donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Present Situation -->> Hindustan
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Sabir Raza Rahbar
Title :
   Madarise Islamia Ki Tajdeed Kari : Aik Jayeza


مدارس اسلامیہ کی تجدید کاری:ایک جائزہ

صابررضارہبر

 

مودی حکومت میں مدارس اسلامیہ کی تجدیدکاری کی خبرسے مسلم دانشوروںمیںسخت بے چینی پائی جارہی ہے جبکہ کچھ روشن خیال طبقہ کی جانب سے اس کا استقبال بھی کیاگیا ہے۔ اضطراب کی وجہ یہ ہے کہ مدارس  اسلامیہ کااپنا مقصدہے یعنی دین اسلام کی تعلیم وتبلیغ لہٰذا اس میں کسی بھی ایسے حذف واضافہ کی اجازت ہرگزنہیں دی جاسکتی ہے جس کےسبب اسکے بنیادی مقاصدپرمنفی اثرپڑے اس لئے مدارس کے نصاب میں تجدیدکاری کے نام پرچھیڑچھاڑکی اطلاع سے پریشان ہونا فطری امر ہے۔ جبکہ کچھ روشن افرادایسے ہیں جو مدارس اسلامیہ کے نصاب کوفرسودہ اوروہاں کے فارغین کودقیانوسی خیال کے حامل سمجھتے ہیں لہذا ایسی ذہنیت رکھنے والے افراد ایک طویل عرصہ سے مدارس کے نصاب میں ترمیم کا مطالبہ کررہے ہیںلیکن ایسے لوگ یہ کیوںبھول بیٹھتے ہیںکہ مدارس اسلامیہ کا اپنا ایک مخصوص نصب العین ہے اوراسی تناظر  ماہرین علمائے کرام نے اس کا نصاب تعلیم طے کیاہے۔ 

مدارس کے نصاب تعلیم کا بنیادی ڈھانچہ اگرچہ صدیوں کا پرانا ہے تاہم ہردورمیں عصری تقاضوںکے مطابق اس میں حذف واضافہ کیاجاتا رہاہےلیکن نصاب میں ترمیم کے وقت اس بات کا خاص خیال رکھاجاتا رہاہے کہ مدارس کے نظام تعلیم میں کسی بھی نوعیت کی ترمیم کی گنجائش اسی وقت نکالی جا سکتی ہےجب اس سے اس کی روح پر ضرب نہ پڑے۔مدارس اسلامیہ کے نصاب میں انگریزی ،کمپیوٹراوردیگرجدیدعلوم کی شمولیت کومدارس کی تجدیدکاری کاپیش خیمہ قراردیاجاسکتا ہے۔

جس طرح کسی میڈیکل کالج سے یہ مطالبہ نہیں کیاجاسکتا کہ وہاں سے ایک بہترانجینئرکیوںنہیں پیداہوتے ہیں اسی طرح مدارس اسلامیہ سے کسی سائنسداں کے جنم لینے کی توقع رکھنا احمقانہ سوچ ہے ۔ یہ صحیح ہے غزالی ورومی جیسے فلسفی مدارس اسلامیہ کے پروردہ تھے لیکن ان کے اورآج کے حالات وتقاضے یکسرمختلف ہیں۔اب نہ توانسانوںکا قوت حافظہ اتنامضبوط رہا نہ نہیں ان کے اندروہ قوت برداشت رہی اورنہ ہی وقت میں اتنی برکت ۔آج تخصص کا زمانہ ہے اورہرشخص اپنے پسند کے مطابق کسی ایک فن میں مہارت حاصل کرکے اپنی صلاحیت کاجلوہ بکھیررہاہے۔مدارس کوبھی اسی نقطہ نظرسے دیکھاجاناچاہئے ۔ مدارس کے قیام کا مقصدعلم دین کی نشرواشاعت ہے اگر اس میںمدارس ناکام ہورہے ہیں توبے شک اس میں اصلاح کا مطالبہ کرنا لائق تعزیرنہیں لیکن چند نااہل افرادکی بنیادپرمدارس کے وجودکوہی سوالات کے کٹہرے میں کھڑا کردینا دانشمندی ہرگزنہیں ہوسکتی ۔

یہ ایک اچھی بات ہے کہ فارغین مدارس بھی بڑی تیزی کے ساتھ عصری اداروںکا رخ کررہے ہیں اورعصری علوم وفنون میں مہارت حاصل کررہے ہیں لیکن اس سے انکا مقصداگرفقط دنیا کماناہے تو یہی بھی مدارس کی نمک روٹی سے غداری کہی جائے گی ۔اسلام نے کبھی بھی کسی بھی علم کے حصول سے منع نہیں کیا بلکہ اسلام نے علم کی تقسیم ہی نہیں ۔اسلام نے ہر اس علم کوسیکھنے کااختیاردیاہے جس سے اسلام کی تبلیغ کی زیادہ سے زیادہ کی جاسکے ،مسلمان اپنی معیشت کومضبوط کرسکے اورزیادہ سے زیادہ اپنی صلاحیتوںکا مظاہرہ کرسکے۔دینی ودنیاوی علوم کی تقسیم توبعدکی پیدوارہے۔جن لوگوںنے اس کی تقسیم کی اوراس کے راستے متعین کئے ہم ان کے خلوص پر شک وشبہ نہیں کرسکتے کیوںان کے سامنے وقت کی کمی اورانسانی ذہن کی تنزلی سامنے ضروررہی ہوگی ۔

مدارس اسلامیہ کی تجدیدکاری وکالت کرنے والے دانشوروںاورحکومت سے یہ ضرورپوچھاجاناچاہئے کہ آخرحکومت مدارس کے ۴ء۵؍فیصد مسلم بچوںکی تعلیم کیلئے اس قدرپریشان کیوںہے ؟ ۹۵ء۴؍فیصد بچوںکی تعلیم وتربیت کی فکرانہیں مضطرب کیوںنہیں کررہی ہے۔کیوںکہ مدارس میں کل مسلم آبادی کے ۴ء۵؍فیصدبچے ہی تعلیم حاصل کرتے ہیں وہ بھی ان میں اکثرکی اقتصادی حالت قابل ذکرنہیں ہوتی جبکہ مسلم بچوںکی ۹۵ء۴؍بچے فیصد عصری دانش گاہوںمیں تعلیم حاصل کررہے ہیں ۔حکومت ان کی ترقی کیلئے کیاکررہی ہے؟اصل بحث کا موضوع یہ ہونا چاہئے ۔مسلمانوںکی علمی واقتصادی پسماندگی کے جائزہ کیلئے تشکیل کی گئی سچرکمیٹی نے اپنی رپورٹ میں یہ انکشاف کیاہے کہ مدارس میں مسلمانوںکے صرف ۴ء۵؍فیصد بچے ہی پڑھتے ہیں جبکہ عصری دانش گاہو ںمیں ان کی تعداد ۹۵ء۴؍ فیصدہے۔اب سوال یہ ہے کہ حکومت۹۵ء۴؍فیصدکی بجائے ۴ء۵؍فیصد بچوںکے مستقبل کیلئے اتنی پریشان کیوںہے۔

کہاجاتاہے کہ جب نیت میں ہی کھوٹ ہوتوخلوص بھی مکرودکھاوے کا روپ دھارلیتی ہے،دراصل مدارس کی تجدیدکاری کے نام پر مسلمانوںکودینی فکرو شعورکی دولت سے محروم کرناہے کیوںکہ یہ مدارس کی ہی کرامت تھی جس سے دنیا کوفکروشعورکی بالیدگی ملی اوردنیائے انسانیت ایک روشن انقلاب سے روشناش ہوئی ۔نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک چبوترپرصفہ نام جس مدرسہ کی بنیادڈالی تھی اس کا فیضان آج بھی جارہی ہے۔

مدرسے فرقہ پرستوںکی نگاہ اس لئے کانٹا بن کر چبھ رہے ہیں کیوںکہ وہاں سے اسلامی تعلیمات کے ساتھ عشق نبوی کا جام پلایاجاتا ہے جس کانشہ کسی ترشی سے نہیں اتارجاسکتا ہے اوریہ بات اسلام مخالف طاقتیں اچھی طرح جانتی ہیں کہ جب تک مسلمانوں کے دلوںسے اسلامی تعلیمات اورعشق رسالت نہ نکال دی جائے تب تک انہیں پسپا کرنا ناممکن ہے  ؎

یہ فاقہ کش جو موت سے ڈرتا نہیں کبھی 
روح محمد اس سے بدن سے نکال دو

ایک عرصہ قبل یوپی اے حکومت نے بھی مسلمانوںکی ترقی کی قبلہ بدلنے کااعلان کرتے ہوئے مرکزی مدرسہ بورڈ کی تشکیل کا ہوّا کھڑا کیاتھا۔اس اعلان سے مسلمانوں کے درمیان میں فکری تصادم کا بازارگرم ہوگیا۔ مرکزی مدرسہ بورڈ کی حمایت ومخالفت میں مسلمانوں کے دوگرپ سامنے آئے اورجم کرمباحثوںکی میزیں ۔ یوپی اے حکومت اپنے انجام کوبھی پہنچ گئی لیکن ابھی تک اس کاوعدہ سامنے نہیں آسکا ۔مودی حکومت بھی مدارس کی تجدیدکاری کے نام پر کانگریس کی پالیسی کودوہرائے گی، مودی کے اس اعلان کاکہ ’مسلم بچوںکے ایک ہاتھ قرآن ہوتودوسرے ہاتھ میں کمپیوٹر‘ کا حقیقی عمل سے کوئی تعلق نہیں ہے ۔ اگرمدارس کوماڈرائزیشن ہی کرنا ہے توممتاحکومت کی طرح مودی سرکارعلاحدہ طورپرایسے مدارس کی بنیادرکھے جہاں دینی وعصری علوم کا روشن امتزاج ہو۔محض زبانی جمع خرچ سے کچھ حاصل ہونے والا نہیں ہے اورہاں!مدار س کے نصاب میں کسی بھی طرح ترمیم سے قبل اس بات خاص خیال رکھاجاناچاہئے کہ 

یہ مدرسہ ہے تیرامیکدہ نہیں ساقی 
یہاں کی خاک سے انساں بنائے جاتے ہیں

rahbarmisbahi@gamail.com
9470738111

۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 437