donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Present Situation -->> Hindustan
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Ghaus Siwani
Title :
   Rohit Ki Khudkashi Bhajpa Sarkar Ke Gale Ka Phanda


روہت کی خودکشی


بھاجپا سرکار کے گلے میں پھانسی کا پھندہ


تحریر: غوث سیوانی،نئی دہلی


    نریند ر مودی سرکار دلت مخالف ہے؟ کیا آرایس ایس کا برہمنوادی چہرہ سامنے آنے لگا ہے؟ کیا بھاجپا کے راج میں دلتوں کے اوپر مظام بڑھے ہیں؟ کیا روہت ویملا کی خودکشی کے لئے مودی سرکار ذمہ دار ہے اور اسمرتی ایرانی وبنڈارو دتاتریہ کو استعفیٰ دے دینا چاہئے؟ ان دنوں یہ سوال میڈیا میں گونج رہے ہیں اور تمام اپوزیشن پارٹیاں مودی سرکار پر نشانہ سادھ رہی ہیں۔ نریندر مودی سرکار پوری طرح سے مخالفین کے نرغے میں ہے اور اس کے مخالفین اسے دلت مخالف ثابت کرنے میں لگے ہوئے ہیں۔ روہت خودکشی معاملے میںوزیر اعظم بیک فٹ پر ہیں اور انھوں نے خود کو دلتوں کا ہمدرد ظاہر کرنے کے لئے ایک پروگرام میں خود کو گلوگیربھی ظاہر کرنے کی کوشش کی۔ انھیں جذباتی ہوتا دیکھ ان سبھی لوگوں کو حیرت ہوئی جو انھیں جانتے ہیں۔ ان کے گجرات کا وزیر اعلیٰ رہتے فسادات ہوئے تھے اور ہزاروں افراد کو انتہائی بے دردی سے موت کے گھات اتاردیا گیا مگر ان کی تیوریوں پر بل بھی نہیں آئے مگر ایک دلت طالب علم کی خودکشی پر وزیر اعظم کا جذباتی ہونا،کچھ عجیب ضرور لگا۔ اس وقت روہت کی خودکشی کے سبب ایک بار پھر دلتوں پر مظالم زیربحث آگئے ہیں۔ اسمرتی ایرانی اور بنڈارودتاتریہ کے استعفوں کی مانگ اٹھ رہی ہے۔ دوسری طرف بی جے پی کبھی یہ ثابت کرنے کی کوشش کر رہی ہے کہ خودکشی کرنے والا طالب علم دلت نہیں تھا تو کبھی اس کی طرف سے یہ کہا جارہاہے کہ اس نے ممبئی بم دھماکوں کے لئے پھانسی کی سزا پانے والے یعقوب میمن کے لئے غائبانہ نماز جنازہ کا اہتمام کیا تھا۔ اس کی طرف سے یہ تاثر بھی دینے کی کوشش ہورہی ہے کہ روہت اندر اندر سے مسلمان تھا۔ بہرحال یہ معاملہ اب مودی سرکار کے گلے کی ہڈی بن چکا ہے جسے وہ نہ نگل پارہی ہے اور نہ اگل پارہی ہے۔اندیشہ ہے کہ یہ ایشو پارلیمنٹ کے بجٹ سشن میںحکومت کو پریشان کرسکتا ہے۔

 روہت کی خودکشی کا معاملہ

     حیدرآباد سینٹرل یونیورسٹی میں دلت طالب علم روہت وملا نے خودکشی کر لی تھی۔اسے معطل کرنے کے لئے وزیرمحنت بنڈارو دتاتریہ نے وزارت فروغ انسانی وسائل پر دبائو ڈالا تھا۔اسی کے ساتھ یہ خبر بھی آرہی ہے کہ اے بی وی پی نے بھی روہت اور اس کے ساتھیوں کی معطلی کے لئے دبائوبنایا تھا۔ خودکشی کرنے والا طالب علم روہت ان 5 دلت طالب علموں میں سے ایک تھا، جنہیں ان کے ہاسٹل سے معطل کیا گیا تھا۔ روہت کی خودکشی کے بعد حیدرآباد یونیورسٹی کے احاطے میں طلبہ نے احتجاج شروع کردیا ہے جو کئی دن گزر جانے کے بعد بھی جاری ہے۔ اس درمیان وزیر تعلیم اسمرتی ایرانی نے حیدرآباد یونیورسٹی میں ٹیم بھیجی ۔ اس معاملے میں مرکز ی وزیر محنت بنڈارو دتاتریہ پر کیس درج کر لیا گیا ہے۔ ان کے علاوہ وائس چانسلر اپا راؤ کے خلاف بھی کیس درج کر لیا گیا ہے۔روہت، امبیڈکرا سٹوڈنٹ یونین سے منسلک تھا۔ اسے 12 دن پہلے ہاسٹل سے معطل کر دیا گیا تھا۔ان طالب علموں کی حمایت میں 10 تنظیموں نے ریلی اوربھوک ہڑتال کی تھی اور ان کی معطلی واپس لینے کا مطالبہ کر رہے تھے۔ ان طلبہ تنظیموں کا کہنا ہے یہ طالب علم سماجی بائیکاٹ کے شکار ہیں۔ ان طلبہ کی معطلی واپس بھی لی جاچکی ہے مگر روہت کی موت کی قیمت پر۔

روہت کا خط

    خود کشی کرنے سے پہلے روہت نے ایک خط بھی چھوڑا ہے۔ اس نے لکھا ہے۔ آپ جب یہ خط پڑھ رہے ہوں گے تب میں نہیں ہوں گا۔مجھ پر ناراض نہ ہو۔ میں جانتا ہوں کہ تم میں سے بہت سے لوگوں کو میری پرواہ تھی، آپ لوگ مجھ سے محبت کرتے تھے اور آپ نے میرا بہت خیال بھی رکھا۔ مجھے کسی سے شکایت نہیں ہے۔مجھے ہمیشہ سے خود ہی مسئلہ رہا ہے۔ میں اپنی روح اور اپنے بدن کے درمیان فرق کو بڑھتا ہوا محسوس کرتا رہا ہوں۔ میں ایک دانو بن گیا ہوں۔ میں مصنف بننا چاہتا تھا۔ سائنس پر لکھنے والا، کارل سگان کی طرح، لیکن آخر میں میں صرف یہ خط لکھ پا رہا ہوں۔آخر میں’’ جے بھیم‘‘ لکھا ہے۔ساتھ ہی لکھا ہے ۔ میں رسماً لکھنا بھول گیا۔ خود کشی کے میرے عمل کے لئے کوئی ذمہ دار نہیں ہے۔کسی نے مجھے ایسا کرنے کے لئے بھڑکایا نہیں، نہ تو اپنے عمل سے اور نہ ہی اپنے الفاظ سے۔ یہ میرا فیصلہ ہے اور میں اس کے لئے ذمہ دار ہوں۔ میرے جانے کے بعد میرے دوستوں اور دشمنوں کو پریشان نہ کیا جائے۔

 دلتوں کے خلاف امتیازی سلوک   

    حیدرآباد یونیورسٹی کے ریسرچ اسکالرروہت ویملا کی خود کشی کے بعد دلتوں کے ساتھ امتیازی سلوک پر ایک تیکھی بحث چھڑ گئی ہے۔ انسانی وسائل کی وزیر اسمرتی ایرانی نے اسے دلت بمقابلہ غیر دلت معاملہ ماننے سے انکار کیا ہے لیکن دلت اور دیگر سماجی تنظیمیں اسے دلتوں کے خلاف امتیازی سلوک کا ہی نتیجہ بتا رہی ہیں اور حیدرآباد یونیورسٹی کے وائس چانسلر سمیت کیس میں ملوث رہے دوسرے لوگوں پر کارروائی کا مطالبہ کر رہی ہیں۔ کانگریس نائب صدر راہل گاندھی نے حیدرآباد یونیورسٹی جاکر طالب علموں سے ملاقات کی۔ انہوں نے وائس چانسلر اور مرکزی وزیر بائے انسانی وسائل پر امتیاز کے الزام بھی لگائے۔ راہل گاندھی نے الزام لگایا ہے کہ روہت کی خودکشی کے لئے یونیورسٹی کے وائس چانسلر اور مرکزی وزیر ذمہ دار ہیں۔ دراصل دلت طالبعلم کی خود کشی کے بعد سے ہی اس پر سیاست شروع ہو گئی ہے۔جہاں ایک طرف طلبہ مظاہرے کر رہے ہیں وہیں کانگریس اور دوسری پارٹیاں مرکزی حکومت کو گھرینے میں لگی ہوئی ہیں۔کانگریس کے نائب صدر راہل گاندھی یونیورسٹی میں مظاہرہ کر رہے طالب علموں کے درمیان پہنچے۔ طالب علموں اور روہت کے اہل خانہ سے ملنے کے بعد کانگریس کے نائب صدر نے یہاں کے طالب علموں سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ یونیورسٹی کا مطلب ہے جہاں طلبہ آزادی سے بول سکیں لیکن یہاں ایسا نہیں ہوا۔آزادی سے کام کرنے کے بجائے ادارے نے پاور کا استعمال کرتے ہوئے طالب علموں کو دبانے کی کوشش کی جبکہ وائس چانسلر اور وزیر نے کوئی قدم نہیں اٹھایا۔ وائس چانسلر نے اپنی ذمہ داری نہیں ادا کی۔ جس کے بعد یہاں پڑھنے آئے طالب علم کے پاس خودکشی کے علاوہ کوئی راستہ نہیں بچا تھا۔ طالب علم کی موت کے لئے وائس چانسلر اور مرکز پر دباؤ بنانے والے ذمہ دار ہیں۔ وہیں دہلی کے وزیر اعلی اروند کیجریوال نے پورے معاملے  کے لئے وزیر اعظم مودی پر نشانہ لگاتے ہوئے ملک سے معافی مانگنے کا مطالبہ کیا ۔ کیجریوال نے ٹویٹ کر کہاکہ یہ حکومت کی آئینی ذمہ داری ہے کہ دلتوں کا تحفظ کرے لیکن مودی جی کے وزیر نے پانچ دلت طالب علموں کو معطل کر دیا۔ یہ خود کشی نہیں بلکہ قتل ہے۔مودی جی اپنے وزیر کو معطل کریں اور ملک سے معافی مانگیں۔

مودی سرکار کے گلے کی ہڈی

    دلت طالب علم کی خودکشی کا معاملہ طول پکڑتا جارہاہے اور پورے ملک سے احتجاج ومظاہرے کی خبریں آرہی ہیں۔اس کی زد میں اب وزیر اعظم بھی آچکے ہیں۔لکھنؤ کی امبیڈکر یونیورسٹی کے ایک پروگرام میں وزیر اعظم نریندر مودی کے خلاف نعرے بازی ہوئی۔حالانکہ بعد میں 31 سالہ راج کرن نرمل کو یونیورسٹی احتجاج کے سبب ہاسٹل سے باہر کر دیاکیونکہ روہت ویملا کی خود کشی کے خلاف رام کرن نرمل کے ساتھ ہی امریندر کمار آریہ نے مودی کے سامنے نعرے بازی کی تھی۔ تب سیکورٹی والے ان طالب علموں کو منہ بند کرتے ہوئے باہر لے گئے تھے۔غور طلب ہے کہ روہت اور اس کے ساتھیوں کے خلاف کارروائی کے لئے یونیورسٹی پر اس قدر دبائو تھا کہ وائس چانسلر کو بھی تبدیل کردیا گیا تھا اور الزام ہے کہ اس میں وزیر اعظم کی قریبی اسمرتی ایرانی بھی ذمہ دار ہیں۔

دلتوں پر مظالم میں اضافہ کیوں؟

    روہت کی خودکشی کے بعد دلتوں کے خلا ف جرائم کی بڑھتی وارداتیں ایک بار پھر موضوع بحث ہیں۔ نیشنل کرائم ریکارڈ بیورو کے مطابق سال 2014 میں دلتوں کے خلاف 47064 جرم ہوئے،یعنی اوسطا ہر گھنٹے دلتوں کے خلاف پانچ سے زیادہ (5.3) جرائم ہوئے۔ جرائم کی سنجیدگی کو دیکھیں تو اس دوران ہر دن دو دلتوں کا قتل ہوا اور ہر دن اوسطا چھ دلت خواتین (6.17) عصمت دری کی شکار ہوئیں۔ اعداد و شماربتاتے ہیں کہ 2004 سے 2013 کے درمیان دس سالوں میں490 6دلتوں کی ہلاکتیں ہوئیں اور،253 14 دلت خواتین کے ساتھ عصمت دری ہوئی۔ 2014 میں دلتوں کے خلاف ہونے والے جرائم میں گزشتہ سال کے مقابلے 19 فیصد کااضافہ ہوا۔اس سے ایک سال پہلے 2013 میں دلتوں کے خلاف مظالم کے معاملات میں 2012 کے مقابلے 17 فیصد کا اضافہ ریکارڈ کیا گیا تھا۔روہت ویملا کی خودکشی نے تعلیمی اداروں میں دلت طالب علموں کے ساتھ مختلف سلوک کو لے کر کئی سوال کھڑے کئے ہیں۔ وقت وقت پر ایسے الزام لگتے رہے ہیں۔اس واقعہ سے پہلے آئی آئی ٹی مدراس میں امبیڈکر پیریار اسٹڈی سرکل پر پابندی لگانے کے واقعہ نے اس طرف سب کا دھیان کھینچا تھا۔چند سال پہلے ملک کے معروف میڈیکل اداروں میں سے ایک آل انڈیا انسٹیٹیوٹ آف میڈیکل سائنس میں بھی دلت طالب علموں نے امتیازی سلوک کی شکایت کی تھی۔یہ معاملہ صرف اعلی تعلیمی اداروں تک محدود نہیں ہے بلکہ پرائمری اسکولوں میں لاگو دوپہر کے کھانے کی اسکیم میں بھی دلت باورچیوں اور دلت بچوں کے ساتھ امتیازی سلوک کی خبریں آتی رہی ہیں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 498