donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Present Situation -->> Hindustan
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Ghaus Siwani
Title :
   Narendra Modi Farqa Parasti Ke Khatma Ke Liye Kya Qadam Uthayenge


نریندر مودی فرقہ پرستی کے خاتمے کے لئے کیا قدم اٹھائینگے؟

 

غوث سیوانی، نئی دہلی

 

حال ہی میں میڈیا میں ایک رپورٹ آئی ہے جس میں مختلف اعداد وشمار کی بنیاد کر یہ دعویٰ کیا گیا ہے کہ بی جے پی کے اقتدار والی ریاستوں میں فرقہ پرستی کا فروغ ہوا ہے اور عوام کے مختلف طبقات میں دوریاں بڑھی ہیں۔سوال یہ ہے کہ کیا واقعی مودی سرکار بننے کے بعد سے ملک میں فرقہ پرستی بڑھی ہے؟ کمیونل دنگوں جیسے حالات بنے ہیں ہیں؟ جن جن ریاستوں میں بی جے پی کی سرکار ہے وہاں فسادیوں کے حوصلے زیادہ بلند ہیں اور وہ حالات کوبگاڑنے میں لگے ہوئے ہیں؟

گجرات جہاں ۲۰۰۲ء کے بعد سے نریندر مودی نے وشو ہندو پریشد، بجرنگ دل اور دیگر تشدد پسند جماعتوں پر کنٹرول کر رکھا تھا اب وہ آزاد ہوچکی ہیں اور مسلمانوں کے خلاف کھیل کھیلنے میں لگی ہوئی ہیں۔ اس وقت کئی رپورٹیں آرہی ہیں جن سے پتہ چلتا ہے کہ موجودہ ہندوستان میں فرقہ وارانہ اشتعال انگیزی کی واراداتیں بڑھ رہی ہیں جو بعض مقامات پر حد سے آگے نکل جاتی ہیں اورلوگوں کے لئے مشکلات پیدا کرتی ہیں۔ نریندر مودی دنیا کو یقین دہانی کرانے میں لگے ہوئے ہیں اب بھارت بدل رہا ہے اور وہ عالمی طاقتوں کے ساتھ چلنے کے لئے تیار ہے مگر دوسری طرف ملک میں فرقہ وارانہ وارداتوں کا ہونا اس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ ہمارا ملک معاشی طور پر خواہ ایک مضبوط طاقت بن رہا ہے مگر سماجی اور سیاسی حالات آج بھی عہد وسطیٰ میں ہیں۔ یہ تمام دنگے اور فسادات سیاسی ہوتے ہیں ورنہ عام لوگ تو امن پسند ہیں اور وہ ایک دوسرے کے ساتھ میل محبت سے رہنا جانتے ہیں۔ حال میں گجرات کے وڈودڑامیں ایک فساد پھوٹ پڑا جسے جلد ہی قابو میں کرلیا گیا مگر سوال یہ ہے کہ اس قسم کے واقعات آج بھی کیوں ہورہے ہیں۔ آج ہم مہذب ہونے کے دعوے کرتے ہیں اور غیر مہذب انسانوں کی طرح آپس میں لڑائیاں کرتے ہیں۔ یوپی کو تو فرقہ وارانہ فسادات کے لئے جانا جاتا ہے مگر گجرات،مدھیہ پردیش جیسی ریاستوں میں بھی فرقہ وارانہ تناؤ کی وارداتیں ہورہی ہیں جو پورے ملک اور انسانیت کے لئے تشویش کی بات ہے۔

مودی کو گجرات آواز دے رہا ہے

وڈوڈرا میں حال ہی میں ایک سوشل نیٹ ورکنگ پوسٹ کو بہانہ بناکر فساد کرایا گیا۔ اسی کے ساتھ ایک لڑکی کو چھیڑنے کا معاملہ بھی سامنے آیا اور پورے معاملے میں ۹۰ افراد کی گرفتاری ہوئی۔ اس معاملے کو لے کر کئی افراد کے خلاف ایف آئی آر درج کی گئی ،جن میں سے کچھ لوگوں کی گرفتاری ہوئی۔ اس معاملے کو اگر فوراً قابو میں نہیں کیا گیا ہوتا تو بات بہت آگے بڑھ جاتی اور حالات زیادہ خراب ہوسکتے تھے۔ اصل میں یہ نوراتری کے موقع پر تناؤ پیدا کرنے کی کوشش تھی۔گجرات میں ان دنوں وشوہندو پریشد اور بجرنگ دل کے لوگوں کو آزادی ملی ہے۔ یہاں نریندر مودی جب تک وزیر اعلیٰ تھے تب تک ان لوگوں کی ہمت نہیں پڑتی تھی کہ کسی طرح چوں چرا بھی کریں۔ مودی خود ہندوہردے سمراٹ کی امیج رکھتے تھے اور اپنے آگے کسی کا چراغ نہیں جلنے دیتے تھے۔ انھوں نے تمام ہندتو وادیوں کو ان کے باڑوں میں بند کررکھا تھا اور کسی کو مودی کے خلاف آواز بلند کرنے کی ہمت نہیں پڑتی تھی۔ پروین توگڑیا جو کہ اترپردیش اور مہاراشٹر میں آکر خوب شیخی بگھارتا ہے ،اسے گجرات میں کوئی پبلک مٹینگ کرنے کی اجازت نہیں ملتی تھی اور وہ کسی قسم کی آواز بلند نہیں کرسکتا تھا۔ گجرات کے باہر والوں کو شاید یہ معلوم نہ ہو کہ احمدآباد میں سڑکوں اور سرکاری زمین پر بنے ہوئے ہزاروں غیر قانونی مندروں کو مودی نے بلڈوزر سے گروادیا تھا اور وشو ہندو پریشد وبجرنگ دل کے لوگوں کو ہمت نہیں ہوئی کہ ایک آواز بلند کردیں۔ آج مودی گجرات میں نہیں ہیں اور ان سب لوگوں کی ہمت بلند ہوگئی ہے جو کبھی ایک لفظ بولنے کا بھی حوصلہ نہیں رکھتے تھے۔آج ریاست کے حالات مختلف ہیں اور ایک بار پھر فرقہ پرست طاقتیں سر اٹھا رہی ہیں جس سے عوام کا جینا دوبھر ہوگیا ہے۔

تہوار بنے نفرت کا بہانہ

گجرات میں گربا کے بہانے فرقہ وارانہ اشتعال انگیزی کی کوشش کی گئی۔ ہمارے ملک کا ایک اہم تہوار ہے دسہرہ،جس کا ایک حصہ رام نومی بھی ہے۔ رام نومی کا پورے شمالی ہند میں خاص اہتمام کیا جاتا ہے اور لوگ طرح طرح کی تیاریاں کرتے ہیں۔ ہمارے تہوار عام طور پر یکجہتی اور اتحاد کا نمونہ ہوتے ہیں اور سبھی مذہب وملت کے افراد کے ایک دوسرے سے مل جل کر تہوار کی خوشیاں مناتے ہیں۔ یہاں جس طرح سے محرم میں ہندو بھائی شامل ہوتے ہیں ،اسی طرح ہندووں کے تہواروں میں بھی مسلمانوں کی شرکت ہوتی ہے۔ کچھ مسلم نوجوان تماشہ دیکھنے بھی جاتے ہیں مگر اس بار گجرات اور مدھیہ پردیش میں خاص طور پر اس تہوار کو فرقہ وارانہ اشتعال انگیزی کا ذریعہ بنایا گیا اور ہندووں ومسلمانوں کو بانٹنے کی کوشش کی گئی۔ ہندووں کو یہ باور کرانے کی کوشش ہوئی کہ مسلمان لڑکے اگر اس تہوار میں آئے تو ان کی بہوبیٹیوں کی عزت خطرے میں پڑ جائے گی۔ کیونکہ ان اوباش لڑکوں کو تربیت دے کر بھیجا جاتا ہے کہ وہ ہندو لڑکیوں کو اپنی محبت کے جال میں پھنسائیں اور ان سے شادی کرکے مسلم بچے پیدا کریں۔ اصل میں یہ خوف جو اقلیت کے دل میں پیدا ہونا چاہئے وہ یہاں اکثریتی طبقے کے دل میں پیدا کیا جاتا ہے اور یہ گجرات تک ہی محدود نہیں ہے بلکہ پورے ملک میں پیدا کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ اس نفسیاتی خوف کے ذریعے ہندووں کو مسلمانوں کے خلاف اکسایا جاتا ہے جب کہ’’ لوجہاد‘‘ جیسا کوئی معاملہ ہی نہیں ہے اور آج تک اس ہوّا کی ایک بھی مثال سامنے نہیں آئی ہے۔ کچھ ہندتو وادی ٹی وی چینل بھی اس کھیل میں فرقہ پرستوں کے ساتھ شامل ہیں جو جھوٹی اور فرضی کہانیاں تیار کرکے پیش کرتے ہیں۔ گجرات میں حالات اس قدر خراب ہوتے جارہے ہیں کہ اب امن پسند لوگوں کا جینا مشکل ہوتا جارہا ہے اور کسی بھی شخص کے خلاف وشو ہندو پریشد و بجرنگ دل کے لوگ کھڑے ہوجاتے ہیں۔ یہاں ان کے علاوہ کوئی محفوظ نہیں ہے۔ حال ہی میں مولوی مہدی حسن کا معاملہ بھی سامنے آیا جسے ان لوگوں نے پولس سے گرفتار کرا دیا تھا اور پولس تحویل میں بھی تھپڑ مارنے سے گریز نہیں کیا۔ ظاہر ہے کہ ایک عام آدمی ان کے سامنے خود کو بے بس پاتا ہے۔ مسلمانوں کے خلاف نفرت کا بازار گرم کرنے کے لئے ہی اعلان کیا گیا کہ اگر کوئی مسلمان گربا کے پنڈالوں میں آتا ہے تو پہلے اسے گائے کا پیشاب پلایا جائے پھر اندر داخل ہونے دیا جائے۔

کہاں کہاں کتنے دنگے؟

مدھیہ پردیش میں بھی بی جے پی کی سرکار ہے اور یہاں بھی اب آئے دن فرقہ وارانہ ٹکراؤ کی وارداتیں ہورہی ہیں۔ حالانکہ یہاں کے وزیر اعلیٰ شیو راج چوہان خود قومی یکجہتی کو فروغ دینے کی غرض سے عید میں مسلمانوں ک بیچ نظر آتے ہیں۔ یہاں بی جے پی ایک ایم ایل اے اوشا ٹھاکر نے اعلان کیا تھا کہ مسلمانوں کو گربا سے پنڈالوں میں داخلہ نہیں دینا چاہئے اور جو لوگ بھی آئیں وہ اپنے شناختی کارڈ دکھا کر آئیں۔ اگر ایسا ہوتاہے کہ ہمارے ملک میں جس قوم کا تہوار ہو وہی منائے توپھر اس دستور کی رو سے وزیر اعلیٰ کو بھی مسلمانوں کی تہوار میں شرکت نہیں کرنی چاہئے۔ حالانکہ وہ ماضی میں ایسا کرچکے ہیں اور مودی کے برخلاف اپنے سر پر اسلامی ٹوپی بھی رکھ چکے ہیں۔ کیا انھوں نے ایسا کرکے کوئی غلطی کی؟ آر ٹی آئی کے ذریعے ملی جانکاری کے مطابق پچھلے چار مہینوں کے بیچ مدھیہ پردیش میں فرقہ وارانہ تشدد کی کل پچاس وارداتیں ہوچکی ہیں ۔ یہ جانکاری وزارتِ داخلہ کے ذریعے حاصل ہوئی ہے اور آر ٹی آئی کے ذریعے یہ جانکاری مرادآباد کے سلیم بیگ نے حاصل کی تھی۔ انھیں چار مہینوں کے بیچ بی جے پی کے اقتدار والے گجرات میں فرقہ وارانہ اختلافات کی کل گیارہ وارداتیں ہوئی ہیں جن میں تین افراد کی موت ہوئی ہے۔ اترپردیش ملک کی سب سے بڑی ریاست ہے اور یہاں ۸۰ لوک سبھا سیٹیں ہیں ۔ یہاں فرقہ وارانہ تشدد کے کل ۲۷ معاملات روشنی میں آئے ہیں جن میں ۶ افردا کی موت ہوئی اور ۷۸ گھائل ہوئے ہیں۔ اس لحاظ سے دیکھا جائے تو بی ے پی کے اقتدار والی چھوٹی ریاستوں میں زیادہ فسادات ہوئے ہیں۔اس بیچ مہاراشٹر میں بیس فرقہ وارانہ تشدد کے واقعات ہوئے جن میں ایک شخص کی موت ہوئی نیزراجستھان میں دس اور بہار میں دس وارداتیں ہوئیں جب کہ کرناٹک میں گیارہ چھوٹے چھوٹے دنگوں کی جانکاری وزارت داخلہ نے دی ہے۔ جن ریاستوں میں دنگے ہورہے ہیں وہ اپنی جگہ پر لیکن سب سے اہم بات یہ ہے کہ جہاں بھی فسادات ہوتے ہیں ان میں سنگھ پریوار سے جڑے ہوئے لوگوں کے نام عموماً آتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ آر ٹی آئی سے ملی جانکاری میں کہیں یہ نہیں بتایا گیا ہے کہ ان فسادات کے پیچھے کن لوگوں کے ہاتھ تھے؟ ابھی حال ہی میں ضمنی انتخابات ہوئے جن میں بی جے پی نے ایسے مسائل اٹھانے کی کوشش کی جو فرقہ وارانہ طور پر ہندووں کو مشتعل کرنے والے تھے۔ ان مین سب سے اہم تھا ’’لوجہاد‘‘کا معاملہ ۔ یوگی آدتیہ ناتھ جو کہ بی جے پی کے ٹکٹ پر ممبر پارلیمنٹ بھی ہے ،اس نے ہندووں کو مسلمانوں کے خلاف اشتعال دلانے کو کوششیں کیں تو دوسری طرف دینی مدرسوں کے خلاف بھی بیان بازیاں کی گئیں۔ حالانکہ اس کے باوجود انھوں نے اپنی بیشتر سیٹیں کھودیں اور شکست کا منہ دیکھنا پڑا۔ گجرات اور راجستھان میں بھی بی جے پی کو اپنی سیٹیں گنوانی پڑیں مگر باوجود اس کے اس قسم کی باتیں سنگھ پریوار سے جڑی ہوئی جماعتیں اٹھا رہی ہیں۔ ہمارے ملک کی یہ عجیب بات ہے کہ سیاسی لوگوں کو کچھ بھی کرنے کی آزادی ہوتی ہے اور ان کے خلاف کوئی خاص کارروائی نہیں کی جاتی ہے اور جو فرقہ وارانہ فسادات کرانے میں جتنا آگے آگے ہوتا ہے وہ زیادہ اونچی کرسی پر براجمان ہوتا ہے۔

(مضمون نگار ٹی وی پروڈیوسر اور راسکرپٹ ائٹر ہیں)


**************************

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 508