donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Islamic Articles -->> Islamic Education
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Ghaus Siwani
Title :
   Islam Ke Paighame Mosawat Ka Asar Muslim Samaj Me Kiyon Nazar Nahi Aata


    اسلام کے پیغام مساوات کا اثر مسلم سماج میں کیوں نظر نہیں آتا؟


تحریر: غوث سیوانی، نئی دہلی


    انسان کی حیثیت سے سب برابر ہیں۔ ان میں کوئی چھوٹا یا بڑا نہیں، کوئی راجہ اور پرجا نہیں۔سب کے حقوق برابر ہیں۔ یہ تصور سب سے پہلے پیغمبراسلام حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دنیا کے سامنے پیش کیا۔آپ کی تعلیمات نے انسانی نسلوں، طبقوں اور معاشروں کی ایک دوسرے پر مصنوعی فضیلت و برتری کے تمام دعوؤں کو مسترد فرما دیا اور انسانی مساوات کا عالمی اعلان فرمادیا۔اسی بنیاد پرایک ایسا عادلانہ نظام قائم کرکے دکھایا جس میں کسی گورے کو کالے پر یاعربی کو عجمی پر فضیلت حاصل نہ تھا بلکہ سب لوگ برابر تھے۔ آپ نے ارشاد فرمایا :

    ’’تمام بنی نوع انسان، آدم کی اولاد ہیں اور آدم مٹی سے پیدا کئے گئے تھے۔‘‘

( ترمذی،، کتاب المناقب)

    ’’اب فضیلت و برتری کے سارے دعوے، جان و مال کے سارے مطالبے اور سارے انتقام میرے پاؤں تلے روندے جاچکے ہیں۔‘‘

(ابن کثیر)

    ’’اے لوگو! تم سب کا رب ایک ہے، اور باپ بھی ایک ہے۔‘‘

( مجمع الزوائد)

    (اس وحدت نسل انسانی کے باعث تم سب برابر ہو) مگر تم میں بزرگ و برتر وہی ہے جو زیادہ پرہیزگار (بہتر کردار کا مالک) ہے۔ پس کسی عربی کو عجمی پر اور کسی عجمی کو عربی پر کوئی برتری نہیں اور نہ ہی کسی کالے کو گورے پر اور کسی گورے کو کالے پر برتری حاصل ہے ساری برتریاں، کردار و عمل پر مبنی ہیں۔‘‘

(طبرانی، المعجم الکبیر)

    اسی مساوات انسانی کے اصول کو اسلام اور انسانیت کی بنیاد قرار دیا گیاجس پر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بین الاقوامی سطح پرجمہوری اور عادلانہ انسانی معاشرے کی بنیاد رکھی۔ یہی اصول آگے چل کر عالمی جمہوریت کے قیام کا سبب بنا اور اسی اصول کو کمیونسٹوں نے اپنا کر ایک فلاحی ریاست قائم کرنے کی کوشش کی۔اسی بنیاد پر معاشی و اِقتصادی اِستحصال کا خاتمہ ہوسکتا تھا اگر اسے ایمانداری سے اپنایا جاتا مگر افسوس کے اسے خلافت راشدہ کے بعد کبھی ایمانداری سے نہیں اپنایا گیا۔ آج مساوات انسانی اقوام متحدہ کے منشور میں ضرور ہے مگر اس پر عمل نہیں کیا جاتا اور طاقت ور ممالک کمزور ملکوں کو ظلم وستم کا نشانہ بنارہے ہیں۔ اگر انسانی مساوات اور عدل وانصاف کے اسلامی تصور کو اپنا لیا جائے تو ساری دنیا میں امن وامان کا قیام ممکن ہے ۔

    حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے تمام انسانوں کو کنگھی کے دندانوں کی طرح یکساں قرار دیا ہے۔آپ کی تعلیمات رنگ ونسل ،عمر قومیت یا جسمانی خوبیوں کی بناء پر انسانوں میں تمیز کرنا نہیں سکھاتی ہیں۔یہی سبب ہے کہ آپ نے فرمایا کہ’’ تم سب آدم کی اولاد ہو اور آدم مٹی سے بنے تھے۔ اے اللہ کے بندو آپس میں بھائی بھائی بن جائو۔‘‘آپ کی نظر میں چونکہ انسان برابر ہیں اس لئے کسی کو بھی دوسروں پر حکمرانی کا حق وراثت میں نہیں مل سکتا۔وہ لوگ جو پہلے پیدا ہوئے یا جن کے پاس زیادہ دولت ہے یا جو لوگ کسی خاص خاندانی یا لسانی گروہ سے تعلق رکھتے ہوں،وہ دوسروں پر حکمرانی کا وراثتی حق نہیں رکھتے۔

    وہ احکام خداوندی جو انسان کی اجتماعی اور انفرادی زندگی کی بنیاد ہیں،وہ قرآن کریم میں یوں ہیں:
    ’’اللہ تمہیں حکم دیتا ہے کہ امانتیں اہل امانت کے سپرد کرو ‘اور جب لوگوں کے درمیان فیصلہ کرو تو عدل کے ساتھ کرو۔‘‘

( 4:58)

    ’’ اے لوگو جو ایمان لائے ہو انصاف کے علم بردار اور خدا واسطے کے گواہ بنو اگرچہ تمہارے انصاف اور تمہاری گواہی کی زد خود تمہاری اپنی ذات پر یا تمہارے والدین اور رشتہ داروں پر ہی کیوں نہ پڑتی ہو۔‘‘

(4:135)

    ’’اگر دشمن صلح اور سلامتی کی طرف مائل ہوں تو تم بھی اس کے لئے آمادہ ہوجائو۔‘‘

(8:61)

    ’’ اگر کوئی فاسق تمہارے پاس خبر لے کر آئے تو تحقیق کر لیا کرو کہیں ایسا نہ ہو کہ تم کسی گروہ کو ناداستہ نقصان پہنچا بیٹھو۔‘‘

(49:6)

    ’’ اوراگراہل ایمان میں سے دو گروہ آپس میں لڑ جائیں تو انکے درمیان صلح کرائو۔‘‘

(49:9)

مساوی عزت و اکرام آدم کی اولاد کے لیے

    اسلام کی نظر میں جہاں تمام انسان برابر ہی

ں، وہیں سبھی عزت واحترام کے بھی مساوی حقدار ہیں۔ انسان کو تمام مخلوقات میں برتر بناکر خود اللہ نے عزت کا مقام بخشا ہے۔ قرآن کریم میں فرمایا:

    ’’اور بیشک ہم نے اولادِ آدم کو عزت دی اور ان کو خشکی اور تری میں سوار کیا اور ان کو ستھری چیزیں روزی دیں اور ان کو اپنی بہت سی مخلوق سے افضل کیا۔‘‘

(17:70)

صنفی، معاشی و معاشرتی مساوات

    قرآن کی نظر میں انسان مساوی ہیں اور مرد کو کسی قسم کی صنفی برتری حاصل نہیں ہے۔ مردوں کی طرف سے عورتوں کو ناقص العقل ہونے کے طعنے دینا درست نہیں ۔ قرآن کریم میں ارشاد ربانی ہے:

    ’’اور تم اس چیز کی تمنا نہ کیا کرو جس میں اللہ نے تم میں سے بعض کو بعض پر فضیلت دی ہے، مردوں کے لئے اس میں سے حصہ ہے جو انہوں نے کمایا، اور عورتوں کے لئے اس میں سے حصہ ہے جو انہوں نے کمایا، اور اللہ سے اس کا فضل مانگا کرو، بیشک اللہ ہر چیز کو خوب جاننے والا ہے۔‘‘

(4:32)

    ’’ اے لوگو! ہم نے تمہیں مرد اور عورت سے پیدا فرمایا اور ہم نے تمہیں (بڑی بڑی) قوموں اور قبیلوں میں (تقسیم) کیا تاکہ تم ایک دوسرے کو پہچان سکو۔ بیشک اللہ کے نزدیک تم میں زیادہ باعزت وہ ہے جو تم میں زیادہ پرہیزگارہو، بیشک اللہ خوب جاننے والا خوب خبر رکھنے والا ہے۔‘‘49:13)

     ’’اور ہر ایک کے لیے ہیں درجے، ان کے اعمال کے مطابق اور ضرور پورا پورا بدلہ دیا جائے گا ان کے اعمال کا اور ان پر ہرگز ظلم نہ کیا جائے گا۔

(46:19)

    ’’پھر ان کے رب نے ان کی دعا قبول فرما لی (اور فرمایا:) یقیناً میں تم میں سے کسی محنت والے کی مزدوری ضائع نہیں کرتا خواہ مرد ہو یا عورت، تم سب ایک دوسرے میں سے (ہی) ہو، پس جن لوگوں نے (اللہ کے لئے) وطن چھوڑ دیئے اور (اسی کے باعث) اپنے گھروں سے نکال دیئے گئے اور میری راہ میں ستائے گئے اور (میری خاطر) لڑے اور مارے گئے تو میں ضرور ان کے گناہ ان (کے نامہ ٔاعمال) سے مٹا دوں گا اور انہیں یقیناً ان جنتوں میں داخل کروں گا جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی، یہ اللہ کے حضور سے اجر ہے، اور اللہ ہی کے پاس (اس سے بھی) بہتر اجر ہے۔‘‘

(3:195 )

’’ اور جو کوئی نیک اعمال کرے گا (خواہ) مرد ہو یا عورت درآنحالیکہ وہ مومن ہے پس وہی لوگ جنت میں داخل ہوں گے اوران کی تِل برابر (بھی) حق تلفی نہیں کی جائے گے۔‘‘

(4:124)

    گویا انسان کو محض صنفی بنیاد پر فوقیت نہیں بلکہ اعمال وکردار کے سبب فوقیت ہے اور اگر وہ دوسروں پر برتر ہے تو نیک عمل، تقویٰ اور خد اترسی کی بنیاد پر۔ یہ خوبیاں اگر عورت میں ہیں تو وہ بہت سے ایسے مردوں سے افضل ہے جو ان خوبیوں سے محروم ہیں۔ 

 زبان اور رنگ کی مساوات

    دنیا کے مختلف خطوں میں رہنے والے الگ الگ زبانیں بولتے ہیں ۔ ان کی جسمانی رنگت بھی ایک دوسرے سے مختلف ہوتی ہے اور ان کی طرز زندگی میں بھی اختلاف ہوتا ہے مگر ان اختلافات کو شرف وبزرگی کی بنیاد نہیں بنایا جاسکتا۔ اللہ کا فرمان ہے:  

    ’’ اور اس کی نشانیوں میں سے آسمانوں اور زمین کی تخلیق (بھی) ہے اور تمہاری زبانوں اور تمہارے رنگوں کا اختلاف (بھی) ہے، بیشک اس میں اہلِ علم (و تحقیق) کے لئے نشانیاں ہیں۔‘‘

(30:22)

دوسری قوموںکا احترام

    رنگ ونسل اور خطے وملک کا اختلاف اقوام میں برتری کا احساس پیدا کرتا رہاہے۔ اہل عرب بھی غیرعرب اقوام پر خود کو برتر تصور کرتے تھے۔ ٹھیک یہی صور تحال دنیا کی دوسری اقوام میں بھی پائی جاتی ہے۔ ہندوستان کی مختلف ریاستوں کے لوگ ایک دوسرے کو نیچی نگاہ سے دیکھتے ہیں، مگر قرآن کی نظر میں سب برابر ہیں اور کسی کو یہ اجازت نہیں کہ دوسروں کا مذاق اڑائے یا خود کو برتر سمجھے:

    ’’ اے ایمان والو! کوئی قوم کسی قوم کا مذاق نہ اڑائے ممکن ہے وہ لوگ اْن (تمسخر کرنے والوں) سے بہتر ہوں اور نہ عورتیں ہی دوسری عورتوں کا (مذاق اڑائیں) ممکن ہے وہی عورتیں اْن (مذاق اڑانے والی عورتوں) سے بہتر ہوں، اور نہ آپس میں طعنہ زنی اور الزام تراشی کیا کرو اور نہ ایک دوسرے کے برے نام رکھا کرو، کسی کے ایمان (لانے) کے بعد اسے فاسق و بدکردار کہنا بہت ہی برا نام ہے، اور جس نے توبہ نہیں کی سو وہی لوگ ظالم ہیں۔‘‘

(49:11)

    ’’اور لوگوں سے (غرور کے ساتھ) اپنا رخ نہ پھیرو، اور زمین پر اکڑ کر مت چلو، بیشک اللہ ہر متکبّر، اِترا کر چلنے والے کو ناپسند فرماتا ہے۔‘‘

(31:18)

    ’’اور اپنے چلنے میں میانہ روی اختیار کرو، اور اپنی آواز کو کچھ پست رکھا کرو، بیشک سب سے بری آواز گدھے کی آواز ہے‘‘

(31:19)

    رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات نے ہر رنگ ونسل کی تفریق وکو مٹانے کا کام کیا ہے اور فخروغرور سے اترانے والوں کو احساس کرایا ہے کہ 

خاک جب خاکسار ہوتی ہے
کس قدر  باوقار  ہوتی ہے

     یہ عجیب بات ہے کہ اسلام میں مساوات کی تعلیم دی گئی ہے مگر اس کے باوجود مسلم معاشرہ آج تک اسلام کی تعلیم مساوات کا مظہر نہیں بن پایا۔ دنیا میں ایک ملک ایسا نہیں ملے گا ،جہاں مسلمان ہر قسم کے بھید بھائو سے اوپر اٹھ کر مساوی نظر آتے ہوں۔ بھارت میں ذات پات کا فرق ہے تو عرب سے یوروپ تک ان کے اندر رنگ ونسل کا فرق دکھائی دیتا ہے۔ دنیا کے کئی ممالک میں وہ نسلی اختلاف کا شکار ہیں۔ ظاہر ہے کہ یہ سب کچھ اسلامی تعلیمات کے خلاف ہے۔ یہ دنیا انسانی مساوات کا نمونہ تب ہی بن سکتی ہے جب تمام مسلمان خود کو اسلامی تعلیمات کا نمونہ بنالیں۔  

(یواین این)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

Comments


Login

You are Visitor Number : 972