donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Islamic Articles -->> Islamiyat
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : A I Ahmad Salfi
Title :
   Islam Nazryati Aur Fikri Tarjumani Ke Sath Amli Mushahde Ka Talib

اسلام نظریاتی اور فکری ترجمانی کے ساتھ عملی مشاہدے کا طالب


اے آئی احمد سلفی


عمل سے زندگی بنتی ہے جنت بھی جہنم بھی

یہ خاکی اپنی فطرت میں نہ نوری ہے نہ ناری


اسلام لائحہ عمل پر مشتمل ،نظریاتی اصولوں پر مبنی مذہب کا نام ہے جودنیا میں انسان کی زندگی میں تبدیلی اور انقلاب کا متمنی ہے ۔ایک ایسے انقلاب کا جو انسان کو دنیا کے اندر بہتر زندگی اور بہتر معاشرہ کی تشکیل کا حامل ہو ۔ایک ایسی تبدیلی کا جس کا اثر انسان کی عملی زندگی میں موثر طریقے سے نمایاں طور پر نظر آئے۔دیکھنے والے آسانی کے ساتھ اس بات کا مشاہدہ کر سکیں اور ان کا ذہن و دل اس بات پر متفق ہو کہ ’ہاں یہی اسلام ہے‘۔اس لئے اسلام نے’ نظریاتی‘ اور ’فکر ی ‘ترجمانی کے ساتھ ساتھ عملی طور پر مشاہدے کو ترجیح دیہے ۔حرکت و عملکی نمائندگی پر زور دیاہے ۔اسلام اپنے ماننے والوں اور اسلامی اصول و نظریات کے دعویداروں سے یہی مطالبہ کرتا ہے کہ وہ عملی طور پر دنیا کے سامنے اسلام کو پیش کریں،اسلامی اصولوں کواپنا لائحہ عمل بنائیں۔اور اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ اسلام ایک جامد اور ساکت مذہب نہیں ہے بلکہ وہ اپنے قالب میں ایک متحرک اور انقلابی تصور لئے ہوئے آیا ہے ۔اسلام نظریات اور فکر کو یکسر نظر انداز نہیں کرتا کیونکہ نظریات اور غور و فکر کے بعد ہی حرکت و عمل کا جوش و جذبہ انسانی قالب میں بیدار ہوتا ہے ۔نبوت سے قبل اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ایک عرصہ تک غار حرا میں تشریف لے جاتے رہے اور غور و فکر کا مرحلہ آپ پر جاری رہا۔محمد عربی ؐ اپنے معبود حقیقی کی تلاش و جستجو میں غار حرا کی تنہائیوں میں پورا پورا دن گزار دیتے تھے۔ یہاں تک کہ یہ غور و فکر اور تخلیق انسانی پر تدبر کا یہ عالم تھا کہ اس نے آپ کو اپنی ذات سے بھی بیگانہ کر دیا تھا ۔آپ کی اہلیہ ام المومنین حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالی عنہا رسول عربی ؐکی اس بے گانگی اور حد درجہ پریشانی کو دیکھ کر تشویش میں مبتلا ہو گئیں تھیں۔لیکن کسی بھی عمل اور مقصد کیلئے یہ تدبر اور غور فکر کا عرصہ ایک متعین عرصہ ہوتا ہے ۔پوری زندگی انسان تدبر اور کسی چیز کے ادراک میں گزار دے تو وہ لا یعنی بے مقصد زندگی بن کر رہ جاتی ہے۔ایک متعین عرصہ کے تدبر اور غور و فکر کے بعد عمل نا گزیر ہو جاتا ہے۔اگلا قدم عملی دنیا میں رکھنا پڑتا ہے۔اسی عملی دنیا میں ہی اس تدبر اور غور وفکر کے نتائج بر آمد ہوتے ہیں۔

تاریخ انسانی شاہد ہے کہ رسول عربی صلی اللہ علیہ وسلم کے برپا کئے ہوئے ہمہ گیر اسلامی انقلاب میں اور دنیا میں برپا ہونے والے دیگر انقلابات میں خواہ وہ انقلاب فرانس ہو یا انقلاب روس ہو یاپھر کوئی اور انقلاب ہو ،ان تمام انقلابات اور اسلامی انقلاب میں ایک بنیادی فرق یہی ہے کہ ان انقلاب کو نظریاتی سانچے میں ڈھال کر دنیا کے سامنے پیش کرنے والے دانشور اور انقلابی شخصیات کوئی اور تھیں اور ان نظریات و فکر کو عملی جامہ پہنانے والے ،دنیا کے سامنے عملی طور پر پیش کرنے والے کوئی اور تھے۔رسول عربی صلی اللہ علیہ وسلم کا بے مثال کارنامہ یہی ہے کہ آپ نے جن عقائد اور اسلامی اصول و نظریات کو لوگو ں کے سامنے پیش کیا اور لوگوں کے دلوں میں راسخ کیا ان کو عملی زندگی میں اپنایا ۔عملی سانچے میں ڈھال کر دنیا کو ورطہ حیرت میں مبتلا کر دیا۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جن عقائد اور صول کی طرف لوگوں کو بلاتے آپ نے اپنی زندگی میں بھی انہیں اصول و عقائد پر عمل کیا اور لوگوں کو اسی طرح عمل کرنے کی تاکید بھی کرتے رہے۔

چنانچہ غار حرا میں جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے تدبر اور فہم و ادراک کا سلسلہ ختم ہوا تو آپ نے عملی دنیا میں قدم رکھا۔اللہ تعالی نے قرآن کریم کے اندر اس کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ ’اے اوڑھ لپیٹ کر لیٹنے والے، اٹھ جائیے اور خبر دار کیجئے اور اپنے رب کی بڑائی بیان کیجئے‘(سورۃالمدثر)۔اسلام میدان میں آکر دنیا کے سامنے اپنی حقانیت کا اعلان کرنے اور اسے عملی جامہ پہنانے کے لئے آیا ہے ۔دنیا و ما فیہا سے بے خبر ہو کر کسی پہاڑ کی چوٹی یا غارمیں قید رکھنے یا اپنی ذات تک ہی اپنی فکر و نظریہ کا طواف کرنے کے لئے نہیں آیا۔تصوف ،رہبانیت اور دنیا و مافیہا سے کٹ کر اپنے اہل و عیال اور رشتہ داروں سے دو ر جا کر جنگلو ں میں ، پہاڑیوں پر کٹیا یا آستانہ بنا کر ’اللہ ہو اللہ ہو‘ کرنے کا نام اسلام ہر گز نہیں ہے ۔اسلام تو ایک مکمل ضابطہ حیات ہے ،جس میں زندگی کے تمام شعبوں کی رہنمائی کے جامع اصول موجود ہیں۔جس کی روشنی میں انسان زندگی گزار کرکامیابی و کامرانی حاصل کر سکتا ہے ۔جس میں اقتصادی ،معاشی ،سماجی ، معاشرتی مسائل کا حل بآسانی کر سکتے ہیں۔اسلام انسانی زندگی کو سنوارنے کا ایک ایسا آئینہ ہے جس میں ایک باپ،ایک بیٹے ،ایک بھائی ،ایک بہن ایک بیوی ایک شوہر سب کے لئے رہنمااصول موجود ہیں۔الغرضیکہ زندگی کے تمام الجھنوں اور مسائل کو اس اسلامی آئینے میں سلجھا یا جا سکتا ہے لیکن ضرورت ہے اس کے اصولوں پر مکمل طو ر پر عمل پیرا ہونے کی۔آج اسلامی عبادات اور دیگر مناہج پر عمل کا معاملہ یہ ہے کہ اسے رسما ًادا کیا جاتا ہے۔عشق رسول اور محبت اسلام کا نعرہ محض زبانی جمع خرچ ہے ۔اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ ’جن لوگوں کو اس بات کی خوشی ہو کہ وہ اللہ اور اس کے رسولؐ سے محبت کرتے ہیں تو انہیں چاہئے کہ جب بات کریں تو سچ بولیں جب ان کے پاس کوئی امانت رکھی جائے تو اس کو اس کے مالک کے حوالے کریں اور پڑوسیوں کے ساتھ اچھا بر تائو کریں۔‘‘

(مشکوۃ)

اب ہم اس حدیث کی روشنی میں اپنا جائزہ لیں کہ ہم عشق رسول اور محبت رسول اور اسلامی تشخصکی علمبردار ی کے بلند و بانگ دعوے تو کرتے نہیں دھکتے کیا ہم اس حدیث کی ان تینوں باتوں میں سے کس ایک   پر عمل کرتے ہیں ۔سچ بات بولنے اور حقیقت بیانی سے کام لینے  کی سچائی یہ ہے کہ موبائل نے اس کا جنازہ نکال دیا ہے ۔امانت داری اور پڑوسیوں کے حقوق بھی آج ہمارے معاشرے سے عنقا ہو چکی ہے ۔پڑوسیوں کا ہم انسانیت کے ناطے بھی ہمدردی کا جذبہ خو چکے ہیں ۔ دنیا کی رنگیوں اور عیش و آرام کی طلب نے ہمیں اس قدر مصروف کر دیا ہے کہ ہمیں اس کی خبر ہی نہیں کہ ہمار ے پڑوس میں رہتا کون ہے ؟اسلام نے تو ہمیں انسانیت کا درد سکھایا تھا،ہم تو انسانیت ہی بھول گئے۔ہم اگر پوری دیانت داری کے ساتھ اپنے گریبان میں جھانکیں تو یہ حقیقت ہم پر واضح ہوگی کہ ہمارا طرز عمل بحیثیت امت مسلمہ اس کے بر عکس ہے ۔ہمارے قو ل و عمل میں تضاد ہے ۔صرف بلند و بانگ دعوئوں اور دلکش اسلامی نعرو ںسے نہ اسلام کی خدمت ہوگی اور نہ ہی ہماری مسلمانیت مسلم ہوگی بلکہ ان اصولوں کو عملی جامہ پہنانے پر ہی اسلام کی حقیقی تصویر دنیا کے سامنے آئے گی اور حقیقی طور پر ہم اسلام کے مطلو ب انسان بن سکتے ہیں۔ہم اس حقیقت کومعلوم کرنے کی فکر نہیں کرتے کہ قرآن حکیم کی ہدایات کی روشنی میں رسول کرم صلی اللہ علیہ وسلم سے ہمارے تعلق کی حقیقی اساس اور صحیح بنیاد کیا ہے ۔ارشاد باری تعالی ہے ’(اے محمدؐ)آپ فرما دیں:اے لوگو!میں تم سب کی طرف اس اللہ کا رسول (بن کر آیا )ہوںجس کے لئے تمام آسمانوں اور زمین کی بادشاہت ہے ،اس کے سوا کوئی معبود نہیں ،وہی جلاتا اور مارتا ہے ، سو تم اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لائو جو (شان امیت کا حامل)نبی ہے جو اللہ پر اور اس کے (سارے نازل کردہ)کلاموں پر ایمان رکھتا ہے اور تم انہی کی پیروی کرو تاکہ تم ہدایت پا سکو(سورۃ الاعراف)اس آیت کریمہ کی روشنی میں یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ ایک مسلمان کی کامیابی و کامرانی صرف اطاعت رسول میں مضمر ہے ۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی کے بغیر کوئی مسلمان حقیقی معنوں میں مسلمان نہیں ہو سکتا ،اور وہ دنیا میں اس وقت تک کامیابی وکامرانی سے ہمکنار نہیں ہو سکتا جب تک کہ وہ اطاعت رسول کو مکمل طور پر اپنی زندگی میں نافذ نہ کر لے۔بحیثیت مسلمان ہمارے قول ،ہمارے فعل، ہمارے رہن سہن اور ہماری ذاتی ، اجتماعی اور عائلی زندگی میں وہ مکمل طور پر مسلمان ہو ،صرف زبانی دعوئو ں سے نہیں بلکہ عملی طور پر اطاعت رسول کا اظہار مطلوب ہے ۔

ہمیں مکمل طور پر اسلامی اصولوں پر عمل پیرا ہونے کے لئے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کو مکمل طور پر اپنے لئے آئیڈیل اور نمونہ بنانا ہوگا ۔کیونکہ آپ کی زندگی اور آپ کی سیرت مکمل طور پر اسلام کی اور قرآن کی چلتی پھرتی تصویر ہے۔جب حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے صحابہ کرام نے آپ کی سیرت و اخلاق کے سلسلے میں آپ سے دریافت کیا تو حضرت عائشہ نے فرمایا کہ ’آپ کے اخلاق اور آپ کی زندگی مکمل طور پر قرآن کی چلتی پھرتی تصویر تھی‘۔اس لئے جب تک ہم عملی زندگی میں آپ کی سیرت کو نہیں اپنائیں گے ہم مکمل طور پر اسلام اور قرآن کے مطلوب انسان نہیں بن سکتے ۔

مگر آج ہم نے اسلامی تشخص اور اسلامی تہذیب و تمدن کو بالائے طاق رکھ دیا ہے ۔سیرت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو پس پشت ڈال دیا ہے۔آپ کی سیرت طیبہ کی جگہ ہمارے نوجوان کی پسند مغربی تہذیب اور ماڈرن کلچر آئیڈیل بن چکا ہے ۔مغربی آئینے ہمارے گھروں میں زینت اور بطور نمونہ استعمال کئے جارہے ہیں جن میں سج سنور کر ہم باہر نکلتے ہیں اور اسی آئینے میں کامیابی اور کامرانی کے اسرار و رموز تلاش کرتے ہیں ۔تو کیونکر کامیابی نصیب ہوگی۔ہمارے محلے ، گائوں اور شہری کی گلیوں اور کوچوں میں روزانہ کوئی نہ کوئی جلسہ ،سیرت النبیؐ کے عنوان سے تو شب معراج النبی ؐ کے عنوان سے ہوتے رہتے ہیں ،علمائے کرام سیرت نبوی ؐ پر رات بھر تقریریں اور وعظ و نصائح کرتے ہیں ،پوری پوری رات کالی کیجاتی ہے ۔کتنے پیسے خرچ ہوتے ہیں لیکن افسوس ہے کہ ہمارے معاشرے میں کبھی سیرت رسول کا آئینہ دار شخص کہیں نظر نہیں آتا۔ہم پھر گھر جاتے ہیں اور اسی مغربی آئینے میں سنور کر دنیا کے سامنے آتے ہیں ۔اور مسلمان ہونے کا دعویٰ اور عشق رسول کا نعرہ بلند کرتے ہیں۔در اصل ہمارے جلسوں میں ،سیرت النبیؐ کے پروگراموں میں جب نبی کی سیرت یاآپ کی زندگی کے پہلوئوں پر روشنی ڈالی جاتی ہے تو اس حیثیت سے نہیں کہ وہ ہمارے لئے اسوہ حسنہ ہے بلکہ ہم آپ کی سیرت طیبہ کی تعریف میں اس قدر غلو اور عقیدت کی انتہا کرتے ہیں کہ ہم آپ ؐکو ایک نبی کی حیثیت سے انسانوں کے لئے آئیڈیل بنانے کے بجائے انہیں ایک مافوق الفطرت شخصیت بنا دیتے ہیں،جسے انسانی عقل و تصور قبول کرنے سے قاصر ہو ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کے پہلوئوں کو اس طرح سے بیان کیا جاتا ہے گویا آپ ’سپر مین ‘ہیں ۔پھر آپ کے اصول زندگی اور آپ کے طریقہ حیات کو ایک انسان کیونکر اپنی عملی زندگی میں نافذ کر سکتا ہے او رآپ کی سیرت پر عمل تو دور آپ کو کس طرح سے بطور آئیڈیل تسلیم کر سکتا ہے ؟اللہ نے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اسوہ حسنہ کہا تھا لیکن ہم نے اس ’اسوہ حسنہ‘ کو صرف خوبصورت نعروں تک محدود کر  دیا۔

ابتدائے اسلام میں دین اسلام کی سر بلندی اور سر فرازی صحابہ کرام کی عملی زندگی کا ہی نتیجہ تھا ۔صحابہ کرام کے عمل کرنے کا یہ عالم تھا کہ جب کوئی حدیث رسول ان کی سماعتوں سے ٹکراتی تھی یا جب کسی آیت سے وہ با خبر ہوتے تھے تو جب تک اس پر عمل نہیںکر لیتے دوسر ی حدیث کی طرف توجہ نہیں دیتے۔علامہ اقبال نے  ہماری اسی عملی کوتاہی اور سلف کی عملی سر گرمی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ

تیرے آبا سے تجھکو کو ئی نسبت ہو نہیں سکتی
کہ تو گفتار وہ کردار تو ثابت وہ سیارہ

آج معاشرے میں بڑھتی ہوئی نوجوانوں کی بے راہ روی کے اس دور میں ضرورت اس بات کی ہے کہ مغربی آئینے کو ہم اپنے گھروں سے نکال پھینکیں اور اسلامی آئینے میں اپنی زندگی کو سنواریں۔اسلام دشمنوں کے نشانے پر ہیں متعددبے بنیاداور انسانیت سوز الزامات لگا کر لوگوں کو اسلام سے متنفر کیا جا رہا ہے ۔پوری دنیا میں اسلام کو انسانیت سوز مذہب ثابت کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے ۔ایسا ماحول بنانے کی کوشش جاری ہے کہ لوگ اسلام اور مسلمانوں سے نفرت کرنے لگیں اور مسلمان کسی کے سامنے اپنے مذہب کا ذکر کرنے سے بھی خوف کھائے۔اس لئے آج دنیا کے سامنے اسلام اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ان اصولوں کو صرف زبانی طور پر نہیں بلکہ عملی طور پر بھی دنیا کے سامنے پیش کرنے کی ضرورت ہے جن میں انسانیت اور دنیا میں امن و امان ،اخلاقی اقدار کی تعلیمات پیش کی گئی ہیں۔اور غیر مسلموں کے ذہن میں اسلام کے تعلق سے پھیلی بد گمانی کو دور کر سکیں ۔اور یہ اس وقت تک ممکن نہیں ہے جب تک کہ ہم اسلامی اصولوں اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت کو ا پنا لائحہ عمل نہ بنا لیں ِ۔

(یو این این)

*****************************

 

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 824