donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Lamhaye Fikr
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Ashfaqur Rahman Sharar
Title :
   Musalmano Me Ittehad Aur Khud Aitemadi Ki Kami


مسلمانوں میں اتحاد اور خود اعتماد کی کمی

 

از قلم اشفاق الرحمن شررؔ ……


    بھارت میں مختلف مذاہب کے لوگ ہیں جن کی اپنی تہذیب اور پہچان ہے۔ مختلف مذاہب، تہذیب، زبان اور علاقہ کے ہوتے ہوئے بھی سبھی بھارتی قومیت کے نام پر ایک ہیں۔ گو کہ جدت اور مغرب پرستی کے دور میںتمام تہذیبیں متاثر ہوئی ہیں، بہت سی تبدیلیاں دیکھنے ملتی ہیں لیکن اس کے باوجود بھی سب کی الگ پہچان ہے۔مختلف مذاہب کے تناسب پر نظر ڈالیں تو 2011 کی مردم شماری کے لحاظ سے بھارت میں ہندو 79.80 فیصد، مسلم 14.23 فیصد، عیسائی 2.30 فیصد، سکھ1.72  فیصد، بودھ 0.70 فیصد،جین0.46 فیصد و دیگر قومیں 0.66 فیصد ہیں اس اعداد شمار کے مطابق ہندواکثریت میں ہیں تو مسلمانوں کا تناسب دوسرے نمبر پر ہے اور اقلیتوں میں مسلم اول نمبر پر ہیں۔لیکن مسلمانوںکا اس ملک میں جو مقام ہے وہ نا قابل یقین کی حد تک خراب ہے۔ مسلمانوں کی پسماندگی پر کسی کو اختلاف نہیں خواہ سیاسی جماعتیں ہوں، خود مسلمان ہوں یا ان کی پسماندگی کے اسباب کا پتہ لگانے کے لئے مختلف اوقات میں قائم کئے گئے مختلف کمیشن اور کمیٹیاں ہوں۔ مسلمانوں کی پسماندگی کے لئے حکومتوں کو تو سبھی ذمہ دار مانتے ہیں، سچر کمیٹی کی رپورٹ میں مسلمانوں کی پسماندگی کے اسباب پر مفصل روشنی ڈالی گئی ہے اور مسلمان ہمیشہ ہی حکومتوں کو کوستے آرہے ہیں۔ یہ سچ ہے کہ حکومتوں کی عدم توجہی اور غلط پالیسیوں کے سبب مسلمان پسماندگی کے خندق میں گرتے جا رہے ہیں لیکن تصویر کا دوسرا پہلو بھی ہے جو بہت تلخ ضرور ہے لیکن حقیقت ہے۔ مسلمانوں نے خو د مسلمانوں کو پیچھے ڈھکیلا ہے آزادی کے بعد سے آج تک مسلم سیاسی رہنمائوں نے نہ تو مسلمانوں کے لئے حکومتوں سے کچھ کرایا نہ ہی موقع ملنے پر خود ہی کچھ کیا۔ مسلم اعلیٰ حکام بھی مسلمانوں کے حق میں جائز کام بھی کرنے سے گھبراتے ہیں کہ کہیں ان کے اوپر جانبداری کا الزام نہ آجائے۔ آزادی کے بعد ہر برادری اور قوم نے اپنے طبقہ کے ساتھ جانب داری کی اور جس قدر موقع ملا فائدہ پہونچایا لیکن مسلمان خود کو وفادار ثابت کرنے کے چکر میں یا اپنا عہدہ بچانے کے چکر میں کچھ نہیں کر پائے۔ آزادی کے بعد جب ریزرویشن کا تعین کیا جارہا تھا تو مسلم رہنما حیرت انگیز طریقہ پر خاموش رہے اور دوسروں نے اپنی قوم کے لئے ریزرویشن لے لیا۔ آج نعرہ دیا جارہا ہے کہ جمہوری ملک میں مذہب کے نام پر ریزرویشن کا کوئی جواز نہیں۔ یہی آواز ریزرویزن طے ہونے کے وقت ہمارے رہنمائوں کو اٹھانا چاہئے تھا۔ اگر مذہب کی بنیاد پر ریزرویشن نہیں تو پھر ہندو دھوبی ایس سی اور مسلم دھوبی او بی سی، نٹ ہندو ہیں تو ایس ٹی اور مسلم ہیں تو او بی سی، یہی حال مہتر، بہیلیا، مداری وغیرہ کا بھی ہے۔ کھٹک ایس سی کنجڑا او بی سی، ہندوئوں میں مزدوری کرنے والی قومیں ایس سی ہیں تو مسلمانوں میں مزدوری کرنے والی انصاری قوم او بی سی میں ہے۔ یعنی ہندوئوں میں تو درجنوں برادریاں ایس سی اور ایس ٹی میں ہیں لیکن مسلمانوں میں ایک بھی نہیں۔ گری یا گوسائیں برہمن ہیں لیکن صرف غربت کی بنیاد پر انھیں اوبی سی میں رکھا گیا ہے لیکن مسلمانوں میں شیخ جو عام طور پر کم کھیتی باڑی والے اور غریب ہوتے ہیں وہ صرف برادری کے نام پر اعلیٰ طبقہ میں ہیں۔ یہ ہمارے ان رہنمائوں کی غلطی کا نتیجہ ہے جو آزادی کے وقت کانگریس کے ہمراہی اور معاون تھے۔ بہار کے وزیر اعلیٰ فخر ملت عبدالغفور انصاری نے انصاریوںکو ایس طبقہ میں رکھنا چاہا تا تو ان کی خود مسلمانوں نے مخالفت اور مذمت کی۔ اگر صرف سیاست دانوں نے ہی مسلمانوں کا نقصان کیا ہوتا تو کچھ غنیمت ہوتی لیکن مسلم معاشرہ میں صاحب اختیار نے بھی کچھ کم نہیں کیا ہے۔ کچھ جان بوجھ کر تو کچھ ان جانے میں ہی لیکن بہر حال نقصان کیا ہے۔اس میں کوئی شک نہیں مسلمانوں جیسی صلاحیت کسی اور قوم میں ممکن نہیں ان کے پاس ذہن، وفاداری، محنت، قربانی وغیرہ سب کچھ تھا لیکن اس کا استعمال یا تو کیا نہیں یا غلط جگہ کیا۔ اس ملک میں محض 5 فیصد برہمن پورے ملک کو چلا رہے ہیں لیکن 14فیصد مسلمان ذہین ہو کر بھی کچھ نہیں کر پائے کیوں کہ انھوں نے ایک طرح سے برہمن کے سامنے گھٹنے ٹیک دیئے۔ تحریک آزادی میں انڈین نیشنل کانگریس کو تقویت مسلمانوں نے پہونچائی لیکن جب آزادی ملی تو سب سے زیادہ یہی ٹھگے بھی گئے۔ 

    مسلمانوں میں اتحاد اور خود اعتماد کی کمی بھی بہت بڑی وجہ ہے سکھوں کو مثال بنا کر بہ آسانی سمجھا سکتا ہے جو صرف 1.72 فیصد ہیںلیکن ہر جگہ ان کی پہچان ہے۔ مسلمان قریب 14% ہیں لیکن فورس کی نوکری میں ان کو داڑگی رکھنے کی اجازت نہیں لیکن سکھ کم ہوتے ہوئے بھی حکومت کو مجبور کر سکے کہ ان کے لوگ فورس میں بھی داڑھی اور کڑا استعمال کریں گے۔سکھ ہمارے لئے عبرت ہیں اتنی کم تعداد میں ہوتے ہوئے بھی آسودہ ہیں نہ تو مزدوری کرتے ملیں گے اور نہ ہی بھیک مانگتے کیوں کہ ان کی ایک مضبوط تنظیم ہے جو اپنے قوم کے لوگوں کا ہر طرح کا تعاون کرتی ہے پونجی نہ ہونے پر کاروبار کے لئے قرض حسنہ دیتے ہیں اور بار بار کاروبار فیل ہو جانے پر بھی مزدوری کرنے یا بھیک مانگنے نہیں دیتے بلکہ ان کو گرودوارے میں رکھ لیتے ہیں جو گرودوارے کے کام کاج دیکھتے ہیں اور بدلے میں ان کے نان نفقہ کا معقول انتظام ہوتا ہے۔ اس کے بر عکس مسلمانوں میں زکوٰۃ جیسی نعمت کے ہوتے ہوئے بھی مزدوری کرنے والوں میں سب سے زیادہ تناسب مسلمانوں کا ہوتا ہے اور بھیک مانگنے والوں میں تو مسلمانوں کی اکثریت ہے۔ کسی طرح کی تنظیم قائم کرنا اور چلانا تو دور ہے اگرصرف زکوٰۃ ہی پوری اور مناسب طریقہ پر ادا کی جاتی تو نہ کوئی غریب ہوتا نہ بھکاری۔ لیکن ہمارے یہاں سرمایہ دار مکمل زکوٰۃ نہیں نکالتے اور جو نکالتے بھی ہیں تو اس سے کسی کی غربت کم کرنے کے بجائے بھکاریوں کی تعداد میں اضافہ کرتے ہیں۔ زکوٰۃ ضرورت مندوں کو دنیا واجب ہے اور ادا کرنے والے دیتے بھی ہیں لیکن بھیڑ کو لائن لگا کر بانٹتے ہیں۔ مثال کے طور پر کسی کو دس ہزار روپیہ زکوٰۃ ادا کرنی ہے تو وہ دس ہزار نکال تو لیتے ہیں لیکن تھوڑا تھوڑا کر کے سیکڑوں کو بانٹتے ہیں۔ اس طرح ایک ضرورت مند سیکڑوں جگہ جاتا ہے اس کی ضرورت پوری ہو کہ نہ ہو لیکن اس کے اندر سے حیا نکل جاتی ہے اور بھیک مانگنے کا عادی ہو جاتا ہے۔ وہی اگر دس ہزار روپیہ سے کسی ایک ضرورت مند کو کوئی چھوٹا سا روزگار کرا دیا جائے تو اگلے سال کم سے کم وہ مانگنے والوں میں نہیں ہوگا۔ ایک شہر میں کروڑوں روپئے زکوٰۃ نکلتی ہے اگر ایک کروڑ روپئے سے پچاس لوگوں کو روزگار کرا دیا جائے تو تو ایک سال کے بعد جب پھر زکوٰۃ ادا کرنے کا وقت آئے گا تو وہی پچاس لوگ زکوٰۃ مانگنے والوں میں نہیں بلکہ زکوٰۃ دینے والوں میں ہونگے۔ اگر اس طرح زکوٰۃ ادا کی گئی ہوتی تو اب تک زکوٰۃ لینے والے ڈھونڈنے سے نہیں ملتے۔ یہی حال تعلیم کا بھی ہے مدارس تو تقریباً ہر گائوں، قصبہ اور شہر میں کئی کئی قائم ہیں جن کا ہمارے معاشرہ میں اہم رول تھا۔ انھیں مدارس سے دین کے داعی اور رہنما عالم پیدا ہوتے تھے ساتھ ہی مدارس سے ابتدائی تعلیم حاصل کرنے والے ملک میں اعلیٰ عہدوں پر پہونچے تو کامیاب ڈاکٹر بھی بنے۔ ایسا اس وقت ہوتا تھا جب مدارس کو چلانے والوں میں خلوص اور خدمت کا جذبہ ہوتا تھالیکن آج مدارس کی حالت پہلے جیسی نہیں رہی آج کے دور میں وہی والدین اپنے بچوں کو بھیجتے ہیںجن کا کوئی مقصد نہیں ہوتا یاجو غریب ہوتے ہیں اور اسکولوںکے اخراجات برداشت نہیں کر سکتے۔ اس کی واحد وجہ ہے کہ مدارس کی تعلیم کا معیار پہلے جیسا نہیں رہا کیوں کہ منتظمین کے اندر سے خدمت کا جذبہ نکل چکا ہے اور ذاتی مفاد اہم ہو گیا ہے۔ اساتذہ کی تقرری میں صلاحیت کو کوئی اہمیت نہیں وہی لوگ مدرس ہوسکتے ہیں جن کا کوئی قریبی رشتہ دار مدرسہ کی منتظمہ کمیٹی میں ہو یا چندہ میں موٹی رقم دیتا ہو۔ عصری تعلیمی ادارے قاء کرنے میں مسلمان کافی پیچھے ہیں اس لئے عصری تعلیم حاصل کرنے کے لئے ہمارے نونہال اغیار کے اداروں میں مجبوراً جاتے ہیں۔ کئی بار ان ادداروں میں ہماری تہذیب بھی متاثر ہوتی ہے ادارے کے ذمہ داران زبردستی اپنی تہذیب تھوپنا چاہتے ہیں۔ کہیں لڑکیوں کو نقاب لگا کر کلاس میں بیٹھنے کی اجازت نہیں تو کہیں داڑھی رکھنے کی وجہ سے داخلہ نہیں مل پاتا۔ آج کل مسلمانوں کا سب سے بڑا نقصان مسلکی اختلاف کی وجہ سے ہو رہا ہے۔ پوری دنیا مسلمانوں کو دہشت گرد ثابت کرنے پر تلی ہوئی ہے تو خود مسلمان صرف باہمی اختلاف کی وجہ سے دوسرے فرقہ کے لوگوں پر دہشت گردی کا الزام دینے لگے ہیں۔ مختصراً یہ کہ حکومتوں نے تو مسلمانوں کا نقصان کیا ہی ہے خود مسلمان بھی پیچھے نہیں ہیں۔

***********************

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 913