donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Present Situation -->> Hindustan
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Ashraf Asthanvi
Title :
   Bharat Nepal Ka Saqafti Rishta


بھارت نیپال کا ثقافتی رشتہ


 تحریر : اشرف استھانوی


    ہمارا ہمسایہ ملک نیپال ایسا ملک ہے جس کی نہ صرف جغرافیائی سرحد بھارت سے ملتی ہے بلکہ اس کی تہذیبی اور ثقافتی میراث بھی بہت حد تک ہندستان سے مماثل ہے۔ اس باہمی اختلاط کے باوجود نیپال کے حالات کے بارے میں یہاں کے لوگ کم جانتے ہیں۔ تہذیبی، ثقافتی زندگی کے بارے میں لوگ تقریباً لاعلم ہیں۔ بھارت کی کئی ریاستیں ایسی ہیں اور جس کے خطے ایسے ہیں جن کی سرحدیں نیپال سے ملتی ہیں۔ روزانہ ایک دوسرے ملک میں آمد و رفت لوگوں کا معمول بھی ہے۔ بعض علاقے ایسے بھی ہیں جہاں ایک دن ہاٹ بازار بھارت کی سرزمین پر لگتے ہیں تو دوسرے روز نیپال میں۔ روزمرہ کی بنیادی ضرورت کی تکمیل کے لیے دو طرفہ انحصار معمولاتِ زندگی بن گیا ہے۔ خرید و فروخت، لین دین کا باہمی رشتہ تبادلۂ اشیاء کے ساتھ بول چال، لب و لہجہ اور تہذیب و ثقافت کو بڑے گہرے طور پر متاثر کر رہا ہے، جو کئی اعتبار سے دعوتِ غور و فکر دیتا ہے۔ 

    میرے خیال میں ان عناصر میں سب سے زیادہ ترجیحی پہلو زبان و بیان کا ہے، جسے نہ معلوم کتنے افراد ایک دوسرے کی سرحدوں کو عبور کرتے ہوئے بغیر کسی شعوری کوشش کے استعمال کر رہے ہیں۔ ویسے تو نیپال کی سرکاری زبان نیپالی ہے لیکن یہاں ہندی، بھوجپوری، اردو، میتھلی زبان بھی بولی جاتی ہے، جس سے ہمارے اور ان کے رابطے کی زبان میں بہت حد تک مماثلت اور ہم ا ٓہنگی ہے۔ 

    نیپال کا شمار دنیا کے قدیم ترین ملکوں میں ہوتا ہے۔ اپنے حسین مناظر اور کوہستانی سلسلے کے اعتبار سے یہ فطرت کی تخلیق کا ایک شاہکار ہے۔ اس ملک کی عجیب و غریب قدرتی بناوٹ کی طرح اس کے نام کے متعلق مختلف روایت ملتی ہیں۔ لیکن سب سے معتبر نام نے+پال ہے۔ سنسکرت اور ہندی میں اس کی وضاحت یوں کی گئی ہے۔ نے کا مطلب دور اندیش، اچھی حکمت عملی، عاقل، انصاف پسند۔ پال محافظ اور سرپرست کو کہتے ہیں۔ اس طرح ایک ایسا شخص جو دور ا ندیش، عاقل اور اچھی حکمت عملی والا ہو، انصاف پسند ہووہ اس ملک کا حکمراں ہوگا۔  جنوبی ا یشیاء میں ہمالہ کے دامن میں واقع ایک چھوٹا سا آزاد اور خود مختار ملک ہے جو بھارت، سکم، چین اور تبت کی سرحدوں سے متصل ہے۔ اس کا دارالسلطنت کاٹھمنڈو ہے۔ یہاں اکثریت ہندو مذہب کی ہے لیکن اب یہ ملک سیکولر ملک بن گیا ہے اور ملک کا نیا آئین بھی تیار ہو گیا ہے۔ یہاں سب سے زیادہ دشوارکن ناہموار کوہستانی سلسلے ہیں۔ اس ملک کا ۷۵ فیصد حصہ پہاڑوں اور ۲۵ فیصد حصہ جنگلوں سے گھرا ہوا ہے۔ یہاں تیرے درّے ہیں۔ پہاڑی سلسلوں کی وجہ سے برابر زلزلہ بھی آتارہتا ہے۔ چین اور بھارت کے درمیان واقع ہونے کے باعث اس کی سیاسی اور سرحدی حیثیت غیرمعمولی ہے۔ 

    نیپال کی تاریخ اور تہذیب و تمدن کی طرح اس کی جغرافیائی ساخت بھی بہت دلچسپ ہے۔ ایک طرف دنیا کی سب سے بلند و بالا چوٹیاں ہیں تو دوسری طرف انتہائی گہری وادیاں، بیشمار ایسی ترائیاں بھی ہیں جو پوری طرح مسطح ہیں۔ کوہِ ہمالہ کی سربفلک برفیلی چوٹیوں کا سلسلہ ہے جس کی بلندیاں ۱۶ ہزار فٹ سے ۲۹ ہزار فٹ تک ہیں۔ دنیا کی ۱۳ بلند ترین چوٹیوں میں ۵ یعنی ایوریسٹ، کنچن جنگا، مکالو، دھولا گڑھی اور اَنپورنا ان سلسلوں میں شامل ہیں۔ یہ غیر ا ٓباد اور مکمل طور پر برف سے ڈھکی رہتی ہیں۔ یہاں کی اہم ندیوں میں باگمتی، کوسی، وِشنومتی، تبتی، کرنالی اور گنڈک وغیر قابل ذکر ہیں۔ پہاڑی اور اونچے حصے کو چھوڑ کر نشیبی اور ترائی علاقوں میں ان ندیوں سے پیدا شدہ سیلاب ہر سال ایک اہم مسئلے کی شکل میں سامنے آتا ہے، جس سے زبردست جانی و مالی نقصانات ہوتے ہیں۔ اس کا پانی بھارت بالخصوص بہار میں داخل ہو کر ریاست کو سیلابی صورتحال سے دوچار کرتا ہے۔ ملک کی دارالسلطنت کاٹھمنڈو میں مشہور پشوپتی ناتھ مندر کے علاوہ ڈھائی ہزار مندر اور کئی اہم مذہبی اور تاریخی مقامات ہیں۔ نیپال کو مندر نگری بھی کہا جاتا ہے۔ یہاں ثقافت و فنکاری کے مختلف نمونے دیکھے جا سکتے ہیں۔ مجسمہ سازی کے علاوہ مندروں اور مسجدوں کی مجموعی طور پر منگولی، تبتی اور آریائی طرز کے فن تعمیر کا مشاہدہ کیا جا سکتا ہے۔ قدیم مندروں میں خصوصیت کے ساتھ بودھ اور چینی اثرات نمایاں ہیں۔ نیپال کی صنعت کاری میں بھارت کا اہم کردار رہا ہے اور اس نے اس پڑوسی ملک کی ہر طرح سے مدد کی ہے۔ سیاحت اس ملک کی معیشت کی ریڑھ کی ہڈی کی طرح ہے۔ ویسے بیرگنج میں چینی فیکٹریاں ہیں، جنک پور میں سگریٹ کا کارخانہ، ہتوڑا میں آرا ملیں ا ور کپڑے کے کارخانے تو ترائی علاقے میں تیل اور چاول کی مِلیں ہیں۔ غیرملکی منڈی ہونے کے سبب غیرملکی سامانوں کی تجارت سے روزانہ کثیر تعداد میں زرِ مبادلہ حاصل ہوتا ہے۔ 

    بھارت اور نیپال کے روابط صدیوں پر محیط ہیں۔ بھارت نے نیپال کی ہر موقعے پر محسن ہونے کی حیثیت سے ہمیشہ سرپرستی کی ہے۔ بودھ دھرم کے بانی گوتم بدھ کی جائے پیدائش تو نیپال ہے لیکن بھارت کے صوبہ بہار کے گیا میں انھیں نِروان پراپت ہوا اور انھیں مہاتما بنا دیا۔ قدیم ہندوستان نے جب پٹنہ یونیورسٹی میٹرک امتحان کا انعقاد کرتی تھی تو پورے نیپالیوں کو میٹرک کی سرٹی فیکٹ پٹنہ یونیورسٹی سے ملا کرتی تھی۔ فی الوقت نیپالی پارلیامنٹ کے ۷۰ فیصد ارکان کی اعلیٰ تعلیم بھارت میں ہی ہوئی ہے۔ نیپال کے لوگ امن پسند، مہمان نواز اور بے حد وفادار ہوتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ صدیوں سے ہندوستانی ملیٹری میں گورکھا رجمنٹ لاکھوں کی تعداد میں بحال ہیں، جو بے روزگاری کے خاتمہ میں اہم کردار ادا کر رہے ہیں۔ نیپالی زبان کا رسم الخط دیوناگری ہے جو ہندی اور نیپالی دونوں زبانوں کو ایک دوسرے کی تہذیب و ثقافت اور تمدنی طور طریقوں کو یکسانیت عطا کرتا ہے۔

    بھارت کی طرح نیپال میں بھی لوک کتھائوں اور لوک گیتوں کی مضبوط و مستحکم روایت ملتی ہے۔ لوک گیت جذبات و احساسات کے اظہار کا اہم ذریعہ ہیں۔ شعری ادب میں سِلو گیت، مٹری گیت، مٹری چور گیت، چڑیا گیت وغیرہ وہاں کے بڑے بڑے پنڈتوں اور اچاریوں نے لکھے اور گائے تھے، جو آج بھی مقبول ہیں۔ ۳ کروڑ کی آبادی والے اس ملک میں بھارت کی طرح ہولی، دسہرہ، دیوالی اور چھٹھ منائے جاتے ہیں۔ کھان پان، پوشاک اور طرز رہائش بھی نیپالیوں کا ہندوستانیوں جیسا ہی ہے۔ نیپال کے صفِ اوّل کے شاعرو ںمیں لکشمی ستندن، جگت کیسری کے علاوہ راجائوں مہاراجائوں میں پرتاپ مل، بھارتیندو، رنجیت مل، جے پرکاش مل اور راجندر بکرم شاہ نے بھی لوک گیت اور ڈرامہ لکھ کر نیپالی ادب میں نت نئے گل بوٹے کھلائے ہیں اور اس کو پروان چڑھائے ہیں۔ ہندو اکثریت ملک ہونے کے باعث نیپال میں مختلف دیوی دیوتائوں کی پوجا اور پرب تہوار کے انعقاد پر لوک گیتوں کا بطور خاص اہتمام کیا جاتا ہے۔ اہم شخصیتوں کی ولادت اور رحلت کے موقع سے لے کر شاہی گھرانوں سے متعلق افراد اور حکمرانوں کی سال گرہ و تاج پوشی اور ان کے غیرملکی دوروں نیز قومی تہواروں، میلوں، کھیلوں اور دیگر تقریبات میں لوک گیت گائے جاتے ہیں۔ ان گیتوں میں قدرت کی رنگارنگ کیفیتوں کے ردّعمل میں انسانی دلوں میں اُمڈتے ہوئے جذبات کے طوفان نظر آتے ہیں۔ ان لوک گیتوں میں نیپال زبان کے علاوہ ہندی، اردو، بھوجپوری زبانوں کی کثرت ہوتی ہے۔ یوں تو نیپالی لوک گیتوں کے سیکڑوں قسمیں بتائی جاتی ہیں۔ لیکن سب سے زیادہ پسندیدہ ہو گیت ہیں جو عشق و محبت کی کیفیت سے سرشار ، شادی بیاہ میں دلہن کے بنائو سنگار کے موقعے پر لڑکیاں گاتی ہیں۔ ایک پَتی پہلی بار جب اپنی پَتنی کا چہرہ دیکھنے کے بعد جس طرح اپنے جذبات کا اظہار کرتا ہے اس کی مثال نیپال کے ایک شاعر نے اس طرح دیا ہے :

کتنا خوشنما معلوم ہوتا ہے نیپال چاندنی راتوں میں
گویا وہ تمام دنیا کے اوپر خود ایک آسمان ہے

    جس طرح بھارت میں نظیر اکبرآبادی نے اپنی نظموں سے اردو کو گلی کوچوں، بازاروں، میلوں ٹھیلوں ا ور دوسرے عوامی مقامات تک پہنچا دیاہے ، اسی طرح نیپالی لوک گیتوں کے ذریعہ ہندی، بھوجپوری اور اردو الفاظ نیپالی عوام کی اکثریت کے درمیا ن پہنچ رہی ہے اور وہ انھیں جانے انجانے استعمال کر کے اس کے فروغ میں معاون ہو رہے ہیں۔ اس وقت نیپال میں لوک گیت ہندی، بھوجپوری اور اردو شناسی کا ایک اہم اور مؤثر ذریعہ ہے۔

اشرف استھانوی

 فقیرباڑہ، بانکی پور، پٹنہ -۴

***************************

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 662