donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Islamic Articles -->> Islamiyat
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Abu Abdul Badar Jamil Siddiqui
Title :
   Taqreer Aqd Nikah

 تقریر عقد نکاح


ابوعبد البرجمیل صدیقی

9972780023


    محترم بزرگو اور دوستو! آج ہم اور آپ بہت ہی مبارک محفل میں جمع ہیں جیسا کہ آپ جانتے ہیں کہ نکاح کر نا اللہ کے رسول ﷺ کی سنتوں میںایک اہم سنت ہے ۔ اس اعتبار سے نکاح کر نا جہاں انسانی اور معاشرتی ضرورت ہے وہیں یہ اہم عبادت بھی ہے انسان کی دیگر ضرورتوں روٹی ،کپڑا اور مکان کی طرح نکاح بھی ہر مرد وعورت کی ایک لازمی ضرورت ہے اور کو ئی بھی ضرورت جب اسلامی طریقہ سے کی جا ئے ،اور سنت رسول ﷺ کے مطابق کی ، جا ئے ،اور اللہ کا نام لیکر کیا جا جائے تو اس میں برکت ہی برکت آجاتی ہے ۔نکاح بھی الحمد للہ ہر مسلمان بالکل اسلامی طریقہ سے کر تا ہے کہ اس میںمسنون خطبہ پڑھا جا تا ہے جس میں قرآنی آیات کی تلاوت کی جا ہے اور أحادیث رسول کی تلاوت کی جا تی ہے اور ایجاب وقبول کے بعد بر کت کی دعا کی جا تی ہے وغیرہ یہا ں میں صرف عقد نکاح سے متعلق کہرہا ہوں تقریب شادی کے بارے میں نہیں اس لیئے کہ میں ذاتی طور پر محفل نکاح کو ’’ شادی ‘‘ کہنے کا قائل نہیں ہوں اس بات کی وضاحت میں نے اپنے ایک مقالے

( خاندانی امور میں اسلامی احکام سے انحراف میں کیا ہے )

ٍ    عام طو رعقد نکاح کے موقع پر وہی آیات کی تلا وت کی جا تی ہے جن آیا ت کو اللہ کے رسول ﷺ نے عقد نکاح کے موقع پر تلاوت فر ما ئی تھی اس لیئے میں منا سب یہی سمجھتا ہوں کہ انہیں آیات پر آج آپ سے گفتگو کروں ۔

    تینوں آیات میں اولا تقوی کا حکم دیا گیا ہے نکاح سے پہلے اتقوا اللہ  اتقوا اللہ اتقوا اللہ ہے ۔ جسکا مطلب ہے اللہ سے ڈرو ،اللہ سے ڈرو، اللہ سے ڈرو! اس موقع پر یہ آیا ت کی تلاوت بہت ہی پرحکمت ہے جس کے ذریعہ ایک اہم بات کی طرف توجہ دلا ئی گئی ہے کہ شوہر اور بیوی کا رشتہ بہت ہی نازک ہو تا ہے اس کے معاملے میں اپنی من مانی کر نے سے پہلے اللہ سے ڈرو اور جو بھی فیصلہ لینا ہو بہت ہی سونچ سمجھ کر کیا کرو ۔ اس لیئے کہ یہ رشتہ جہاں آسانی سے جڑتا ہے اتنی ہی آسانی سے ٹوٹ بھی جا تا ہے۔ صرف ’طلاق ‘ کے تین ألفاظ کہدینے سے یہ رشہ ٹوٹ کر بکھر جا تا ہے اور دونوں ایک دوسرے کے لیئے ہمیشہ کیلئے بالکل أجنبی بن جا تے یں ۔

    نکاح وہ مبارک عمل ہے جسکی وجہ سے صرف ایک مرد اور ایک عورت کے واسطے سے دو خاندان ،دو قبیلے ،آپس میں رشتہ دار بن جاتے ہیں ۔ اور ان دو خاندانوں کے در میان تعلقات کیسے ہو نے چا ہیئے بالکل ایسا ہی جیسا کہ أنصار اور مہاجرین کے درمیان ہو اتھا دیکھیئے! مکہ مکرمہ سے جب مہاجرین حضرات اپنے وطن سے بے سروسمان گئے تھے ،اپنا گھر بار ،مال ودولت ، دوست وأحباب سب کچھ چھوڑکر مدینہ منورہ چلے گئے تھے اور انصار حضرات نے انکی ہر طرح سے مدد کی تھی مال ودولت سے ، گھر بارسے ، تجارت وکاروبار سے بالکل اسی طرح ایک عورت اپنا گھر ، دوست أحباب ، مانباپ سب کچھ چھوڑ کر ایک أجنبی گھر میں آ جاتی ہے ، ایک نئے خاندان سے جڑ جا تی ہے ۔شوہر کے خاندان کا بھی فرض ہیکہ ہر اعتبار سے اسکی مدد کرے اور اسکا ساتھ دے ۔ اب وہ عورت جب ماں بن جا تی ہے تو وہ ہر اعتبارسے تمہاری ہو جا ئیگی اسکے بچے اب آپ کے ہو جا ئینگے

۔غرض یہ نکاح اور سنت رسول ہی کی بر کت ہیکہ دو أجنبی خاندان میں ایک گہرا رشتہ بن جاتا ہے اور اس اعتبارسے نکاح سے بہت سی فضیلتیں اور بہت سے برکتین حاصل ہوتی ہیں

    اگر سماعت پر بار نہ گزرے تو میں کچھ اور باتیںبتا نا چا ہونگا جو باتیںمیں نے انہی آیات مبارکہ سے روشنی لیتے ہوئے تر تیب دی ہے ۔

    پہلی آیت مبارکہ میں لفظ ’’أرحام ‘‘ (رشتے دار) کے حقوق کی طرف اشارہ دیتے ہو ئے اللہ تعالی نے قیامت کے دن ہو نے والی پوچھ اور مواخذہ کی طرف توجہ دلائی ہے کہ رشتہ داروں کے حقوق أداء کر یں اس میں کو تا ہی بروز قیامت موجب سزاہوگی ۔ اللہ تعالی ہمیں توفیق عطا فر ما ئے ۔

    دوسری آیت مبارکہ میں بتلا یا گیا ہیکہ تقوی اور پرہیز گاری اختیار کریں اور جسمانی تلذذمیں اللہ کی عبادت اور حقوق أداء کر نے میں غفلت نہ کریں بلکہ تادم زیست تقوی اور پرہیز گاری پر قا ئم رہیں ۔

    اور تیسری آیت کریمہ میں ایک بہت ہی نازک اور نہایت اہم بات کی طرف توجہ دلائی گئی ہے اور میں کہتا ہوں کہ قول الحکیم لایخلو عن الحکمۃ کے تحت نکاح کے موقع پر اللہ تعالی کا یہ حکم ’’قولوا قولا سدیدا ‘‘ بہت ہی پرُ از حکمت بات ہے اس نکاح کا جو انعقادہوتا ہے دو خاندانوں کا جوملن ہو تا ہے ، دو اجبنی ایک دوسرے کے لیئے ایک جسم دوجان کے مصداق بن جا تے یہ بہت مضبو ط تعلق ہوتاہیاور یہ باہمی تعلق اُس وقت اور بھی زیادہ مضبوط اور کبھی نہ ٹوٹنے والارشتہ بن جا تاہے ،جب کہ دونوں کے باہم تعلق سے اولاد پیدا ہو تی ہے ،اس لیئے کہ مرد کے رشتہ دار نومولود کے دادا ،چاچا ،پھوپھو وغیرہ بن جا تے ہیںاور عورت کے رشتہ دار نومولود کے نانا، نانی ،خالہ ،ماموںوغیرہ بن جا تے ہیں اور کسی بھی آدمی کیلیئے یہ ہردو طرح کے رشتے دار کسقدر اہمیت رکھتے ہیں اور آدمی ان سے کسقدر مانوس رہتا ہے یہ بات سب پر عیاںہے ۔ اسقدر مضبوط رشتہ کو قائم کر نے کے لیئے صرف زبان سے دوألفاظ(ایجاب وقبول کی صورت میں ) أداء کر نے ہو تے ہیں یہ مضبوط رشتہ قائم کر نے کے لئے کوئی زیادہ مال ودولت صرف کر نا نہیں ہو تا اور نہ ہی کوئی زیادہ محنت مشقت اٹھانی پڑتی ہے یہ اور بات ہیکہ لوگوں نے نکاح  کو نہایت خرچ والا اور بہت پر تکلف بن دیا ہے شاید یہی وجہ ہیکہ معاشرے میں غریب تو غریب بلکہ اوسط گھروالوں کے لیئے بھی شادی ناقابل برداشت مسئلہ بن گیا ہے ورنہ شریعت محمدی میں تو یہ نہایت ہی آسان معاملہ ہے ۔چنانچہ اللہ کے رسول ﷺ نے ارشاد فر ما یا ’’ان أعظم النکاح برکۃ ایسرہ مؤنۃ (    )یعنی برکت والانکاح وہ ہے جو تکفات سے خالی ہو

     الغرض جو بات میں بتا نے جارہا ہوں کہ اس قدر مضبوط رشتہ اس وقت ٹوٹکر بکھر جا تا ہے اور نہایت نفرت وبغض اور دو خاندان کے مابین ایک طویل دشمنی کا باعث  بن جا تا ہے جب کہ زبان سے تیں ألفاظ (طلاق) کی صورت میں أداء کیئے جا تے ہیں۔ مختصر یہ کہ یہ مضبوط رشتہ ألفاظ(قول ) ہی سے بنتابھی ہے اور( قول )ہی سے ٹوٹ بھی جا تا ہے۔ اس پس منظر میں مزید کچھ کہنے کے بجائے صرف آیت کریمہ کا تر جمہ پر اکتفا کر نا چاہونگا کہ آپ کو خود واضح ہو جا ئیگا کہ نکاح کے موقع پر یہ آیت کریمہ کس قدر معنی خیز حکم ہے۔ ارشاد ربانی ہے ’’اے ایمان والو !اللہ سے ڈرو اوردرست بات کہو ، اللہ تعالی تمہارے تمام اعمال سدھار دیگا ،اور تمہاری تمام کوتاہیوں کو بھی در گزر فر مادیگا ،اللہ بخشنے والا اور بڑارحیم ہے۔

     خلاصہ یہ کہ ألفاظ ہی سے دو خاندان شیر وشکر ہو جا تے ہیں اور الفاظ ہی کے ذریعہ دو خاندانوں میں طویل ترین اور کبھی نہ ختم ہو نے والی دشمنی بھی قائم ہو جا تی ہے۔ اسی لیئے ہم کو بطور خاص یہ حکم دیا گیا ہے ’’ قولوا قولاسدیدا ‘‘ یعنی بالکل درست بات کہو ۔نکاح کے ذریعہ قائم ہو نے والے رشتے میں اور اسکے بعد روز مرہ معاملات ہم اپنے قول کو درست رکھینگے تو اللہ تعالی اس  کے نتیجے میں ہمارے اعمال بھی درست فر ما دیگا اور اس عمل کوثمر آوربھی بنا دے گا، اور اگر خواہی نخواہی غفلت میں کچھ کو تا ہی بھی جو جا ئے تو اللہ تعالی سے امید ہیکہ وہ ہمیں درگزرفر ما دیگا ۔

آیات مبارکہ بعد رواج کے مطابق چند أحادیث شریفہ کی بھی تلاوت کی جاتی ہے جس میں پہلی حدیث یہ ہے جس میں پہلی حدیث یہ ہے ’’نکاح کر نا میر ی سنت ہے ‘‘ایک اور حدیث کے ألفاظ اس جوڑ کر پڑھے جا تے ہیں وہ یہ ہیکہ ’’جس نے میری سنت سے روگردانی کی وہ مجھ سے نہیں‘‘ اس حدیث کے ذریعہ اتباع سنت کی طرف ترغیب دی گئی ہے یہ حدیث شریف ہم کو اور آپ کو جھنجھوڑنے کے لیئے کا فی ہیکہ بروز قیامت  خداکے قہرو جلال کے مقابلے میںہر کوئی صرف ذات رسول ﷺ سے امید لگائے۔

 رکھیگا ایسے نازک موقع پر اتبا ع سنت سے روگردانی کرنے والوں کیلئے اللہ رسولﷺاگر (لست منی ) یعنی ’’توتو میر انہیں تھا‘‘ کہدیں تو اس وقت جو حال ہوگا اسکو علامہ اقبال کی زبا نی سماعت فر ما ئیئے ۔

لست منی گویدت مولائے ما
وائے ما، ہائے ما، وائے ما ِہائے ما

    ایک اوربات  جو یہاں قابل ذکر ہے وہ یہ ہیکہ حدیث صرف نکا ح کے موقع ہی پر بولی جاتی ہے اسلیئے عام طور پر لوگوں کی توجہ صرف حکم نکاح کی طرف ہی جا تی ہے۔ جبکہ یہ صرف سنت ِنکاح کے متعلق نہیں بلکہ ہر حکم کے موقع پر ہر طرح کی سنتوں سے متعلق ہے ۔کسی بھی موقع پر سنت کو ترک کر نے والے کویہ وعید بتا تی ہیکہ کسی بھی معاملے میں اگر سنت رسول ﷺ کو ترک کردے تو وہ اس وعید کامستحق ہوگا ۔

    اور دوسری حدیث میں ذاتِ نسوان کی اہمیت کو بتا یا گیا ہیکہ آدمی کی زندگی میں اسکی ’نیک بیوی‘ اسکے لیئے دنیا کے کسی بھی سرمائے سے بہتر ہے ۔اس سے بہتر کو ئی اور سرما یا نہیں ہو سکتا ،اس لیئے جہاں تک ہو سکے عورتوں کے ساتھ خوش اسلوبی سے معاملہ کرو عاشروھن بالمعروف (    :    )ایک اور آیت کو میں اس بات کی وضاحت کے طورپعر پیش کر نا چاہونگا ۔ ’’اگر تمہیں عورت کی جا نب سے کو ئی ناگوار بات کا سامنا ہو تو فورا بے قابو ہو کر کو ئی بیکار روش اختیا نہ کرو بلکہ صبرسے کام لو کیونکہ ’ممکن ہیکہ اللہ تعالی تمہیں اسی عورت سے بہت سی بھلائی اور (خیرکثیر) عطا فر مائیگا ۔ اس آیت میں حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ نے خیر کثیر کی تفسیر’اولاد صالح ‘سے فر ما ئی ہے اس کے بر خلاف تم غصے سے کو منفی کر وائی کر کے نقصا ن اٹھا سکتے ہو ۔

    اور تیسری حدیث یہ پڑھی جا تی ہے کہ تم ایسی خواتین سے نکا ح کر و جوخوب چاہنے والی ہو ، اور جو خوب بچے پیدا کرسکتی ہو کیونکہ بروز قیامت‘ میں اپنی امت کی کثرت پر خوشی محسوس کرونگا ۔ نکاح کی مناسبت سے یہ حکم بہت ہی حکمت والا ہے۔فقط 

 

***************************

 

 

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 582