donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Present Situation -->> Hindustan
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Abdul Aziz
Title :
   Wazeer Azam Ki Biwi Jasodha Bain Ka Mutalba Haq


وزیر اعظم مودی کی بیوی جسودھا بین کا مطالبۂ حق 
 
عبدالعزیز 
 
وزیر اعظم نریندر مودی اور ان کی پارٹی تین طلاق کے تعلق سے اسلام اور مسلمانوں کو بدنام کرنے اور اپنی سیاسی دکان چمکانے کیلئے اپنی تقریروں اور بیانات میں اکثر و بیشتر یہ کہتے ہیں کہ مسلم عورتوں کو حق دلانا ہے۔ اتر پردیش کے الیکشن میں مودی جی منہ پھاڑ پھاڑ کر کہتے تھے کہ مسلمان عورتوں پر بڑا ظلم ہورہا ہے۔ مسلمان اپنی بیویوں کو ٹیلیفون، خط اور ایس ایم ایس کے ذریعہ جب چاہا تین طلاق دیدیتے ہیں۔ یہ ظلم ختم ہونا چاہئے۔ سپریم کورٹ کے فیصلہ سے مودی جی اور ان کی پارٹی بہت خوش ہے اور فیصلہ کو تاریخی فیصلہ بتا رہی ہے۔ اب انھیں اپنے گھر کی طرف رجوع کرنا چاہئے کہ ان کے سماج میں کیا ہورہا ہے۔ 
 
بہت دنوں سے نریندر مودی کی بیوی اپنے حق کا مطالبہ کر رہی ہیں کہ انھیں ان کے شوہر نامدار نے ان کا حق نہیں دیا۔ ان کو ان کا حق ہر حال میں ملنا چاہئے۔ جسودھا بین کی شادی نریندر مودی کے ساتھ 1968ء میں ہوئی تھی۔ اس وقت مودی جی کی عمر 18 سال تھی جبکہ جسودھا بین کی عمر 16سال تھی۔ گجرات کے ایک چھوٹے سے شہر وید نگر میں یہ شادی روایتی انداز میں ہوئی تھی۔ کہا جاتا ہے کہ میاں بیوی اپنے گھر میں شادی کے بعد صرف ایک ہفتہ رہے۔ اس کے بعد مودی جی نے کسی وجہ سے اپنی بیوی کو اس کے ماں باپ کے گھر بھیج دیا اور آج تک وہ اپنے ماں باپ کے گھر میں اپنے بھائیوں کے ساتھ رہ رہی ہے۔ ماں باپ کے گھر جانے کے بعد اس نے اپنی پڑھائی جاری رکھی اور پڑھنے لکھنے کے بعد اسکول میں ملازمت کرلی۔ اس وقت وہ ریٹائر ہوگئی ہے اور اسے 15ہزار روپئے ماہانہ بطور پنشن ملتا ہے جس پر وہ گزارہ کرتی ہے۔ 
 
مودی جی نے 2014ء تک لوگوں سے اس حقیقت کو چھپائے رکھا کہ ان کی شادی ہوئی ہے یا نہیں؟ وہ اپنے الیکشن کے فارم میں شادی شدہ یا غیر شادی شدہ (Married or not married) کے خانہ کو پُر نہیں کرتے تھے مگر 2014ء میں ان کو خوف ہوا کہ کہیں ان کے انتخابی درخواست کو بیوی کے نام کو پوشیدہ رکھنے سے رد نہ کر دیا جائے، اس لئے انھیں احتیاطاً اپنی بیوی کا نام لکھنا پڑا اور شادی یا غیر شادی کے خانہ کو خالی نہیں رکھا بلکہ پُر کیا جس کی وجہ سے دنیا کو معلوم ہوا کہ نریندر مودی کنوارے نہیں ہیں، شادی شدہ ہیں۔ 
 
اس وقت ان کی بیوی کو اپنے کھوئے ہوئے شوہر کی تلاش ہے جو ملک کا وزیر اعظم ہے۔ بیوی کو یہ امید تھی کہ وزیر اعظم ہونے کے بعد مودی جی اپنی وزارتِ عظمیٰ کی تقریب حلف وفاداری کے موقع پر بلائیں گے اور ان کیلئے خاص طور پر گجرات سے دہلی لانے کا انتظام کریں گے مگر جسودھا بین کی امید بر نہیں آئی۔ بیوی انتظار کرتے کرتے جب تھک گئی ، اس کی انتظار کی گھڑیاں ختم ہوگئیں تو سرکاری محکمہ میں RTI کے تحت درخواست پیش کی ہے کہ اسے بتایا جائے کہ وزیر اعظم کی بیوی کو پروٹوکول کے طور پر کیا حق ملنا چاہئے۔ 
 
سرکاری محکمہ میں اگر ایسی درخواست دی جاتی ہے تو 15دنوں میں متعلقہ محکمہ کو جواب دینا پڑتا ہے۔کئی مہینے گزر جانے کے باوجود سرکاری محکمہ جواب دینے سے قاصر ہے۔ 
معاملہ یہ ہے کہ مودی جی اور ان کے رفقاء کار جو مسلمان عورتوں کو حق دلانا چاہتے تھے وہ تو سپریم کورٹ نے تین طلاق کے قانون کو غیر قانونی قرار دے کر دلادیا۔ اب جسودھا بین کا حق آخر کون دلائے گا؟ ضرورت ہے کہ دلت، مسلمان اور ملک کی سیول سوسائٹی خاص طور پر خواتین کی انجمنوں کو چاہئے کہ آگے آئیں اور وزیر اعظم کی بیوی جو اپنے حق سے محروم ہے اسے حق دلائیں۔ 
فروری 2015ء میں عیسائی مشنریوں کی طرف سے ایک کانفرنس منعقد کی گئی جس میں جسودھا بین کو شرکت کی دعوت دی گئی تاکہ وہ عیسائی مذہب کو قبول کرلیں۔ جسودھا بین نے عیسائی مذہب قبول کرنے سے انکار کردیا۔ 
 
جون 2015ء میں بھارتیہ جنتا پارٹی کے حامیوں نے ایک کانفرنس کا انعقاد کیا۔ جسودھا بین اس کانفرنس میں شرکت کرنے والی تھیں لیکن وہ نہیں جاسکیں کیونکہ امیت شاہ نے اس کانفرنس کو ہونے نہیں دیا۔ 
نومبر 2015ء میں جسودھا بین نے اپنے پاسپورٹ کیلئے درخواست دی تھی مگر وہ اپنی شادی کی سرٹیفیکٹ یا اپنے شوہر کی طرف سے حلف نامہ پیش نہیں کرسکیں جس کی وجہ سے ان کی درخواست رد کردی گئی۔ وہ پاسپورٹ کے ذریعہ باہر جانا چاہتی تھیں تاکہ بیرونی ممالک میں اپنے رشتہ داروں سے ملاقات کرسکیں۔ 
 
جون 2014ء میں جسودھا بین نے گوپی ناتھ منڈے کی آخری رسومات میں شرکت کیلئے ممبئی سفر کیا تھا۔ یہ ان کی کسی عوامی تقریب میں پہلی شرکت تھی۔ 
 
جسودھا بین کو اپنے شوہر سے بچھڑے ہوئے پچاس سال ہوگئے پھر بھی اس نے اپنے شوہر کا انتظار کیا۔ دوسری شادی نہیں کی اس کی وجہ سے ہندو دھرم میں ایسی قربانی کو بڑی عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ ایسی عورت کا ہندو دھرم کی عظیم عورتوں میں شمار ہوتا ہے۔ گوتم بدھ کی بیوی، تلسی داس کی بیوی رتنا والی جیسی عظیم خواتین میں جسودھا بین کا شمار کیا جاتا ہے۔ 
 
آسام کے سابق وزیر اعلیٰ ترون گگوئی نے ایک بیان میں کہا ہے کہ جسودھا بین کو ’نوبل پرائز‘ سے نوازا جانا چاہئے کیونکہ انھوں نے بہت بڑی قربانی پیش کی ہے۔ یہ حقیقت میں نریندر مودی پر بالواسطہ حملہ ہے اور یہ بتانا مقصود ہے کہ اپنی عورت کو چھوڑ دینا یا مجبور محض بنا دینا انسانیت پر ظلم ہے۔ 
بی جے پی کے ساکشی مہاراج نے ایک بیان میں کہا ہے کہ جسودھا بین نے مودی جی کی کامیابی کیلئے بہت بڑی قربانی دی ہے جس کی سراہنا ہونی چاہئے۔ گروداس کامت نے کہا ہے کہ مودی جی نے اپنی بیوی کو چھوڑ کر یا علاحدہ رکھ کر اس پر ظلم کیا ہے جو ناقابل معافی ہے۔
 
پاکستان کے اخبار ’ڈان نیوز‘ کے ایک مضمون نگار نے اپنے مضمون میں لکھا ہے کہ جسودھا بین کا مسئلہ ایک پرائیوٹ یا میاں بیوی کا مسئلہ نہیں ہے بلکہ ایک قانونی اور عوامی مسئلہ ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ اب اس قانونی اور عوامی مسئلہ کو خواتین کی کون سی جماعت تسلسل کے ساتھ اٹھاتی ہے اور ایک عورت کو جو کسی بڑے منصب پر فائز شخص کی بیوی ہونے کے باوجود اپنے جائز حقوق سے محروم ہے، اسے حق دلاتی ہے۔ 
 
موبائل: 9831439068
azizabdul03@gmail.com 

******************

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 440