donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Present Situation -->> Hindustan
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Seraj Arzoo
Title :
   Dadri Mamla - Hindustan Ke Jamhuri Ikhlaq ka Namuna

  دادری معاملہ   ۔۔۔

 

ہندوستان کے جمہوریــــ’ اخلاق ‘کا جنازہ

 

تحریر :  سراج آرزوؔ،بیڑ ،مہاراشٹر

موبائیل فون : 09130917777، ای میل : sirajaarzu@gmail.com


            ہندوستان کے وزیر اعظم جب ائر لینڈ کے اپنے دورہ پر ہندوستانی سیکو لارزم کے تعریفوں کے پل باندھ رہے تھے وہیں راجدھانی دہلی سے قریب گریٹر نوئیڈا کے دادری تحصیل کے بساڈا دیہات میں ایک مندر کے پپجاری کے اعلان پر محمد اخلاق کو بیف کھانے کے شبہ میں بڑی بے دردی کے ساتھ قتل کیا جا رہا تھا۔

          اخلاق کی موت جتنی بھیانک ہوئی اس کے بعد کے تاثرات تو اس سے بھی زیادہ فکر انگیز ہیں۔بی جے پی کے مقامی لیڈروں کو پولیس کی کاروائی پر اعتراض ہے،ان کا کہنا ہے کہ یہ ارادۃ قتل نہیں تھااس لئے قتل کے دفعات کے تحت کاروائی نہ کر کے غیر ارادۃ قتل کا معاملہ درج ہونا چاہیے!۔اس کے پیچھے ان کا قیاس یہ ہے کہ اخلاق کا قتل کوئی منصوبہ بند نہیں تھا وہ تو ’ گو ودھ ‘ اور گو مانس ‘ کھانے کی خبر سے ہندو رہائشیوں کے مذہبی جذبات بھڑک اٹھے اور ان کا ماننا ہے کہ ان لوگوں نے ’کچھ کڑے روپ میں اپنے تاثر دئے ‘ جس کے نتیجے میں اخلاق کی موت ہو گئی ،یہ مقامی بی جے پی لیڈران الٹ اخلاق کے خاندان پر ’ گو ودھ ‘اور ’ گو مانس ‘ کے کھانے کے ضمن میں معاملہ درج کرنے کی مانگ کر رہے ہیں۔

     مرکزی وزیرمہیش شرما کے مطابق بساڈا گاؤں میں اخلاق کے خاندان کے ساتھ مزید دو مسلم خاندان رہتے ہیںان کے ساتھ اس طرح کا واقعہ پیش نہیں آیاجو کچھ ہوا غلط فہمی کی بنیاد پر ہوا انھوں نے مزید کہا کہ یہ کوئی منصوبہ بند سازش نہیں تھی بلکہ ایک حادثہ تھا۔ مہیش شرما کے اس بیان سے ان کی عقل کا پتہ چلتا ہے!

     جس مندر سے اخلاق کے گھر بیف کھایا جانے کا اعلان کیا گیا تھا اس اعلان کرنے والے پجاری کا کہنا ہے کہ گاؤں کے دو نوجوانوں نے اسے اس طرح کے اعلان کے لئے مجبور کیا تھا۔اس سے یہ بات بھی واضح ہو جاتی ہے کہ یہ ایک پجاری ہونے کے باوجود ،ایک مذہب کی نمائندگی کرنے والاایک شخص کتنا غیر ذمہ دار ہو سکتا ہے ۔یہاں غورطلب یہ بات بھی ہے کہ گاؤں میں اس قتل کو لیکر کوئی افسوس نہیں دیکھا گیا، این ڈی ٹی وی کے رویش کمار کے مطابق بساڈا گاؤں کی سڑک ایسی لگ رہی تھی جیسے کچھ ہوا ہی نہیںاور اگر کچھ ہوا بھی ہے تو وہ غلط نہیں ہواابتدائی مشاہدہ میں ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اخلاق کے ذریعے ’گو ودھ ‘ اور ’گومانس ‘ کھانے کی مندر سے لاؤڈ اسپیکر کے ذریعے پھیلی افواہ کے بعد فرقہ پرستوںکا غصّہ بھڑکا اور بات اخلاق کے قتل تک جا پہنچی ،لیکن یہ خونی غصہ یوں ہی نہیں بھڑکتا ؟ لمبے عرصہ سے ہندوتو ا کا پرچار اور مسلم مخالف تربیت کے بعد ہی نفرت اجتماعی تشدد کی شکل اختیار کرتی ہے۔جائے واردات کے جائزہ سے اس بات کا اندازہ ہوتا ہے کہ مارنے والے بلوائیوں میں نفرت کتنی حد تک بھری ہوئی تھی۔دروازہ درمیان سے توڑا گیا تھا،سلائی مشین ٹوڑ کر اس کا استعمال مارنے کے لئے کیا گیا ۔کھڑکی سے لگی لوہے کی گرِل توڑ کر اس سے اس قدر زور سے حملہ کیا گیا کہ یہ گرل ٹیڑی میڑی ہو گئی ،اینٹیں نکالی گئی اور ان اینٹوں سے کچلا گیا ۔ سٹیز نس فور ڈیمو کریسی کی رپورٹ کے مطابق داردری کے اخلاق احمد کو صرف قتل ہی نہیں کیا گیا بلکہ بہت ہی بے دردی سے ان کے ہونٹ ،کان ناک اور دیگر اعضاء کاٹ لئے گئے تھے۔اب آپ ہی اندازہ لگایا ئے کہ ان وحشی حملہ آوروں کی نفرت کا کیا معاملہ تھا۔اب یہاں پہنچ رہے مختلف اخبار نویسوں کو علاقے کا جائزہ لینے کے بعد اس بات کا علم ہو رہا ہے کہ اس گاؤں میں بہت پہلے سے ہی مسلم مخالف ماحول تیار کیا جا رہا تھا۔اس سے قبل بھی اس علاقے میں مویشی لے کر جا رہے تین مسلمانوں کو گاڑی سے کھینچ کر مار ڈالا گیا تھا اس طرح کی بات بھی سامنے آ رہی ہے۔

       اب جبکہ پولیس نے اخلاق کے فریج میں رکھا گوشت جانچ کے لئے بھیج دیا ہے اخلاق کے بیٹی کے مطابق اگر مذکورہ گوشت ’گو مانس ‘ نہ ثابت ہوا تو کیا یہ مذہبی جنون پرست افراداخلاق کی زندگی واپس کرینگے؟ فرض کیجئے کہ اگر وہ ’ گو مانس ‘ ثابت بھی ہو جاتا ہے تو کیا یہ قتل جائز  ہوگا؟ اتر پردیش میں گائے کے ذبیحہ پر پابندی ضرور ہے لیکن اس میں یہ کہا ںلکھا ہو اہے کہ اگر کوئی معاملہ پکڑا جائے تو موقع پر ہی لوگ ملزم کو جان سے مار دیں؟دادری معاملے کے بعد کچھ شخصیات کے ذریعے کئے گئے اظہار خیال پر آئیے غور کرتے ہیں۔گذشتہ روز پھگواڑہ پنجاب میں پنجاب امبیڈکر سینا کے ریاستی صدر نے آر ایس ایس چیف موہن بھاگوت کا پتلا نذر آتش کرنے کے بعد جو اظہار خیال کیا وہ بھی قابل غور ہیں انھوں نے کہا کہ وزیر اعظم نریندر مودی آر ایس ایس کے خفیہ ایجنڈے پر عمل پیرا ہیں۔دوسری طرف کوئمبتور میں سی پی آئی کے قومی سکریٹری ڈی راجہ نے کہا کہ نریندر مودی حکومت میں اقلیتیں اور دلت خوفزدہ ہیں اور مودی حکومت میں فرقہ پرستوں کو کھلی چھوٹ ملی ہوئی ہے۔ اے آئی ایم آئی ایم کے صدر اسد الدین اویسی کے کہا کہ اگر نریندر مودی آشا بھونسلے کے بیٹے کی موت پر ٹوئٹ کر سکتے ہیں تو اخلاق کی موقت پر خاموش کیوں؟


   ان سب باتوں پر غور کرنے کے بعد یہ سوال اٹھتا ہے کہ کیا یہی ہے جناب وزیر اعظم کا ’ سب کا ساتھ سب کا وکاس‘ ؟ کیا یہی ہے ڈیجیٹل انڈیا؟ اور کیا یہی ہے وہ ’ اچھے دن ‘جنھیں لانے کاآپ نے وعدہ کیا تھا؟ اور اگر نہیں تو ملک میں یہ سب کیا ہو رہا ہے؟اس موقع پر یہ مشورہ دینے کر دل کرتا ہے کہ ’سب کا ساتھ سب کا وکاس ‘ تو خیر آپ بعد میں کر لیجئے پہلے ’ سب سے پیار ،سب کا دلار ‘ جیسا کوئی نعرہ دیجئے تاکہ آپ کی حکومت آنے سے جن فرقہ پرست عناصر کی ہمت بلند ہوئی ہے اور جو اپنی نفرت کا اظہار بڑے وحشیانہ انداز میں کر رہے ہیں ان کی نفرت کم کی جا سکے ۔انھیں بھی مساوات ،بھائی چارگی ،دوسرے مذاہب کا احترام کا سبق مل سکے۔

    آخر ہندوستانی آئین کے مطابق سب کی ترقی کے ساتھ ساتھ سب کو آزادی سے جینے کا حق ،اپنے مذہب کی پیروی اوراپنی جان کے تحفظ کا حق حاصل ہے اور ان کے مذکورہ حقوق کی حق تلفی نہ ہو اس کی ضمانت حکومت وقت کوہی دینی ہوتی ہے اور جو آج وقت کی ضرورت بھی ہے!

(یو این این)


******************************

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 446