donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Eucational Article -->> Ilm O Fun
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Forum Desk
Title :
   Mirrikh Par Kamand

مریخ پر کمند


سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ مریخ پر زندگی کے امکان پرحتمی پیش گوئی کرنے میں کم  ازکم دس سال کا عرصہ لگ سکتاہے

    ستاروں پر کمندیں ڈالنے اور انہیں تسخیر کرنے کا خواب اب حقیقت کی جانب بڑھ رہاہے اورمریخ کی سطح پر کامیابی کیساتھ ایک انتہائی جدید ، بیش قیمت اور چلتی پھرتی سائنسی لیباریٹری اتارنے کے بعد اب یہ امکان پیدا ہوگیا ہے کہ اس صدی کے آخر تک انسانی قدم اس سیارے پر ہوں گے۔ مریخ کے لئے کیوریاسٹی کا مشن مہنگے ترین خلائی پروگرام میں سے ایک ہے۔ امریکی خلائی ادارے ناسانے سرخ سیارے کی سطح پر اس چلتی پھرتی لیباریٹری کے پروگرام پر ڈھائی ارب ڈالر خرچ کئے ہیں۔ چاند کی تسخیر کے بعد جب انسان نے سیاروں کو اپنی اگلی منزل کے طورپر دیکھنا شروع کیا تو اس کا پہلا انتخاب مریخ بنا، کیونکہ وہ اس نظام شمسی میں زمین کاسب سے قریبی ہمسایہ ہے اور کئی اعتبار سے زمین سے ملتا جلتا ہے۔ بہت سے ماہرین کا خیال ہے کہ اس سرخ سیارے میں زندگی اپنی کسی شکل میں موجود ہے یا کبھی موجود رہی ہوگی۔

زندگی کا امکان

    سائنس دانوںکا کہنا ہے کہ مریخ پر زندگی کی امکانی شکل انتہائی چھوٹی جراثیمی حیات جیسی ہوسکتی ہے۔ مریخ پر وہ تمام عناصر موجود ہیں جنہوںنے مل کر زمین پر زندگی کو جنم دیا۔ چونکہ سرخ سیارے پر آکسیجن کی مقدار انتہائی معمولی ہے ، اس لئے یہ بھی ممکن ہے کہ وہاں زندگی کا انحصار آکسیجن پر نہ ہو۔ اس انداز کی جراثیمی حیات کرہ ارض پر بھی پائی جاتی ہے۔ لیکن اس وقت سائنس دانوں کی دلچسپی مریخ کی ساخت کے بارے میں معلومات اکٹھی کرنے اور اس سیارے کا جامع نقشہ بنانے میں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کیوریاسٹی میں نصب زیادہ تر آلات اسی بارے میں ہیں۔

    سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ مریخ پر زندگی کے امکان پر حتمی پیش گوئی کرنے میں کم از کم دس سال کا عرصہ لگ سکتا ہے۔ اس عرصے کے دوران سرخ سیارے کے بارے میں زیادہ سے زیادہ ڈیٹا اکٹھا کیاجائے گا۔

مریخ تک انسانی سفر

    زمین اورمریخ کا درمیانی فاصلہ کم از کم پانچ کروڑ 46 لاکھ کلو میٹر ہے۔ سورج کے مدارمیں گردش کے دوران ایک مقام پر یہ فاصلہ بڑھ کر 40کروڑ کلو میٹر تک پہنچ جاتا ہے۔ مریخ پر انسان بھیجنے کی راہ میں طویل فاصلہ ایک بڑی رکاوٹ ہے۔ کیوریاسٹی کو اپنے اس سفر میں آٹھ ماہ سے زیادہ کا عرصہ لگا ہے۔ مریخ پر جانے کے لئے سائنس دانوں کو ایک سال سے طویل سفر کیلئے ٹھوس اور مستند انتظامات کرنے ہوں گے۔زمین کے مدار میں بین الاقوامی خلائی اسٹیشن کا تعمیر اور وہاں طویل عرصے تک خلابازوں کے قیام کی ایک اور وجہ انسان کو لمبی مدت تک زمینی ماحول سے دور رہنے کے لئے تیار کرنا اور اس سلسلے میں پیش آنے والی مشکلات پر قابو پانا ہے۔

مریخ کی سطح

    مریخ نظام شمسی کا چوتھاسیارہ ہے جسے دوربین کے بغیر بھی دیکھا جاسکتا ہے۔ بھاری مقدار میں لوہے کے مرکبات کی موجودگی کی وجہ سے مریخ کی سطح سرخ دکھائی دیتی ہے۔ اس بناپر اسے سرخ سیارہ بھی کہاجاتا ہے۔ مریخ کی سطح بڑی حد تک زمین سے ملتی ہے۔ اس کی فضا زمین کے مقابلے میں انتہائی لطیف ہے جس میں 95 فی صد کاربن ڈائی اکسائیڈ اور تین فی صد نائٹروجن ہے۔ جب کہ انتہائی معمولی مقدار میں آکسیجن اور پانی کی موجودگی کے شواہد بھی ملے ہیں۔ سیارے کی فضا گر دآلود ہے۔ کمزور مقناطیسی غلاف کے باعث یہ سیارہ شمسی تابکاری کے براہ راست زدمیں رہتا ہے۔ مریخ کے دوچاند ہیں ، مگر وہ زمین کے چاند سے چھوٹے ہیں۔

موسم

    زمین کی طرح ایک جانب جھکائو کے باعث مریخ پر موسم بدلتے رہتے ہیں۔ حاصل شدہ معلومات کے مطابق موسم سرما میںمریخ کا درجہ حرارت منفی 143 درجے سینٹی گریڈ جب کہ گرمیوں میں 35 درجے تک پہنچ جاتا ہے۔ مریخ کا دن زمین کے دن سے تقریباً نصف گھنٹہ بڑا ہے جب کہ اس کا ایک سال زمین کے تقریباً 687دنوں کے مساوی ہے۔

تحقیق کا آغاز

    مریخ کئی صدیوں سے انسانی تجسس کا مرکز ہے۔ طاقت ور دور بینوں کی ایجاد کے بعد اس سیارے کی سطح کے بارے میں کئی مفید معلومات حاصل ہوئیں۔ اور خلائی سائنس کی ترقی نے تحقیق کے نئے راستے کھول دیئے۔ 1965 ء میں مریخ کے مدار میں پہلا امریکی راکٹ میرینرفور پہنچاجس سے سیارے پر پانی کی موجودگی کے شواہد فراہم کئے۔ اس وقت مریخ زمین سے بھیجے جانے والے پانچ راکٹوں کی میزبانی کررہا ہے۔ جن میں سے تین اسکے مدارمیں گردش کررہے ہیں۔ جبکہ دو اسکی سطح پر موجود ہیں۔ جن میں سے ایک کا نام ایکس پلوریشن اور دوسرا حال ہی میں اتارا جانے والا کیوریاسٹی ہے۔

کیوریاسٹی

    کیوریاسٹی کاسائز ایک درمیانی کار کے مساوی ہے۔ اس کا وزن تقریبا ً ایک ٹن ہے۔ یہ لیباریٹری ایک خلائی راکٹ کے ذریعے آٹھ ماہ میں سرخ سیارے تک پہنچی۔ کیوریاسٹی کے چھ پہیئے ہیں، جو اسے پہاڑ پر چڑھنے اور ڈھلوانی سفر میں مدد دیتے ہیں اسے مریخ کے کیل کارٹر کے علاقے میں اتارا گیا ہے کیونکہ سائنس دانوں کاخیال ہے کہ مریخ کے ارتقاسے متعلق زیادہ تر معلومات اسی مقام سے حاصل ہوسکتی ہیں۔  مریخ کی لطیف فضا کے باعث وہاں کیوریاسٹی کا اتارا جاناسائنس دانوں کے لئے ایک کڑے امتحان سے کم نہیں تھا۔ راکٹ سے الگ ہونے کے بعد کیوریاسٹی کو مریخ کی سطح پر اترنے میں سات منٹ لگے۔

    سات منٹ میں کیوریاسٹی کی رفتار 13200میل فی گھنٹہ کی رفتار سے صفر تک لانا ایک دشوار مرحلہ تھا، جسے سائنس دانوں نے خوف کے سات منٹ کا نام دیا تھا۔ اسے مریخ کی ریتیلی سطح پر اتارنے کیلئے پیرا شوٹ اور رفتار کم کرنے والے راکٹ انجن استعمال کئے گئے اور یہ منظر ناسا کے مرکزی کنٹرول روم میں سائنس دانوں نے اپنی سانسیں روک کر دیکھا اور اس کے بحفاظت مریخ کی سطح چھونے کے بعد سائنس دانوں کی خوشی دیدنی تھی۔

    کیوریاسٹی پر کئی کیمرے نصب ہیں۔ اور وہ زمین پر سرخ سیارے کی رنگین تصویر یں بھیج رہا ہے۔ فی الحال اس سے کم ریزولیوشن کی تصویریں حاصل کی جارہی ہیں کیونکہ ہائی ریزولوشن کی تصاویر ڈائون لوڈ کرنے میں طویل وقت صرف ہوتا ہے۔ کیوریاسٹی کو زیادہ فعال بنانے کے لئے اسے مریخ پر اتارنے سے قبل سائنس دانوں نے اسکے کمپیوٹر میں نیاسافٹ ویئر ڈائون لوڈ کیا۔ کیوریاسٹی میں جوہری توانائی کی پلوٹونیم بیڑیاں لگائی گئی ہیں۔

    سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ وہ کم از کم دس سال تک کیوریاسٹی کی توانائی کی ضروریات پوری کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں ، اور امکان یہ ہے کہ وہ مزید ایک عشرے تک کار آمد رہ سکتے ہیں۔

    کیوریاسٹی اپنے تجربات اور چٹانوں کے نمونے اکٹھے کرنے کے لئے ایک فرلانگ فی گھنٹہ کی رفتار سے سفر کرے گا۔ اس میں چیزوں پر ضربیں لگانے ، گھسیٹنے اور جھٹکے دینے کی صلاحیت ہے، اور وہ اس علاقے میں موجود تین میل اونچے پہاڑپربھی چڑھے گا۔ سائنسی شواہد اکٹھے کرنے میں مددکے لئے اس میں لیز بھی لگایا گیا ہے۔

    سائنس دانوں کا خیال ہے کہ اگلے چھ مہینوں کے دوران انہیں کیوریاسٹی سے جتنی معلومات ملیں گی ان کا حجم گزشتہ 40برسوں میں اکٹھی کی جانے والی معلومات سے زیادہ ہوگا۔ اور یہ معلومات اس صدی کے آخر تک انسان کے لئے مریخ پر آمد ورفت کا دروازہ کھول دیں گی۔


****************************

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 622