donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Present Situation -->> Hindustan
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Ghaus Siwani
Title :
   Asam Ki Qismat Musalman Ki Muththi Me


آسام کی قسمت مسلمان کی مٹھی میں


’’کنگ میکر‘‘ نہیں ’’کنگ‘‘ بھی بن سکتے ہیں مولانا بدرالدین اجمل


تحریر:غوث سیوانی،نئی دہلی


    آسام کا اگلا وزیراعلیٰ کون ہوگا؟ کیا جس ریاست کی زمین مسلمانوں کے لئے تنگ رہی ہے وہاں اب کوئی مسلمان وزیر اعلیٰ بننے والا ہے؟ اگلی سرکار میں مولانا بدرالدین اجمل کا کردار اہم ہونے والا ہے؟آسام کے موجودہ سیاسی حالات کے جانکاروں کے لئے یہ سوالات حیرت انگیز نہیں ہوسکتے کیونکہ اے آئی یو ڈی ایف بہت تیزی کے ساتھ اپنی سیاسی زمین تیار کر رہی ہے۔ لگ بھگ دس سال قبل کی بات ہے جب آسام کے وزیراعلیٰ ترون گوگوئی نوگاواں ضلع کی ایک ریلی میں کہہ رہے تھے کہ بدرالدین اجمل کون ہے؟ ان کے اس سوال کاجواب گزشتہ سال اجمل نے یہ پوچھ کر دیا کہ ’’یہ ترون گگوئی ہے کون؟‘‘مولانا اجمل کا یہ سوال محض شیخی نہیں تھا بلکہ ترون گگوئی پر زبردست طنز تھا اور مناسب بھی تھا کیونکہ گزشتہ سال چالیس رکنی بوڈولینڈ ٹیریٹوریل کونسل کے انتخابات ہوئے جن میں کانگریس کو محض ایک سیٹ پر صبر کرنا پڑا جب کہ مولانا کی پارٹی اے آئی یو ڈ ی ایف کو چار سیٹیں حاصل ہوئیں۔ چار سیٹیں اگرچہ کم ہیں مگر بوڈو جماعتوں کی اکثریت والی کونسل میں جہاں برسراقتدار پارٹی کے حصے میں محض ایک سیٹ آئی ہو وہاں یہ کم بھی نہیں ہیں۔ کانگریس ۳۵سیٹوں پر لڑ کر ایک سیٹ حاصل کرسکی جب کہ اے آئی یو ڈی ایف نے ۸ سیٹوں پر لڑکر چار پر کامیابی پالی۔ اتنی سیٹوں پر اجمل کی پارٹی کا جیتنا اس لئے بھی بڑی بات ہے کہ اس خطے میں بوڈواور مسلمانوں کے بیچ چھڑپ عام بات ہے۔

کنگ یا کنگ میکر؟

    آسام میں پیدا ہوئے اور ممبئی میں کپڑا، ریئل اسٹیٹ، چمڑا، صحت، تعلیم اور خوشبو کی صنعت چلانے والے مولانابدرالدین اجمل کی نگاہیں اب اگلے چند مہینوں میں ہونے والے آسام کے اسمبلی انتخابات پر ہیں۔ گوہاٹی یونیورسٹی میں سیاسیات پڑھانے والے ننی گوپال مہنت کہتے ہیں،’’ کانگریس اور بی جے پی دونوں کے واضح اکثریت حاصل کرنے کا امکان نہیں ہے، ایسے میں اجمل کا ’’کنگ میکر‘‘ کے کردار میں آنا طے ہے۔‘‘ جب کہ سیاسی تجزیہ کاردلیپ چندن کا کہنا ہے کہ’’ اجمل 30 نشستیں بھی جیت سکتے ہیں۔‘‘ستمبر 2014 میں مولانا کے بھائی سراج الدین نے اعلان کیا تھا کہ ان کے بھائی جلد ہی آسام کے وزیر اعلی بنیں گے۔تجزیہ کاروں کا خیا ل ہے کہ 2016 میں بھائی کا یہ خواب تو شاید مکمل نہیں ہو پائے گا، لیکن وہ کنگ میکر کے کردار میں ضرور آ سکتے ہیں۔البتہ مولانا کے تعلقات جہاں کانگریس سے اچھے ہیں وہین بی جے پی سے بھی خراب نہیں ہیں۔ مولانا اجمل ماضی میں مرکز کی منموہن سرکار کو حمایت دے چکے ہیں اور نریندر مودی کو بھی بڑا بھائی مانتے ہیں۔وہ کہتے رہے ہیں کہ ’’ہم انتخابات کے پہلے کانگریس اور بی جے پی دونوں سے برابر دوری بنا کر رکھیں گے مگر انتخابات کے بعد ریاست کو مستحکم حکومت دینے کی خاطر ہم کسی بھی پارٹی کو اچھوت مان کر نہیں چلیںگے‘‘ جموں و کشمیر میں بنی حکومت اس بات کا ثبوت ہے کہ سیاست ممکن کا فن ہے اور آسام میں بھی زیادہ بے میل اور اجنبی جماعتوں کے ایک ساتھ آنے کی امید کی جا سکتی ہے۔ حال ہی میں مولانا اجمل نے بہار کے وزیر اعلیٰ نتیش کمار سے ملاقات کی ہے اور کانگریس،آسام گن پریشد وترنمول کانگریس کے ساتھ مل کر مہا گٹھبندھن بنانے کی خبریں بھی آرہی ہیں مگر الیکشن کے بعد کیا ہوگا،اس بارے میں کچھ کہنا جلد بازی ہوگی۔ غور طلب ہے کہ آسام میں اسمبلی کی کل ۱۲۶سیٹیں ہیں۔۲۰۱۱ کے انتخابات میں کانگریس کو ۷۸،اے یوڈی ایف کو۱۸، بی جے پی کو۵، آسام گن پریشد کو ۱۰ اور بوڈولینڈ پیوپلزفرنٹ کو۱۲ملی تھیں۔ یہاں اسمبلی میں اصل اپوزیشن پارٹی اے آئی یو ڈی ایف ہی ہے ۔   

حکمت اور حالات نے دلائی کامیابی

    آسام میں مولانا بدرالدین اجمل کے زبردست سیاسی ابھار کے پیچھے ان کی اپنی سیاسی سوجھ بوجھ کے علاوہ حالات کا بھی بھی عمل دخل ہے۔انھوںنے آل انڈیا یونائیٹیڈڈیموکریٹک فرنٹ 2005 میں قائم کی تھی، اسی سال سپریم کورٹ نے متنازعہ غیر قانونی تارکین وطن والے قانون (آئی ایم ڈی ٹی )کو منسوخ کر دیا تھا۔ اس کے لئے آل آسام اسٹوڈنٹس یونین کے لیڈر اور بی جے پی کے موجودہ مرکزی وزیر سربانند سونیوال نے طویل قانونی جنگ لڑی تھی، جس کے بعد عدالت کا یہ فیصلہ آیا تھا۔ آئی ایم ڈی ٹی نے غیر قانونی تارکین وطن کی نشاندہی کی ذمہ داری ٹریبیونل پر ڈال دی تھی اور مشتبہ افراد کی شہریت کو ثابت کرنے کا بوجھ شکایت کرنے والوں پر ڈال دیا تھا۔ تارکین وطن مسلمان مانتے ہیں کہ اس وقت کی مرکزی حکومت کے ذریعہ بنایا گیا یہ قانون انہیں ظلم و ستم سے بچانے والا تھا۔

2011 میں وزیر اعلی گوگوئی نے کہا تھاکہ وہ ’’ ہندو گھس پیٹھیوں‘‘ کی حفاظت کریں گے۔ان کے اس بیان کے بعد اجمل کو ان مسلمانوں کے حق میں کھڑے ہونے کا موقع مل گیا جنھیں فرقہ پرست طاقتیں بنگلہ دیشی گھس پیٹھیا کہتی ہیں۔ 2006 کے انتخابات میں اے آئی یو ڈی ایف کو صرف 10 سیٹیں ملی تھیں، لیکن 2011 کے انتخابات میں اس نے بنگلہ بھاشی، مسلم اکثریتی حلقوں میں  سے18 نشستیں بٹور لیں۔ اسی کے ساتھ پارٹی آسام کی سیاست میں اہم اپوزیشن پارٹی کے طور پر ابھر آئی۔ 2014 کے لوک سبھا انتخابات میں اس نے تین سیٹیں جیتیں اور 24 اسمبلی حلقوں میں برتری قائم کی، جبکہ 2009 میں اس کے پاس صرف ایک نشست تھی۔

اقلیتی گروہوں کے لیڈر؟

    مولانا بدرالدین اجمل بہت تیزی کے ساتھ یہاں کے اقلیتی گروہوں کے لیڈر بن کر ابھر رہے ہیں۔ وہ مسلمانوں کے فطری لیڈر ہیں مگر بنگلہ بولنے والے ہندووں کے بیچ بھی مقبول ہیں کیونکہ وہ ایک بنگلہ بھاشی ہیں۔یہاں ان دونوں کے علاوہ اور بھی اقلیتی طبقے ہیں جو کل ملاکر پچاس فیصد تک پہنچ جاتے ہیں اور اگر ان سبھی کے ووٹ حاصل کرنے میں اے آئی یو ڈی ایف کامیاب ہوئی تو وہ کانگریس کا متبادل بن کر ابھرسکتی ہے۔مولانا اجمل کا کہنا ہے کہ اگرمیری داڑھی اور ٹوپی کو آپ نظر اندز کردیں تو میں تمام اقلیتوں کے لئے ہوں۔ اپنے دعوے کی حمایت میں وہ اعداد و شمار پیش کرتے ہیں۔ 2006 میں ان کی پارٹی نے 73 امیدوار اتارے تھے، جن میں سے 34 غیر مسلم تھے۔ 2014 کے لوک سبھا انتخابات میں 11 سیٹوں پر انتخاب لڑا، جن میں سے چھ غیر مسلمان امیدوار تھے۔ جیتنے والے تین امیدواروں میں سے ایک رادھے شیام بسواس ہندو ہیں۔ پارٹی کے ایگزیکٹو چیئرمین ڈاکٹر آدتیہ لگتھاسا ڈمسا قبائلی ہیں۔

    آسام میں بنگلہ بولنے والے مسلمانوں کی شہریت کا مسئلہ ایک بار پھر موضوع بحث ہے جہاںقومی شہریت رجسٹر کے کام کو مکمل کرنے کے لئے سپریم کورٹ نے ریاستی حکومت کو دسمبر، 2016 تک کا وقت دیا ہے اور اسمبلی انتخابات بھی 2016 میں ہونے ہیں۔ اس انتخابی بساط پر شہریت رجسٹر کو اپ ڈیٹ کرنے کا مسئلہ زور شور سے منڈلاتا دکھائی دے رہا ہے۔ 2011 کی مردم شماری کے مذہبی اعداد و شمار نے اسے اور طول دے دیا ہے۔ ان اعداد و شمار کے مطابق آسام میں مسلمانوں کی آبادی میں سب سے تیز اضافہ ہوا ہے۔ 2001 میں جہاں یہ 30.9 فیصد تھی، وہیں اب بڑھ کر 34.2 فیصد ہو گئی ہے، جبکہ ملک بھر میں مسلمانوں کی آبادی میں 13.4 فیصد سے 14.2 فیصد کا معمولی اضافہ ہوا ہے ۔یہ اضافہ اے آئی یو ڈی ایف کے حق میں ہے۔

سیاست سے روحانیت تک

    بدرالدین اجمل کسی عصری یونیورسٹی کے تعلیم یافتہ نہیں ہیں بلکہ دارالعلوم دیوبند سے فاضل ہیں مگر سیاسی ضرب وتقسیم کو اچھی طرح سمجھتے ہیں اور مسلمانوں کو ہی نہیں بلکہ دوسرے طبقات کو متاثر کرنے کا ہنر جانتے ہیں۔ وہ سیاست کے ساتھ ساتھ روحانیت سے بھی شغف رکھتے ہیں اور پانی پر قرآنی آیات پڑھ کر دم کرتے ہیں۔ ان کے حامیوں کا دعوی ہے کہ اس پانی کو پینے سے ہر بیماری ٹھیک ہو جاتی ہے۔ جب اجمل سے پوچھا گیا کہ وہ اندھ وشواسوں کیوں پھیلاتے ہیں توان کا جواب تھا’’ جب حکومت لوگوں کوعلاج مہیا کرنے میں ناکام ہو چکی ہے، اگر میں اللہ کے فضل سے ان کی مدد کر رہا ہوں، تو اس میں کیا برائی ہے؟ اگر میں نے لوگوں کو بیوقوف بنا رہا ہوتا، تو وہ میرے پاس بھلا کیوں آتے؟

     کسانوں کے حق کے لئے لڑ رہی ایک این جی او کرشک مکتی سنگرا م سمیتی کے کمل میدھی کہتے ہیں’’ لوگ اکثر شکایت کرتے ہیں کہ اے آئی یو ڈی ایف کے رکن اسمبلی ترقیاتی کام نہیں کرتے، لیکن جیسے ہی اجمل دعا دینے کے لئے آتے ہیں، وہ سب کچھ بھول جاتے ہیں۔ہم سیاست دانوں کا تو مقابلہ کر سکتے ہیں، مگر روحانیت کے ذریعے لوگوں پر اپنا اثر قائم کرنے والے مولانا سے لڑنا بڑا چیلنج ہے۔‘‘

آسام میں کیا ہوگا؟

2016 کے اسمبلی انتخابات کے بعد اجمل کی حیثیت اس بات سے بھی طے ہوگی کہ بی جے پی انتخابات میں کیسا رزلٹ کرتی ہے۔ 2011 میں بی جے پی نے پانچ اسمبلی سیٹیں جیتی تھیں، لیکن 2014 کے لوک سبھا انتخابات میں ’’مودی لہر‘‘ نے ریاست کی 14 نشستیں اس کی جھولی میں ڈال دیں جو اس نے پہلے کبھی نہیں جیتی تھیں، اور ساتھ ہی اسے 69 اسمبلی حلقوں میں برتری دلا دی۔فی الحال مودی لہر دم توڑ چکی ہے ،مرکزی حکومت کے خلاف بیزاری کا ماحول ہے ۔ دوسری طرف کانگریس کی ریاستی سرکار بھی غیرمقبول ہے ایسے میں اے آئی یو ڈی ا یف کے لئے اپنی سیٹوں میں اضافہ کرنے کا بہتر موقع ہے۔حالانکہ بی جے پی صدر امت شاہ ا شارہ دے رہے ہیں کہ بی جے پی ہندو ووٹوں کو متحد کرے گی اور بنگلہ دیشی گھس پیٹھ کو ایشو بنائے گی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 588