donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Present Situation -->> Hindustan
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Ghaus Siwani
Title :
   Farqa ParastoN Ki Hit List Me Sabse Ooper Bengal Ki Wazeer Aala


رقہ پرستوں کی ہٹ لسٹ میں سب سے اوپر بنگال کی وزیر اعلیٰ

 

غوث سیوانی، نئی دہلی

 

(مغربی بنگال، سنگھ پریوار کی فہرست میں سب سے اوپر ہے۔لوک سبھا انتخابات میں ۱۴ فیصد ووٹ لینے اور ضمنی الیکشن میں ایک سیٹ پر کامیابی پانے کے بعد بی جے پی کے حوصلے بلند ہیں۔ کلکتہ میں وشوہندو پریشد نے اپنا سمیلن کیا ہے جس میں آر ایس ایس چیف بھی شریک ہوئے ہیں۔ اسی لئے اب یہاں دہشت گردی کا ہوّا کھڑا کیا جارہاہے تاکہ مسلم ووٹروں کو ممتا بنرجی سے دور کیا جاسکے۔ ان حالات نے بنگال کے امن پسند مسلمانوں میں خوف کا ماحول پیدا کردیا ہے۔)

مغربی بنگال کے مسلمانوں خوفزدہ ہیں۔ ان کی جانب شکوک شبہات ظاہر کئے جارہے ہیں اور انگلیاں اٹھائی جارہی ہیں۔ان کے دینی مدرسوں اور مسلم تنظیموں کو بھی شک وشبہے کے دائرے میں لانے کی کوششیں ہورہی ہیں۔ جماعت اسلامی ہند کی مغربی بنگال اکائی نے تو ان حلقوں کے خلاف قانونی چارہ جوئی کی دھمکی دی ہے جو ایسے حالات بنا رہے ہیں اور مسلمانوں کو بدنام کرنے کی کوشش میں لگے ہوئے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ کیا دنیا کو امن و امان اور عدم تشدد کا سبق پڑھانے والا مغربی بنگال، القاعدہ کا ٹھکانہ بن رہا ہے؟ کیا یہاں بنگلہ دیش سے دہشت گردی امپورٹ کی جارہی ہے؟ کیا یہاں کے مدرسے دینی تعلیم کے بجائے دہشت گردی کا پاٹھ پڑھا رہے ہیں؟ کیا یہ دینی ادارے دہشت گردی کے پنپنے کی نرسری بن گئے ہیں جہاں طلباء کو تشدد پر ابھارا جاتا ہے؟ کیا اب بنگالی مردوں کے ساتھ ساتھ بنگالی خواتین بھی ہتھیار چلانے کی تربیت لے رہی ہیں؟ کیا یہاں مسلم نوجوانوں کو راکٹ لانچر اور ہتھیار بنانے کا طریقہ سکھایا جارہا ہے اور القاعدہ کے لیڈر ایمن الظواہری کے خواب کو جنوب ایشیا میں پورا کرنے کے لئے انھیں ٹریننگ دی جارہی ہے؟ کیا بنگلہ دیش کے دہشت گرد گروہ یہاں اپنے ہاتھ پاؤں پھیلانے میں مصروف ہیں اور عنقریب بنگال میں کسی بڑی سازش کا بھانڈا پھوڑ ہونے والا ہے ؟ کیا بنگال میں دہشت گردی کے فروغ میں خود ترنمول کانگریس کے لیڈران کا ہاتھ ہے یا یہ سب کچھ ترنمول کانگریس کی سرکار کو بدنام کرنے کے لئے کیا جارہا ہے؟ کہیں ایسا تو نہیں کہ یہاں ممتا بنرجی کے خلاف کوئی بڑی سیاسی سازش چل رہی ہے اور دہشت گردی کی خبریں اسی مقصد سے اڑائی جارہی ہیں؟ اصل میں اس قسم کی خبریں اخبارات میں تب سے آرہی ہیں جب گزشتہ ۲،اکتوبر کو بردوان کے کھاگرا گڑھ میں ایک دھماکہ ہوگیا اور اس دھماکے میں جس شخص کی موت ہوئی اسے بنگلہ دیش کا دہشت گرد کہاجارہا ہے۔ وزارت داخلہ اور پولس کے ذرائع کی طرف سے اس قسم کے دعوے بھی کئے گئے کہ دھماکے کے مقام سے ایمن الظواہری کا ویڈیو ٹیپ ملا ہے جس میں اس نے جنوب ایشیا میں جہاد چھیڑنے کی اپیل کی تھی۔ اسی کے ساتھ ہتھیار بنانے کے فارمولے ملے ہیں نیزایک لید مشین (Lathe Machine)دستیاب ہوئی ہے جس کا ہتھیار بنانے کے لئے استعمال کیا جاسکتا تھا۔ پولس اور تفتیشی ایجنسیوں کی جانب سے یہ بھی کہا گیا ہے کہ راکٹ لانچر بنانے کا طریقہ موبائل سے دستیاب ہوا ہے جسے انٹرنیٹ سے ڈاؤن لوڈ کیا گیا تھا۔ پولس نے کچھ لوگوں کو گرفتار بھی کیا ہے جس میں خواتین شامل ہیں اوراب ان سب لوگوں سے سی آئی ڈی اپنے دفتر واقع بھوانی بھون (کلکتہ) میں پوچھ تاچھ کر رہی ہے۔ویسے کئی حلقوں کی جانب سے آواز اٹھنے کے بعد ان معاملات کی انکوائری کا ذمہ مرکزی جانچ ایجنسی این آئی اے کے سپرد ہے۔

یہ لوگ کون ہیں؟

۲،اکتوبر کو جب پورا ملک بابائے قوم مہاتما گاندھی کا جنم دن اہنسا دیوس کے طور پر منا رہا تھا اور ان کے پیغام عدم تشدد کو یاد کر رہا تھا ٹھیک اسی وقت مغربی بنگال کے ضلع بردوان کے ایک گاؤں کھاگرا گڑھ میں ایک زبردست دھماکہ ہوا، جس نے آس پڑوس کے لوگوں کی توجہ اپنی جانب مبذول کرالی۔ یہ دھماکہ ایک چھوٹے سے مکان میں ہوا تھا جس کے آگے کا حصہ دکان کے طور پر استعمال کیا جاتا تھا۔دیکھتیہی دیکھتے تماش بینوں کی بھیڑ لگ گئی اور پولس بھی موقع واردات پر پہنچ گئی۔ یہا ں بم بنانے والے دو لوگوں شکیل احمد اور سوپن منڈل کی موت ہوگئی جب کہ عبدالحکیم نامی شخص زخمی ہوگیااور اب زیر علاج ہے۔تفتیشی افسران نے اسے حراست میں لے لیا ہے اور ان کے دعوے کے مطابق وہ پہلے تفتیش میں مدد نہیں کررہا تھا مگر اب تعاون کرنے لگا ہے۔ اسی کے ساتھ دو خواتین بھی گرفتار کی گئی ہیں جن میں ایک کا نام گلشنہ عرف رومی بی بی ہے، جب کہ دوسری کا نام امینہ بی بی بتایا جارہا ہے۔ رومی اصل میں مرنے والے شکیل احمد کی بیوہ ہے۔تفتیش شروع ہونے کے بعد ہاشم ملا کی گرفتاری ہوئی اور مزید کچھ لوگوں کی تلاش جاری ہے جن میں یوسف شیخ اور شہناز بی بی بھی شامل ہیں۔اگلے چند دن میں گرفتار شدگان کی فہرست میں اضافہ ہوسکتا ہے اور سی آئی ڈی یا این آئی اے کی طرف سے کچھ نئے رازوں کا انکشاف ہوسکتا ہے۔

سچ کیا ہے؟

بردوان کے بم دھماکوں کے بعد سے میڈیا میں اس تعلق سے طرح طرح کی خبریں آرہی ہیں اور مختلف قسم کے دعوے کئے جارہاے ہیں۔ کہا جارہا ہے کہ موقع واردات پہ پولس کے پہنچنے سے پہلے رومی اور امینہ نے ہتھیار لے کر پولس کو اس وقت تک روکے رکھا اور گھر کے اندر داخل نہیں ہونے دیا جب تک کہ اندر کاغذات اور دستاویزات کو جلاکر نیست و نابود نہیں کردیا گیا۔ اس کام میں سب سے بڑا رول انھیں دونوں خواتین کا تھا جنھیں پولس نے گرفتار کیا ہے۔ اسی کے ساتھ اس وقت میڈیا کے نشانے پر بنگال کے دینی مدرسے بھی ہیں جنھیں دہشت گردی کی نرسری قرار دیا جارہا ہے اور کہا جارہا ہے کہ یہاں بچوں کا برین واش کرکے انھیں جہاد کی طرف مائل کیا جارہا ہے۔ اس کا ایک سبب یہ ہے کہ جن لوگوں کی گرفتاری دھماکے کے سلسلے میں ہوئی ہے ان کا تعلق دینی مدرسوں سے رہا ہے یہاں تک کہ لڑکیاں بھی مدرسوں کی تعلیم یافتہ بتائی جاتی ہیں۔ ایسے وقت میں مدرسوں کو نشانہ بنانا عام بات ہے اور میڈیا کی طرف سے سنسنی پھیلانے کے لئے دور کی کوڑی بھی اکثر لائی جاتی ہے۔ مہلوک شکیل احمد کے بارے میں دعوی کیا جارہا ہے کہ وہ بنگلہ دیشی شہری ہے اور چند سال قبل ہی بھارت منتقل ہوا تھا۔ سی آئی ڈی اور وزارتِ داخلہ کے حوالے سے اخبارات خبر دے رہے ہیں کہ عیدالضحیٰ کے موقع پر پچیس مقامات پر دھماکے کرنے کا پلان تھا جن میں سے ایک کلکتہ ایئر پورٹ بھی ہے مگر بم بناتے وقت دھماکے کے سبب تمام سازشیں ناکام ہوگئیں اور بھانڈا پھوٹ گیا۔ بعض ذرائع سے یہ خبر بھی آرہی ہے کہ پڑوسی ملک بنگلہ دیش میں سرگرم دہشت گرد تنظیم بنگلہ دیش جماعۃ المجاہدین (بی جے ایم) سے مرنے والوں کا تعلق تھا اور ان کا ایک ممبر کوثر دھماکے سے ایک دن قبل ہی یہاں دیکھا گیا تھا۔ اسی نے دھماکہ خیز مادہ اور ہتھیار بنانے کے طریقے انھیں فراہم کئے تھے۔ یاد رہے کہ بنگلہ دیش میں شیخ حسینہ سرکار نے جماعۃ المجاہدین اور اس جیسی جماعتوں کا ناطقہ بند کر رکھا ہے اور ان کے خلاف سخت کارروائی کر رہی ہے جس کے سبب وہ اپنی سرگرمیاں وہاں آزادانہ طور پر جاری نہیں رکھ پارہی ہیں۔ یہ بھی کہا جارہا ہے کہ آسام میں القاعدہ نے اپنی شاخ قائم کرلی ہے اسی کی دوسری شاخ مغربی بنگال میں بھی قائم ہوگئی ہے جس سے ان لوگوں کا تعلق تھا۔ ترنمول کانگریس کے مخالفین کو اس دھماکے نے ایک موقع دے دیا ہے اور وہ سرکار پر حملے کر رہے ہیں اور اسے کٹہرے میں کھڑا کرنے کی کوشش میں لگے ہوئے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ترنمول کانگریس کے ہی کچھ لیڈران کی مدد سے یہاں دہشت گردی کی سرگرمیاں چل رہی ہیں اور سرکار اپنے مسلم ووٹ بینک کو دیکھتے ہوئے کوئی کارروائی نہیں کر رہی ہے۔ لطف کی بات یہ ہے کہ تفتیش کرنے والی سی آئی ڈی یا این آئیاے کے افسران آفیشیل طور پر کچھ بھی نہیں کہہ رہے ہیں مگر ان کے حوالے سے کسی کے نام کے بغیر میڈیا اس قسم کی خبریں دے رہا ہے۔ سی آئی ڈی نے دو مقامات پر چھاپہ مار کر ملزموں کے خلاف ثبوت جمع کرنے کی کوشش کی تھی مگر این آئی اے نے کئی مقامات پر چھاپے مارے ہیں۔

دہشت گردی یا سیاسی سازش؟

اس وقت اہم سوال یہی ہے کہ دھماکہ خیز مادہ کہاں سے آیا اور اس کے پیچھے کے اسباب کیا تھے؟ کیا واقعی یہاں دہشت گردی کی سازش رچی جارہی تھی اور عوامی مقامات پر دھماکہ کرکے بے گناہ افراد کو مارنا مقصود تھا یا کوئی اور بات تھی؟ یہاں ہم اپنے قارئین کو بتاتے چلیں کہ مغربی بنگال میں بم بناتے وقت دھماکے کی یہ کوئی پہلی واردات نہیں ہے بلکہ یہاں آئے دن اس قسم کی وارداتیں ہوتی رہتی ہیں۔ یہاں سیاسی رنجش روز مرہ کا معمول ہے اور ایک دوسرے کے خلاف بموں کا استعمال عام بات ہے۔ علاوہ ازیں سماج دشمن عناصر بھی یہاں اس قسم کی حرکتیں کرتے رہتے ہیں اور ان کی موتیں ہوتی رہتی ہیں۔ اب یہ تفتیش کرنے والے افسران بتاسکتے ہیں کہ اب تک جو کچھ انکوائری میں سامنے آیا ہے اس کے مطابق یہ واقعی دہشت گردی کا معاملہ ہے یا میڈیا ہر بار کی طرح اس بار بھی مسلمانوں کو نشانہ بنانے کے لئے اسے بہانہ بنا رہا ہے۔ ماضی میں بھی اکثر ہوتا رہا ہے کہ میڈیا جنھین دہشت گرد کہتا رہا ہے اور پانی پی پی کر کوستا رہا وہ کورٹ سے بری ہوگئے اور اس قسم کے واقعات ایک بار نہیں بلکہ بار بار ہوئے ہیں۔ یہ بھی ممکن ہے کہ ممتابنرجی اور ان کے مسلم ووٹروں کے بیچ خلیج پیدا کرنے کی غرض سے کوئی سازش رچی جارہی ہو۔ یہاں اس وقت مسلمان ممتا بنرجی کے ساتھ ہیں اور انھیں کے ووٹ سے وہ پارلیمنٹ ،اسمبلی سے لے کر پنچائت تک میں کامیابی پارہی ہیں۔ بنگال میں اس وقت سنگھ پریوار کو بہت امکانات دکھائی دیتے ہیں کیونکہ بی جے پی کے ووٹ میں زبردست اضافہ ہوا ہے۔ اگر ان دھماکوں کے پیچھے کوئی سیاسی سازش ہے تو اسے اجاگر ہونا چاہیے البتہ دہشت گردی کاواقعی ثبوت ملتا ہے تو حکومت کو ضرور قصور واروں کے خلاف کارروائی کرنی چاہئے اور اس کا سدباب کرنا چاہئے کیونکہ دہشت گردی ایک مہذب سماج کے لئے کوڑھ کی طرح ہے۔ البتہ اگر اس کے پیچھے کوئی سیاسی سازش ہو یا بے قصور افراد کو پھنسایا جارہا ہو تو حکومت کو اس سازش کو بھی بے نقاب کرنے سے گریز نہیں کرنا چاہئے۔

    ****************************

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 489