کیلئے کس کے اسلاف نے علم کی شمع روشن کی ہوگی۔حالاں کہ سیاسی پینترے بازی میں مہارت رکھنے والے وزیراعظم نریندر مودی اوربی جے پی کے دیگربے لگام لیڈران ٹی وی چینلوں پر اوربیرون ممالک جاکر بھی ہندوستانی مسلمانوں کی بہی خواہی کا ڈھنڈوراپیٹتے ہیں۔ایسے میں ہونا تویہ چاہئے تھا کہ سرکار اِن دونوں اداروں کے اقلیتی کردار کو مضبوط کرتی،اقتصادی اور معاشی طورپر حاشیہ پرڈالی جاچکی مسلم قوم کی فلاح کیلئے کوئی قابل تائید قدم اٹھاتی۔مگریہاں معاملہ بالکل برعکس ہے،بہ ظاہرمرکزی حکومت مسلمانوں کے ساتھ خیرخواہی کاڈھنڈوراپیٹتی اورعملی طورپر اس محروم قوم کی جڑیں کھودنے،اسے پسماندہ تر بنانے کی سازشیں مرتب کررہی ہے۔’ اقلیتی کردار‘ کو ختم کرنے کے لئے دلیل یہ دی جارہی ہے کہ چونکہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کا قیام ایک سیکولر ریاست کی پارلیمنٹ کے ایک ایکٹ کے تحت عمل میں آیا تھا اس لئے اسے ’ مسلم‘ ادارہ قرار نہیں دیا جاسکتا۔

بہرحال مودی حکومت کے رادے مسلمانوں کیخلاف چاہے جتنے بھی خطرناک ہوں ۔مگرعلی گڑھ مسلم یونیورسٹی پر شب خوب مارنے کی کوئی کوشش کامیاب نہیں سکے گی اسلئے کہ اب بی جے کی مرکزی حکومت نے راست طورپر مسلم طبقہ کے تعلیم یافتہ معاشرہ سے دودو ہاتھ کرنے کافیصلہ کیاہے۔اگریہ لڑائی صحیح معنی میں شروع ہوتی ہے تو ساری دنیامیں مودی کی اصلیت آشکاراہوجائے گی۔مودی حکومت کے ذریعے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے اقلیتی کردار کو ختم کرنے کی کوشش کے خلاف علی گڑھ مسلم یونیورسٹی اولڈ بوائز، مسلم اور غیر مسلم لیڈروں نے بھی قانونی جنگ کا اعلان کر دیا ہے۔ان کا کہنا ہے کہ اب نریندر مودی کا سامنا مسلمانوں کے تعلیم یافتہ طبقے سے ہوگا ، جس کی بازگشت پوری دنیا میں سنائی دے گی۔ممتاز قانون داں بختیار یوسف نے الٰہ آباد میں کہا کہ یونیورسٹی کے اقلیتی کر دار کے تحفظ کے لیے ایسو سی ایشن تمام قانونی پہلوؤں پر غور کر رہی ہے۔انھوں نے کہا کہ جس طرح اے ایم یو کے اقلیتی کر دار کی قانونی لڑائی الٰہ آباد ہائی کورٹ میں لڑی گئی تھی ، اسی طرح سپریم کورٹ میں بھی یہ قانونی لڑائی لڑی جائے گی۔معاملہ در اصل یہ ہے کہ مرکزی حکومت نے اپنا موقف تبدیل کرتے ہوئے بروز پیر،11 جنوری کو سپریم کورٹ میں یہ کہا تھا کہ اس کے نزدیک مسلم یونیورسٹی اقلیتی ادارہ نہیں ہے اور یہ کہ الٰہ آباد ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف سابق یو پی اے حکومت نے جو اپیل دایَرکی تھی اس کو واپس لے گی جس میں یہ تسلیم کہا گیا تھا کہ مسلم یونیورسٹی ایکٹ 1981 ء کے بہ موجب اقلیتی ادارہ ہے۔یہ ایک بدیہی امرہے کہ جب ملک کی جمہوری حکومت نے مسلمہ طورپر کسی ادارہ کو اقلیتی ادارہ کا درجہ دے دیاہے ،پھراس کی خلاف ورزی کے پیچھے قوم دشمنی کے علاوہ اور کچھ بھی ہوسکتا،جس کے زہر میں بجھے ہوئے لوگ خود کوہرقانون سے بالاتراورمابدولت سمجھ بیٹھتے ہیں۔

9891759909


****************************

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 433