donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Islamic Articles -->> Islamiyat
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : abrar ahmed
Title :
   Mere Allah Jee

Abrar Ahmad


میرے اللہ جی

 

جب میں اپنے اللہ جی کی مرضی سے دنیا میں وارد ہوا‘ تو ماں کی گود ہی میری کل کائنات تھی۔ نرم‘ گرم اور سرد موسموں کا اِسی گود میں مجھ سے پالا پڑا۔ میں اِس میں ہر طرح سے محفوظ و مامون تھا۔ پھر میرے اللہ جی نے مجھے پاؤں پاؤں چلنا سکھایا‘ تو میری دنیا وسیع ہو گئی۔ میں اِس میں کلکاریاں مارتا دوڑنے پھرنے لگا۔ میرے ماں باپ نے سب سے پہلے مجھے جس لفظ سے آشنا کرایا وہ ”اللہ“ تھا۔ پھر اُس میں ”لااِلہ“ کا اضافہ ہو گیا اور میں تھوڑے ہی عرصے میں پورا کلمہ طیبہ پڑھنے لگا‘ تو میری دنیا مزید پھیل گئی۔ اب میری دنیا کا محور ایک چھوٹا سا گھروندہ تھا۔ ماں باپ‘ بہن بھائی سب مجھ سے پیار کرتے۔ اِس سے زیادہ خوبصورت دنیا کیا ہو گی؟ لیکن میرے پیارے اللہ جی کو مجھے بہت کچھ دکھانا مقصود تھا جو دو چار برس پلک جھپکتے ہی گزر گئے۔ میں ماں کی چھاتی کا دودھ چھوڑ کر پیارے اللہ جی کی پیدا کردہ دوسری نعمتوں سے سیر ہونے لگا۔ اللہ جی نے میری خواہشیں ہر دم پوری کیں۔ جب میں نے شیرِمادرسے منہ موڑا اور اُن نعمتوں سے لطف اندوز ہونا چاہا جنھیں میں کھانے اور چبانے کی استطاعت ہی نہیں رکھتا تھا‘ تو اللہ جی نے میرے منہ میں سفید موتیوں جیسے دانت اُگا دیے جن سے میرے طعام کا مزہ دوبالا ہو گیا۔ میں نے جو چاہا جیسا چاہا اللہ جی نے ویسا ہی سلوک مجھ سے روا رکھا۔ گھر سے باہر بھی ایک دنیا تھی جو میں نے اپنے والد کی گود میں بیٹھے بیٹھے دیکھی۔ پھر وقت کو جیسے پر لگ گئے۔جن چیزوں تک رسائی میں‘ میں دوسروں کا محتاج تھا‘ دیکھتے ہی دیکھتے وہ میری دسترس میں آگئیں۔ بچپن‘ لڑکپن‘ جوانی یہ سارے مرحلے پلک جھپکتے ہی گزر گئے۔ قبول چہرہ ایک عدد بیگم اور چار پیارے پیارے بچے بھی اللہ جی نے مجھے عطا کیے۔ یوں میرے پیارے اللہ جی نے مجھے چھوٹی سی رعایا کا حاکم بنا دیا۔ اب بڑھاپے کی آمد آمد ہے اور میں تندرستی کے ساتھ اس کی جانب بڑھ رہا ہوں۔ یہ بھی

میرے اللہ جی کا مجھ پر خاص کرم ہے۔ یہ ساری عنایات اللہ جی نے مجھ ناچیز پر کیں اور خوب کیں۔
اللہ جی آپ کے سوا دلوں کا حال کوئی نہیں جانتا۔ آپ تو میری شہ رگ سے بھی قریب ہیں۔ آپ کے بے شمار احسانات کے باوجود اِس دور کی جدت اور ترقی مجھے دنیا ہی کی دلدادہ بنا رہی ہے۔ یہ چکاچوند مجھے اس قدر مقدم ہے کہ قدم قدم پر آپ کی نافرمانی کا مرتکب ہو جاتا ہوں۔ یہ جانتے ہوئے بھی کہ یہ آپ کی ناراضی کا باعث ہے۔ اللہ جی مجھے اپنے سارے گناہ یاد ہیں اور نیکی یا بھلائی کب اور کہاں کی یا ہوئی یاد نہیں۔ آپ کا دین اسلام ہمیں گھر بیٹھے بٹھائے ہی مل گیا۔ شاید یہی وجہ ہے کہ میں اِس کی قدر و منزلت سے واقف نہیں اور گھر کی مرغی دال برابر والا معاملہ بنا رکھا ہے۔ یہ آپ کے محبوبؐ کی دعا اور آپ کا کرم ہی تو ہے کہ میری برائیاں میرے چہرے سے عیاں نہیں ہوتیں اور نیکی کا کوئی بھی چھوٹے سے چھوٹا کام کر لوں اُس کے چرچے زبانِ زدعام ہو جاتے ہیں۔ یہ بھی آپ کا فضل ہے جو دن میں دو بار آپ کے گھر حاضر ہو جاؤں‘ تو میری پیشانی پر محراب کی صورت نورانیت جھلکنے لگتی ہے۔ورنہ ہم سے پہلی اقوام کا حال کسی سے پوشیدہ نہیں۔ پیارے اللہ جی آپ تو ذرا سی نافرمانی یا حکم عدولی کے بدلے نیست و نابود کرنے اور شکلیں بگاڑ دینے پر قادر ہیں۔

اللہ جی میں دانستہ آپ کی قہاری سے آنکھیں چراتا ہوں اور بغیر زادِ راہ کے آپ کی رحمت اور کرم کا طلب گار بھی ہوں۔ مالک دو جہاں میری اِس اُمید کا بھرم رکھنا میں دل و جان سے آپ کی راہ پر چلنا چاہتا ہوں مگر ماحول اور نفس اِس راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہیں۔ آپ تو دلوں کو پھیردینے پر قادر ہیں۔

اے مالک ارض و سما آپ اپنے بندے سے ستر ماؤں سے زیادہ پیار کرتے ہیں اور ایک ماں کا بیٹا کتنا بھی نافرمان ہو جائے وہ کسی صورت گوارا نہیں کرتی کہ اُس پر کوئی آنچ آئے۔ آپ کے محبوب آقائے دو جہاں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے دور کا وہ واقعہ مجھے یاد ہے۔ جب ایک ماں کا نافرمان بیٹا جانکنی کے عالم میں تھا اور کسی طور اُس کی روح قفس عنصری سے پرواز نہیں کر رہی تھی۔ جب یہ خبر نبی کریم شفیق مجسمؐ تک پہنچی‘ تو آقائے نامدار محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم نے اُس نافرمان کی ماں کو طلب فرمایا کہ وہ اپنے بیٹے کو معاف کر دے۔ جب وہ نہ مانی‘ تو حضور اقدسؐ نے صحابہؓ سے ارشاد فرمایا کہ ڈھیر ساری لکڑیاں اکٹھی کرو اور اُنھیں جلا کر اِس شخص کو اُس میں ڈال دو تاکہ اُسے اِس اذیت سے نجات دلائی جا سکے۔ یہ سن کر اُس کی ماں نے اُسی وقت اپنے نافرمان بیٹے کو معاف کر دیا اور اُس کی روح پرواز کر گئی۔ مالک کائنات مجھے بھی یقین ہے کہ آپ مجھ عاصی کو جہنم کا ایندھن نہیں بنائیں گے۔

میں اسی پیار پر مان کر کے آپ کی وعید بھول کر نافرمانی کا مرتکب ہو جاتا ہوں بلکہ دل کے کسی نہاں خانے میں اُنھیں ماننے ہی سے انکاری ہو جاتا ہوں کہ یہ ممکن ہی نہیں جو ستر ماؤں سے زیاد پیار کرے وہ اپنے بندے پر کوئی آنچ آنے دے۔

جب کبھی کوئی مشکل یا آزمائش آ پڑی میں نے اپنے اللہ جی کو نہایت مہربان اور شفیق پایا اور اِس حقیقت کا بھی ادراک ہوا کہ آپ اپنے بندے کی استطاعت سے زیادہ اُس پر بوجھ نہیں ڈالتے اور نہ ہی رنج و الم سے دوچار کرتے ہیں۔ آپ کے ہر کام میں کوئی نہ کوئی حکمت پوشیدہ ہوتی ہے جو انسانی سوچ سے بالا ہے۔

میں نے بارہا کوشش کی کہ اپنے اندر آپ کی اور آپ کے پیارے محبوبؐ کی صفات پیدا کر سکوں مگر ہر بار میں کہیں نہ کہیں سے کمزور پڑ جاتا ہوں۔ آپ کے محبوبؐ کا اخلاق اور آپ کی صفات اپنے اندر جاگزیں کرنا مجھ جیسے عاصی کے بس میں نہیں۔اِس کے باوجود میری کوشش اور نیت ہے اور یہ بات بھی سچ ہے کہ عاصی آپ اور آپ کے محبوبؐ کی خاطر اپنی جان کا نذرانہ پیش کر سکتا ہے۔

اللہ جی میں نے گزشتہ رمضان المبارک کے آخری عشرے میں اپنے محلے کے ایک شخص کے دگرگوں حالات دیکھ کر آپ کی عطا کردہ دولت سے کچھ رقم اُس شخص کو دی کہ اِن پیسوں سے اپنی دکان میں کچھ سودا سلف ڈال لو۔ عید آنے والی ہے اور اِس سودے سے تمہاری کچھ مالی اعانت ہو جائے گی اور ساتھ ہی یہ تاکید بھی کی کہ عید کے فوراً بعد میری رقم لوٹا دینا۔ اُس نے رقم جیب میں ڈالتے ہوئے ہامی بھر لی۔ ایسا کرنے سے مجھے جو تسکین ہوئی میں بتانے سے قاصر ہوں۔

اُس شخص نے دکان میں کوئی سامان نہ ڈالا‘ تو مجھے دکھ ہوا کہ اُس نے میرے تعاون سے فائدہ نہیں اُٹھایا۔ پھر یہ سوچ کر چپ رہا کہ ہو سکتا ہے اُن پیسوں سے اُس نے گھریلو ضروریات پوری کر لی ہوں۔ خیر عید گزر گئی اور وعدے کے مطابق میری رقم ادا نہ ہوئی۔ اللہ جی کی شان کہ مجھے بھی اُن پیسوں کی ضرورت نہ پڑی۔ چند ہی ماہ گزرے تھے کہ خوامخواہ مجھے اپنی رقم کی فکر ہونے لگی کیونکہ موصوف سے قریباً روز ہی علیک سلیک ہوتی‘ تو وہ رقم کا ذکر ہی نہ کرتا اور نہ ہی کوئی عذر پیش کرتاجس سے میرے دل میں وسوسے پیدا ہوتے جو کہ فطری امر تھا۔ پھر بھی میں نے صرف اپنے پیارے اللہ جی اور آپ کے پیارے محبوبؐ کی خوشنودی کے لیے اُسے کچھ نہ کہا اور صبر اور تحمل سے انتظار کرتا رہا۔ وعدہ ایک ہفتے کا تھا‘ مگر بارہ ماہ سے زیادہ عرصہ گزر گیا۔ اِس عرصے میں ایسا نہیں ہے کہ میں اُس شخص کو یا اپنی رقم کو بھولا ہوں۔ یہ تو میرے پیارے اللہ جی آپ کی شان ہے جو آپ دیتے ہیں اور دیتے ہی چلے جاتے ہیں اور اُس کا تقاضا بھی نہیں کرتے……

آخر میں نے کسی کے توسط سے اُس شخص سے اپنی رقم کی واپسی کا مطالبہ کروایا‘ تو وہ میری رقم کا نصف حصہ لے کر آیا اور شکریے کے ساتھ مجھے لوٹا دی۔ میں نے اُسے کہا کہ کم از کم تمھیں مجھے مطلع کرنا چاہیے تھا کہ قرض لوٹانے میں مسئلہ کیا ہے؟ اور یہ بھی کہ اگر ضرورت ہے تو یہ رقم ابھی رکھ لو جب آسانی ہو لوٹا دینا‘ مگر وہ نہ مانا۔ میں نے بقیہ رقم کے بارے پوچھا کہ وہ کب دو گے‘ تو اُس نے جلد لوٹانے کا پھر وعدہ کر لیا…… مگر آج تک وہ رقم نہیں لوٹا پایا۔ لطف اور حیرت کی بات یہ ہے کہ وہ جب بھی مجھے نظر آ جائے مجھے اپنی رقم یاد آ جاتی ہے۔ لیکن اللہ جی کی طرف سے میری زبان گنگ ہو جاتی ہے کہ یہ میرے آقا حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ قرض دار کو مہلت دو۔ اگر استطاعت رکھتے ہو تو قرض معاف کر دویہ تمہارے لیے بہتر اجرعظیم ہے۔ اللہ جی میں بھی آپ کے اُن بندوں کی صف میں شامل ہونا چاہتا ہوں جو آپ کی رضا کے لیے مال و متاع کو ہاتھ کی میل سمجھتے ہیں۔

اللہ جی میرے محسوسات میں یہ بھی شامل ہے کہ اِس دور میں آپ کے پسندیدہ دین اسلام پر چلنا نہایت دشوار ہے…… ہر کوئی دولت ہی کو اپنے لیے راہ نجات سمجھتا ہے۔ حلال و حرام کی پروا کیے بغیر ”جانوروں“ کی طرح ”جنگل“ میں دوڑا پھرتا ہے۔ اللہ جی مجھے کبھی کبھی یوں بھی محسوس ہوتا ہے کہ آپ نے

اپنی ناراضی اور خوشنودی کی راہیں دکھا کر ہماری لگامیں ڈھیلی چھوڑ رکھی ہیں۔ اللہ جی ہمیں اِس حال میں نہ چھوڑیں بلکہ سارے معاملات میں شامل حال رہیں۔

پیارے اللہ جی میں جانتا ہوں آپ سے جیسا گمان رکھو آپ رحمن و کریم ہیں۔اپنے بندے سے ویسا ہی سلوک فرماتے ہیں۔ یہ کیسی پیاری بات ہے جس میں انتہائی درجے کا رحم‘ کرم‘ پیار‘ شفقت اور صلہ رحمی موجزن ہے۔ پیارے اللہ جی آپ سے زیادہ پیار کرنے والی ہستی ہے ہی نہیں۔ یہ کرم کیا کم ہے کہ آپ نے مجھے اشرف المخلوق پیدا کیا۔ کچھ معاملات میں اللہ جی آپ نے انسان کو خودمختار بنایا اور بعض معاملات اپنی ہی دسترس میں رکھے۔ جیسے رزق‘ عمر‘ موت‘ پیدائش اور شکل و صورت کا معاملہ۔ آپ پتھر میں موجود کیڑے کو بھی رزق دیتے ہیں۔ کس نے کب دنیا میں آنا اور کب جانا ہے اور اُس کا رزق کتنا متعین ہے کوئی نہیں جانتا سوائے میرے اللہ جی آپ کے……

مجھے اپنے گناہوں کی وجہ سے اللہ جی سے ندامت اور شرمندگی کا احساس بے چین رکھتا ہے۔ اللہ جی روزانہ آپ کے گھر سے پانچ بار یہ صدا آتی ہے ”آؤ فلاح کی طرف“ اور اِس حکم کی تعمیل میں کبھی بے پروائی‘ کبھی نیند‘ کبھی تھکاوٹ‘ کبھی سستی اور کبھی اپنے ہی تراشیدہ کئی عذر حائل ہو جاتے ہیں۔ آپ کی دی ہوئی جان کو سرد موسم میں ٹھنڈے پانی سے وضو کرنا پہاڑ نظر آتا ہے۔ جب کبھی میں ”بوجھل“ قدموں سے آپ کے رُوبرو کھڑا ہو بھی جاؤں‘ تو دنیا کی طلب ہی ذہن کا احاطہ کیے ہوتی ہے۔ اللہ جی یہ کبھی بھولے سے بھی خیال نہیں آیا کہ میں آپ سے ہم کلام ہوں۔ یہ فانی دنیا چھوڑ جانا ایسے محو ہو جاتا ہے جیسے یہی عالم بالا ہے۔ دل و دماغ پر دنیاوی کام کاج ہی مسلط ہوتے ہیں اور آپ ہی کے دیے ہوئے وقت میں سے آپ کے لیے چند گھڑیاں نکالنا ایسے ہے جیسے نعوذباللہ آپ پر احسان کر رہا ہوں۔ یہ آپ کی کرم نوازی ہے جو مسجد سے باہر آتے ہوئے لوگ مجھے عزت و احترام کی نگاہ سے دیکھتے اور آپ کی نسبت سے پکارتے ہیں۔ اللہ جی آپ تو سب جانتے ہیں اور ہر چیز پر قادر ہیں۔ مجھ میں گناہوں سے بچنے کی ہمت نہیں ہے۔ ذرا سا ماحول یا موقع مل جائے‘ تو بندہ آپ کے روبرو کھڑا ہونے کے قابل نہیں رہتا۔ اللہ جی میرے دل کی سیاہی بھی دور فرما دیجیے۔ میں کبھی بھی آپ کی رحمت سے مایوس نہیں ہوا۔

اللہ جی میں نے آپ کے متعلق زیادہ سوچا ہی نہیں بس میں اتنا جانتا ہوں کہ آپ مالک دو جہاں نہایت مہربان اور رحم کرنے والے ہیں اور روز ِ محشرآپ کے روبرو پیش ہونا اور دنیا میں کیے گئے اعمال کا حساب دینا ہے۔ آپ جزا و سزا کے مالک ہیں۔ اپنے گریبان میں جھانکوں تو سوائے نافرمانیوں اور حکم عدولیوں کے کچھ نظر نہیں آتا۔ اِس کے باوجود مجھ پر آپ کی رحمتیں اور احسانات بے شمار ہیں جن کا کسی صورت شکر ادا کیا ہی نہیں جا سکتا۔

اللہ جی! آپ تو معاف کرنے والے ہیں اور معافی کو پسندکرتے ہیں۔ مجھے اور میرے والدین کو بھی معاف فرما دیں۔ مجھے جب تک زندہ رکھیں اسلام پر رکھیں اور موت دیں‘ تو میرا خاتمہ ایمان پر کریں۔ میرے اللہ جی اس دعا کو پوری اُمت مسلمہ کے حق میں قبول فرمائیں۔ (آمین)


سچ تو یہ ہے یامقلب القلوب    ؎
جان دی‘ دی ہوئی اُسی کی تھی
حق تو یہ ہے کہ حق ادا نہ ہوا

***************************

Comments


Login

You are Visitor Number : 705