donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Islamic Articles -->> Islamic Education
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Md. Najeeb Qasmi Sanbhali
Title :
   Dharhi Ki Sharyi Haisiat


بسم اللہ الرحمن الرحیم


اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْن، وَالصَّلاۃُ وَالسَّلامُ عَلَی النَّبِیِّ الْکَرِیْم ِوَعَلٰی آلِہِ وَاَصْحَابِہِ اَجْمَعِیْن۔


داڑھی کی شرعی حیثیت


داڑھی کی شرعی حیثیت کیا ہے، واجب ہے یا سنت؟ اور داڑھی منڈوانا جائز ہے یا مکروہ یا حرام؟ جمہور محدثین وفقہاء اور علماء کرام، نیز چاروں ائمہ (امام ابوحنیفہ ؒ ، امام شافعیؒ، امام مالکؒ اور امام احمد بن حنبلؒ) داڑھی کے واجب ہونے پر متفق ہیں۔ عصر حاضر میں بھی امت مسلمہ کے تقریباً تمام مکاتب فکر وجوب کے ہی قائل ہیں۔میں نے اس موضوع پر عربی واردو زبان کی متعدد کتابوں میں محدثین وفقہاء وعلماء کرام کے اقوال کا مطالعہ کیا ،سب نے یہی اعتراف کیا ہے کہ نبی اکرم ﷺ کے ارشادات سے داڑھی کا واجب ہونا ہی ثابت ہوتا ہے کیونکہ نبی اکرم ﷺنے امت مسلمہ کو داڑھی رکھنے کا امر(حکم ) دیا ہے اور حکم وجوب کے لئے ہی ہوتا ہے اِلّایہ کہ نبی اکرم ﷺکے کسی دوسرے ارشاد یا عمل یا صحابہ کرام کے عمل سے معلوم ہو کہ آپ ﷺ کا حکم (امر) وجوب کے لئے نہیں بلکہ صرف تاکید کے لئے ہے۔ لیکن زیر بحث مسئلہ میں نبی اکرم ﷺاور صحابہ کرام کی زندگی کے احوال سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ آپ ﷺکا امت مسلمہ کو داڑھی رکھنے کا حکم وجوب کے لئے ہی ہے، چنانچہ خیر القرون میں صحابہ یا تابعین یا تبع تابعین میں سے کسی ایک محدث یا فقیہ یا عالم نے داڑھی  کے عدم وجوب کا فتویٰ جاری نہیں فرمایا، بلکہ سب نے اس کے وجوب کا ہی فیصلہ فرمایا ہے۔  

اگر داڑھی کے صرف سنت ہونے کو تسلیم کربھی لیا جائے تو یہ عام سنت نہیں ہوگی بلکہ داڑھی رکھنا سنت مؤکدہ اشد التاکید ہونے کے ساتھ ساتھ اسلامی شعار بھی ہے اور تمام انبیاء کی سنت بھی ہے، نیز فطرت انسانی بھی ہے اور فطرت انسانی کو بدلنے کی اجازت نہیں ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے سورۂ الروم آیت ۳۰ میں ارشاد فرمایا ہے۔ بر صغیر میں علم حدیث کی اہم وعظیم شخصیت حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ  نے اپنی کتاب حجۃ اللہ البالغۃ ۱/۱۵۲ میں تحریر کیا ہے کہ داڑھی کاٹنا اللہ کی تخلیق اور بناوٹ کو بدلنا ہے۔ بات یہیں ختم نہیں ہوجاتی بلکہ نبی اکرم ﷺنے داڑھی کاٹنے کو مشرکین اور مجوسیوں کا طریقہ قرار دیا ہے اور آپ ﷺنے داڑھی کاٹنے والوں کی طرف نظر اٹھاکر دیکھنا بھی پسند نہیں فرمایا۔

آئیے اولاً داڑھی کے متعلق نبی اکرم ﷺکے بعض ارشادات کا مطالعہ کریں:

حضرت عبداللہ بن عمررضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ  ﷺنے ارشاد فرمایا: مشرکین کی مخالفت کرو یعنی داڑھیوں کو بڑھاؤ اور مونچھوں کو کاٹو۔ ایک دوسری روایت میں یہ الفاظ ہیں: مونچھوں کو اچھی طرح کاٹو اور داڑھیوں کو بڑھاؤ۔ (بخاری/  باب تقلیم الاظفار ، مسلم/  باب خصال الفطرۃ)  

حضرت عبداللہ بن عمررضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ آپ ﷺ کو مونچھوں کے کاٹنے اور داڑھیوں کے بڑھانے کا حکم ہوا ہے۔ معلوم ہوا کہ داڑھیوں کے بڑھانے کا حکم احکم الحاکمین اللہ جل شانہ کی طرف سے ہے۔  اَمَرَ کا لفظ بھی کتابوں میں آیا ہے، یعنی نبی  اکرم ﷺنے مونچھوں کے کاٹنے اور داڑھیوں کے بڑھانے کا حکم دیا ہے۔ (مسلم/  باب خصال الفطرۃ)  حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺنے ارشاد فرمایا: مونچھوں کو کاٹو اور داڑھیوں کو بڑھاؤ اور مجوسیوں کی مخالفت کرو۔ 

(مسلم/  باب خصال الفطرۃ)  

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺنے دس خصلتیں فطرت میں سے قرار دی ہیں، جن میں سے پہلی خصلت مونچھو ں کو کاٹنا اور دوسری خصلت داڑھی کو بڑھانا ہے۔

(مسلم/  باب خصال الفطرۃ)

رسول اللہ ﷺنے جب مختلف ممالک کے بادشاہوں کو اسلام کی دعوت دینے کے لئے خطوط لکھے، تو ان میں سے ایک خط کسریٰ شاہ فارس کے نام بھی لکھا۔ اُس کے پاس جب نامۂ مبارک پہونچا تو اس نے اس کو پھاڑ دیا اور یمن کے گورنر کو لکھا کہ دو مضبوط آدمیوں کو حجاز بھیجو جو اس شخص کو لے کر آئیں جس نے مجھے یہ خط تحریر کیا ہے۔ چنانچہ یمن کے گورنر نے شاہ فارس کسریٰ کے حکم سے دو فوجیوں کو رسول اللہ ﷺکے پاس بھیجا۔ وہ دونوں رسول اللہ ﷺکے پاس آئے، ان کی داڑھیاں مونڈی ہوئی تھیں اور مونچھیں بڑھی ہوئی تھیں، آپ ﷺنے ان دونوں کی طرف دیکھنا بھی پسند نہیں فرمایا، پھر ان کی طرف متوجہ ہوکر کہا کہ تم دونوں کے لئے عذاب ہے، کس نے تم کو اس کا حکم دیا ہے؟ دونوں نے کہا کہ ہمارے رب یعنی کسریٰ نے ہمیں اس کا حکم دیا ہے۔ آپ ﷺنے فرمایا: لیکن میرے رب نے تو مجھے داڑھی رکھنے اور مونچھیں کاٹنے کا حکم دیا ہے۔ (البدایہ والنہایہ ۴/۲۷۰، تاریخ ابن جریر ۳/۹۱۔۹۰، کتاب الوفاء باحوال المصطفیٰ للحافظ ابن الجوزی)  اس واقعہ کو مولانا محمد یوسف صاحب کاندھلوی ؒنے اپنی مشہور ومعروف کتاب (حیاۃ الصحابہ /ج ۱ ص ۱۱۵)میں مختلف سندوں کے ساتھ تحریر کیا ہے۔

حضور اکرم ﷺ کی داڑھی کا تذکرہ:سید الانبیاء والمرسلین وخاتم الانبیاء وخیر البریہ حضرت محمد مصطفی ﷺہمیشہ داڑھی رکھتے تھے، جیساکہ احادیث میں آپ ﷺکی داڑھی مبارک کا کثرت سے ذکر ملتا ہے۔رسول اللہ کی داڑھی مبارک میں بہت زیادہ بال تھے۔ (مسلم، کتاب الفضائل، باب شبیہ صلی اللہ علیہ وسلم)  نبی اکرم ﷺکی داڑھی مبارک گھنی تھی۔ حضرت براء رضی اللہ عنہ سے انہیں الفاظ کے ساتھ (نسائی ۵۲۳۲)میں روایت مذکور ہے۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ سے انہیں الفاظ کے ساتھ (مسند احمد ۲/۱۰۲) میں روایت مذکور ہے۔ (رواہ الترمذی فی الشمائل والبیہقی فی شعب الایمان)  حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم  ﷺکی داڑھی مبارک بہت گھنی تھی۔ (مسند احمد ۱/۱۲۷) حضرت عائشہؓ، حضرت عثمان بن عفانؓ، حضرت عمار بن یاسر ؓ، حضرت ابو ایوب انصاریؓ اور دیگر صحابہ کرام سے نبی اکرم ﷺکا وضو کے وقت داڑھی میں خلال کرنے کا تذکرہ احادیث کی کتابوں میں موجود ہے۔ غرضیکہ صحابہ کرام نے نبی اکرم ﷺکی داڑھی مبارک کو مختلف الفاظ میں ذکر کیا ہے ، اُن الفاظ کا خلاصہ یہ ہے کہ آپ ﷺ کی داڑھی مبارک گھنی اور زیادہ بالوں والی تھی۔ آپ ﷺوضو کے وقت داڑھی میں خلال بھی کیا کرتے تھے، اور کبھی کبھی اسمیں مہندی بھی لگاتے تھے۔ خلفاء راشدین اور دیگر صحابہ کرام کی داڑھی مبارک کا تذکرہ احادیث کی کتابوں میں موجود ہے، لیکن مضمون کی طوالت سے بچنے کے لئے ان کا تذکرہ نہیں کررہا ہوں۔ کسی بھی صحابی سے داڑھی کا مونڈنا یا ایک مشت سے کم داڑھی رکھنا ثابت نہیں ہے۔

داڑھی کی مقدار: نبی اکرم ﷺکی واضح تعلیمات کی بناء پر جمہور محدثین، فقہاء اور علماء کرام داڑھی کے وجوب کے تو قائل ہیں، البتہ یہ داڑھی کتنی رکھی جائے اور کیا داڑھی کی حد نبی اکرم ﷺنے متعین کی ہے یا نہیں؟ اس سلسلہ میںفقہاء وعلماء کرام کا اختلاف زمانۂ قدیم سے چلا آرہا ہے۔ اگرچہ یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ نبی اکرم ﷺکی تعلیمات میںداڑھی کی حد کے متعلق خاص وضاحت نہیں ملتی ہے۔ ہاں ترمذی(کتاب الادب / باب ما جاء فی الاخذ من اللحیۃ ) میں ایک روایت ہے جو سند کے اعتبار سے یقینا کمزور ہے، اس میں ذکر کیا گیا ہے کہ نبی اکرم ﷺ اپنی داڑھی مبارک کے طول وعرض سے زائد بال کاٹ دیا کرتے تھے۔  نیز بعض صحابہ کرام مثلاً حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے ایک مشت کے بعد اپنی داڑھی کا کاٹنا احادیث صحیحہ سے ثابت ہے۔ جیسا کہ امام بخاری ؒ نے حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کا عمل ذکر فرمایا ہے۔(بخاری، کتاب اللباس ج ۲ ص ۸۷۵)  غرضیکہ داڑھی کی مقدار کے سلسلہ میں تابعین،تبع تابعین اور اس کے بعد کے زمانے میں علماء کرام کی چند آراء ملتی ہیں، البتہ ایک مشت سے کم رکھنے کا جواز کسی صحابی یا تابعی یا تبع تابعی یا کسی معتبر محدث یا فقیہ سے کہیں نہیں ملتا۔داڑھی کے متعلق نبی اکرم ﷺکی واضح تعلیمات سب سے زیادہ مستند ومعتبر سندوں کے ساتھ حضرت عبد اللہ بن عمر ؓ کے واسطے سے ہی امت مسلمہ کو پہونچی ہیں اور حضرت عبد اللہ بن عمر ؓ  ان صحابہ کرام میں سے ہیں جن سے بڑے بڑے صحابہ کرام بھی مسائل میں رجوع فرماتے تھے، نیز وہ نبی اکرم ﷺکے بڑے فدائی تھے اور آپ ﷺکی سنتوں کی پیروی میں بہت زیادہ پیش پیش رہنے والے تھے، ان کے عمل کو بطور معیار پیش کیا جاتا ہے۔  امام بخاری  ؒ نے حضرت عبد اللہ بن عمرؓ کے داڑھی سے متعلق ان کے عمل کو ترازو بناکر پیش کیا ہے کہ وہ حج وعمرہ سے فارغ ہونے کے موقع پر احرام کھولتے تو داڑھی کو مٹھی میں لے کر زائد حصہ کاٹ دیا کرتے تھے۔ 

(بخاری، کتاب اللباس ج ۲ ص ۸۷۵)  

حافظ ابن حجر  ؒ شرح بخاری میں طبری سے نقل کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ ایک جماعت کہتی ہے کہ داڑھی جب ایک مشت سے زائد ہوجائے تو زائد کو کتر دیا جائے، پھر طبری نے اپنی سند سے حضرت عبداللہ بن عمرؓ  اور حضرت ابوہریرہؓ سے روایت کیا ہے کہ انہوں نے ایسا ہی کیا۔

حضرت جابر بن عبد اللہ  ؓ فرماتے ہیں کہ ہم لوگ داڑھی کے اگلے اور لٹکنے والے حصہ کو بڑھا ہوا رکھتے تھے مگر حج اور عمرہ میں (یعنی حج اور عمرہ سے فارغ ہوکر)  اسے کاٹ دیا کرتے تھے۔  (رواہ ابواداؤد  باسناد صحیح  ۴/۴۱۹۸)داڑھی کے متعلق حضرت عبد اللہ بن عمر ؓ کے بعد سب سے زیادہ روایات حضرت ابوہریرۃ  ؓ سے مروی ہیں، ان کا عمل بھی ایک مشت کے بعد داڑھی کاٹنے کا مذکور ہے۔

(نصب الرایہ ج ۲ ص ۴۵۸)

امام غزالی  ؒ نے اپنی کتاب (الاحیاء  ۱ /۱۴۳) میں تحریرکیا ہے کہ ایک مشت سے زیادہ داڑھی کے کاٹنے میں علماء کا اختلاف ہے لیکن اگر کوئی ایک مشت کے بعد داڑھی کے بال کاٹ دیتا ہے تو کوئی حرج نہیں ہے کیونکہ حضرت عبد اللہ بن عمرؓ اور تابعین سے اس کا ثبوت ملتا ہے۔  علامہ ابن سیرین ؒ نے ایک ہی مشت داڑھی رکھنے کو مستحسن قرار دیا ہے۔شیخ عبد الحق محدث دہلویؒ اپنی کتاب (اشعۃ اللمعات ج۱  ص ۲۲۸)میں لکھتے ہیں:  داڑھی منڈانا حرام ہے اور ایک مشت کی مقدار تک اس کا بڑھانا واجب ہے۔

علامہ ابن تیمیہ ؒنے اپنی کتاب (شرح العمدۃ  ۱ / ۲۳۶) میں تحریر کیا ہے کہ اعفاء اللحیہ کے معنی داڑھی کو اپنے حال پر چھوڑنے کے ہیں، لیکن اگر کوئی ایک مشت کے بعد داڑھی کاٹتا ہے یا دائیں وبائیں جانب بکھرے ہوئے بال کو کاٹتا ہے تو وہ مکروہ نہیں ہے کیونکہ ایسا کرنا حضرت عبد اللہ بن عمر ؓ سے ثابت ہے۔

صفوۃ التفاسیر کے مصنف اور مسجد حرام کے مدرس شیخ محمد بن علی الصابونی  ؒ کا ایک مقالہ سعودی عرب کے مشہور ومعروف اخبار (المدینہ) میں ۲۴ محرم ۱۴۱۵ھ کو شائع ہواتھا جس میں انہوں نے دلائل کے ساتھ تحریر کیا تھا کہ داڑھی کے بالوں کو بکھرا ہوا نہ چھوڑا جائے بلکہ جو بال ادھر ادھر بکھرے ہوئے ہوں ان کو کاٹ کر داڑھی کو سنوارا جائے اور اس کو اس طرح نہ چھوڑا جائے کہ بچے ڈرنے لگیں اور بڑے لوگ کنارہ کشی اختیار کرنے لگیں۔

ایک شبہ کا ازالہ:بعض حضرات کہہ دیتے ہیں کہ قرآن کریم میں داڑھی کا حکم کہا ں ہے؟  میں ان حضرات سے سوال کرتا ہوں کہ قرآن کریم میں یہ کہاںہے کہ جو قرآن میں ہو بس اسی پر عمل کرنا لازم ہے اور قرآن میں یہ کہاں ہے کہ رسول اللہ ﷺکے فرمان کو مت مانو، بلکہ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے بے شمار جگہوں پر رسول اکرم کی ﷺاطاعت کاحکم دیا ہے، اور رسول اللہ ﷺ کی اطاعت کو اپنی اطاعت قرار دیا ہے۔ (سورۂ النساء ۸۰)  نیز اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں جگہ جگہ اپنی اطاعت کے ساتھ رسول اللہ ﷺ کی اطاعت کو ضروری قرار دیا ہے، اگر قرآن کریم ہی ہمارے لئے کافی ہے تو پھر اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں جگہ جگہ رسول اللہ ﷺکی اطاعت کا حکم کیوں دیا ہے؟  پھر بھی ان حضرات کے اطمینان کے لئے ذکر ہے کہ داڑھی کاتذکرہ قرآن کریم (سورۂ  طہ ۹۴) میں آیا ہے:  یَا ابْنَ اُمَّ لَا تَاْخُذْ بِلِحْیَتِیْ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے حضرت ہارون علیہ السلام کی داڑھی مبارک پکڑی تو حضرت ہارون علیہ السلام نے کہا:  اے میری ماں کے بیٹے!  میری داڑھی کو نہ پکڑو۔  

خلاصۂ کلام:میرے عزیزو!  داڑھی رکھنے میں رسول اللہ ﷺ کی اطاعت، آپ کی اتباع اور آپ سے محبت کا اظہار ہے۔ رسول اللہ ﷺنے جو حکم دیا ہے اس سے داڑھی کا واجب ہونا ہی ظاہر ہوتا ہے۔ لیکن دور حاضر میں بعض لوگ رسول اللہ ﷺکے فرمان کا ذرا بھی خیال نہیں کرتے اور نہ صرف داڑھی منڈواتے ہیں بلکہ داڑھی پر مختلف تبصرے کرنے شروع کردیتے ہیں ۔ یاد رکھیں کہ داڑھی نہ رکھنا گناہ ہے لیکن داڑھی پر غلط تبصرے کرنا یا داڑھی کا مزاق اڑانا کفر ہے۔
    اللہ تعالیٰ ہم سب کو نبی اکرم ﷺسے سچی محبت کرنے والا بنائے اور داڑھی رکھنے والا بنائے۔ آمین، ثم آمین۔

 محمد نجیب سنبھلی قاسمی 

(www.najeebqasmi.com)


*****************************

Comments


Login

You are Visitor Number : 731