donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Present Situation -->> Hindustan
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Dr. Mushtaq Ahmad
Title :
   Jashn Yaum Jamhuriya Aur Adme Tahammul


جشن یومِ جمہوریہ اور عدم تحمل و عدم رواداری کا ماحول

 

٭ڈاکٹر مشتاق احمد

پرنسپل مارواڑی کالج،دربھنگہ

 ای میل: rm.meezan@gmail.com

Mob.-09431414586


    ان دنوں ہندستان میں عدم تحمل اور رواداری کے موضوع پر خوب بحثیں ہو رہی ہیں۔ اکیڈمک بھی اور سیاسی بھی۔ ایک طبقہ دعویٰ در دعویٰ کر رہا ہے کہ ملک میں عدم تحمل کا ماحول قطعی نہیں ہے اور موجودہ مرکزکی نریندر مودی حکومت کے خلاف پروپگنڈہ کرنے کے لئے عدم رواداری کا سوال اٹھایا جارہا ہے۔ جبکہ دوسرا طبقہ ایسا ہے جو اپنے تمام تر دلائل کے ساتھ یہ ثابت کر رہا ہے کہ ملک میں عدم تحمل اور عدم رواداری پر وان چڑھ رہا ہے۔گذشتہ دن اسی موضوع پر منعقدہ ایک مذاکرے میں مجھے بھی شرکت کا موقع ملا۔ ہندی کے ایک نامور صحافی آنجہانی رام گووند گپتا کی بیسویں برسی پر ان کے ہفتہ وار ’’ترہت وانی‘دربھنگہ کے دفتر میں ’عدم تحمل اور میڈیا‘ کے موضوع پر ایک مذاکرہ رکھا گیا تھا۔ یہاں بیشتر مقررین کا خیال تھا کہ ملک میں جو وقتی عدم تحمل کا ماحول ہے وہ سیاسی ہے اور جلد ہی اس پر قابو پایا جاسکتا ہے۔مذاکرے میں آر ایس ایس نظریات کے بھی حامیوں کی تعداد اچھی خاصی تھی اور وہ اپنے دلائل سے موجودہ حکومت کی طرف داری کر رہے تھے۔ اگرچہ میرا مقصد نہ موجودہ حکومت پر نشانہ لگانا تھا اور نہ کسی خاص سیاسی جماعت کی ہمنوائی کرنا ۔ میری نظر میں تو عدم تحمل کا ماحول پیدا ہونا ، موجودہ ہندستانی سماج کی ذہن سازی کا آئینہ دار ہے۔ یہ اور بات ہے کہ اس ذہن سازی میں سنگھ پریوار کا اہم کردار رہا ہے۔ کیونکہ گذشتہ دو دہائیوں کی مدت میں سنگھ پریوار اور ان کی ذیلی تنظیموں کے تقریباً بیس ہزار تعلیمی ادارے قائم ہوئے ہیں جن میں ساورکر اور ہیڈ گیور کے افکارو نظریات کی تبلیغ و اشاعت ہو رہی ہے۔جہاں تک ملک کی سا  لمیت کا سوال ہے تو اس کے لئے ملک میں امن و امان کا ماحول قائم رکھنا لازمی ہے اور اس کی ذمہ داری حکومت وقت پر ہوتی ہے، خواہ وہ حکومت کسی بھی سیاسی جماعت کی ہو۔ چونکہ ہمارا ملک جمہوری ہے اس لئے مرکز یا ریاستوں میں حکومت کی قیادت میں تبدیلی لازمی ہے۔ یہ اور بات ہے کہ ہندستان میں برسوں تک مرکز میں ایک خاص سیاسی جماعت کی حکومت رہی ہے اور مختلف ریاستوں میں بھی کسی ایک سیاسی جماعت کا دبدبہ رہا ہے۔ جس کی وجہ سے فکری طور پر سماجی جمود کا ماحول بھی قائم ہوا ہے۔ نتیجتاً آج جب کسی خاص نظرئے کی وکالت کرنے والی حکومت قائم ہوئی ہے تو اس نظرئے کے مبلغین کا حوصلہ بڑھنا ایک فطری عمل ہے۔یہی وجہ ہے کہ سیاسی گلیاروں سے لے کر اکیڈمک پلیٹ فارم تک ایک خاص نظرئے کی تبلیغ کی جارہی ہے۔ مثلاً حال ہی میں ملک کی بڑی یونیوسٹی،  دہلی یونیورسٹی میں اکھل بھارتیہ ودیارتھی پریشد کے ارکان نے بابری مسجد کے مسئلے پر ایک مذاکرہ رکھا تھا۔ ظاہر ہے کہ یہ ملک کا ایک حساس مسئلہ ہے اور وہ عدالت عظمیٰ کے زیر سماعت ہے۔ اس کے باوجود حکمراں جماعت کے ایک متنازعہ لیڈر سبرمنیم سوامی نے اس مذاکرے کی نہ صرف حمایت کی بلکہ اس میں شریک ہو کر غیر جمہوری بیان بازی بھی کی۔ اس سے قبل بھی حکمراں سیاسی جماعت بھاجپا کے کئی ممبران پارلیامنٹ نے مذہبی اور سیاسی متنازعہ بیانات دیتے رہے ہیں۔جس کی اجازت ہمارا آئین کبھی نہیں دیتا۔ کیونکہ ہمارے آئین میں اظہار آزادی تو ہے لیکن وہ آزادی مشروط ہے کہ کسی کے بیان سے دوسرے کی دل آزاری نہ ہو۔مگر سچائی یہ ہے کہ جب سے مرکز میں مودی حکومت قائم ہوئی ہے اسی دن سے غیر آئینی بیان بازیوں کا سیلاب امڈ آیا ہے۔ نتیجہ ہے کہ ہمارا سماجی تانا بانا بھی بکھر رہا ہے۔اتر پردیش کے کئی گائوں میں جو فرقہ وارانہ فسادات ہوئے ہیں اس کے پس پردہ ان ہی لیڈروں کی اشتعال انگیز بیان بازی رہی ہے اور محمد اخلاق کا بہیمانہ قتل تو ہماری جمہوریت پر بد نما داغ ثابت ہوا ہے، کیونکہ ہمارے یہاں مذہب یا نسل کی بنیاد پر کسی کو نشانہ نہیں بنایا جاسکتا۔مگر آج ملک میں جو ماحول پیدا ہوا ہے وہ اس حقیقت کو عیاں کر رہا ہے کہ کہیں مذہب کے نام پر تو کہیں ذات و نسل کے نام پر تفریق کی جارہی ہے۔ حیدر آباد کی یونیورسٹی میں روہت ویمولا کی خود کشی بھی آج کے ماحول کا ثمرہ ہے۔ اگر اس کے ساتھ طبقاتی تعصب نہیں برتا جاتا تو شاید وہ خود کشی کرنے پر مجبور نہیں ہوتا۔گذشتہ ایک دو دہائی سے ملک میں مسلمانوں کو مبینہ دہشت گردی کے الزام میں جس طرح سلاخوں کے پیچھے بھیجا جارہا ہے، کیا وہ ایک جمہوری ملک میں ایک اقلیت کے ساتھ برتا جانے والا رویہ ہے؟ دس پندرہ سالوں کے بعد ہماری عدلیہ دہشت گردی کے الزام میں گرفتار ہوئے نوجوانوں کو بے قصور ٹھہرا کر باعزت بری تو کر رہی ہے لیکن جس ایجنسی نے یعنی ریاستی پولس یا مرکزی پولس کی مختلف ایجنسیوں مثلاً این آئی اے، اے ٹی ایس وغیرہ کے اُن ارکان کو اس بات کے لئے کوئی سزا دی بھی دی جارہی ہے کہ جس نے ان معصوم مسلم نوجوانوں کو گرفتار کرکے مبینہ دہشت گردی کے الزام میں سلاخوں کے پیچھے بھیجا تھا۔ اگر کسی ایک معاملے میں بھی فرضی انکائونٹر یا پھر فرضی گرفتاری کرنے والے پولس عملے کے خلاف سزا سنائی جاتی تو شاید ملک میں مسلمانوں کے خلاف جو ماحول بنا ہے وہ نہیں ہوتا۔ مگر افسوس صد افسوس کہ اب اتک ایسا نہیں ہو سکا۔ یہی وجہ ہے کہ کبھی سیمی کے نام پر تو کبھی لشکر طیبہ کے نام پر اور اب آئی ایس آئی ایس کے نام پر مسلمانوں کی گرفتاریاں ہو رہی ہیں۔در اصل اس ملک میں ایک سوچی سمجھی اسکیم کے تحت اقلیت طبقے بالخصوص مسلمانوںکو طرح طرح کے مسائل میں الجھائے رکھنا مقصود ہے۔کبھی فرقہ وارانہ فساد، کبھی اہانت رسولؐ، کبھی بابری مسجد، کبھی گائے کشی، تو کبھی دہشت گردی اور اب علی گڑھ مسلم یونیورسٹی و جامعہ ملیہ اسلامیہ کے اقلیتی کردار کا مسئلہ۔غرض کہ مسلمانوں کو مسلسل مسائل سے دوچار رکھنا ہے تاکہ وہ اپنی پسماندگی کو دور کرنے کی کوشش نہ کرسکیں۔یہی وجہ ہے کہ آزادی کے ۶۸ برسوں کے بعد بھی اس ملک کی ایک بڑی اقلیت پسماندگی کی شکار ہے اور اذیت ناک زندگی جی رہی ہے۔


    مختصر یہ کہ ان دنوں جو عدم تحمل و عدم رواداری کاماحول پیدا کیا جارہا ہے وہ مذکورہ سازش کا ہی ایک حصہ ہے۔تاریخ گواہ ہے کہ غلام ہندستان میں انگریزی حکومت کے ذریعہ بھی اسی طرح کے مذہبی اور سماجی منافرت پھیلائی جاتی تھی مگر اس وقت ہمارے ملک کی قائدین بابائے قوم مہاتما گاندی، مولانا ابوالکلام آزاد ، پنڈت جواہر لعل نہرو، سبھاش چندر بوس،  راجندر پرساد، محمد علی جوہر، حسرت موہانی اور ڈاکٹر انصاری جیسے علم بردار انسانیت موجود تھے اور ان سب کا ایک واحد مقصد ملک کو آزاد کرانا تھا۔ اس لئے جب کبھی انگریزوں کے ذریعہ اس طرح  کی عدم رواداری اور فرقہ وارانہ فضا تیار کی جانے لگی تو تمام رہنمائوں نے متحد ہوکر اس کا مقابلہ کیا اور اپنی تہذیبی و تمدنی شناخت کو برقرار رکھا اور دنیا کو یہ پیغام دیا کہ ہمارا ملک ہندستان گہوارۂ امن و آشتی ہے ۔ یہاں بابائے قوم مہاتما گاندی کی مشہور زمانہ کتاب ’’ہند سوراج‘‘ کا یہ اقتباس پیش کرنا چاہتا ہوں جس میں انہوں نے کہا تھا ’’ہزاروں سال سے ہندستانی لوگ مذہبی تحمل اپناتے رہے ہیں۔ لوگ ایک دوسرے کے اعتقاد اور مذہب کو احترام سے دیکھتے آرہے ہیں۔ انگریزوں کے ذریعہ ہندو مسلم تفریق کی بیج بونے سے قبل ملک میں کئی فرقے اور مذہب کے لوگ امن اور چین سے رہتے تھے‘‘۔ بابائے قوم مہاتما گاندھی نے یہ بات ۱۱۰ سال قبل کہی تھی۔ پھر انہوں نے ۱۹۳۷ء میں اپنے ترجمان ’’ ہریجن‘‘ میں ایک مضمون بعنوان ’’تحمل کی ضرورت‘‘ لکھا تھا اور اس میں یہ واضح کیا تھا کہ ’’ میں نے یہ کبھی نہیں کہا کہ میں قرآن یا دنیا کے کسی بھی مذہبی کتاب کے ہر لفظ پر پورا پورا یقین کرتا ہوں لیکن دوسرے مذاہب کی مذہبی کتابوں کی تنقید کرنا یا اس میں خامیاں نکالنا میرا کام نہیں ہے۔ان میں جو اچھائیاں ہیں انہیں قبول کرنا یا ان پر عمل کرنا میں اپنی خوش قسمتی سمجھتا ہوں‘‘۔ حال ہی میں نامور مورخ و دانشور رام چندر گہا  نے اپنے ایک مضمون میں مہاتما گاندھی کے اس قول کی روشنی میں ملک کے حالیہ ماحول پر تبصرہ کیا ہے ۔ ظاہر ہے کہ ملک کے حالات حاضرہ سے نہ صرف مسلمان دہشت میں ہیں اور فکر مند ہیں بلکہ ملک کی اکثریت بھی اس طرح کے ماحول کو ملک کی سا  لمیت کے لئے مضر تصور کرتے ہیں۔ اسی لئے دانشوروں کی ایک بڑی تعداد نے سرکاری انعامات واپس کر احتجاج بھی کیا ہے۔باوجود اس کے موجودہ حکومت اس مسئلے پر سنجیدگی سے غورو فکر کرنے کے بجائے اس طرح کے لیڈروں کی حوصلہ افزائی کر رہی ہے جو ملک میں عدم تحمل و رواداری کا ماحول پیدا کر رہے ہیں۔ آج جب ہم یوم جمہوریہ کا جشن منا رہے ہیں یعنی اپنے آئین کے نفاذ کا جشن منا رہے ہیں تو ہمیں اپنے آئین کے اخلاقی اسباق بھی یاد رکھنے چاہئے اور اس کے تقاضوں کو پورا کرنے کا عہد بھی لینا چاہئے۔کیونکہ جمہوری تقاضوں کی اندیکھی اور آئین کے تقاضوں کی خلاف ورزی سے ہی ملک میں عدم رواداری  و عدم تحمل کا ماحول پیدا ہوا ہے۔


٭٭٭

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 528