donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Articles on Women -->> For Women
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Syeda Humaira Habib
Title :
   Islah Muashra Me Khwateen Ka Kirdar

اصلاح معاشرہ میں خواتین کا کردار


سیدہ حمیرا حسیب


معاشرہ کی اصلاح میں عورت ایک نمایاں کردار ادا کرسکتی ہے، یعنی عورت اگر نیک بن کر رہے گی ، خدا اور اس کے رسول ﷺ کی اطاعت اور فرماں برداری کرے گی، اور اس کے احکامات کے مطابق زندگی گزارے گی تو اس کے ذریعہ سے ایک نیک اور صالح معاشرہ وجود میں آسکتا ہے، اس کے برعکس وہی عورت اگر باری تعالیٰ اور اس کے حبیب ﷺ کے احکامات سے منہ موڑ کر زندگی گزارے گی اور مغربی تہذیب و تمدن کی دلدادہ ہوگی اس کا لباس غیر شرعی ہوگا تو وہی عورت پورے معاشرہ کے بگاڑ کا سبب بن سکتی ہے، کسی نے کیا خوب کہا ہے کہ اگر ایک عورت سنور جائے تو پورا خاندان سنوار دیتی ہے اور اگر عورت بگڑ جائے تو پورے خاندان کے بگاڑ اور اس کی تباہی کا ذریعہ بن جاتی ہے۔ جو عورت نیک بن کر شرعی احکام کے مطابق زندگی گزارے گی تو وہ دنیا میں تو محبوب ہوگی ہی، آخرت میں بھی اس کو اعزاز و اکرام سے نوازا جائے گا، اچھی عورت کی محبوبیت کا اندازہ ہم حدیث مبارکہ کے ان خوبصورت الفاظ سے لگا سکتے ہیں، ارشاد نبویﷺ ہے الدنیا کلھا متاع و خیر متاع الدنیا المراۃ الصالحۃ (مشکوٰۃ شریف)یہ دنیا خداوند کریم کی عطا کی ہوئی ایک نعمت ہے اور اس کا سب سے بہترین تحفہ نیک عورت ہے، اس کے علاوہ اور بھی متعدد احادیث پاک میں نیک عورت کی صفات کو واضح کیا گیا ہے جس سے نیک عورت کی خدواند کریم کے یہاں عزت و توقیر کا ہمیں پتہ چلتا ہے، اس لئے ہمیں رب ذوالجلال کا شکر ادا کرنا چاہئے کہ اس نے اپنے احکام شرعیہ کو اپنانے پر عورت کو کتنا اعلیٰ وارفع درجہ دیا ہے کیوں کہ ہم اس بات سے بخوبی واقف ہیں کہ مذہب اسلام سے قبل اس دنیا میں عورت کی کوئی اہمیت نہ تھی بلکہ اس کو سب سے کمتر اور گری ہوئی شئی سمجھا جاتا تھا اس کے ساتھ جانوروں سے بھی بد تر سلوک کیا جاتا تھا اور اس کو گروی رکھا جاتا تھا، اس کی خرید و فروخت کی جاتی تھی، لیکن جیسے ہی مذہب اسلام آیا اس نے سب سے پہلے عورت کو ایک اعلیٰ اور معزز مقام دیا اور اس کے ساتھ حسن سلوک کرنے پر جنت الفردوس کی بشارت سنائی، غرض کی مذہب اسلام کے اس عظیم احسان کے عوض ہم لوگوں کو ہمیشہ اس کا مطیع اور فرماں بردار بن کر رہنا چاہئے تھا، خدا تعالیٰ اور اس کے رسول ﷺ کے حکموں کے مطابق زندگی گزارنی چاہئے مگر افسوس ہم نے اس کے احسانات کا بدلہ کچھ اس انداز میں چکایا کہ اپنے کو پورے طریقہ سے مغربی تہذیب و تمدن کے حوالے کردیا اور دشمنان اسلام، یہود و نصاری کی طرز پر اپنی زندگی کو ڈھال لیا، ہمارا پہناوا یہود و نصاری کے طریقے پر حتی کہ ہمارا کھانا پینا تک یہود و نصاری کے طریقے پر ہوگیا، کوئی اچانک دیکھ کر یہ نہیں پہچان سکتا کہ یہ مسلمان عورت ہے یا غیر مسلم ہمارے لئے یہ کس قدر شرم کا مقام ہے! ہمیں اس بات کا ذرا بھی احساس بھی نہیں کہ ہمارے اس فعل سے محبوب خدا ﷺ کو کتنی تکلیف پہنچتی ہوگی اور یہ بات واضح ہے کہ آپ ﷺکی تکلیف اللہ رب العزت کی ناراضگی کا سبب ہوتی ہے۔ ذرا سوچئے کیا ہم اپنے پرودرگار کو ناراض کرکے خوش رہ سکتے ہیں؟ ہر گز نہیں یہ اللہ رب العزت کی ناراضگی کی وجہ سے کہ ہر طرف سے مسلمانوں پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے جارہے ہیں اور کوئی اس کے خلاف آواز اٹھانے والا نہیں ہے، کیونکہ مسلمانوں میں اب وہ جذبہ اور دین و ایمان کی پختگی مفقود ہوچکی ہے جو پہلے صحابہ کرامؓ اور صحابیات میں ہوتی تھی کہ صرف ایک مسلمان ہی ہزار دشمنوں کیلئے کافی ہوتا تھا مگر افسوس آج ایک دشمن ہی ہزاروں مسلمانوں کو پچھاڑ دیتا ہے تو ذرا سوچئے کہ ایسا کیوں ہے؟ ایسا صرف اس لئے کہ کیوں کہ ہماری ماؤں نے اب ہمیں دین اسلام کا سبق دینا چھوڑ دیا اور اپنی اولاد کی پرورش دینی طرز پر کرنے کے بجائے مغربی تہذیب کے مطابق کرنے لگیں،اب عام طور پر ہمارے گھروں میں کیا ہوتا ہے اسے کلمہ اور دعا سکھانے کے بجائے اور اس کو اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے احکامات پر چلانے کے بجائے سب سے پہلے اس کا کنوینٹ اسکول میں داخلہ کرادیا جاتا ہے۔ کنوینٹ اسکولوں میں عام طور پر ہوتا کیا ہے کہ صبح جاتے ہی بچہ سے سب پہلے کئی غیر مذہبی کام کرائے جاتے ہیں جس کی وجہ سے بچہ آہستہ آہستہ اس کا عادی ہوجاتا ہے کیونکہ گھر آکر والدین تو اس کو کچھ مذہبی اور دینی یا اسلامی بات بتاتے نہیں ہیں، والدین تو بس صرف اس بات پر خوش رہتے ہیں کہ ہمارا بچہ کنوینٹ اسکول میں پڑھ رہا ہے اب ان کو اس بات کی کوئی فکر نہیں ہوتی ہے کہ ان کے بچہ کا دین و ایمان باقی ہے  یا وہ صرف نام کا مسلمان رہ گیا ہے، والدین کی اس لاپروائی کا لازمی نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ وہ غیر مذہبی طرز پر پرورش پاکر بڑا ہوتا ہے تو ظاہر سی بات ہے جب اس کو بچپن ہی سے دین اسلام سے کوئی رغبت نہ تھی تو بڑے ہوکر بھی اس کو اپنے مذہب سے کوئی محبت اور لگاؤ باقی نہیں رہتا ہے، یہی وجہ ہے کہ آج ہمارا ایمان اتنا کمزور ہوچکا ہے کہ چند روپیوں کے عوض بآسانی فروخت کردیا جاتا ہے والدین کی اس عظیم کو تاہی کی وجہ سے معاشرے میں ایک بگاڑ پیدا ہوچکا ہے۔ جس کی وجہ سے قیامت میں والدین کی زبردست پکڑ ہوگی، اور والدین میں بھی بنسبت باپ کے ماں کی پکڑ زیادہ سخت ہوگی کیونکہ ماں کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنی اولاد کو دینی طرز پر پروان چڑھائے کیوں کہ جیسی تربیت ماں کرے گی ویسا ہی بچہ پروان چڑھے گا، ماں دینی تربیت کرتی ہے تو بچہ ایک سچا اور پکا مومن بن کر تیار ہوگا اور اگر اس کے بر خلاف کرتی ہے تو وہ ایک بے دین اور اجڈ انسان تیار ہوگا، نہایت افسوس کی بات ہے کہ آج ہماری ماؤں نے ہماری تربیت میں کوتاہی کی ہوگی، اسی کا نتیجہ ہے کہ ہمارے اندر سے دین و ایمان کی رمق بالکل ختم ہوچکی ہے ہمارے سامنے پیارے حبیب ﷺ کی شان میں گستاخی پر گستاخی کی جرأت کی جارہی ہے اور ہم خاموش تماشائی بنے دیکھتے رہتے ہیں ہماری مقدس کتاب قرآن کریم کی بے حرمتی کی جاتی ہے مگر ہمارے کانوں پر جوں تک نہیں رینگتی ، ہماری عزتوں کو پامال کیا جارہا ہے مگر ہم بے حسی کی روش پر قائم ہیں آخر ہماری اس غفلت کی کیا وجہ ہے؟ ہماری اس غفلت، بے حسی کی وجہ ہماری ناقص تربیت ہی ہے اگر ہماری تربیت دین اسلام کے موافق ہوتی تو آج ہم مذہب اسلام کی بے حرمتی پر تڑپ اٹھتے ، اگر ہمیں اپنے مذہب سے ذرابھی لگاؤ ہوتا تو ہم یہ حق تلفی ہرگز برداشت نہیں کرپاتے، آخر پہلے بھی تو عورتیں ہوتی تھیں جو اپنی اولاد کی پرورش اس طریقے سے کرتی تھیں کہ ان کی گود میں پروان چڑھ کر کوئی مفسر بنتا تھا کوئی محدث اور فقیہ کے خطاب سے نوازا جاتا تھا اور کچھ ماؤں کے سپوتوں نے پورے عالم اسلام میںایک عظیم انقلاب برپا کردیا، کاش ہم میں بھی ایسی مائیں پیدا ہوجائیں جن کی تربیت ازدواج مطہرات اور صحابیات جیسی ہو جو بچپن ہی سے اپنی اولادکے دل و دماغ میں دین اسلام کی محبت ایسی کوٹ کوٹ کر بھردیں کہ وہ اولاد اپنے مذہب پر آنچ بھی نہ آنے دے اور ایسی اولاد کو پروان چڑھائیں جو شیطان کے ایجنٹوں کے منہ پر سیاہی پھیر دے، آج بھی یہ روتی بلکی ہوئی انسانیت ایسی صالح حیا دار اور نیک ماؤں کو پکار رہی ہے اگر آج بھی ہماری مائیں جاگ جائیں اور غفلت کی پٹی ذہنوں سے اتار پھینکیں اور اپنی غلطی پر پشیماں ہوں تو ایک مرتبہ وہی دور پھر واپس آسکتا ہے جب پورے عالم پر مسلمانوں کی حکومت ہوا کرتی تھی اور دشمن مسلمان کا نام سنتے ہی کانپ اٹھتا تھا اور ایسا کرنا بہت آسان ہے۔ تمام خواتین کو چاہئے کہ وہ سب سے پہلے اپنے اندر دین و ایمان کی محبت پیدا کریں اپنے گھر کے ماحول کو دینی بنائیں۔


**********************

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 1687