donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Present Situation -->> Hindustan
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Ghaus Siwani
Title :
   Modi Ka Hindustan, Aakhir Kiyon Ban Gaya Kisan Ke Loye Shamsaan


مودی کا ہندوستان،آخر کیوں بن گیاکسان کے لئے شمسان؟


تحریر: غوث سیوانی، نئی دہلی


    ایک طرف خودکشی کرنے والے کسانوں کی چتائیں سلگ رہی ہیں اور دوسری طرف سرکار کی گولیوں کے نشانے پر آکر مرنے والے کسانوں اور زرعی مزدوروں کی لاشیں خاک وخون میں غلطاں ہیں۔یہ ہے نریندر مودی کے ہندوستان میں کسانوں کی حالت۔ یہ ہیں وہ ’’اچھے دن ‘‘جن کا وعدہ مودی نے کیا تھا۔وہ طبقہ جو پورے ملک کا پیٹ بھرتا ہے، وہ کسان جو سب کو روٹی فراہم کرتا ہے، آج بھکمری کا شکار ہے اور موت کو گلے لگانے پر مجبور ہے۔سرکار، اس کی حالت سے غافل ہے اور منتری اپنی عیش گاہوں میں آرام فرما ہیں۔ سابقہ کانگریس سرکار میں بھی کسان کی حالت اس سے بہتر نہیں تھی اور یہی سبب ہے کہ اس طبقے نے کانگریس کی سرکار کو ہٹانے میں بڑا کردار ادا کیا تھا۔ اسے نریندر مودی میں امید کی کرن دکھی تھی، جنھوں نے ’’اچھے دن‘‘ کے خواب دکھائے تھے اور سب کے وکاس کی بات کی تھی مگر آج وہ تمام سپنے ٹوٹ چکے ہیں اور کسانوں کو سمجھ میں آنے لگا ہے کہ’’ اچھے دن‘‘ کے وعدے محض  ’’جملے‘‘تھے۔ اچھے دن، کسانوں کے نہیں امبانی، اڈانی اور بابا رام دیو کے آنے تھے سو آگئے، کسان کے برے دن کل بھی تھے اور آج تو بدتر ہوگئے ہیں۔ صنعت کاروں کے بڑے بڑے قرض معاف ہوگئے مگر کسانوں کے چھوٹے چھوٹے قرض بھی جوں کے توں ہیں۔ مرکزی سرکار نے صاف صاف کہہ دیا ہے کہ ریاستی سرکاریں اگر کسانوں کے قرض معاف کرنا چاہتی ہیں تو کریں،مرکزاس معاملے میں ان کی کوئی مدد نہیں کرے گا۔یہی سبب ہے کہ اناج پیدا کر کروڑوں لوگوں کو خوراک فراہم کرنے والا کسان، اب خود موت کو گلے لگانے پر مجبور ہے۔

 کسان کا شمسان

    نیشنل کرائم ریکارڈ بیورو کی رپورٹ کے مطابق 2009 سے 2015 کے دوران 97847 کسانوں اور کھیتی کرنے والے مزدوروں نے خود کشی کی ہے۔ کسانوں کی طرف سے خود کشی کی بنیادی وجہ قرض رہا ہے جبکہ کھیتی مزدوروں کے لئے غربت کی کوکھ سے جنم لینے والے خاندانی مسائل ایک بڑی وجہ رہے۔واضح ہوکہ سال 1995 ء سے 2015کے دوران کل  3لاکھ سے زیادہ ہندوستانی کسان خودکشی کر چکے ہیں۔ سال 2015 میں کسانوں اور کسان مزدوروں کی خودکشی کے واقعات میں 2 فیصد کا اضافہ ہوا ہے۔ سال 2014 میں خودکشی کرنے والوںکی تعداد 12ہزار،360 تھی جو کہ 2015 میں بڑھ کر 12ہزار،602 ہو گئی ۔بعد کے برسوں کے اعداد دستیاب نہیںہیں مگر حالات بتاتے ہیں کہ اس میں اضافہ ہی ہوا ہوگا۔ رپورٹ کے مطابق مہاراشٹر میں جہاں 2014 میں 4ہزار4سو کسانوں نے خود کشی کی، وہیں سال 2015 میں 4ہزار291 کسانوں نے جان دی۔ ان میں سے 1293 معاملے تو مقروض کسانوں کے تھے۔ کسی بھی دوسری ریاست کے مقابلے میں مہاراشٹر میں کسانوں نے سب سے زیادہ خود کشی کی ہے۔ مہاراشٹر کے بعد تلنگانہ  پھر کرناٹک اور چھتیس گڑھ کا نمبر ہے۔ مہاراشٹر، تلنگانہ، آندھرا پردیش، کرناٹک، مدھیہ پردیش اور چھتیس گڑھ میں 94.1 فیصد خودکشی کے معاملے درج کئے گئے۔ سال 2009 سے 2013 کے درمیان کسانوں کی خود کشی میں 32 فیصد کی کمی ہوئی تھی۔ یہ مدت اچھے مانسون کی تھی لیکن اس کے بعد ہر سال کے اعداد و شمار میں اضافہ ہوا ہے۔گزشتہ دنوں نوٹ بندی کے سبب کسانوں کو زبردست نقصان اٹھانا پڑا ہے اور اس نقصان کے سبب خودکشی کے اعداد مزید بڑھ سکتے ہیں۔

کانگریس زمین پر اترے

    کانگریس ایک ایسی پارٹی ہے جس نے ملک پر سب سے زیادہ راج کیا ہے مگر اپنی غلطیوں کے سبب وہ اقتدار سے بے دخل ہوچکی ہے۔ کانگریس کے لئے یہ اچھا موقع تھا جب وہ کسان تحریک کے ذریعے  اپنی کھوئی ہوئی زمین واپس لے سکتی تھی مگر اس کے لیڈر راہل گاندھی اس وقت ملک کے اندر موجود نہیں ہیں، بلکہ اپنی نانی سے ملنے اٹلی گئے ہوئے ہیں۔ مدھیہ پردیش، جہاں کسانوں پر حکومت نے گولیاں چلائی تھیں، وہاں کانگریس ڈھیلے ڈھالے طریقے سے تحریک چلا رہی ہے مگر جس زوردار طریقے سے اسے میدان میں آنا چاہئے نہیں ہے۔مدھیہ پردیش کانگریس کے لیڈر کمل ناتھ نے حال ہی میں کہا ہے کہ کانگریس، کسانوں کے مان،سمان اور حق کے لئے جنگ لڑتی رہی ہے اور اور آگے بھی لڑتی رہے گی۔ انہوں نے کہا کہ کسانوں کا قرض فوری طور پرمعاف کیا جائے۔ اسی طرح دوسرے کانگریس لیڈر جیوتی رادتیہ سندھیا یہاں کسانوں کے لئے آندولن کر رہے ہیں اور انھوںنے کہا ہے کہ’’ کانگریس، کسانوں کے مطالبات کو لے کر اب بلاک سطح تک جائے گی۔ کانگریس کسانوں کے حق میں میدان میں ہے لہذا اب اس کے لیڈروں اور کارکنوں کی آواز دبانے کا کام حکومت کرے گی۔‘‘ کانگریس اگر اپنا کھویا ہوا وقار حاصل کرنا چاہتی ہے تو اسے زمین پر آنا ہوگا اور مسلسل جدوجہد کرنا ہوگا۔ اسے مدھیہ پردیش ہی نہیں پورے ملک میں کسانوں کی لڑائی لڑنی ہوگی۔ حالانکہ آج کسانوں کے جو حالات ہیں، اس کے لئے صرف بی جے پی کی موجودہ سرکار، ذمہ دار نہیں ہے بلکہ کانگریس زیادہ ذمہ دار ہے۔

کسان تنظیمیں تحریک کی راہ پر 

    کانگریس اور اپوزیشن پارٹیاں خواہ کسانوں کے لئے زیادہ کچھ نہ کر رہی ہوں مگر گزشتہ دنوںملک بھر کی تقریبا 100 چھوٹی بڑی کسان تنظیموں نے مل کر تحریک چلانے کا فیصلہ لیاہے۔ دہلی کے گاندھی پیس فائونڈیشن میں ایک رابطہ کمیٹی کی تشکیل کی گئی جس کا نام اکھل بھارتیہ کسان سنگھرش سمنوے سمیتی رکھا گیا ہے۔ سمیتی نے چھ جولائی کو مندسور سے ملک بھر میں قرض معافی اور کسانوں کے مسائل کو لے کر یاترا نکالنے کا فیصلہ لیاہے۔ اس سے پہلے ملک بھر کے کسان مختلف تنظیموں کے تحت تحریک چلارہے تھے مگر اب انھیں ایک اجتماعی پلیٹ فارم مل گیا ہے۔دہلی کے یوگیندر یادو، تمل ناڈو کے ایکنو ،حنان ملا، راجستھان کے رامپال، مہاراشٹر کے راجو شیٹی جیسے لیڈروں نے مطالبہ کیا ہے کہ سوامی ناتھن کمیشن کی سفارشات نافذ ہوں، کسان کو فصل کی صحیح قیمت دی جائے اور کسانوں کا مکمل قرض معاف کیا جائے۔ کسان سنگھرش سمیتی نے اعلان کیا ہے کہ چھ جولائی سے مندسور سے ملک گیر کسان یاترا نکالی جائے گی۔ اس یاترا کا اختتام دو اکتوبر کو چمپارن میں ہوگا۔ کسان لیڈر راجو شیٹی کا کہنا ہے کہ ہم یاترا نکالیں گے مندسور سے، جہاں کسانوں کا قتل ہوا۔ سب کو ایک کریں گے، گاؤں گاؤں جاکر کسانوں کو اس میں شامل کرنے کا کام کریں گے۔دوسری طرف آرایس ایس کے تربیت یافتہ شیوکمار کی قیادت والے بھارتیہ کسان سنگھ نے اعلان کیا ہے کہ 21 جون ،یوگا دیوس پر وہ ملک گیر چکا جام کرے گا۔

سرکار کی بے حسی

    کسان آندولن سے مدھیہ پردیش جل رہا ہے، مہاراشٹرمر رہا ہے،پنجاب خودکشی کی راہ پر ہے ، اترپردیش، گجرات، ہریانہ اور باقی ملک کے کسان تحریک کے لئے کمرکس رہے ہیں جو ہندوستان کی مرکزی اور ریاستی سرکاروں کے لئے خطرے کی گھنٹی ہے۔ اس سے پہلے تمل ناڈو کے کسان دلی کے جنترمنتر پر دھرنا دیئے رہے، احتجاج کے طور پر کھوپڑیوں کے ساتھ ٹانڈو کیا ،اپنے پیشاب پئے اور پی ایم ہائوس کی طرف مارچ بھی کیا مگر سرکار کی نیند نہیں ٹوٹی اور نتیجہ کے طور پر کسان آندولن کی آگ پورے ملک میں پھیلتی جارہی ہے۔ سرکار کا کہنا ہے کہ کانگریس جلتی میں تیل ڈال رہی ہے، جب کہ کسان آندولن کی قیادت آرایس ایس پس منظر کے شیوکمار شرماکر رہے ہیں اور سرکار کو دھمکی دے رہے ہیں کہ اگر کسانوں کے مطالبات نہیں مانے گئے تو پورے ملک میں اس تحریک کو پھیلا دیںگے،ان حالات کے سبب سرکار کے ہاتھ پیرپھول گئے ہیں۔ کہاں تو 2019 میں دوبارہ ہندوستان پرحکومت قائم کرنے کا پلان بنا رہے تھے اور کہاں کسان آندولن کے چکر میں پھنس گئے۔ یہی کسان تھے ،جنھوں نے مودی کو اقتدار تک پہنچایا تھا اور اگر ان کی ناراضگی برقرار رہی تو لاکھ رام مندر بنوالیں، لاکھ یوگ آسن کرلیں، لاکھ فرقہ وارانہ مسائل اٹھاکر پولرائزیشن کی کوششیں کرلیں مگر آئندہ اقتدار میں نہیں آسکتے۔ کسانوں کی خودکشی سرکار کو مقتل کی طرف لے جارہی ہے۔ اب حکومت کو فیصلہ کرنا ہوگا کہ اسے کسان کا ساتھ چاہئے یا امبانی، اڈانی اور بابارام دیو جیسے صنعت کاروں کا؟

    ہندوستان کا کسان ملک کی اقتصادیات کے لئے ریڑھ کی ہڈی ہے مگر اسے نظرانداز کیا جاتا رہا ہے۔مرکز کی سرکاریں صنعت کاروں کی طرف توجہ دیتی رہی ہیں مگر کسانوں کی طرف نہیں۔پی وی نرسمہارائو کے زمانے سے جب کہ ’’بازاری کرن ‘‘پر زوردیا جانے لگا تھا ،کسان زیادہ حاشیے پر گئے اور مودی سرکار میں تو صرف امبانی، اڈانی اور بابارام دیو جیسے لوگوں کی طرف دھیان دیا گیا جن کی املاک میں زبردست اضافہ ہوا مگر ان کسانوں کی طرف کوئی توجہ نہیں دی گئی جو مفلوک الحال ہورہے تھے اور خودکشی کر رہے تھے۔ آج اسی کا نتیجہ ہے کہ پورے ملک میں کسان، تحریک پر آمادہ ہیں۔ آج اگر ان کے مسائل کی طرف توجہ نہیں دی گئی تو ان کا غصہ ہندوستان کے اہل تخت وتاج کو تاراج کرکے چھوڑیگا اور ساتھ ہی ساتھ ملک کی زرعی پیداوار بھی متاثر ہوگی جس سے پورا ملک بھکمری کا شکار ہوسکتا ہے، نیز ہماری اقتصادیات چوپٹ ہوسکتی ہیں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 648