donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Present Situation -->> Hindustan
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Meem Zad Fazli
Title :
   Ahle Watan Ko Un Tollerence Nahi Pani Ki Zarurat Hai


شدید گرمی اورپانی کی کمی سے اموات


اہل وطن کوانٹالرنس نہیں ،پانی کی ضرورت ہے


میم ضاد فضلی


جنوبی ہند کی ریاستوں تیلنگانہ اور آندھرا پردیش میں شدید گرمی کے نتیجے میں کم از کم111 افراد ہلاک ہو گئے ہیں۔ادھر مہاراشٹر سے بھی قحط پڑنے اورشدید گرمی کی وجہ سے اموات کی خبریں آرہی ہیں ۔ اندیشہ ہے کہ اگرآئندہ چند دنوں میں موسم نے مہربانی نہیں کی اورگرمی کی شدت اسی طرح برقرار رہی تو حالات اور بھی زیادہ بھیانک ہوسکتے ہیں۔مہاراشٹر میں پینے کے پانی کی کمی نے ریاست میں عجیب وغریب صورت حال پیدا کردی ہے۔ریاست کے کئی علاقوں میں پانی کی اس حد تک کمی ہے کہ لوگوں کو کئی کئی دنوں تک پینے کا پانی نصیب نہیں ہو رہا ہے۔ ہر سال 9 ہزار سے زیادہ کسان خود کشی کر رہے ہیں، جس کی بنیادی وجہ کسان کی فصلوں کی بربادی ہے،اس بربادی کی اہم وجہ آب پاشی کیلئے پانی کافقدان بھی ہے۔ مہاراشٹر میں پانی کا شدید بحران ہے ،یہی وجہ ہے کہ بہت سے ڈیموں اور آبی ذخائر میں پانی کی سطح بدستور گھٹتی جارہی ہے۔ پانی کی کمی سے سب سے زیادہ متاثر علاقوں میں لاتور، وردھا، امراوتی وغیرہ قابل ذکر ہیں۔ آپ کو بتا دیں کہ یہ علاقے دلت اکثریتی ہیں، باقی علاقوں میں پانی کی ویسی کمی نہیں ہے جیسی ان دلت اکثریت والے حصہ میں ہے۔ذرائع کے مطابق ان علاقوں میں پانی کے ٹینکر مافیا چھائے ہوئے ہیں۔ سب سے حیرت کی بات یہ ہے کہ یہ پانی کے ٹینکر صرف اور صرف اعلی ذات والے چلا رہے ہیں۔جن پر کوئی کارروائی نہیں ہو رہی ہے، اور یہ لوگ دھڑلے سے پانی کی کالابازاری کر رہے ہیں۔ گزشتہ دنوں پانی کی کمی سے مہارشٹر کے کئی علاقوں میں دفعہ 144 لگانا پڑاتھا، لیکن ان علاقوں میں پینے کے پانی کی صورت حال میں کوئی بہتری نہیں ہو پائی۔ اس کی بہت سی وجوہات ہیں۔ آزادی کے بعد سے ہی ان علاقوں میں پانی کا کوئی معقول انتظام نہیں ہو سکا۔ یا یو کہیں کہ ان علاقوں میں جان بوجھ کر پانی جیسی بنیادی ضرورت کے لئے سنجیدہ کوشش نہیں کی گئی اور پانی کے مسئلہ کو اس لئے باقی رکھا گیا تاکہ مستقبل میں پیاس اوراموات کی سیاست میں یقین رکھنے والوں کواپنی اپنی روٹیاں سینکنے کا بھرپور موقع فراہم ہوسکے۔غور طلب ہے کہ اقوام متحدہ مہاراشٹر کے ان علاقوں میں پانی کی فراہمی کیلئے لاکھوں ڈالر کا فنڈ دیتا تھا، لیکن شاید پچھلی حکومتوں نے جان بوجھ کر اس فنڈ کا استعمال ان علاقوں میں پانی کی صورتحال بہتر بنانے کے لئے نہیں کیا، جس کی وجہ سے اقوام متحدہ کو یہ فنڈبند کرنا پڑا۔ان ریاستوں میں اپریل کے مہینے میں معمول کی بارش میں تاخیر کی وجہ سے بعض علاقوں میں درجہ حرارت 45 ڈگری تک پہنچ گیا ہے۔چلئے !یہ الزام بجا ہے کہ مہاراشٹر کے جن علاقوں میں اس وقت آبی بحران پایا جاتا ہے، اس کیلئے ماضی کی کانگریس حکومتیں ذمہ دار ہیں۔مگرجب ہم 2014میں میں اقتدار حاصل کرنے والی بی جے پی کی کارکردگی کا مطالعہ کرتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ یہاں تو سبھی باتوں کے دھنی ہیں ،عوام کو آ پس میں بانٹو ،فرقہ واریت پھیلاؤ اور ملک میںنفرت کا ماحول قائم کرو تاکہ ہندو ووٹوں کو آ سانی سے پولرائز کیا جاسکے۔اس وقت مہاراشٹر،کرناٹک ،تیلنگانہ اورآندھرا پردیش میں گرمی اورآبی بحران کے نتیجے میں شروع ہونے والے اموات کے سلسلے پر بی جے پی کو سانپ سونگھ گیا ہے اور غیر ضروری تنازعات میں ملک کو الجھا کر جان چھڑانے کی سازش کی جارہی ہے۔مودی اپنی عادت کے مطابق جھوٹ پر جھوٹ بول رہے ہیں اورپیاس سے ہونے والی اموات پرکسی قسم کی ہمدردی کا مظاہرہ نہیں کیا جارہا ہے۔

خیال رہے کہ گذشتہ برس تیلنگانہ اور آندھرا پردیش میں شدید گرمی کی وجہ سے دو ہزار افراد ہلاک ہو گئے تھے۔آفات سے نمٹنے کے ادارے کے حکام کا کہنا ہے کہ دونوں ریاستوں میں اس سال جمعرات کی شام تک ہلاکتوں کی تعداد111 ہو گئی ہے اور آئندہ تین دنوں تک یہ تعدادکافی آگے تک جا سکتی ہے۔حکام نے عوام سے درخواست کی ہے کہ وہ دھوپ میں جانے سے گریز کریں اور دوپہر 12 بجے سے چار بجے تک گھروں سے باہر نکلنے سے اجتناب کریں اور پانی کا استعمال زیادہ سے زیادہ کریں۔حالاں کہ پانی کی فراہمی کیلئے کوئی ٹھوس قدم نہیں اٹھایا جارہا ہے۔جب پانی ملے گاہی نہیں پھر زیادہ پانی کیسے پیا جاسکتا ہے۔اس بحرانی کیفیت میں اس قسم کے بیانات کا واضح مطلب یہی نکلتا ہے کہ اس وقت بی جے پی کی ریاستیں قحط زدہ علاقوں کے باشندگان کا مذاق اڑا رہی ہیں۔مہاراشٹر میں واقع ودربھ کے کسانوں کی اموات پر آٹھ آٹھ آنسو بہانے والے مودی کی زبان پر اب ان کسانوں کی تباہ حالی کے تذکرے نہیں ہیں۔ کل جن کی بربادی کا رونا روکر انہیں ٹھگا گیا تھا۔گزشتہ برس عالمی ادارۂ صحت نے ایک رپورٹ شائع کی تھی جس میں کہاگیاہے کہ ہندوستان میں ایسے افراد کی تعداد دنیا بھر میں سب سے زیادہ ہے، جنہیں پینے کے صاف پانی تک رسائی حاصل نہیں ہے۔ اس ملک میں پانی کے زیر زمین ذخائر انتہائی تیزی سے کم ہو رہے ہیں اور دریاؤں کا پانی آلودہ ہوتا جا رہا ہے۔آج دریاؤ ں کو آلودہ کرنے والے لوگوں کو پیاس کی شدت سے مرنے والوں کے اہل خانہ کی بے سروسامانی پر بھی غور کرنا چاہئے۔جو کیمیاوی اشیاء سے بنائے گئے بھگوانوں کو پوج کر انہیں دریاؤں میں ڈال دیتے ہیں اور دریاؤں کی آلودگی بڑھانے میں اپنا ایثار پیش کرتے ہیں۔

بین الاقوامی ادارے انٹرنیشنل چیرٹی واٹر ایڈ کے اعداد و شمار کے مطابق تقریباً 76 ملین ہندوستانی باشندے یا تو پانی خرید کر پینے پر مجبور ہیں یا پھر ایسا پانی استعمال کر رہے ہیں جو گٹروں کے گندے پانی یا زہریلے کیمیائی مادوں سے آلودہ ہوتا ہے۔ دنیا بھر میں 650 ملین افراد کو پینے کا صاف پانی میسر نہیں ہے لیکن افریقہ اور چین کے مقابلے میں ہندوستان میں اس حوالے سے صورت حال سب سے زیادہ خراب ہے۔ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن (WHO) کے مطابق جن ہندوستانیوں کو پینے کا صاف پانی میسر نہیں، ان میں سے ہر ایک اوسطاً روزانہ تیرہ گیلن پانی خریدنے کے لیے تقریباً پچاس روپے خرچ کر رہا ہے اور یہ رقم اس کی روزانہ آمدنی کا تقریبا بیس فیصد بنتی ہے۔

اس رپورٹ کے مطابق ہندوستان میں پانی کے وسائل کا خراب انتظام اس مسئلے کی سب سے بڑی وجہ ہے۔ہندوستان میں صاف پانی کی کمی کی وجہ سے لوگ آلودہ پانی پینے پر مجبور ہیں، جس کا براہ راست نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ بے شمار لوگ بیمار ہو رہے ہیں اوراموات کا سلسلہ روز بروز دراز ہوتا جارہا ہے۔ دنیا میں سالانہ تین لاکھ پندرہ ہزار بچے اسہال کی وجہ سے انتقال کر جاتے ہیں۔ ان میں سے ایک لاکھ چالیس ہزار ہلاکتیں صرف ہندوستان میں ہوتی ہیں۔ہندوستان کو پہلے ہی آبی وسائل کی شدید قلت اور خشک سالی کا سامنا ہے ،جبکہ اس ملک کے دریا بھی تیزی سے آلودہ ہوتے جا رہے ہیں۔جس کیلئے راست طور پر بھگوابریگیڈ کی انتہا پسندی ذمہ دار ہے۔مگر اس پر اگر دھیان دلائیں تو عدم تحمل،دیش بھکتی،بھارت ماتا کی جئے جیسے بے شمار متنازع بیانات میڈیا میں اچھال دیے جائیں گے اوراس طرح آسا نی کے ساتھ اصل مدعوں سے جان چھڑالی جائے گی۔آج تیلنگانہ اورآندھرا پردیش کے تپتے ریگزاروں میںاپنی جان گنوانے والے بے گناہ شہریوں کیلئے انٹالرنس یا دیش بھکتی کی باتیں ان کی قابل رحم حالت کے ساتھ بھدامذاق سے زیادہ کوئی حیثیت نہیں رکھتیں۔آپ کل ودربھ کے کسانوں کو ’’جملے بازی‘‘ کا جوس پلارہے تھے ،جبکہ آج وہی لوگ چند گھونٹ پانی کیلئے تر س رہے ہیں اوربے تحاشہ موت کے منہ میں سماتے جارہے ہیں۔پانی کی فراہمی پر آپ نے مجرمانہ خاموشی اختیار کرلی ہے ،جبکہ حالت بدستور خراب ہوتی جارہی ہے۔ زیر زمین پانی کے ذخائر میں بھی تیزی سے کمی واقع ہو رہی ہے اور اس کی وجہ دیہات میں لگائے گئے کسانوں کے بے شمار ٹیوب ویل ہیں۔ اس مسئلے کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ عالمی درجہ حرارت میں اضافہ ہو رہا ہے اور بارشوں میں کمی ہوتی جا رہی ہے۔آپ فیکٹریوں ،کل کارخانوں کی تعمیر پر بھرپور توجہ دے رہے ہیں،جس سے گرین ہاؤسز گیس فضاکو مکدر کررہی ہے۔پیڑ پودھے کاٹے جارہے ہیں،ان حالات میں موسم کی بے رخی کیلئے براہ راست موجودہ مرکزی اور ریاستی حکومتیں ہی ذمہ دارہیںیا اس کیلئے بھی سابقہ سرکاروں کوہی کوساجائے گا۔کیا ماحولیاتی آلودگی پر قابو پانے اور آبی ذخائر کے انتظامات کیلئے دوسال کا وقت کم ہے۔ہرگرزنہیں،مگر بی جے پی اور آر ایس ایس کو اس کی پرواہ نہیں ہے ،انہیں تو دھرم کی آنچ پر سیاست کی روٹی سینکنی ہے۔اگرچہ وعوام کی زندگی مسائل کا انبار بن جائے ،بس انہیں اپنا فائدہ چاہئے۔(یو این این)

09911587378


******************************

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 635