donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Present Situation -->> Hindustan
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Hafeez Nomani
Title :
   Musalmano Ke Liye Bihar Ka Tarze Amal Mashale raah

مسلمانوں کیلئے بہار کا طرز عمل مشعل راہ


حفیظ نعمانی

 

اس وقت ہمارے سامنے 11  نومبر کا اودھ نامہ اور 12  کا سہارا ہے جن میں پہلے صفحات پر وزیر شہری ترقیات محمد اعظم خاں کے استعفے کی خبر اپنے اپنے انداز میں نظر آرہی ہے۔ ابتدا تو ایسی ہے کہ جیسے انہوں نے استعفیٰ دے دیا ہے لیکن اس کی تصدیق نہ سرکاری حلقوں سے ہورہی ہے نہ محترم منسٹر صاحب اور ان کا حلقہ کررہا ہے اور نہ گورنر صاحب کی عدم موجودگی کی وجہ سے گورنر ہائوس میں ہوپا رہی ہے۔

اودھ نامہ کے اسی صفحہ پر اعظم خاں صاحب کا ہی ایک دردمندانہ بیان بھی ہے جس کے مخاطب وزیر اعظم مودی صاحب ہیں۔ اس بیان میں انہوں نے انتہائی محبت کے ساتھ زخموں پر مرہم رکھنے جیسے لہجے میں کہا ہے کہ ’’زمین پر آباد ہوئے تمام انسان، حیوان، پرند، کھیتیاں اور درخت ہر طرح کی ہریالی کا جو تنہا مالک ہے۔ اگر اس مالک کی بنائی ہوئی کسی ایک چیز سے آپ نفرت کا برتائو کریں گے وہ مالک جو سب کا ہے خوش نہیں رہے گا۔‘‘

اعظم خاں صاحب نے اسی محبت بھرے انداز میں وزیر اعظم سے کہا ہے کہ ’’میری بھارت کے وزیر اعظم سے دردمندانہ اپیل ہے کہ وہ حالات سے سبق نہ لیں بلکہ اسے ایک تجربہ مان کر اپنے اندر ایک دردمند انسان پیدا کرنے کی پہل کریں۔‘‘

اور ’’سہارا‘‘ میں 12  نومبر کی سرخی ہے کہ اعظم خاں نے استعفے سے انکار کیا۔ میڈیا ہو، پرنٹ ہو یا الیکٹرانک، نوجوان ہاتھوں میں آکر اپنی اہمیت کو ہر دن کم کرتا جارہا ہے۔ ہر کوئی الوالعزم صحافی کسی ایسی خبر کی تلاش میں سرگرداں رہتا ہے جس سے سنسنی پھیل جائے۔ بیشک ان خبروں کی بھی اہمیت ہوتی ہے اور بہت ہوتی ہے لیکن صحافت کو صرف اختلاف، کردار کشی، ناراضی، پارٹی سے نکالنے اور پارٹی چھوڑنے تک بھی تو محدود نہیں کیا جاسکتا؟


اس وقت سب سے اہم خبر یہ بنی ہوئی ہے کہ بی جے پی کے بزرگ اور نظرانداز کئے ہوئے لیڈروں کے تیور اتنے ہی کڑے ہیں یا ان میں کچھ نرمی آئی؟ موہن بھاگوت کے دلارے سابق صدر گڈکری مشورہ دے رہے ہیں کہ جتنے بھی کج کلاہ ہیں ان سب کے سرقلم کردو جس قلم سے مخالفانہ بیان لکھے جارہے ہیں انہیں توڑ دو اور جس زبان سے کہا جارہا ہے کہ ’’بہار میں زعفرانی ووٹوں کی لہلہاتی فصل‘‘ پر سنگھ کے مکھیا نے ریزرویشن پر دوبارہ غور کرنے کے فیصلہ کا اعلان کرکے اس نے پتھروں اور اولوں کی بارش کردی‘‘ اس زبان کو گدی سے کھینچ لو اور دوسری طرف تیسرے ذمہ دار کہے جانے والے جیٹلی، بزرگ لیڈروں کے دربار میں حاضر ہوکر وہ کررہے ہیں جس کا حکم دے کر مودی صاحب لندن پسار گئے ہیں۔

ہم سمجھتے ہیں کہ ان سب خبروں سے زیادہ اہم خبر یہ ہے کہ مودی کی ریلیوں میں دوسرے علاقوں سے ہی نہیں، دوسرے صوبوں سے بھی انسانوں کو بھربھرکر لانے والوں کی خبر لی جائے۔ ہم نے اپنی سیاسی زندگی میں نہ جانے کتنی تقریریں سنی ہیں اور نہ جانے کتنی خود کی ہیں۔ مقر ّر چاہے مولانا کلب صادق صاحب ہوں یا کم درجہ کا کوئی عالم یا ذاکر۔ مجمع کی زیادتی اور کمی کا اتنا فرق پڑتا ہے جتنا زمین اور آسمان میں فرق ہے۔ بہار کے جس شہر میں بھی مودی کی ریلی ہونے والی تھی وہاں اور اس کے اردگرد بسے دیہاتوں میں اعلان کردیا جاتا اور تین دن مسلسل اعلان کرایا جاتا اور آنے کا فیصلہ آنے والوں پر چھوڑ دیا جاتا تو کہیں بھی پانچ ہزار سے زیادہ مجمع نہ ہوتا۔

پنڈت نہرو کے زمانے تک اس سے زیادہ کبھی کچھ نہیں ہوا۔ یہ بدعت اندرا گاندھی کے دشمنوں نے انہیں برباد کرنے کے لئے شروع کی کہ تقریر لکھنؤ میں ہونے والی ہے اور بسوں میں ٹرکوں میں پیسے اور کھانے کا پیٹ بھر سامان دے کر رائے بریلی، ہردوئی، بارہ بنکی، گونڈہ، بہرائچ، پرتاپ گڑھ اور نہ جانے کہاں کہاں سے غریبوں کو پکڑکر لایا جاتا تھا۔ یہ سب صرف اس لئے کیا جاتا تھا کہ جو سیاسی دلال یہ بھیڑ جمع کرتے تھے وہ اسمبلی کا ٹکٹ بھی چاہتے تھے اور میڈم کی نظر کرم بھی۔

بی جے پی کے لیڈر کانگریس کی نقل کرکے پارٹی کو موت کے کنوئیں کی طرف لئے جارہے ہیں۔ مودی صاحب ہوں یا کوئی لیڈر اور جب لاکھوں آدمیوں کو ہاتھ ہلاتا دیکھے گا تو وہ سب کا ساتھ سب کا وکاس بھول کر صرف وہ کہے گا جسے سننے کے لئے یہ لاکھوں آدمی آئے ہیں (یا لائے گئے ہیں) یہ آپ بیتی ہے کہ اگر کہیں جلسہ میں ہزار پانچ سو آدمی ہوتے ہیں تو اپنی آواز بھی دوسری ہوتی تھی اور انداز بھی اور جب مجمع پانچ ہزار یا زیادہ ہوا تو اپنے الفاظ اور اپنے جذبات کو قابو میں رکھنا مشکل ہوجاتا تھا۔

مودی صاحب نے اپنی ریلیوں میں جس معیار کی تقریریں کیں ان کا اثر اُلٹا ہوا۔ اور اہم بات یہ ہے کہ جب یہی نہیں معلوم کہ وہ جن کے سامنے کلیجہ نکال کر رکھے دے رہے ہیں یہاں کے ووٹر بھی ہیں یا نہیں؟ تو ایک ریلی کے نتیجہ میں دو ایم ایل اے مل گئے تو وہی غنیمت ہیں۔ اپنے لیڈر سے وفاداری یہ نہیں ہے کہ اسے اندھیرے میں رکھا جائے بلکہ اسے صاف صاف بتایا جائے کہ لالو، نتیش اور سونیا کے ملنے پر کہیں بھی ناگواری نہیں ہے اور ہمارے لئے یہ خطرہ کی گھنٹی ہے۔

میڈیا کے کسی ایک فرد کے منھ یا قلم سے نہ سنا نہ پڑھا کہ بہار میں ملائم سنگھ بھی مقابلہ میں کسی نچلی سیڑھی پر نظر آرہے ہیں؟ کاش وہ ساتھ رہتے اور اعلان کردیتے کہ انہیں اپنے امیدوار نہیں کھڑے کرنا ہیں۔ وہ صرف حمایت کریں گے۔ 2017 ء اب آیا اور تب آیا۔ ہم نے سوچا تھا کہ ہم اعظم خاں صاحب سے کہیں گے کہ وہ کلیدی کردار ادا کریں اور دونون رشتہ دار یادوئوں کے دل ملوادیں۔ سونیا کو لالو نے ساتھ لیا ہے تو ان سے پہلے ملائم سنگھ تو ان کی گرتی ہوئی حکومت کو اپنے مضبوط کاندھو پر روک کر عرصہ تک کھڑے رہے ہیں۔ رہی بات کانگریس کی بداعمالیوں کی تو اُسے جب جیوتی بسو کے مقابلہ پر رکھا جائے گا تو وہ بداعمال ہے۔ لیکن جب مقابلہ مودی ذہنیت اور ’’بھگوت‘‘ کے احکامات کا ہو تو ہم مسلمانوں کو بھی سوچنے کا انداز بدلنا پڑے گا۔ جس کا ثبوت چار سیٹوں والی کی 27  سیٹیں ہیں۔ یہ صرف مسلمانوں کی صفت عفو و درگذر کا نتیجہ ہے۔

اعظم خاں صاحب نے استعفے کے مذاق کو جوتے سے مسل دیا۔ اب وہ اپنا ایک مشن بنائیں کہ دو سال کے بعد پیش آنے والی مسلمانوں کی مشکل پر غور کریں۔ اویسی صاحب اعلان کرچکے ہیں کہ وہ اُترپردیش میں مایاوتی سے مل کر لڑیں گے۔ یہ ہمیشہ ہوا ہے کہ مایاوتی جی ہر کسی کے ہاتھ پکڑلیتی ہیں۔ لیکن یہ بھی سب جانتے ہیں کہ ہر کسی کو چھوڑ چکی ہیں۔ بہار میں اویسی صاحب اس لئے پیچھے ہٹ گئے کہ انہوں نے اندازہ کرلیا تھا۔ لیکن اُترپردیش میں وہ ضرور ٹانگ اَڑائیں گے اور آزمائش صرف مسلمان کی ہوگی۔ پنچایت کے الیکشن کے آئینہ میں صوبائی الیکشن کا عکس دیکھنا حماقت ہے لیکن یہ بالکل ہی غلط نہیں ہے۔ دوستی کا اگر نہیں تو دشمنی کا بیج تو پڑہی جاتا ہے اور مس مایاوتی کو ہریالی نظر آنے لگی ہے۔ کاش اعظم خاں اپنے کو اس کے لئے وقف کردیں۔

(یو این این)


فون نمبر: 0522-2622300  


،***********************

 

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 480