donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Eucational Article -->> Ilm O Fun
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Hasnain Sahir
Title :
   Lo Aa Gaya Khat Unka Main Jhoom Jhoom Kar Gayun


لو آ گیا خط ان کا میں جھوم جھوم کے گاؤں


حسنین ساحر

 
    سائنسی ایجادات اور جدید ٹیکنالوجی نے انسانی طرز زندگی میں انقلاب برپا کردیا ہے۔ انٹرنیٹ، کمپیوٹر، موبائل، ویڈیو چیٹ اور ای میل وغیرہ نے رابطوں کو اتنا سہل اور تیز رفتار بنا دیا ہے کہ عقل انسانی اپنے ہی اس کارنامے پر دنگ رہ جاتی ہے۔ اب ایک ہی لمحے میں پیغام دنیا کے ایک کونے سے دوسرے کونے میں پہنچ جاتاہے۔ ایس ایم ایس اور ای میل پیغام رسانی کے اتنے آسان اور سستے ذرائع ہیں کہ کوئی بھی انہیں آسانی کے ساتھ استعمال کر سکتاہے۔ بلاشبہ یہ سائنسی ترقی انسان کی ذہنی اپج کی آئینہ دار ہے اور اس کی ضرورت و اہمیت سے انکار ممکن نہیں۔

    سائنسی ایجادات اور جدید ٹیکنالوجی نے جہاں انسانی ضروریات کے حصول میں آسانیاں پیدا کی ہیں، وہاں کچھ جذبات شکن تبدیلیاں بھی رونما ہوئی ہیں۔ زیادہ نہیں بس پندرہ بیس برس پہلے کے زمانے میں یاداشت کو لے کر جائیں تو طرز زندگی آج سے بالکل برعکس دکھائی دیتی ہے۔ جی ہاں۔ یہ اس دور کی بات ہے جب ای میل اور موبائل ایس ایم ایس کا وجود نہیں تھا۔ اگر تھا بھی تو عام میسر نہیں تھا۔ یہ دور تھا خطوط کے ذریعے آدھی ملاقات کا۔جب خط لکھنے والا کئی کئی دن تک یہ سوچتا تھا کہ خط کس طرح سے شروع کروں؟ خط میں کیا لکھوں؟  خاص طور سے اپنے دوستوں سے خط کے مضمون کے مطابق کوئی مناسب شعرپوچھنا بھی اس روایت کا حصہ تھا۔جب خط لکھنا شروع کیا جاتاتو ابتدائیہ سے مطمئن نہ ہونے کی صورت میں نہ جانے کتنے ہی کاغذ ردی کی ٹوکری کی نذر ہوجاتے تھے۔ ابتدائیہ تو خیر نزدیک کی بات تھی، کئی مرتبہ پورا خط لکھ لینے کے بعد جب اس پر تنقیدی نظر دوڑائی جاتی تو وہ بھی ردّی کی ٹوکری کی نظر ہوجایا کرتا تھا۔


     خدا خدا کرکے خط مکمل ہوجاتا تو اسے بڑے اہتمام کے ساتھ پوسٹ کیا جاتا تھا۔ ڈاک کے لفافے کے باہر بھی کچھ لوگ نقش ونگار بناتے تھے اور پتہ لکھنے سے پہلے بہت خوبصورت انداز میں ’’بشرف نگاہ‘‘ اور ’’شرف نظر‘‘  وغیرہ جیسے ٹائٹل تحریر کیے جاتے تھے۔ جب خط پوسٹ ہوجاتا تو پھراگلا مرحلہ اس کے جواب کاانتظار کا ہوتا تھاجو اکثر ہفتوں یا مہینوں پربھی محیط ہوتا تھا۔ اور خط لکھنے والا یہی سوچتا کہ دوسری طرف سے نہ جانے کیا جواب آئے گا؟  کہیں میری کوئی بات ناگوارتو نہیں گذری یا ایسا کیا ہوگیا کہ جواب نہیں آیا؟ اُن لمحات اور اُن جذبات کی چاشنی کو کبھی بھلایا نہیں جاسکتا۔ خاص طور سے وہ لوگ جو اس دور سے گذر کر آئے، وہی سمجھ سکتے ہیں کہ خط لکھنے اور پڑھنے کا عمل کس قدر  رومان پرور ہوتا تھا۔


    خط لکھنے والے اور جواب دینے والے کے درمیان ایک تیسرا اہم کردار بھی ہوا کرتا تھا۔ ۔۔ڈاکیا۔۔۔ جسے بعض علاقوں میں ڈاک بابو یا ڈاک منشی جیسے خوبصورت القابات سے بھی پکاراجاتا تھا۔ شہروں میں تو شاید نہیں، لیکن دیہاتوں میں ڈاک بابو کی بہت آئو بھگت ہوا کرتی تھی۔ کیوں نہ ہوتی۔ ڈاک بابوکا کام صرف پردیسیوں کے سندیس لانا ہی نہیں تھا بل کہ اسے چٹھی پڑھ کر بھی سنانا پڑتی تھی۔ اگر وقت ہوتا تو ڈاک بابو وہیں جواب بھی تحریر کردیا کرتے۔ ورنہ خط کا جواب زبانی سن لیتے اور بعد میں لکھ بھیجنے کا وعدہ کر کے رخصت ہو جاتے تھے۔ ڈاکیا جب دوبارہ گائوں میں نظر آتا تو اس سے پوچھا جاتا کہ اس نے خط کا جواب بھیج دیا یا نہیں۔ تو یوں ڈاک بابو کو بہت قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا۔ خاص طور سے سہاگنیں اور مائیں اپنے پردیسیوں کے خط کا بڑی بے چینی سے انتظار کرتی تھیں۔  یہ کیفیت صرف گھروالوں کی ہی نہیں بل کہ پردیسیوں کی بھی ہوتی تھی جو اپنے گھروں سے خیریت نامہ آنے کا بہت بے چینی سے انتظار کر رہے ہوتے تھے۔یہ پردیسی یا تو تلاش معاش میں گھر سے دور ہوتے یا بارڈر پر ملک کی سرحدوں کی حفاظت پر مامور ہوتے تھے۔ فوجی یونٹوں میں تو جن کے خط آتے ان کے لیے عیدکا سا سماں ہوتا ۔اور ایک دوسرے سے گھر کی خیریت دریافت کی جاتی تھی۔ ایک دوسرے کے گھروں کا حال احوال جاننا ایک ضروری رسم تھی۔ جن کے خط آتے ، اور جن کے نہیں آتے، سب میں ایک بات مشترک تھی۔۔۔اداسی و افسردگی۔۔۔ گھر کی یاد تو بہرطور آتی ہی تھی، خط آتا یا نہ آتا۔
     یہ سب احساسات اور جذبات جڑے تھے خط کے ساتھ، خط کے انتظار کے ساتھ۔ وہ خط جو گھر سے آنا تھا، ماں باپ کا خط، بیوی بچوں کاخط یا پھر کسی دوست کاخط، کسی پرانے ہمراز کا خط۔ خط ایک جذباتی اور روحانی رابطے کا نام تھا۔شاید اسی لیے پاک و ہند کے نغمہ نگاروں نے خط کے ساتھ جذباتی ربط کو محسوس کرتے ہوئے بے شمار گیت تخلیق کیے۔ ان مشہور فلمی گیتوں میں سے چندیہ ہیں:


        ٭چٹھی ذرا سیّاں جی کے نام لکھ دے
        (

غمہ نگار: قتیل شفائی / گلوکارہ: نورجہاں/فلم : دوستی1971
        ٭چٹھی میرے ڈھول نوں پہنچاویں وے کبوترا
        (نغمہ نگار: طفیل ہوشیارپوری/گلوکارہ: نیّرسلطانہ/فلم: دُلّا بھٹی1956
        ٭لو آ گیا خط ان کا میں جھوم جھوم کے گاؤں
        (نغمہ نگار: سلیم کاشر/گلوکارہ: رونا لیلہ/فلم:زندگی1968)
        ٭چٹھی آئی ہے وطن سے چٹھی آئی ہے
        (نغمہ نگار: آنند بکشی/گلوکار: پنکج ادھاس/فلم: نام 1986)
        ٭لکھے جو خط تجھے وہ تیری یاد میں
        (نغمہ نگار:نیرج/گلوکار: محمد رفیع/فلم: کنیادان1968)
        ٭خط میں نے تیرے نام لکھا حال دل تمام لکھا
        (نغمہ نگار:انورساگر/گلوکار:کمارسانو، آشا بھوسلے/فلم: بے خودی 1992)

 
    گیتوں کا تذکرہ توبمشکل آدھی صدی پہلے کا ہے۔ لیکن اگر چند صدیوں پہلے کی تاریخ اٹھا کر دیکھیں تو قدیم شعرا کے دواوین خطوط کے حوالے سے کی گئی نکتہ سنجیوں سے بھرے پڑے ہیں۔ شعرا نے خط لکھنے اور بھیجنے سے متعلق ہر کیفیت کا اظہار بڑے دلچسپ پیرائے میںکیا۔ انہوں نے خط کے حوالے سے انسانی نفسیات کی نقاب کشائی کر کے اپنے قارئین کی دل بستگی کا خوب سامان کیا ہے۔ خط کے آنے نہ آنے سے وابستہ پریشانی، قاصد اور خط کے جواب کا انتظار بھی شعرا نے خوب خوب بیان کیا:

خط کے پرزے ہیں دستِ قاصد میں
ایک  کیا،   سو  جواب   لا یا  ہے

    میرزا غالب کے مکاتیب تو ویسے بھی بہت شہرت کے حامل ہیں لیکن انہوں نے اپنی شاعری میں بھی جا بجا خط کا تذکرہ کیا:

غیر پھرتا ہے لیے یوں ترے خط کو کہ اگر
کوئی پوچھے کہ یہ کیا ہے تو بتائے نہ بنے

     داغ دہلوی بھی انسانی جذبات سے پردہ اٹھاتے ہوئے کہتے ہیں :

تمہارے خط میں نیا اک سلام کس کا تھا
نہ  تھا  رقیب  تو آخر وہ نام کس کا  تھا

    اس کے علاوہ چند مشہور اشعار ملاحظہ ہوںجن میں اس دور کی زبان کے مطابق ’ڈاکیا‘‘ زیرِ بحث ہے:

ہو لیے کیوں نامہ بر کے ساتھ ساتھ
یا رب! اپنے خط کو ہم پہنچائیں کیا
دے کے خط منہ دیکھتا ہے نامہ بر
کچھ تو پیغام زبانی اور ہے
قاصد کے آتے آتے خط اک اور لکھ رکھوں
میں جانتا ہوں جو وہ لکھیں گے جواب میں
چاہیے پیامبر دونوں طرف
لطف کیا جب دو بدو ہونے لگی

    بہت سے شعرا خط بھی منظوم کر کے لکھتے تھے۔ جو آج بھی محفوظ ہیںاور نوادرات کی حیثیت رکھتے ہیں۔ایسے کئی منظوم اور منثور خطوط، خط کی اہمیت اور اس سے انسانی جذبات کی وابستگی کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔شاعری کے گل زاروں اور فلمی سبزہ زاروں سے ہوتا ہوا خط کا یہ طویل اور جذباتیت سے لبریز سفر آخر کار اختتام پذیر ہوچکا ہے۔ عصرِحاضر میں خط اگر رابطے کا ذریعہ ہے بھی، تو صرف سرکاری دفاتر میں۔ یا پھر چند ادبا اور شعرا نے اس روایت کوزندہ رکھا ہوا ہے۔ ان میں سے بھی اکثریت کا مقصدخطوط کو بطور دستاویزات جمع کرنا ہوتا ہے۔

    سائنسی ترقی کی بدولت زندگی آسان تولگتی ہے لیکن موبائل، انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا نے دلوں سے شرم و حیا اور لحاظ چھین لیا ہے۔ خطوط میں ایک دوسرے کے مقام و مرتبہ کا خیال رکھا جاتا تھا۔ ایک بات کا جواب سات دن بعد ہی ملتا تھا لیکن کم از کم ایسا تو نہ تھا کہ ایس ایم ایس یا انٹرنیٹ پر صبح جان پہچان ہوئی اور شام تک آپس میں اتنے بے تکلف ہو گئے کہ اخلاقیات بھی شرما جائے۔ کسی نے خوب کہا تھا کہ ’’روز روز کا آنا اہمیت کھو دیتا ہے‘‘۔بالکل اسی طرح ہر وقت کے آپسی رابطوں سے لوگ اپنی اہمیت کھو چکے ہیں۔ سستے رابطوں سے ہر وقت بات چیت جاری رہتی ہے اور لوگ ایک دوسرے سے اکتاہٹ کا شکار ہوتے جارہے ہیں۔ اور یہی اکتاہٹ جھوٹ کو جنم دے رہی ہے۔ اب کوئی سچ بتانا گوارا ہی نہیں کرتا کہ وہ کہاں ہے۔

     ہماری آج کی اور مستقبل کی نسلیں جدید سائنسی ترقی کے فوائد اور سہولیات سے تو آشنا ہوں گی لیکن انہیں خطوط سے وابستہ جذبات و احساسات کا ادراک شاید کبھی نہیں ہو سکے گا۔ ان کی نظر میں ڈاکیا کوئی عام سرکاری ملازم ہوگا، خط کا انتظار وقت کا ضیاع اور جمع شدہ پرانے خطوط ردّی کا ڈھیر ہوں گے۔ انہیں کیا خبر کہ ان کاغذوں میں لکھی تحریروں کے پیچھے کیسے کیسے جذبات ہیں، کتنے آنسو ہیں، کتنی یادیں ہیں، کتنی محبت ہے اور کتنی سچائی ہے۔


٭٭٭٭٭

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 1017