donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Islamic Articles -->> Islamiyat
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Azeez Belgaumi
Title :
   Kya Hamleene Quran Azabe Ilahi Ki Girift Me Hain



کیا حاملینِ قرآن عذابِ اِلٰہی کی گرفت میں ہیں؟


 عزیز بلگامی

 

مسلمانوں کی پس ماندگی، مسلم ممالک کی زبوں حالی اوراِن کی باہمی قتل و غارت گری آج ساری دُنیا میں بحث کا ایک مرغوب موضو ع ہے ۔مختلف مذاہب کے ایک تکثیری معاشرے پر مشتمل ہمارے ملک میں بھی اور دُنیا کے دیگر ممالک میں بھی یہ بات دھڑلے سے کہی جارہی ہے کہ اِسلام ایک ایسا مذہب ہے جو قتل و غارت گری کے سوا کوئی بات نہیں کرتا۔کہا جاتا ہے کہ دیگر اقوام کے افراد کو قتل کرتے رہنا اور یہ نہ ملیں تو خود اپنی ہی قوم کے افرادکو موت کے گھاٹ اُتار دینا اِن کی سرشت میں داخل ہے۔یہ خیال بھی اب جڑ پکڑ رہا ہے کہ جب تک اِس دُنیا میں اِسلام، مسلمان اور اِن کی مذہبی کتاب دُنیا میں باقی رہے گی ،تب تک دُنیا امن و چین کی زندگی بسر نہیں کر پائے گی۔

مسلمانوں کی باہمی لڑائیوںسے دل برداشتہ نئی نسل سے تعلق رکھنے والا مسلم نوجوان مضطرب ہو اُٹھتا ہے اور وہ ایک نرم لہجے میں،نہایت احتیاط کے ساتھ اپنے کرب کا اِظہار کرتا ہے، تواِس کے اضطراب و کرب کو احسن طریقے سے دُور کرنے کے بجائے، اِس کے اضطراب ہی کو اغیار کی سازش قرار دیتے ہوئے ، معاملے کو سلجھانے کے بجائے اس سے پہلو تہی کی جاتی ہے۔مثلاً ، نسلِ نو کا کوئی نوجوان، ایک دین دار مسلمان کو تکبیر بلند کرتے ہوئے اپنے ہی مسلمان بھائی کے ذبح کامنظر ایک تصویر کے ذریعہ’’ انٹرنیٹ‘‘ یا’’ واٹس اپ‘‘ پرپیش کرتا ہے اورایک نرالے ڈھنگ سے اپنے کرب کا اِظہارکرتا ہے تو،اِسے بھی اِس دور کے سرکردہ مسلم لیڈران اغیار کی سازش قرار دیتے ہیںاور نوجوانوں کے کرب کوبے قیمت بنا کر رکھ دیتے ہیں۔اپنے گناہوں کا ٹھیکرا دوسروں کے سر پرپھوڑنے کا سلسلہ کوئی نیا نہیں ہے بلکہ گزشتہ تین چار دہائیوں سے یہ سلسلہ جاری ہے۔ اس پورے دورانیہ میں ہماری مسلم صحافت،ہمارے علماء اورہمارے سیاسی و نیم سیاسی لیڈران یہی تھیوری پیش کررہے ہیں کہ یہ سب اسلام دشمن ممالک کی کارستانی ہے جو بڑی بڑی رقمیں خرچ کرکے مسلمان نوجوانوں سے یہ حرکتیں کروارہے ہیں،اور یہ کہ یہ محض اکا دکا واقعات ہیں جسے سوشل میڈیااور اسلام دشمن تحریکیں زور و شور سے اچھالتی ہیں اور ہمارے نوجوانوں کو ورغلاتی ہیں،کوئی کسی کو ذبح نہیں کر رہا ہے،نیزاُن کا خیال ہے کہ مسلم معاشرے میں اس طرح کے کوئی واقعات رونما ہو ہی نہیںرہے ہیں، وغیرہ وغیرہ۔

سوال یہ ہے کہ انسانوں کو ذبح کرنے کی یہ تصویریں کیا جعلی ہیں؟کیا پاکستان ، عراق،غازہ اور شام وغیرہ میں وقوع پذیر ہونے والے برادر کشی یا قتلِ اِنسانی کے تمام تر واقعات کیا جعلی قرار دیے جائیں گے؟کیا مسلمانوں میں بدترین قسم کی فرقہ بندی موجود نہیں ہے؟ مسلمانوں کے مختلف مکاتبِ فکر کا مذہبی لٹریچر، جو اپنے ہی برسرِ حق ہونے کی وکالت کرتے ہوئے، ہر دوسرے مکتبِ فکر کو کفر کے دائرے میں دھکیلتا رہتاہے،کیا اِس فرقہ بندی کا ذمّہ دار نہیں؟کیا ہماری باہمی منافرت کو امریکہ، افریقہ، ہندو اور یہودی سازشوں کے سر ڈال دینا صحیح ہے؟ پھر یہ کہ مسلمانوں کی پوری تاریخ ایسی ہی قتل و غارت گری سے کیوں عبارت ہے؟کیا ہمارے مختلف مکتب ہائے فکر کے تمام کے تمام اسکالرس نے تھوڑی سی قیمت کے عوض اپنے ایمان کا سودا کر دیا ہے،کہ کہیں سے بھی کوئی آواز، تحریر و تقریریا تحریک و تنظیم کی شکل میں سامنے نہیں آتی ؟ ایسی کیا خطایااجتماعی جُرم مسلم قوم سے سرزد ہو گیا ہے کہ ، اللہ کی بارگاہ میں اِس کے ’’مقدّس ترین ‘‘ لوگوں کی دُعائیں تک قبول نہیں ہوتیں، چاہے وہ صحنِ کعبہ میں کیوں نہ کی جا رہی ہوں؟
 اِن سوالات کے بارے میں کہیں کوئی سنجیدگی بھی پائی جاتی ہے؟کیا کسی کے پاس اِن کے جوابات بھی موجود ہیں؟اِس سلسلے ہماری ناقص عقل یہ کہتی ہے، اور تجربہ بھی اِس کی تائید کرتا ہے کہ، جو دین مسلم گھرانوں کی تعلیم یافتہ نئی نسل کو پیش کیا جارہا ہے، وہاں اختلافِ رائے کو برداشت کرنے کا کوئی مزاج ہی نہیں پایا جاتا۔کسی کو منہ کھولنے کا یارا نہیں ۔کسی اختلافی رائے کو پیش کرنے یا قبول کرنے کی کوئی گنجائش نہیں پائی جاتی۔لیکن مواصلاتی ترقیوں نے دُنیا کو ایک ایسے مقام پر پہنچا دیا ہے اور سوشل میڈیا کے ذریعہ اقوال، تحاریر وتصاویر کی سرعت کے ساتھ ترسیل کا جو احوال اس وقت پایا جاتا ہے، اِس کے پیشِ نظر کسی واقعہ کواب چھپانا یا اِس کی غلط ترجمانی کرنا اب کسی کے بس کی بات نہیں۔کون کس کو مار رہا ہے، کیوں مار رہا ہے، کس کی ایما ء پر مار رہا ہے، یہ ہرکس وناکس کے پاس اعداد و شمار کی پوری تفصیل کے ساتھ پہنچ جاتا ہے۔اِس لیے نئی نسل جو سوالات اُٹھا رہی ہے اُن کا انکار کسی کے بس کی بات نہیں، اور اِن کے جواب میں سازشوں کی تھیوریز کی جو باتیں ہمارے صحافی، ہمارے اخبارات، ہمارے اسکالرس، ہمارے سیاسی و نیم سیاسی رہنماء کر رہے ہیں، اِن کا ہضم کیا جانا مطلق نا ممکن بن گیا ہے، اِس لیے کے ہر منظر قوم کے سامنے ہے، بلکہ ساری دُنیا دیکھ رہی ہے کہ کون کیا کر رہا ہے، اور کس کی مصروفیات کیا ہیں؟

اب صرف دو سوالات حل طلب باقی رہ جاتے ہیں: اولاً ، یہ کہ یہ فرقہ وارانہ نفرت، کشت وخون کی کہانی کتنی پرانی ہے اور قتل و غارت گری کا یہ سلسلہ کب سے جاری ہے؟ ثانیاً، یہ کہ کیا اس طرح کا دور مسلمانوں پراس سے پہلے بھی کبھی گذر چکا ہے؟اِنشاء اللہ اِن دو سوالات کے جوابات آئندہ پیریگراف میں ہم پیش کریں گے، مگرجو سخت و سست سوالات ہم نے اوپر اُٹھائے ہیں، یہ بہرحال مسلم ذہنوں میں آج پوری قوّت کے ساتھ گونج رہے ہیں،جن کا اِنکار مشکل ہے۔منبر و محراب کے امانت داروں پر انگلیاں بہر حال اٹھ رہی ہیںکہ یہ پونے دو سو کروڑ مسلمانوں کی رہنمائی سے قاصر ہی نہیں ،بے زار بھی ہیں۔موجودہ خلفشار کے دور میںمسلم ممالک کی سیاست بھی دنیا پر کھلنے لگی ہے۔ حیرت ہوتی ہے کہ مسلم میڈیامیں اِس کا ذکر بہت کم دیکھنے کو ملتا ہے۔ حالانکہ عوام میں یہ موضوع برابر زیرِ بحث ہے۔ موجودہ خلفشار کی بیچ مسلم ممالک کی مجرمانہ خاموشی کے بارے میں مسلم میڈیا خاموش ہے۔شام، مصر، لیبیا، ایران، سوڈان،نائجیریا وغیرہ پر مسلم ممالک کی فرقہ واریت اور پس پردہ دخل اندازی پرمسلم میڈیاکا بلیک آؤٹ یقینا تعجب خیز ہے۔اب آئیے مذکورہ بالا دو سوالات کی طرف۔ اِن کے جوابات کو گہرائی کے ساتھ سمجھنے کے لیے مندرجہ ذیل گفتگو ضروری ہے :

۱)… ہمیں معلوم ہے کہ،قرآن شریف کے نزو ل کے وقت دُنیا میں دو اہل کتاب طبقات موجود تھے۔ایک تو حاملینِ توراۃ اور دوسرے ، حاملین انجیل۔ اِن دونوں اہلِ کتاب کا نام اللہ نے ’’مسلم‘‘ رکھا تھا۔سورۂ حج (۲۲)میںیہ آیت ملاحظہ ہو:’’…ھوسماکم المسلمین…‘‘(’’…اللہ نے پہلے بھی تمہارا نام مسلم رکھا تھا…‘‘)(۷۸)۔اہل کتاب کی یہ کیٹگری ایک ایسی کیٹگری تھی اورہے ،جن کونوازنے یا سزا دینے کاہر زمانے میں اللہ کا پیمانہ دیگر اقوام کے مقابلے میں بالکل جداگانہ رہا ہے اور آج بھی یہ In operationہے۔یعنی جب بھی اِن کو نوازنے کے حالات پیدا ہو جائیں گے اللہ اِنہیں نوازے گا اور جب بھی اِن کو سزا دینے کے حالات پیدا ہوں گے، اللہ اِن کو سزا دے گا۔بہرکیف، ان دو اہلِ کتاب طبقات کویہ نام پسند نہیں آیا اور انہوں نے اپنا نام ’’یہودی ‘‘اور’’ عیسائی‘‘ رکھ لیا۔
پھراِن کے بعد قرآن شریف کے نزول کا وقت آیا اور جب نزولِ قرآن کا یہ سلسلہ مکمل ہوا تو اِس کے نزول کے بعدگزشتہ دو اہلِ کتاب طبقات کے ساتھ ایک تیسرا اہلِ کتاب گروپ وجود میں آیا جسے ہم ’’مسلمان ‘‘کہتے ہیں،یعنی حاملینِ قرآن شریف۔ ہمارا نام بھی اللہ نے ’’مسلم ‘‘ہی رکھاتھا، لیکن ہمیں بھی یہ نام پسند نہیں آیا۔اور ہم نے بھی یہودیوں اور عیسائیوں کی طرح اپنا نام بدل کر شیعہ مسلم ، سنی مسلم رکھ لیا اوراِن کے بطن سے اور بھی بے شمار طبقے الگ الگ ناموں کے ساتھ پیدا ہوئے ، جیسے دیوبندی مسلمان،بریلوی مسلمان، تبلیغی مسلمان، جماعتی مسلمان اور نہ جانے کیسے کیسے نام لے کر ’’مسلم‘‘ نام والا یہ تیسرا اہلِ کتاب طبقہ بھی مختلف علماء اور مختلف ناموں والی جماعتوں کی قیادت میں بٹ گیا۔


 اہل کتاب کے تعلق سے قرآن شریف میںجتنے بھی وعدے اور وعیدوں کا تذکرہ ہمیں پڑھنے کو ملتا ہے اس کی قرآن میں موجودگی کے دو وجوہات ہیں۔ ایک تو یہ کہ اہلِ کتاب طبقے نے(یعنی توراۃ اور انجیل کو ماننے والوں نے) جہاں جہاں بھی ٹھوکر کھائی اور اللہ کے غضب کے مستحق ہوئے، مسلمان(یعنی موجودہ اہلِ کتاب) ویسی ٹھوکر کبھی نہ کھائیں اور اِن کی ٹھوکروں سے درسِ عبرت حاصل کرکے خبردار ہو جائیں۔ دوسرے یہ کہ اہلِ کتاب طبقے کے ساتھ اللہ کے وعدے جس طرح پورے ہوئے اُسی طرح ،مسلمان(یعنی موجودہ اہلِ کتاب) کے ساتھ بھی پورے ہوں۔ اِس کا مطلب یہ ہوا کہ جن اسباب کی بنا پر توراۃ اور انجیل کو ماننے والوں نے ٹھوکر کھائی اور عذاب کے مستحق بنے، مسلمان بھی اُن ہی اسبا ب کی بنا پر ٹھوکر کھائیں گے، اور اللہ کے غضب کے مستحق بنیں گے۔اِسی طرح توراۃ اور انجیل کے ماننے والوں کے ساتھ، جن اسباب کی بنا پر، اللہ کے وعدے پورے ہوئے ، وہ اسباب اگر مسلمان(یعنی موجودہ اہلِ کتاب)پیدا کرنے کے ذمہ دار بنتے ہیں تو اُن کے ساتھ بھی یہ وعدے پورے ہوںگے۔چاہے یہ وعدے انعامات کے ہوں یا یہ وعیدیں عذابوں اور سزائوں کے لیے ہوں، خطا کارو گنہگار مسلمانوں کے حق میں بھی ضرور پورے ہوں گے، اور ویسا ہی عذاب اُن پر بھی اُترے گاجیسا گزشتہ دو اہل ِکتاب طبقات کے لیے اُتر چکا تھا۔اِن عذابات کی شکلیں کئی ہونگی،جن کا تذکرہ بھی قرآن شریف میںالگ الگ انداز میں آیا ہے۔ شاید آج ہم پر وہ عذاب مسلط ہو گیاہے جس کا تذکرہ سورہ انعام(۶) میں موجود ہے :’’…یلبسکم شیعا و یذیق بعضکم باس بعض…‘‘( ’’…اللہ تمہیں مختلف فرقوں میں بانٹ کر تم کو ایک دوسرے کی مار کھلوائے…‘‘)(۶۵)۔

سوال یہ ہے کہ آخر موجودہ دور کے مسلمانوں میں وہ کیا خرابیاں پیدا ہو گئیں کہ ہمارے ہی بھائی ہمیں ختم کرنے پر تلے ہوئے ہیں اور اللہ کے مذکورہ عذاب کے مسلط ہونے کی تصدیق کر رہے ہیں؟ اِس کا جواب ہمیں قرآن شریف ہی میں ملتا ہے۔اب اِس کی تفصیل ملاحظہ فرمائیں:  


جب ہم قرآن شریف کے مطالعے کا آغاز کرتے ہیں تو اِبتداء میں ہی ہمیں بنی اسرائیل کے تفصیلی واقعات کا ذکر ملتاہے ۔بادی النظر میں تو لگتا ہے کہ ان تذکروں میں جو لعن طعن ہے وہ صرف یہودیوں کے لیے ہے، لیکن ایک معمولی سی عقلِ عام Common Senseرکھنے والا آدمی بھی سمجھ سکتا ہے کہ دراصل یہودیوں کے انجام سے ہمیں اِس لیے باخبر کیا جارہا ہے کہ ہم خبردار ہو جائیں، اور اُن کی سی حرکتوں سے باز آجائیں، جو یہودیوں کی بربادی کا سبب بنے۔قرآن میں اُن سارے بُرے خصائل و اعمال کا تفصیلی ذکر موجود ہے جن کی وجہ سے اِن پرعذاب نازل ہوا۔مثلاًعمل سے پہلے مسئلے پوچھنے کی خصلت،من و سلوی کی جگہ زمین کی ککڑی، پیاز، مسور، گیہوں پر فدا ہونا، ایک دوسرے کا قتل کرنا، ایک دوسرے پر یلغار کرکے بے گھرکردینا، دوسرے چڑھ آئیں تو اتحاد کر لینا،اللہ کی عبادت کے بجائے بچھڑے کی محبت میں گرفتا ر ہونا،دوسروں کو نیکی کرنے کی تلقین کرنا اور خود کو بھول جانا، خوف آخرت کا ختم ہوجانا، اللہ کو فرقہ پرست قرار دینا کہ کوئی چاہے کتنے ہی گناہ کیوں نہ کرلے، چند دن جہنم کی آگ میں جلنے کے بعد اللہ انہیںنکال لے گا،اپنے سوا سب کو جہنمی سمجھنا،اللہ کی کتاب کو چھوڑ کردوسری کتابوں کو پیٹھ پر ڈھونا جیسے کوئی گدھا ڈھوتا ہے، وغیرہ وغیرہ۔اب ذرا اِس دور کے حاملین قرآن کو دیکھیے، جو اپنے اہلِ کتاب ہونے کے دعوے دار ہیں ، کیا مذکورہ بالا خرابیاں پوری کی پوری اِن کے معاشرے میں بدرجہ اتم پیدا نہیں ہو گئی ہیں؟کیا ِاِس پربنی اِسرائیل کی طرح عذاب مسلط نہیں ہوگا جس کے آثار و شواہداب صاف صاف نظر آرہے ہیں؟


 اِتنا ہی نہیں ، بلکہ اللہ نے قرآن کے دیگر مقامات پر مسلمانوں کو بار بار خبردار کیا،کہ بنی اِسرائیل کو سارے جہاں پر فضیلت اور ترجیح عطا کی تھی، پھر انکے عمومی گناہوں کی پاداش میں انہیں دوبار بری طرح ذلیل و خوار کیا۔مثلاً یہ تذکرہ قرآن شریف میں انتہائی مختصر مگرجامع الفاظ میں سورۂ بنی اِسرائیل کے پہلے رُکوع میں موجود ہے۔ توراۃ شریف میں تو اِن دو عذابوں کاتفصیلی تذکرہ ہماری آنکھیں کھول دینے کے لیے کافی ہے۔ہم یہاں دونوںحوالے درج کر رہے ہیں۔

 قابلِ ذکر بات یہ ہے کہ اس میں تین علامتیں بنی اسرائیل کی اور تین علامتیںمسلمانوں کی لے کر دونوں ہی اہلِ کتاب کو Cover کیا گیا ہے۔مثلاً حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کا سفرِ معراج، حرمِ پاک اور قرآن شریف کا تعلق تین آیتوں میں بیان فرماکر بنی اسرائیل، حضرت موسیٰ  ؑ اور ارضِ مقدس کو Corelateکیا گیا ہے۔تاکہ دونوں ہی طبقات کے ساتھ اللہ کی سنت اورTreatmentکا ذکر ہوجائے۔بنی اسرائیل پر یہ دونوں عذاب گزر چکے ہیں،جن کی وارننگ انہیںپہلے ہی دے دی گئی تھی۔

پھر آیت۴ میں بنی اسرائیل کو کی گئی تنبیہ کا ذکرہے جس میں فرمایا گیا کہ’’ تم دوبار زمین میں ادھم مچاؤگے اور ہم دونوں بار تمہیں عبرت ناک سزا دیں گے۔پہلی سزا میں تم پرشدید لڑاکو بندے تمہارے خلاف کھڑے کریں گے ،  جو تمہارے شہروں کوروند ڈالیں گے، اجاڑ ڈالیں گے۔‘‘

اِن مختصر اور جامع تذکروں کی تفصیل ہمیں آج بھی تورات اور انجیل مقدس میں ملتی ہے، جنہیں انٹر نیٹ پر ملاحظہ کیا جاسکتا ہے :

پہلا فساد جس کے سبب اللہ نے بنی اسرائیل پر اپنا غضب نازل کیا،’’ کتابِ زبور‘‘،  ’’یسعیاہ اور حزقی اِیل‘‘ میں تفصیل کے ساتھ موجود ہے اور دوسرے فساد اور اس کی سخت سزا کی پیش گوئیاںحضرت مسیح  ؑ نے کی، جنہیں’’ متی اور لوقا‘‘ کی انجیلوں میں پڑھا جاسکتا ہے۔ ذیل میں ہم ان کتابوں کی متعلقہ عبارتیں نقل کرتے ہیں ۔ہم بنی اسرائیل کی کتابوںسے حوالے ضرور د یں گے، لیکن طوالت سے بچنے کے ساتھ ساتھ اِختصار سے اس کا مضمون بھی سامنے لانے کی کوشش کر یں گے تاکہ پورامنظر ہمارے قارئین کے سامنے آجائے:

 ـ’’… تم آپسی کشت و خون میںاپنے معصوم بیٹوں اور بیٹیوں کا خون بہاؤگے۔ خدا کا قہر تم پر بھڑکے گا اور وہ ظالم قوموں کے قبضے میں تمہیں دیدے گا۔تم سے عداوت رکھنے والے انسانوں کوتم پر حکمراں بنا دیگا… آہ، خطاکار گروہ ، بد کرداری سے لدی ہوئی قوم...... جنہوں نے خدا کواور اُس کے پیغام کو ترک کیا .....، اسرائیل کے قدوس ربِّ کریم سے بغاوت کی ۔اے خطا کارو، تم بغاوت کرتے رہو گے اور یوں ہی غیروں کی مار کھاتے رہو گے۔‘‘ (زبور،باب 106آیات 34-41)(باب1آیات4-5)۔

’’تیرے گناہوں کے سبب تیرے بہادر تہہ تیغ کر دیے جائیں گے ۔ شہروں کے پھاٹک ماتم اور نوحہ کریں گے اور آبادی اجاڑ ہو کر خاک پر بیٹھے گی۔‘‘ (باب 3 آیت 16-26)  ’’ اب دیکھ ، خداونددریائے فرات کے سخت شدید سیلاب، یعنی شاہ اسور اور اس کی ساری شوکت کو تم پر چڑھا لائے گا۔‘‘(باب8 آیت7)  اے اسرائیل کے گھرانے ! دیکھ میں ایک قوم کو دور سے تجھ پر چڑھالائوں گا۔ خدا وند فرماتا ہے وہ زبردست قوم ہے، وہ قدیم قوم ہے، وہ ایسی قوم ہے جس کی زبان تو نہیں جانتا اور ان کی بات کو تو نہیں سمجھتا۔ ان کے ترکش کھلی قبریںہیں، وہ سب بہادر ہیں، وہ تیری فصل کا اناج اور تیری روٹی جو تیرے بیٹوں بیٹیوں کے کھانے کی تھی کھا جائیں گے، تیرے گائے بیل اور تیری بکریوں کو صاف کر جائیں گے، تیرے انگور اور انجیر چٹ کر جائیں گے۔(باب5آیات
15-17)۔

پس اسرائیل کا قدوس رب یوں فرماتا ہے کہ چونکہ تم اس کے کلام کو حقیر جانتے ہو اور ظلم اور کجروی پر بھروسہ کرتے ہو۔ اس لیے یہ بد کرداری تمہارے لیے ایسی ہو گی جیسے پھٹی ہوئی دیوار،جو گرا چاہتی ہے… خداوند اسے کمہار کے برتن کی طرح توڑ ڈالے گا، اسے بے دریغ چکنا چور کرے گا، اس کے ٹکڑوں میں ایک ٹھیکرا بھی نہ ملے گا۔‘‘ (باب30 آیت9-14)  … وہ تیرے مضبوط شہروں کو جن پر تیرا بھروسہ ہے ، تلوار سے ویران کر دیں گے۔‘‘ (باب 5 آیات15-17)  ’’ قوم کی لاشیں ہوائی پرندوں اور زمین کے درندوں کی خوراک ہوں گی اور ان کو کوئی نہ ہنکائے گا۔ میں یہوداہ کے شہروں میں اور یروشلم کے بازاروں میں خوشی اور شادمانی کی آوازکو موقوف کروں گا۔یہ ملک ویران ہوجائے گا۔‘‘ (باب 7آیت33-34)۔

پھر عین وقت پر’’ حزقی اِیل نبی‘‘ اُٹھے اور انہوں نے یروشلم کو خطاب کرکے کہا:’’اے شہر، تو اپنے اندر خونریزی کرتا ہے…دیکھ، اسرائیل کے امراء سب کے سب مقدور بھر خونریزی پر مستعد ہیں۔ تیرے اندر انہوں نے ماں باپ کو حقیر جانا، تیرے اندر انہوں نے پردیسیوں پر ظلم کیا، تیرے اند ر انہوں نے یتیموں اور بیوائوں پر ستم کیا، تونے میری پاک چیزوں کو ناپاک جانا ، تیرے اندر وہ ہیں جو چغلخوری کرکے خون کرواتے ہیں، تیرے اندر وہ ہیں جو فسق و فجورکرتے ہیں۔ تونے بیاج اور سودکا کاروبار کیا اور ظلم کرکے اپنے پڑوسی کو لوٹا اور مجھے فراموش کیا… کیا تیرے ہاتھوں میں زور ہوگا جب میں تیرا معاملہ فیصل کردوں گا؟ …ہاں میں تجھ کو قوموں میں تِتّر بِتّر کروں گا اور تیری گندگی تجھ سے نابود کر دوں گا اور تو قوموں کے سامنے اپنے آپ میں ناپاک ٹھیرے گا اور معلوم کرے گا کہ میں خدا وند ہوں۔‘‘(باب22آیت3-16)۔


یہ تھیں وہ تنبیہات جو بنی اسرائیل کو پہلے فساد عظیم کے موقع پردی گئیں۔تذکرہ طویل ہے ۔ ہم نے اختصار سے کام لیا ہے، لیکن حوالے دے دئے ہیں۔ مزید معلومات کے لئے ان حوالوں کے مآخد سے رجوع کیا جائے۔ اُردو بائبل توہر شہر میں دستیاب ہے۔ اس پہلے فساد عظیم کے تعلق سے قرآن شریف نے صرف دو آیتوں میںاِس کا تذکرہ کیا ہے:’’بنی اسرائیل سے ہم نے الکتاب میں صاف طور پر کہہ سنایا تھا، کہ تم زمین میں ضرور دو مرتبہ فساد برپا کروگے اور (اپنی مفسدانہ سرگرمیوںمیں)تم ضرور بڑے ڈھیٹ ہو جائوگے۔پھرجب(ہمارے کیے ہوئے) دو وعدوں میں سے اولین وعدے (کی تکمیل کا وقت ) آیا،تو ہم نے اپنے شدید لڑاکو بندے (تمہارے خلاف) کھڑے کر دئے ،اور( اِن لوگوں نے تمہارے)شہروں کو روند ڈالا۔اوریہ ایک(ایسا) وعدہ تھا جسے(بہر حال) پورا ہونا تھا۔‘‘(آیات 4-5)۔

اللہ کے عذاب کا یہ پہلا وعدہ تھاجو پورا ہوا ۔ اِس پہلے عذاب سے گزارنے کے بعد پھر اللہ نے بنی اسرائیل کے حالات بدل دیے اور اُنہیں ایک اور موقع دیا اِس کا ذکر اگلی آیت میں موجود ہے :’’پھر(ایک ایسا بھی وقت آیاجب) ہم نے تمہارے حق میں اُن پر(غلبے کی) بازی پلٹا دی۔ اور Resources اورMan Power کے ذریعہ ہم نے تمہیںسہارا دیا،اور تمہیں ایک (طاقتور)جتھے میں بدل دیا۔(آیت6)۔

 پھر دوسرے فساد عظیم اور اس کے ہولناک نتائج پر حضرت مسیح علیہ السلام کے خطبے کے حوالے مختصراًیہاں دئے جارہے ہیںجو موجودہ بائبل کے نسخوں سے لیے گئے ہیں۔آخر میں فساد عظیم ثانی کے تعلق سے قرآن شریف میں آئی تین آیتوں کا تذکرہ انشاء اللہ ہم آگے کریں گے۔واضح رہے کہ یہ عذاب حضرت عیسٰی ؑ کے بعد آیا جس کی وہ پیشین گوئی کر چکے تھے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے موجودہ دور بھی اِنہی اسباب کے ظہور کے دور سے گزر رہا ہے اورکیا عجب کہ (خدا نہ کرے کہ)ہم بھی اللہ کے عذاب کے مستحق قرار پائیں، جس کے آثار واضح ہیں۔


 ہم اِن تفصیلات کو اپنے قارئین کے سامنے پیش کر رہے ہیں اور عاجزانہ التماس کرتے ہیںکہ اپنے حالات کا جائزہ لیں اور مذکورہ بالا اُمور کی روشنی میں خود کو بدلیں اور متوقع عذابِ اِلٰہی کو ٹالنے کی جس قدر بھی اور جیسی کوشش ممکن ہو، کریں۔ 

 موجودہ بائبل سے ہم کچھ حوالے وہ دے رہے ہیںجن میں حضرت مسیح  ؑ اپنی قوم کے شدید اخلاقی زوال پر تنقید کرنے کے بعد فرماتے ہیں: ’’اے یروشلم! اے یروشلم!  تو جو نبیوں کو قتل کرتا ہے اور تیرے پاس بھیجے گیے(جو رسول ہیں) ان کو سنگسار کرتا ہے ۔ کتنی بار میں نے چاہا کہ جس طرح مرغی اپنے بچوں کو پروں تلے جمع کر لیتی ہے اسی طرح میں بھی تیرے لڑکوں کو جمع کر لوں، مگر تونے نہ چاہا۔ دیکھو، تمہارا گھر تمہارے لیے ویران چھوڑا جاتا ہے۔‘‘ (آیت37-38)  ’’میں تم سے سچ کہتا ہوں کہ یہاں کسی پتھر پر پتھر باقی نہ رہے گا جو گرایا نہ جائے (یعنی کوئی تعمیر شدہ گھر باقی نہیں رہے گا)۔‘‘ (باب24آیت2)  پھر جب رومی حکومت کے اہل کار حضرت مسیح کو صلیب دینے کے لیے لے جارہے تھے اور لوگوں کی ایک بھیڑ جس میں عورتیں بھی تھیں، روتی پیٹتی ان کے پیچھے جارہی تھیں، تو انہوں نے آخری خطاب کرتے ہوئے مجمع سے فرمایا: ’’اے یروشلم کی بیٹیو! میرے لیے نہ روئو، بلکہ اپنے لیے اور اپنے بچوں کے لیے روئو، کیوںکہ دیکھو !وہ دن آ لگے ہیں جب(لوگ) کہیں گے کہ مبارک ہیں بانجھیں اور وہ پیٹ جو نہ جنے.......۔ اس وقت وہ پہاڑوں سے کہیں گے کہ ہم پر گر پڑو اور ٹیلوں سے کہیں گے کہ ہمیں چھپالو...............۔‘‘ (لوقا، باب 23 آیت 28-30)

یہ ہے وہ تاریخی پس منظر جس کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے ایک حامل کتاب قوم کو اپنے عذاب کے ذریعہ ایک شکست خوردہ، غلام اور سخت پسماندہ قوم بنا کر رکھ دیا اور اِس کی تفصیل قرآن شریف کی سورئہ بنی اسرائیل کی آیت7 میں اس طرح ہے:

’’......پھر جب وعدۂ ثانی (کا وقت)آیا تودشمنوں نے تمہارے چہروں (کا حلیہ پھر سے)بگاڑدیااور (دوسری بار تمہارے دُشمن پھر سے )اُسی طرح المسجد (بیت المقدس)میں گھس گیے جس طرح پہلی بار وہ گھسے تھے، اور پوری طرح سے برباد کر ڈالا (ہر اُس مقام پر)جہاں وہ زور آور ثابت ہوئے ۔‘‘

 آئیے یہ دیکھتے ہیں کہ اللہ نے اِن دو عذابات کے جن اسباب کو مختصرمیں بیان کیا ہے اُس کی تفصیل کیا ہے، تاکہ ایسے کسی عذاب کے بارے میںہم بھی چوکنا رہیں اور اُن اسباب کے پیدا کرنے سے گریز کریں جو مذکورہ دو عذابات کا سبب بنے تھے۔سورۂ بنی اسرائیل کا یہ پہلا رکوع اِس سلسلے میں ہماری مکمل رہنمائی کرتا ہے اور حقیقی اہلِ کتاب قوم یعنی’’مسلمانوں‘‘ کے لیے نہ صرف رہنما ہے، بلکہ قرآن فراموشی جیسی قابلِ مذمت روش پر ایک وارننگ کی حیثیت بھی رکھتی ہے، اوریہ آیتیں اِن دو عذابوں کی یاددہانی کراتی ہیں،جو اِس اہلِ کتاب قوم کی الکتاب فراموشی کا نتیجہ تھے۔سچ پوچھا جائے توعذاب کی یہ اِلٰہی دھمکی ہر اُس زمانے پر منطبق کی جاسکتی ہے، جواِن جرائم کو دہرائے گا،جس کی پاداش میں اللہ کا عذاب نازل ہوتا ہے۔،اِن دونوں عذابات کے اسباب اوروجوہات کو خود اللہ نے نہایت ہی مختصر مگر جامع الفاظ میں آیات2، 7،9اور 10میںبیا ن کر دیا ہے جو چار اجزاء پر مشتمل ہے:

۱)…من دونی وکیلا ’’اللہ کے سوا کسی اور کو وکیل بنانا۔‘‘  وکیل، یعنی اعتماد اور بھروسے کا مدار، جس پر توکل کیا جائے،جس کے سپرد اپنے معاملات کر دیے جائیں ، جس کی طرف مدد کے لیے رجوع کیا جائے۔(یہ سبب ظاہر ہو گیا ہے)؛  ۲)…اسا تم…  ’’کار بد کرنا اور اِس میں ڈھیٹ ہو جانا۔‘‘ (یہ سبب بھی ظاہر ہو گیا ہے؛ ۳)  عمل صالحکوچھوڑ دینا۔(اِس سبب کو کھلی آنکھوں سے دیکھا جاسکتاہے اور  ۴)  ایمان بالآخرۃ کو پسِ پُشت ڈال دینا ۔(یہ سبب بھی ظاہر ہو گیا ہے)۔


عبرت ناک حقیقت ایک یہ بھی ہے۔یعنی سورۃ بنی اسرائیل کے مضمون کی مناسبت سے دیکھا جائے تو پہلا عذاب ہم پر بھی ساتویں صدی ہجری یعنی تیرہویں صدی عیسوی میںتاتاریوں کی یلغار کی صورت میںنازل ہوچکا ہے اور اس کی تباہی بنی اسرائیل کی تباہی سے کچھ کم نہ تھی۔ اوربنو عباس کے دورِ حکومت میں مسلم معاشرے میں ویسی ہی برائیاں بدرجہ اتم پیدا ہو گئیں تھیں، جیسی ہم اوپر کے پیریگراف میں دیکھ آئے ہیں۔اس تباہی کے بارے میں مسلم مؤرخین کی ہم کوئی تفصیلی تاریخی تحریر نہیں پاتے ہیں، تاہم،عالم اسلام کی معتبر ترین شخصیت حضرت مولانا سید ابوالحسن علی ندوی ؒ نے جنہیں مسلم تاریخ پر اتھارٹی ہونے کا شرف حاصل ہے، اپنی مشہور کتاب ’’تاریخ دعوت و عزیمت‘‘ کی جلد اول صفحہ303 سے334 تک تاتاریوں کی عالمِ اِسلام پر یلغارپرطویل تبصرہ تحریر فرمایا ہے۔جو شخص مولاناؒ کی کتاب کے اِن صفحات کا مطالعہ کرے گا اُسے اندازہ ہو گا کہ اُس دور میں مسلمان کس پستی اور زوال کی کیفیت سے گزر رہے تھے۔خود مولانا ؒ نے اِن صفحات میں اپنی یہ رائے ظاہر کی ہے کہ تاتاری یلغار کا یہ دور سورہ بنی اسرائیل کی آیتوں میں پیش کردہ پس منظر سے مماثلت رکھتا ہے ،جس کے درمیان سے مسلم قوم گزر رہی تھی۔قرآن شریف کی اِبتدا میں سورۃ البقرہ کی آیت48سے تفصیلاً یہ تذکرہ بیان کردیا گیا ہے۔ بنی اسرائیل میںمن حیث القوم جو گناہ پنپ رہے تھے ان گناہوں سے مسلمانوں کوبچنے کی ابدی ہدایات موجود ہیں، مگر افسوس کہ قرآن شریف کوہمارے یہاں ہدایت کی کتاب کے بجائے برکت کی کتاب بناکر رکھ دیا گیا ہے۔کیوں کہ ہدایت کے لئے اب تو ہمارے پاس بہت ساری خود ہماری اپنی کتابیں موجود ہیں اور ہر روز چھپ رہی ہیں۔


مسلمانوں کے سامنے یہ سوال منہ پھاڑے کھڑا ہے کہ کیا وہی حالات آج ہماری آنکھوں کے سامنے نہیں ہیں؟کیا ہم چوتھے عذاب کے اسباب توپیدانہیں کر چکے ہیں؟ اِس کو ٹالنے کے لیے کیا ہم اللہ کی طرف پلٹنا بھی چاہتے ہیں…؟


 ہم پر اللہ کایہ کرم ہے کہ اب بھی وہ ہمیں ایسے فساد زدہ ماحول میں اپنی ذات کو بچا نے کا نسخہ پیش فرماتا ہے ، جو سورۂ المومنون(23/93-94) میں بیان کیا گیا اور اِن ہی عذابات سے چھٹکارہ حاصل کرنے کا مجرّب نسخہ ہے۔اور یہ ایک دُعا کی شکل میں ہمیں عطا کیا گیا ہے: ’’اے میرے رب ! اگر تو وہ کچھ مجھے دکھادے جو تو نے ان ظالمین اور گنہ گاروں سے وعدہ کیاہے، اے میرے رب!  تو(ایسے کسی عذاب کی صورت میں) مجھے ظالمین کی قوم میں(شمار) نہ کرنا۔‘‘

 اللہ ہمارا مدد گار ہو ۔ آمین۔

Azeez Belgaumi
No.43/373 Gopalappa lay out 
Kempapura 
Bangalore 560024
azeezbelgaumi@hotmail.com

٭٭٭

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 777